ڈیوڈ ہیڈلے کے انکشافات

اوبامہ نے اپنے جنوبی ایشیا کا دورہ شروع کیا تو ممبئی اس کا پہلا پڑاؤ تھا اور وہاں پہنچتے ہی اس کا بھارت کے ساتھ اپنائیت کا پہلا اظہار ہی یہ تھا کہ بھارت اور امریکہ دہشت گردی کے خلاف ایک ہیں اور اپنے شہریوں کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں لیکن غالبا ً انہیں یاد نہ رہا کہ دنیا کا ہر ملک اپنے شہریوں کی حفاظت کا ذمہ دار ہے جس میں پاکستان بھی شامل ہے جس کے شہریوں کا قتلِ عام کیا جا رہا ہے۔ اوبامہ کا دورہ شروع ہونے سے صرف ایک دن پہلے درہ آدم خیل کی مسجد میں خدا کے حضور نمازِ جمعہ میں سربسجدہ پچانوے سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا اور ذمہ داری طالبان سے قبول کروالی گئی۔ کوئی مسلمان یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ کسی مسلمان کو حالتِ نماز میں خدا کے گھر میں قتل کیا جائے ۔ لیکن پاکستان میں ایسا کیا جارہا ہے۔ طالبان اگر مسلمان ہیں یا اُن کی باگ ڈور مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے تو وہ جتنے بھی بُرے ہوجائیں، شقی القلب ہوجائیں ایسا نہیں کریں گے۔ پھر وہ طالبان کون ہیں جو ہر واقعے کی ذمہ داری قبول کر لیتے ہیں۔ طالبان کو تو اختلاف لا دینیت سے ہے۔ مساجد تو دین کا مرکز ہیں پھر کیوں یہ جائے امن اُن کا پسندیدہ نشانہ بنے ہوئے ہیں؟ کیا وہ مسلمان ہیں؟ کیا امریکہ نے کبھی ان لوگوں کے بارے میں اتنی تفتیش اور تشویش کا اظہار کیا جتنا اوبامہ نے ممبئی حملوں کی دہشت و وحشت کا ابھی تک ذہن میں ثبت ہونے کا اظہار کیا؟ اسی محبت کا اظہار امریکہ بھارت کے ساتھ کرتا رہتا ہے جسے وہ اپنا اتحادی کہتا ہے۔ پاکستان سے وہ صرف اسٹریٹیجک فائدہ اٹھاتا ہے اور خود اسے نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ یہی سازش اس نے اپنے ہی ایک شہری ڈیوڈ ہیڈلے کو پکڑ کر کی اس سے ایسی ایسی سازشوں کو پاکستان کے نام کروایا جو ہر زاویے سے خود سی آئی اے اور را کا ایجنٹ معلوم ہوتا ہے جو پیدائشی امریکی باشندہ ہے۔ اگرچہ اس کے والد پاکستانی تھے اور اس کی ماں سے علیحدگی کے بعد اسے پاکستان لے آئے تھے جہاں اس نے سکول کی تعلیم مکمل کی لیکن پھر اسے اس کی ماں امریکہ لے گئی اور شعور کی زندگی اس نے امریکہ میں ہی گزاری۔ اس کی سرگرمیاں شروع ہی سے کچھ صحت مندانہ نہ تھیں۔ ایک بار وہ امریکہ میں دو کلو ہیروئین کی سمگلنگ کے الزام میں پکڑا گیا اور صرف پندرہ ماہ کے بعد رہا کر دیا گیا اور پانچ سال تک زیرِ نگرانی رہا۔ کیا امریکہ کے قانون کے مطابق اس جرم کی سزا اس سے کہیں زیادہ نہیں بلکہ یہ سزا پچاس سالہ قید بھی ہو سکتی ہے تو ڈیوڈ ہیڈلے کے ساتھ آخر یہ نرمی کیوں برتی گئی؟ اس کی کوئی خاص وجہ تو ہوگی۔

ڈیوڈ ہیڈلے اگست 2005میں اپنی بیوی سے لڑائی کے الزام میں گرفتار ہوا۔ رپورٹس کے مطابق اس کی بیویوں نے 2005اور 2007میں یو ایس ڈائریکٹر آف انٹیلی جنس کو اس کی مشکوک سرگرمیوں کے بارے میں آگاہ کیا۔ جو شخص پہلے بھی مشکوک سرگرمیوں میں ملوث رہا کیوں نہ پہلے ہی دن اس پر نظر رکھی گئی۔ اب اس کے بارے میں جو کچھ کہا جارہا ہے ۔ تو جب اس نے اپنا مسلمان نام بدل کر عیسائی نام رکھا جبکہ بظاہر مذہب نہ بدلا تو کیوں نہ اس کی وجہ معلوم کی گئی یا کم از کم اس پر نظر رکھی گئی ۔ اب اس کے بھارت کے دوروں کو بنیاد بنا کر اس کے ممبئی حملوں میں ملوّث ہونے کا ثبوت پیش کیا جا رہا ہے تو 2006، 2007اور 2008میں اس کے دوروں کی وجہ کیوں نہ معلوم کی گئی۔ اگر اس کے دورے آئی ایس آئی نے کرائے تو وہ سی آئی اے کے ملک میں رہ رہا تھا۔ سی آئی اے نے ایک سزا یافتہ مجرم پر نظر کیوں نہ رکھی۔ ڈیوڈ ہیڈلے کی زبان سے جو انکشافات کروائے گئے وہ سی آئی اے کے افسروں کی موجودگی میں ان کی جیل میں کروائے گئے، جس کی صحت کیلئے سی آئی اے ہی کی گواہی ہرگز کافی نہیں۔ اس سے منسوب بیانات کے مطابق آئی ایس آئی کے اوپر لشکرِ طیبہ کو فعال کرنے کیلئے دباؤ تھا اور پاکستان کا دہشت گردی کو بھارت منتقل کرنے کا منصوبہ بھی تھا۔ ڈیوڈ ہیڈلے کے مطابق دہلی میں نیشنل ڈیفنس کالج پر حملے کا منصوبہ بھی تھا جو خود کش نہ ہونا تھا۔ اب اگر اتنے سارے منصوبوں میں وہ شامل رہا تو آخر ایک عام ایجنٹ کی مہارت پورے سی آئی اے سے زیادہ کیسے ہو گئی کہ وہ سب کی آنکھوں میں دھول جھونکتا رہا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ممبئی حملوں پر افسوس زدہ اوبامہ کے ملک کی ایجنسی خود ہی ڈیوڈ ہیڈلے کو استعمال کرتی رہی؟

ویبسٹر ٹارپلے جو ایک صحافی ،اور مصنّف ہیں اور مختلف جگہوں پر لیکچر دیتے ہیں کہ مطابق ڈیوڈ ہیڈلے سی آئی اے کیلئے ہی کام کر رہا تھا یعنی منصوبہ بندی میں وہ شامل رہا لیکن آئی ایس آئی کی طرف سے نہیں بلکہ سی آئی اے کی طرف سے۔ اس کے را سے تعلق کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جارہا۔ کیونکہ اس کے بھارت میں اچھے خاصے تعلقات تھے اس کے تعلق داروں میں مہیش بھٹ کے بیٹے راہول بھٹ سمیت کئی دیگر با اثر لوگ بھی شامل تھے۔ لیکن ان سارے حقائق کے باوجود استعمال اس کو پاکستان کے خلاف کیا جارہا ہے اور اس کا یہ کہنا ہے کہ اسے آئی ایس آئی نے استعمال کیا ہے اور اس سلسلے میں اس نے آئی ایس آئی کے چند افسران کے نام بھی لئے ہیں۔ جبکہ دراصل اس طرح کی تمام سازشیں سی آئی اے اور را خود تیار کرتے ہیں کیونکہ بھارت کے خلاف پاکستان کا نام لینا انتہائی آسان ہے۔ اس کیس میں تو بھارت کی طرف سے بھی کچھ اعتراضات سامنے آئے کہ امریکہ ڈیوڈ ہیڈلے کو اس کے حوالے کیوں نہیں کرتا۔ معاملہ یہاں یوں ہے کہ امریکہ کو اپنا بھانڈا پھوٹنے کا ڈر ہے اور بھارت کو بھی معلوم ہے کہ اس شخص کے بھارت میں کافی مراسم تھے اس لئے وہ بھی پورا زور نہیں لگا رہا صرف اعتراض تک محدود ہے۔ جبکہ ابھی تک صرف الزامات کے علاوہ پاکستان کے اُوپر کچھ بھی ثابت نہیں کیا جا سکا۔ بقول ہیڈلے وہ بھارت جا کر مختلف مقامات کا جائزہ لیتا رہا۔ اگر اس نے بھا بھا اٹامک ریسرچ سینٹر تک رسائی حاصل کر لی تھی تو اس کے بھارت میں مراسم کی طاقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ امریکہ میں باوجود سزا یافتہ ہونے کے کھلے عام نقل و حرکت کرتا رہا اور یہ سب کچھ یہی ثابت کرتا رہا ہے کہ ڈیوڈ ہیڈلے سی آئی اے کا باقاعدہ ایجنٹ تھا اور پاکستان سے اس کا تعلق زبردستی جوڑا جا رہا ہے۔ جبکہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے بارے میں اگر دنیا سوچے تو اس کو ان دہشت گردوں اور ان کے لیڈروں میں سی آئی اے اور را کے بے شمار کارندے ملیں گے جنہوں نے ایک پُر امن ملک کے امن کو تباہ و برباد کیا اور اس کے باشندوں کے جان و مال کو انتہائی ارزاں سمجھ لیا گیا ہے۔

لیکن ایک بار پھر میں یہی کہوں گی کہ یہ ممالک تو اپنے مفاد میں لگے ہوئے ہیں ان کیلئے ایک ایٹمی پاکستان کسی بھی طرح موزوں نہیں لیکن ہم کیا کر رہے ہیں ؟ ہماری حکومت کو اپنے رویّے میں کچھ سختی پیدا کر ہی لینی چاہیئے اور امریکہ کو احساس دلانا چاہیئے کہ پاکستان بھی ایک مضبوط ایٹمی ملک ہے۔ اس کے لوگوں کے اعصاب سے مزید کھیلنا خطرناک ہوگا اور حکومت وہ تمام ثبوت بھی پیش کرے جو را سی آئی اے اور افغانستان کے بارے میں اس کے پاس موجود ہیں اور جس کیلئے اکثر حکومت کہتی ہے کہ مناسب وقت پر پیش کرے گی۔ وقت یہی مناسب ہے ۔ اوبامہ ایشیائ کے دورے پر ہے بھارت سے مکمل ہم آہنگی کا اظہار ہو رہا ہے اور اوبامہ بمعہ اپنی بیگم کے بھارت کی دلجوئی کیلئے ممبئی کے سکول کے بچوں کے ساتھ رقص کے جوہر دکھا رہا ہے اور بھارت ممبئی حملوں کا کارڈ مسلسل استعمال کر رہا ہے۔ ڈیوڈ ہیڈلے کو خواہ مخواہ کی اہمیت دے رہا ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ اسے سی آئی اے اور را نے استعمال کیا ہے لیکن پھر بھی اسے پاکستان کے سر تھوپ رہا ہے تو کیوں نہ وہ ثبوت اب پیش کر دیئے جائیں جو بلوچستان اور فاٹا سے اکٹھے کیئے گئے ہیں اور مضبوط لہجے میں اپنے خلاف تمام الزامات کی تردید کر دی جائے۔ امریکہ سے یہ کہا جائے کہ وہ علاقے سے اپنی بساط لپیٹ دے بلکہ اسے ایسا کرنے پر مجبور کر دیا جائے ۔کیونکہ پاکستان ایسا کرنے کی پوزیشن میں ہے۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 507260 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.