جنت کی زندگی (حصہ پنجم) اہل جنت کی محفلیں اور گفتگو

•اہل جنت کی محفلیں اور باہم گفتگو
جنت کی معاشرتی زندگی کی نعمتوں میں ایک نعمت یہ بھی ہو گي کہ وہاں اپنے جنتی احباب سے ملاقاتیں اور محفلیں ہوں گي۔غورفرمائیے کہ اللہ الْحَيُّ الْقَيُّومُ یعنی زندہ اور قائم رہنے والی مبارک ہستی ہے اور اس کی محبت و اطاعت کی بنا پرجو تعلق قائم ہوتا ہے وہ اس دنیا میں بھی مضبوط ترین تعلق ہے اور آخرت میں بھی قائم رہے گا بلکہ حدیث مبارکہ میں تو یہ فرمایا گيا ہے کہ آدمی انہی کے ساتھ اٹھایا جائے گا جن سے وہ محبت کرتا تھا۔ اور قرآن حکیم قیامت کے ہولناک مناظر کے بیان میں اہل ایمان کے رشتے کے بارے میں یہ فرماتا ہے کہ الْأَخِلَّاء يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ "اس روز متقین کوچھوڑ کر باقی سب دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے۔" جبکہ کافر کہے گا کہ يَا وَيْلَتَى لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا "ہائے میری بربادی، کاش میں نے اس شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا" اور پھر یہ جہنمی جہنم میں یہ آپس میں جھگڑیں گے وَهُمْ فِيهَا يَخْتَصِمُونَ اور کہیں گے رَبَّنَا مَن قَدَّمَ لَنَا هَذَا فَزِدْهُ عَذَابًا ضِعْفًا فِي النَّارِ "اے ہمارے رب، جس نے ہمیں اس انجام کو پہنچانے کا بندوبست کیا اُس کو دوزخ کا دوہرا عذاب دے۔" اور پچھتائیں گے کہ يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا "کاش ہم نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی ہوتی۔"

اب ایک طرف جہاں اہل جہنم مبتلائے عذاب ہوں گے،ایک دوسرے پر لعن طعن کر رہے ہوں گے وَيَلْعَنُ بَعْضُكُم بَعْضًا ، آپس میں جھگڑ رہے ہوں گے إِنَّ ذَلِكَ لَحَقٌّ تَخَاصُمُ أَهْلِ النَّارِ (بے شک یہ بات سچ ہے، اہلِ دوزخ میں یہی کچھ جھگڑے ہونے والے ہیں)،حسرتوں، ندامتوں اور پچھتاوے سے يَا لَيْتَنَا، يَا لَيْتَنَى کاش ،کاش ، کاش کہہ رہے ہوں گے وہیں دوسری طرف یہ نقشہ ہوگا کہ اہل جنت اونچی مسندوں ، سجے ہوئے مرصع تختوں اور نفیس فرشوں پر تکیے لگائے بیٹھے جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے، باہم ملاقاتیں و بات چیت کر رہے ہوں گے اور دنیا کے دنوں کو یاد کرتے ہوں گے۔چلیے یہ سارےمناظر بھی قرآن کے آئینے میں دیکھ لیتے ہیں۔

چلیے آغاز جنت کے وارثوں کی نشست گاہوں سے کرتے ہیں:

•اہل جنت کی نشست گاہیں
سورة الغاشية ( 88 )
فِيهَا سُرُرٌ مَّرْفُوعَةٌ {13} وَأَكْوَابٌ مَّوْضُوعَةٌ {14} وَنَمَارِقُ مَصْفُوفَةٌ {15} وَزَرَابِيُّ مَبْثُوثَةٌ {16}
اُس کے اندر اونچی مسندیں ہوں گي، ساغر رکھے ہوئے ہوں گے، گاؤ تکیوں کی قطاریں لگی ہوں گی اور نفیس فرش بچھے ہوئےہوں گے۔

سورة المطففين ( 83 )
إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ {22} عَلَى الْأَرَائِكِ يَنظُرُونَ {23} تَعْرِفُ فِي وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِيمِ {24}
بے شک نیک لوگ بڑے مزے میں ہوں گے، اونچی مسندوں پر بیٹھے نظارے کر رہے ہوں گے، ان کے چہروں پر تم خوشحالی کی رونق محسوس کرو گے۔

سورة الرحمن ( 55 )
مُتَّكِئِينَ عَلَى فُرُشٍ بَطَائِنُهَا مِنْ إِسْتَبْرَقٍ وَجَنَى الْجَنَّتَيْنِ دَانٍ {54}
جنتی لوگ ایسے فرشتوں پر تکیے لگا کے بیٹھیں گے جن کے استردبیز ریشم کے ہوں گے ، اور باغوں کی ڈالیاں پھلوں سے جھکی پڑ رہی ہوں گی ۔

سورة الرحمن ( 55 )
مُتَّكِئِينَ عَلَى رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَعَبْقَرِيٍّ حِسَانٍ {76}
وہ جنتی سبز قالینوں اور نفیس و نادر فرشوں پر تکیے لگا کے بیٹھیں گے۔

سورة الواقعة ( 56 )
عَلَى سُرُرٍ مَّوْضُونَةٍ {15} مُتَّكِئِينَ عَلَيْهَا مُتَقَابِلِينَ {16}
مرصع تختوں پر تکیے لگا ئے آمنے سامنے بیٹھیں گے ۔

سورة الواقعة ( 56 )
وَفُرُشٍ مَّرْفُوعَةٍ {34}
اونچی نشست گاہوں میں ہوں گے ۔

سورة الطور ( 52 )
مُتَّكِئِينَ عَلَى سُرُرٍ مَّصْفُوفَةٍ وَزَوَّجْنَاهُم بِحُورٍ عِينٍ {20}
وہ آمنے سامنے بچھے ہوئے تختوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے

سورة ص ( 38 )
مُتَّكِئِينَ فِيهَا يَدْعُونَ فِيهَا بِفَاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ وَشَرَابٍ {51}
ان میں وہ تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے، خوب خوب فواکہ اور مشروبات طلب کر رہے ہوں گے۔

سورة الطور ( 52 )
يَتَنَازَعُونَ فِيهَا كَأْسًا لَّا لَغْوٌ فِيهَا وَلَا تَأْثِيمٌ {23}
وہ ایک دوسرے سے جام شراب لپک لپک کر لے رہے ہوں گے جس میں نہ یا وہ گوئی ہوگی نہ بد کرداری۔

•اہل جنت کے خدمتگار لڑکے
جہاں قرآن حکیم میں جنتیوں کے اس باہم مل بیٹھنے کا اور گفتگو کا ذکر ہے وہیں ان کے خدمتگاروں کا تذکرہ بھی ہے جوخوبصورت لڑکے ہوں گے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے اورایسے حسین ہوں گے جیسے بکھرے ہوئے موتی ہوں:

سورة الواقعة ( 56 )
عَلَى سُرُرٍ مَّوْضُونَةٍ {15} مُتَّكِئِينَ عَلَيْهَا مُتَقَابِلِينَ {16} يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُونَ {17} بِأَكْوَابٍ وَأَبَارِيقَ وَكَأْسٍ مِّن مَّعِينٍ {18} لَا يُصَدَّعُونَ عَنْهَا وَلَا يُنزِفُونَ {19}
مرصع تختوں پر تکیے لگا ئے آمنے سامنے بیٹھیں گے ۔ اُن کی مجلسوں میں اَبدی لڑکے شرابِِ چشمۂ جاری سے لبریز پیا لے اور کنڑ اور ساغر لیے دوڑ تے پھرتے ہونگے جسے پی کر نہ اُن کا سر چکرائے گا نہ اُن کی عقل میں فتور آئے گا۔

سورة الإنسان ( 76 )
وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُونَ إِذَا رَأَيْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَّنثُورًا {19}
ان کی خدمت میں ایسے لڑکے دوڑتے پھر رہے ہوں گے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے۔ تم انہیں دیکھو تو سمجھو کہ موتی ہیں جو بکھیر دیے گئے ہیں۔

سورة الطور ( 52 )
وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ غِلْمَانٌ لَّهُمْ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُونٌ {24}
اور ان کی خدمت میں وہ لڑکے دوڑتے پھر رہے ہوں گے جو انہی(کی خدمت) کے لیےمخصوص ہوں گے ، ایسے خوبصورت جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی۔

قرآن حکیم میں اکثر مقامات پرجہاں جنتیوں کی ایسی محفلوں کا ذکر کیا گیا جن میں وہ اپنے اہل ایمان دوست احباب سے ملاقاتیں کریں گے تو وہاں ان خدمتگار لڑکوں کا ذکر بھی کیا گیا۔معلوم ہوا کہ وہاں خدمت کے لیے ہر جنتی کے خدمتگار لڑکےہوں گے جو اسی(کی خدمت) کے لیےمخصوص ہوں گے جیسا کہ دنیا میں بادشاہوں کے خدمتگار ہوتے ہیں۔ یہ خدمتگار اس کی خدمت اس کے محلوں اور قیام گاہوں میں بھی کریں گےاورجب اس کے مہمان آئیں گے تو ان کی ملاقات اور خدمت کے لیے جومحفلیں ہوں گي ان میں بھی وہی لڑکے اس کے مہمانوں کی خدمت کریں گے۔گویا شاہی محفلوں میں شاہی مہمانوں کی خدمت کے لیے شاہی خدمتگار۔ایک بات اور ان آیات سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ جنت میں غیر محرم مردوں اور عورتوں کی مخلوط محفلیں نہیں ہوں گي۔کیونکہ قرآن میں جہاں بھی اہل جنت کی اپنے دوست احباب سے ملاقات و گفتگو کا ذکر آیا ہے وہاں خدمتگاروں کے طور پر ان لڑکوں کا تذکرہ کیا گیا۔جنت سلامتی کا گھر ہے اور فطرت سلیم کی ہر خواہش وہاں پوری کی جائے گی۔ بیویاں اور حوریں جس جنتی کے نکاح میں دی جائیں گی وہ صرف اسی کے لیے مخصوص ہوں گي اور وہ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ یعنی نگاہیں بچانے والیاں ہوں گي۔ فطرت اگر اپنی اصل پر قائم ہو تو کوئی مردکبھی یہ نہیں چاہتا کہ اس کی بیوی غیر محرم لوگوں کےسامنے جائے اور عورت کی حیا کی فطرت اگر باقی ہو تو وہ کبھی یہ پسند نہیں کرتی کہ غیر نظریں اسے دیکھیں۔فطرت کی اس مانگ کے مطابق نہ تو ان کے خاوند یہ چاہیں گے اور نہ ہی ان کی اپنی خواہش یہ ہو گی کہ کسی ایسی محفل میں جائيں جہاں ایسے لوگ موجود ہوں جو دنیا میں ان کے غیر محرم رہے ہوں۔جنت اسلام کا معاشرہ ہے جہاں سلامتی ہی سلامتی ہے اور کسی فتنے کا کوئی اندیشہ نہیں اسی لیےوہاں جنتیوں کی محفلیں مخلوط نہیں ہوں گی بلکہ گناہوں سے پاک جنتیوں کے پاکیزہ مہمانوں کی خدمت بھی یہ پاکیزہ لڑکے کریں گے جن کا اوپر ذکر آیا۔(واللہ اعلم بالصواب)

•اہل جنت کی محفلیں اور باہم گفتگو
اب ذرا اہل جنت کی ان گفتگوؤں پر ایک نظر ڈالیے جو وہ اپنی ملاقاتوں میں کریں گے۔ہمارے سامنے قرآن یہ منظر پیش کرتا ہے کہ جہاں اہل جنت ایک طرف نفرت و کدورت سے پاک،بھائي بھائی بنے، اعلی ترین نشت گاہوں اور سجائےگئےتختوں پربیٹھ کر مختلف نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہےہوں گے وہیں وہ باہم پاکیزہ بات چیت بھی کر رہے ہوں گے، دنیا کی آزمائش کےدنوں کو یاد کرتے ہوں گے اور عظیم الشان جنت عطا کیے جانے پر اللہ کی حمد و ثنا کر رہے ہوں گے۔آیت ملاحظہ ہوں:

سورة الحجر ( 15 )
وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَى سُرُرٍ مُّتَقَابِلِينَ {47}
اُن کے دلوں میں جو تھوڑی بہت کھوٹ کپٹ ہو گی اسے ہم نکال دیں گے، وہ آپس میں بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے تختوں پر بیٹھیں گے۔

سورة الواقعة ( 56 )
لَا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا وَلَا تَأْثِيمًا {25} إِلَّا قِيلًا سَلَامًا سَلَامًا {26}
وہاں وہ کوئی بیہودہ کلام یا گناہ کی بات نہ سنیں گے جو بات بھی ہو گی ٹھیک ٹھیک ہو گی ۔

سورة الطور ( 52 )
وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءلُونَ {25} قَالُوا إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنَا مُشْفِقِينَ {26} فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ {27} إِنَّا كُنَّا مِن قَبْلُ نَدْعُوهُ إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ {28}
یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے (دنیا میں گزرے ہوئے ) حالات پوچھیں گے۔ یہ کہیں گے کہ ہم پہلے اپنے گھر والوں میں ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرتے تھے ، آخر کار اللہ نے ہم پر فضل فرمایا اور ہمیں جھلسا دینے والی ہوا کے عذاب سے بچا لیا ۔ ہم پچھلی زندگی میں اُسی سے دعائیں مانگتے تھے، وہ واقعی بڑا ہی محسن اور رحیم ہے۔

سورة يونس ( 10 )
دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلاَمٌ وَآخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ {10}
وہاں ان کی صدا یہ ہو گی کہ “پاک ہے تو اے خدا“، اُن کی دعا یہ ہو گی کہ “سلامتی ہو"اور ان کی ہر بات کا خاتمہ اس پر ہو گا کہ “ساری تعریف اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے ۔"

چونکہ جنتیوں کی ملاقاتوں اور محفلوں کا تذکرہ چل رہا ہے اس لیے اس موقع پر مناسب ہوگا کہ وہ احادیث بھی پڑھ لی جائیں جن میں جنت کے بازاروں کا ذکر ہے:

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسولﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جنت میں ایک بازار ہے جس میں جنتی لوگ ہر جمعہ کو آیا کریں گے، پھر شمالی ہوا چلا ئی جائے گي جو کہ وہاں کا گرد و غبار (جو کہ مشک و زعفران کی صورت میں ہوگا)جنتیوں کے چہروں اور کپڑوں پر اڑا کر ڈال دے گي جس سے جنتیوں کےحسن و جمال میں اور اضافہ ہو جائے گا،پھر جب وہ اس حالت میں واپس اپنے گھروالوں کے پاس آئيں گےکہ ان کا حسن و جمال زیادہ بڑھ چکا ہو گاتو ان کے اہل خانہ ان سے کہیں گے کہ ہمارے پاس سے جانے کے بعد تو تم اور بھی زیادہ حسین و جمیل ہو گئے ہو تو وہ جواب میں کہیں گے کہ خداکی قسم ہمارے جانے کے بعد تمہارے حسن و جمال میں بھی تو اور اضافہ ہوگیا ہے۔(صحیح مسلم)

اسی مضمون کی ایک طویل حدیث ابن ماجہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جس میں اللہ تعالی کی زیارت اور ملاقات کا ذکر ہے۔اورپھر یہ ذکر ہے کہ اس ملاقات کے بعد ایک بادل ان جنتیوں کو ڈھانپ لے گا اور ان پر ایسی خوشبو برسائے گا جس کی مہک پہلے کبھی نہ پائی گئي ہو گي۔پھر یہ جنتی اس بازار میں سےبغیر خرید و فرو‍ خت کےایسی چیزیں لیں گے جو نہ پہلے دیکھی گئي ہوں گی، نہ سنی گئی ہوں گي اور نہ ہی کسی دل میں ان کا خیال گزرا ہوگا۔اس بازار میں اہل جنت ایک دوسرے سے ملیں گے۔پھر واپس آئیں گے تو ان کی بیویاں ان سے کہیں گي کہ تمہارا حسن وجمال اور خوشبو پہلے سے کہیں زیادہ ہو گئی ہے ، وہ جوابا کہیں گے کہ ہمیں ایسا ہی ہونا چاہیے کیونکہ ہم اپنے پروردگار سے مل کر آرہے ہیں۔

اللہ سے دعا کیجیے کہ اللہ ہمیں بھی جنت کی یہ محفلیں نصیب فرمائے اور انبیاء، صدیقین ، شہداء اور صالحین کے ساتھ جنت کے ان بازاروں میں جمع فرمائے۔

•اہل جنت کی اہل جہنم سے گفتگو
دنیا میں جاہل اور گمراہ لوگ اہل ایمان کا مذاق ضرور ہی اڑاتے ہیں حتی کہ انسانیت کے چنے ہوئے بہترین لوگوں اور عزت و شرف انسانی کے پیکر یعنی رسولوں اور انبیاء علیہم السلام کا بھی مذاق اڑایا گیا اور ان کو بھی نشانہء تضحیک بنایا گيا۔ایک دوسرا منظر جنتیوں کی گفتگوؤں کا قرآن میں یہ بیان گیا ہے کہ وہ اہل جہنم سے بھی گفتگو کریں گے۔اور انہیں دنیا کی باتیں یاد دلائيں گے اور یہ بھی کہ کیا رب کےو عدے سچے نہیں نکلے۔

آیت ملاحظہ ہوں:

سورة الصافات ( 37 )
فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءلُونَ {50} قَالَ قَائِلٌ مِّنْهُمْ إِنِّي كَانَ لِي قَرِينٌ {51} يَقُولُ أَئِنَّكَ لَمِنْ الْمُصَدِّقِينَ {52} أَئِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَئِنَّا لَمَدِينُونَ {53} قَالَ هَلْ أَنتُم مُّطَّلِعُونَ {54} فَاطَّلَعَ فَرَآهُ فِي سَوَاء الْجَحِيمِ {55} قَالَ تَاللَّهِ إِنْ كِدتَّ لَتُرْدِينِ {56} وَلَوْلَا نِعْمَةُ رَبِّي لَكُنتُ مِنَ الْمُحْضَرِينَ {57} أَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِينَ {58} إِلَّا مَوْتَتَنَا الْأُولَى وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ {59} إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ {60} لِمِثْلِ هَذَا فَلْيَعْمَلْ الْعَامِلُونَ {61}
پھر وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر حالات پوچھیں گے۔ اُن میں سے ایک کہے گا،“دنیا میں میرا ایک ہم نشین تھا جو مجھ سے کہا کرتا تھا، کیا تم بھی تصدیق کرنے والوں میں سے ہو؟ کیا واقعی جب ہم مر چکے ہوں گے اور مٹی ہو جائیں گے اور ہڈیوں کا پنجر بن کر رہ جائیں گے تو ہمیں جزا و سزا دی جائے گي؟اب کیا آپ لوگ دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ صاحب اب کہاں ہیں؟" یہ کہہ کر جونہی وہ جھکے گا تو جہنم کی گہرائی میں اُس کو دیکھ لے گا اور اس سے خطاب کر کے کہے گا“خدا کی قسم، تُوتو مجھے تباہ ہی کر دینے والا تھا۔ میرے رب کا فضل شامل حال نہ ہوتا تو آج میں بھی اُن لوگوں میں سے ہوتا جو پکڑے ہوئے آئے ہیں۔ اچھا تو کیا اب ہم مرنے والے نہیں ہیں؟موت جو ہمیں آنی تھی وہ بس پہلے آ چکی؟ اب ہمیں کوئی عذاب نہیں ہونا؟"
یقیناً یہی عظیم الشان کامیابی ہے۔ ایسی ہی کامیابی کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے۔

سورة الأعراف ( 7 )
وَنَادَى أَصْحَابُ الْجَنَّةِ أَصْحَابَ النَّارِ أَن قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَلْ وَجَدتُّم مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا قَالُواْ نَعَمْ فَأَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَيْنَهُمْ أَن لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ {44} الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللّهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا وَهُم بِالآخِرَةِ كَافِرُونَ {45} وَبَيْنَهُمَا حِجَابٌ وَعَلَى الأَعْرَافِ رِجَالٌ يَعْرِفُونَ كُلاًّ بِسِيمَاهُمْ وَنَادَوْاْ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَن سَلاَمٌ عَلَيْكُمْ لَمْ يَدْخُلُوهَا وَهُمْ يَطْمَعُونَ {46} وَإِذَا صُرِفَتْ أَبْصَارُهُمْ تِلْقَاء أَصْحَابِ النَّارِ قَالُواْ رَبَّنَا لاَ تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ {47} وَنَادَى أَصْحَابُ الأَعْرَافِ رِجَالاً يَعْرِفُونَهُمْ بِسِيمَاهُمْ قَالُواْ مَا أَغْنَى عَنكُمْ جَمْعُكُمْ وَمَا كُنتُمْ تَسْتَكْبِرُونَ {48} أَهَـؤُلاء الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ لاَ يَنَالُهُمُ اللّهُ بِرَحْمَةٍ ادْخُلُواْ الْجَنَّةَ لاَ خَوْفٌ عَلَيْكُمْ وَلاَ أَنتُمْ تَحْزَنُونَ {49} وَنَادَى أَصْحَابُ النَّارِ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَنْ أَفِيضُواْ عَلَيْنَا مِنَ الْمَاء أَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّهُ قَالُواْ إِنَّ اللّهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكَافِرِينَ {50} الَّذِينَ اتَّخَذُواْ دِينَهُمْ لَهْوًا وَلَعِبًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فَالْيَوْمَ نَنسَاهُمْ كَمَا نَسُواْ لِقَاء يَوْمِهِمْ هَـذَا وَمَا كَانُواْ بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ {51}
پھر یہ جنت کے لوگ دوزخ والوں سے پکار کر کہیں گے،“ ہم نے اُن سارے وعدوں کو ٹھیک پایا جو ہمارے رب نے ہم سےکیے تھے، کیا تم نے بھی اُن وعدوں کو ٹھیک پایا جو تمہارےرب نے کیے تھے؟" وہ جواب دیں گے“ہاں"۔ تب ایک پکارنے والا ان کے درمیان پکارے گا کہ“خدا کی لعنت ان ظالموں پر جو اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکتے اور اسے ٹیڑھا کرنا چاہتے تھے اور آخرت کے منکر تھے۔"
ان دونوں گروہوں کے درمیان ایک اوٹ حائل ہو گي جس کی بلندیوں (اعراف) پر کچھ اور لوگ ہوں گے۔ یہ ہر ایک کو اس کے قیافہ سے پہچانیں گے اور جنت والوں سے پکار کر کہیں گے کہ “سلامتی ہو تم پر۔" یہ لوگ جنت میں داخل تو نہیں ہوئے مگر اس کے امیدوار ہوں گے۔ اور جب اُن کی نگاہیں دوزخ والوں کی طرف پھریں گی تو کہیں گے،“اے رب، ہمیں اِن ظالم لوگوں میں شامل نہ کیجیو۔"پھر یہ اعراف کے لوگ دوزخ کی چندبڑی بڑی شخصیتوں کو ان کی علامتوں سے پہچان کر پکاریں گے کہ“دیکھ لیا تم نے، آج نہ تمہارے جتھے تمہارے کسی کام آئے اور نہ وہ سازوسامان جن کو تم بڑی چیز سمجھتے تھے۔ اور کیا یہ اہلِ جنت وہی لوگ نہیں ہیں جن کے متعلق تم قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ اِن کو تو خدا اپنی رحمت میں سے کچھ نہ دے گا؟ آج انہی سے کہا گیا کہ داخل ہو جاؤ جنت میں ، تمہارے لیے نہ خوف ہے نہ رنج۔"
اوردوزخ کے لوگ جنت والوں کو پکاریں گے کہ کچھ تھوڑا سا پانی ہم پر ڈال دو یا جو رزق اللہ نے تمہیں دیا ہے اسی میں سے کچھ پھینک دو۔ وہ جواب دیں گے کہ “ اللہ نے یہ دونوں چیزیں اُن منکرینِ حق پر حرام کر دی ہیں جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تفریح بنا لیا تھا اور جنہیں دنیا کی زندگی نے فریب میں مبتلا کر رکھا تھا۔ اللہ فرماتا ہے کہ آج ہم بھی انہیں اسی طرح بُھلا دیں گے جس طرح وہ اِس دن کی ملاقات کو بھولے رہے اور ہماری آیتوں کا انکار کرتے رہے۔"

سورة المدّثر ( 74 )
كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ {38} إِلَّا أَصْحَابَ الْيَمِينِ {39} فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءلُونَ {40} عَنِ الْمُجْرِمِينَ {41} مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ {42} قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ {43} وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ {44} وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ {45} وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ {46} حَتَّى أَتَانَا الْيَقِينُ {47}
ہرشخص اپنے کسب کے بدلے رہن ہے، دائیں بازو والوں کے سوا، جو جنتوں میں ہوں گے۔ وہ مجرموں سے پوچھیں گے“تمہیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی؟" وہ کہیں گے“ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے، اور مسکین کوکھانا نہیں کھلاتے تھے، اور حق کے خلاف باتیں بنانے والوں کے ساتھ مل کر ہم بھی باتیں بنانے لگتے تھے، اور روزِ جزا کو جھوٹ قرار دیتے تھے، یہاں تک کہ ہمیں اُس یقینی چیز سے سابقہ پیش آ گيا۔"

دنیا میں جو"سیانے" لوگ اہل ایمان کو دیوانہ اور بے وقوف قرار دے کر ان کا تمسخراڑاتے ہیں انہیں آخرت کا یہ منظر ہرگز نہ بھولنا چاہیے جو قرآن حکیم ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔عنقریب وہ وقت آنے والا ہے کہ اہل ایمان جنت کی نعمتوں میں بیٹھےان پر ہنس رہے ہوں گے:

سورة المطففين ( 83 )
إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا كَانُواْ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ {29} وَإِذَا مَرُّواْ بِهِمْ يَتَغَامَزُونَ {30} وَإِذَا انقَلَبُواْ إِلَى أَهْلِهِمُ انقَلَبُواْ فَكِهِينَ {31} وَإِذَا رَأَوْهُمْ قَالُوا إِنَّ هَؤُلَاء لَضَالُّونَ {32} وَمَا أُرْسِلُوا عَلَيْهِمْ حَافِظِينَ {33} فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُواْ مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ {34} عَلَى الْأَرَائِكِ يَنظُرُونَ {35} هَلْ ثُوِّبَ الْكُفَّارُ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ {36}
مجرم لوگ دنیا میں ایمان لانے والوں کامذاق اُڑایا کرتے تھے۔ جب اُن کے پاس سے گزرتے تو آنکھیں مار مار کر ان کی طرف اشارے کرتے تھے،اپنے گھروالوں کی طرف پلٹتے تو مزے لیتے ہوئے پلٹتے تھے، اور جب انہیں دیکھتے تو کہتے تھے کہ یہ بہکے ہوئے لوگ ہیں، حالانکہ وہ ان پر نگران بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے۔ آج ایمان لانےوالے کفار پر ہنس رہے ہیں، مسندوں پر بیٹھے ہوئے اُن کا حال دیکھ رہے ہیں، مل گیا نا کافروں کواُن حرکتوں کا ثواب جو وہ کیا کرتے تھے؟

یہاں کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیے کہ کہاں زمین و آسمان جیسی وسعت والی جنت اور کہاں جہنم، بھلا اتنے زیادہ فاصلوں سے ایسا دیکھا جانا اور اہل جنت اور اہل جہنم کے باہم مکالمےکیونکر ممکن ہیں۔ کم از کم آج کے دور میں، جب ہم دنیا کے ایک کونے میں بیٹھ کر دوسر ے کونے میں کمپیوٹر پر آمنے سامنے گفتگو کرتے ہیں، یہ اشکال پیدا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر اللہ کے پیدا کردہ انسان اس کی دی ہوئی عقل کو استعمال کر کے ایسا ممکن بنا سکتے ہیں تو فَمَا ظَنُّكُم بِرَبِّ الْعَالَمِينَ آپ کا کیا گمان ہے رب العالمین کے بارے میں وہ جو خلاق العلیم ہے کیانہیں کر سکتا۔ ہم انسان تو پھر بھی کسی ذریعے کے محتاج ہیں لیکن اللہ کی قدرت تو کسی ایسے ذریعے کی محتاج بھی نہیں، کیا وہ اسے ممکن نہیں بنا سکتا کہ اہل جنت اپنی نشتوں پر بیٹھے بیٹھے نہ صرف اہل جہنم میں سے جس کو چاہیں دیکھ سکیں بلکہ اس سے بات بھی کر سکیں، اور اسے دنیا کی کوئي بات یاد بھی دلا سکیں۔ کیا اللہ کی قدرت سے یہ بعید ہے؟

غور فرمائیے کیا ہماری ہی آنکھیں ہزاروں، لاکھوں میل دورکے ستاروں کو نہیں دیکھتیں۔یقینا دیکھتی ہیں تو اس قوت ،فوکس اور زوم کو گھٹانا بڑھانا کیا پیدا کرنے والے پروردگار کے لیے کوئی مشکل ہوگا۔اب اگر کوئی ناں کہے اور اسے بعید ازعقل سمجھے تو یہ ہماری عقل کی اور سمجھ کی تنگي ہو سکتی ہے اللہ کی قدرت اتنی تنگ نہیں کہ ایسا کرنا اس کے لیے دشوار ہو۔

اللھم انا نسالک الجنۃونعوذبک من عذاب النار
(اے اللہ ہم تجھ سے جنت کا سوال کرتے ہیں اور آگ کے عذاب سے تیری پناہ مانگتے ہیں)

(جاری ہے)
Aurangzeb Yousaf
About the Author: Aurangzeb Yousaf Read More Articles by Aurangzeb Yousaf: 23 Articles with 45798 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.