جنت کی زندگی(حصہ چہارم) / اہل جنت کی خاندانی زندگی

•اہل جنت کی خاندانی زندگی

اس مضمون کے تیسرے حصہ میں ہم نے جنت کی معاشرتی زندگی کے بارے میں بات شروع کی تھی اور اس میں ہم نے یہ جانا تھا کہ جنت سلامتی کا گھر ہے جس کا معاشرہ انسانیت کے بہترین لوگوں کا معاشرہ ہوگا جہاں کسی کے دل میں کسی کی نفرت یا دشمنی نہ ہوگي، اہل جنت کی برائیوں کو دور کردیا جائے گا اور جنت میں کوئی بےہودہ کلام یا گناہ کی بات نہ سنی جائے گي۔انہی اعلی صفات والے لوگوں کا معاشرہ جنت کہلائے گا۔

آج ہم مضمون کے چوتھے حصے میں ہم جنت کی خاندانی زندگي کے بارےمیں قرآن و حدیث سے جاننے کی کوشش کریں گے۔اس بارے میں پہلی بات تو یہ ہے جنت میں کوئی بھی جنتی اکیلا نہیں رہے گا بھلے وہ مرد ہو یا عورت۔زندگی کے حسن کا رشتہ یعنی رشتہ ازدواج وہاں بھی ہو گا۔جنتی مرد ہوں یا عورتیں ہمیشہ جوان اور میاں بیوی کی حیثیت میں ہی رہیں گے۔

رسولﷺ نے ارشاد فرمایا"وما فی الجنۃ اعزب۔۔"
اور جنت میں کوئي بغیر جوڑے کے نہ ہوگا۔
صحیح مسلم، کتاب الجنۃ، باب 6

جنتی مردوں کی یہ بیویاں حوروں کے علاوہ ہوں گي اور چونکہ یہ دنیا کی آزمائش سے گزرکراپنے ایمان اوراعمال صالحہ کی بنا پر جنت کی مستحق ہوئی ہوں گي اس لیے ان کو حوروں پر فضیلت حاصل ہوگي یوں سمجھ لیجیے کہ جنتی بادشاہ کی ملکہ کی حیثیت انہی کو حاصل ہوگي۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ۔ وہ فرماتی ہیں کہ"میں نے رسول اللہﷺ نے پوچھا، یارسول اللہ، دنیا کی عورتیں بہتر ہیں یا حوریں؟حضورﷺ نے جواب دیا، دنیا کی عورتوں کو حوروں پر وہی فضیلت حاصل ہے جو ابرے کو استر پر ہوتی ہے۔ میں نے پوچھا کس بنا پر؟ فرمایا اس لیے کہ ان عورتوں نے نمازیں پڑھی ہیں، روزے رکھےہیں اور عبادتیں کی ہیں۔"(طبرانی)

جنتی عورتیں اپنی مرضی اور پسندکے مطابق یا تو اپنے سابق جنتی شوہروں کی زوجیت میں آئيں گی یا پھر کسی دوسرے جنتی کی زوجیت میں جبکہ فریقین یہ رفاقت پسند کریں۔قرآن حکیم ہمیں یہ بتاتا ہےکہ جنتیوں کی ہر خواہش پوری کی جائے گی اس لیے وہاں ابدی رشتہء ازدوج میں منسلک کیے جانے سے پہلے فریقین کی رضامندی، خواہش اور خوشی کو اصل اہمیت حاصل ہوگي۔احادیث مبارکہ سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو میاں بیوی دنیا میں مومن رہے ہوں اور آخرت میں جنت کے مستحق ہو جائیں تو اگر دونوں چاہیں گے تو ان کا یہ رشتہ وہاں ابدی و سرمدی ہو جائے گا اور اگر نہ چاہیں تواللہ ان کا جوڑ کسی اور جنتی سے لگا دے گا ۔ جس جوڑے میں سے کوئی ایک جنتی اور دوسرا جہنمی نکلا تو جنتی کو اس کی رضامندی سے اہل جنت میں سے کسی کےرشتہ ازدواج میں دے دیا جائے گا، اسی طرح ان مردوں اور عورتوں کے ساتھ بھی معاملہ کیا جائےگا جودنیا میں شادی سے پہلےہی مر گئے تھے۔ اس معاملے میں ایک سادہ سی بات ہمیں یہ سمجھ لینی چاہیے کہ جنت کے مستحق لوگ چاہے وہ مرد ہوں یا عورتیں اللہ کے پسندیدہ ہوں گے اور انہیں رب کی طرف سے ہر خوشی دی جائے گی اور اہل جنت کی خوشیوں کے لیے ان کے حق میں اللہ سے بہترچننے والا اور فیصلہ کرنے والا کون ہو سکتا ہے۔اللہ کامل علم والی ہستی ہے، دل و دماغ اسی کے قبضہء قدرت میں ہیں، جوجوڑا اللہ ان کے لیے چنے گا وہ ان کے لیے بہترین ہوگا اوراسی میں اللہ ان کی بھرپور خوشی، محبت اور رضامندی بھی رکھ دے گا۔
کچھ آیات ملاحظہ ہوں:

سورة الزخرف ( 43)
يَا عِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ وَلَا أَنتُمْ تَحْزَنُونَ {68} الَّذِينَ آمَنُوا بِآيَاتِنَا وَكَانُوا مُسْلِمِينَ {69} ادْخُلُوا الْجَنَّةَ أَنتُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ تُحْبَرُونَ {70} يُطَافُ عَلَيْهِم بِصِحَافٍ مِّن ذَهَبٍ وَأَكْوَابٍ وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ الْأَنفُسُ وَتَلَذُّ الْأَعْيُنُ وَأَنتُمْ فِيهَا خَالِدُونَ {71} وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ {72}
اُس روز اُن لوگوں سے جو ہماری آیات پر ایمان لائے تھے اور مطیعِ فرمان بن کر رہے تھے کہا جائےگا کہ“اے میرے بندو، آج تمہارے لیے کوئی خوف نہیں اور نہ تمہیں کوئی غم لاحق ہوگا۔ داخل ہو جاؤجنت میں تم اور تمہاری بیویاں، تمہیں خوش کردیا جائے گا۔“اُن کے آگے سونے کے تھال اور ساغر گردش کرائے جائیں گے اور ہر مَن بھاتی اور نگاہوں کو لذت دینے والی چیز وہاں موجود ہو گی۔ ان سے کہا جائے گا،“تم اب یہاں ہمیشہ رہو گے۔ تم اِس جنت کے وارث اپنے اُن اعمال کی وجہ سے ہوئے ہو جو تم دنیا میں کرتے رہے۔

سورة يس ( 36 )
إِنَّ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ الْيَوْمَ فِي شُغُلٍ فَاكِهُونَ {55} هُمْ وَأَزْوَاجُهُمْ فِي ظِلَالٍ عَلَى الْأَرَائِكِ مُتَّكِؤُونَ {56} لَهُمْ فِيهَا فَاكِهَةٌ وَلَهُم مَّا يَدَّعُونَ {57} سَلَامٌ قَوْلًا مِن رَّبٍّ رَّحِيمٍ {58}
آج جنتی لوگ مزے کرنے میں مشغول ہیں۔وہ اور ان کی بیویاں گھنے سایوں میں ہیں مسندوں پر تکیے لگائے ہوئے، ہر قسم کی لذیذ چیزیں کھانے پینے کو ان کے لیے وہاں موجود ہیں، جو کچھ وہ طلب کریں ان کے لیے حاضر ہے، ربِِ رحیم کی طرف سے ان کو سلام کہا گیا ہے۔

اب یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سوکن کو ناپسند کرنا اور اس سے نفرت کرنا تو عورت کی فطرت میں ہے توجنت میں جہاں رقابت کے لیے حوریں اور دوسری بیویاں بھی ہوں گي تو پھر جنتی بیویاں کیونکر خوش رہ سکیں گي؟ اس کا جواب ہم مضمون کے تیسرے حصے میں پڑھ آئے ہیں کہ اہل جنت کے دلوں میں نفرت و کدورت، بغض و عداوت اور حسد و رقابت کا داعیہ ختم کر دیا جائے گا اور یہ برائیاں ان سے دور کرکے انہیں پاکیزہ بنا دیا جائے گا۔دوسری بات یہ کہ ان کے دلوں میں اللہ صرف انہی کی محبت ڈالےگا جن کی زوجیت میں وہ دی جائیں گی ،وہ اپنے اپنے خاوندوں ہی کی عاشق ہوں گی اور ان کی ساری دلچسپیاں اور محبتیں انہی سے وابستہ ہوں گي۔ وہ نگاہیں بچانے والی ، شرمیلی ، ہم عمر پاکیزہ لڑکیاں ہوں گی، جنہیں اللہ رب العالمین جوان اور کنواریاں بنا دے گا بھلے وہ دنیا میں بوڑھی ہو کر مری ہوں۔وہ ایسی حسین ہوں گی جیسے چھپاکر رکھے ہوئےہیرے اور موتی، ایسی آبرو والی ہوں گی کہ جنہیں ان کے خاوندوں کے علاوہ کسی نے نہ چھوا ہو گا اور ایسی حیادار ہوں گي کہ انہیں اپنے خاوند کے علاوہ کسی سے کوئی دلچسپی نہ ہوگي۔ہم پہلے ایک حدیث پڑھ آئے ہیں جس میں یہ بیان تھا کہ ادنی ترین جنتی کو بھی زمین سے دس گنا بڑی جنت دی جائے گی اب آپ خود سوچیے کہ ایسی سلطنتوں کے وارثوں کی بیویاں کیا ان سے خوش نہ ہوں گی جب کہ وہاں انہیں کوئی تکلیف دیے جانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔بیویوں کی باہم نفرت و رقابت کا یہ تصور محض دنیا کی زندگی کے ساتھ وابستہ ہے جنت کی زندگی میں اس کا کوئی تصور نہیں بالکل اسی طرح جیسے کہ اللہ نے ہمیں ہماری ماؤں کے پیٹوں میں کئی مہینے تک منہ کے ذریعے سے نہیں بلکہ براہ راست ماں کے خون سے رزق دیا اور اسی سے ہماری بنیاد بنی لیکن دنیا میں آنے کے بعد وہ تصور ختم ہوجاتا ہےاور ہم منہ کے ذریعےکھانا پینا شروع کر دیتے ہیں۔ایسے ہی کئی ایک تصورات محض دنیا کی زندگی کے مرحلے سے وابستہ ہیں جنت کی زندگی میں ان کا کوئی وجود نہیں مثلا موت ،بیماری، بڑھاپا، تکلیف، رنج و غم، نفرت و کدورت، حسد و دشمنی، برائی و بےہودگي، گندگی ، بے ہودہ کلام وغیرہ دنیا سے وابستہ ہیں ۔جنت کی زندگی میں ان کا کوئی تصور موجود نہیں۔یہ اتنی اہم بات ہے کہ اگر یہ سمجھ میں آ جائے تو جنت کی حیات کے بارےمیں بہت سی باتیں سمجھنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔

ہاں زوجین میں مباشرت کا تصور وہاں موجود ہے کیونکہ حلال دائرے میں رہ کر مباشرت کرنا نہ ہی گناہ یا برائي ہے اور نہ ہی ناپسندیدہ ہے بلکہ فریقین کے لیے ایک نعمت اور جائز لطف ہے۔

زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺکے پاس یہودی آئے اور پوچھا "اے ابا القاسم آپ کا یہ گمان ہے کہ جنت میں لوگ کھائیں پیئیں گے اور ان کی بیویاں ہوں گی ؟ " تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا
"نعم والذي نفس محمد بيده إن أحدهم ليعطى قوة مائة رجل في الأكل والشرب والجماع "
ہاں اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے جنتی مردوں میں سے ہر ایک کو کھانے پینے اور ہم بستری کرنے میں ایک سو آدمیوں کے برابر قوت دی جائے گی۔

یہودی نے کہا "جو کھاتا پیتا ہے اسے (پیشاب پاخانے کی) حاجت ہوتی ہے اور جنت میں تو کوئی تکلیف (دہ معاملہ ) نہیں ہے "
تو رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا
"تكون حاجة أحدهم رشحا يفيض من جلودهم كرشح المسك فيضمر بطنه"
جنتی کی حاجت اس کی جلد سے بہنے والا مسک جیسا(خوشبودار) پسینہ ہو گا (جب وہ پسینہ نکلے گا ) تو اس کا پیٹ فارغ ہو جائے گا
المعجم الکبیر ، المعجم الاوسط ، صحیح ابن حبان ،حدیث ، مسند احمد ، امام الھیثمی نے مجمع الزوائد میں اسے صحیح قرار دیا ۔

جنت کی زندگی کے بارے میں قرآن حکیم جنت کی بیویوں کی وہ خصوصیات بیان کرتا ہے جو ظاہری اور باطنی حسن کا کمال ہیں:

•اہل جنت کی بیویوں کی خصوصیات
نفرتوں، کدورتوں، حسد، گندگی، بے ہودگی اورفاسد خیالات سے پاک بیویاں:

سورة النساء (4)
وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا لَّهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَنُدْخِلُهُمْ ظِـلاًّ ظَلِيلاً {57}
اور جن لوگوں نےہماری آیات کو مان لیا اور نیک عمل کیے اُن کو ہم ایسے باغوں میں داخل کریں گےجن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گي، جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور ان کو پاکیزہ بیویاں ملیں گی اور انہیں ہم گھنی چھاؤں میں رکھیں گے۔

سورة البقرة ( 2 )
۔۔۔ وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ {25}
اُن کے لیے وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں گی، اور وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے۔

بڑی بڑی آنکھوں والی،شرمیلی، نگاہیں بچانے والی، ہم عمر، ایسی حسین جیسے چھپا کر رکھے ہوئے ہیرےاور موتی، خوبصورت اور خوب سیرت بیویاں:

سورة النبأ ( 78 )
إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ مَفَازًا {31} حَدَائِقَ وَأَعْنَابًا {32} وَكَوَاعِبَ أَتْرَابًا {33} وَكَأْسًا دِهَاقًا {34} لَّا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا وَلَا كِذَّابًا {35} جَزَاء مِّن رَّبِّكَ عَطَاء حِسَابًا {36}
یقیناًمتقیوں کے لیے کامرانی کا ایک مقام ہے، باغ اور انگور، اور نوخیز ہم سِن لڑکیاں، اور چھلکتے ہوئے جام۔ وہاں کوئی لغو اور جھوٹی بات وہ نہ سنیں گے۔جزا اور کافی انعام تمہارے رب کی طرف سے۔

سورة الصافات ( 37 )
وَعِنْدَهُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ عِينٌ {48} كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَّكْنُونٌ {49}
اور ان کے پاس نگاہیں بچانے والی ، خوبصورت آنکھوں والی عورتیں ہوں گی، ایسی نازک جیسے انڈے کے چھلکے کے نیچے چھپی ہوئی جِھلّی۔

سورة الدخان (44)
۔۔۔ وَزَوَّجْنَاهُم بِحُورٍ عِينٍ {54}
اور ہم گوری گوری آہُو چشم عورتیں ان سے بیاہ دیں گے۔

سورة ص ( 38 )
وَعِندَهُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ أَتْرَابٌ {52}
اور ان کے پاس شرمیلی ہم سِن بیویاں ہوں گی۔

سورة الرحمن ( 55 )
فِيهِنَّ خَيْرَاتٌ حِسَانٌ {70} فَبِأَيِّ آلَاء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ {71}
ان نعمتوں کے درمیان خوب سیرت اور خوبصورت بیویاں ۔ اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے ؟

کنواریاں، اپنے شوہروں کی عاشق اور ہم عمر جنہیں ان کے خاوندوں سے پہلے کسی نے نہ چھوا ہوگا:

سورة الواقعة ( 56 )
إِنَّا أَنشَأْنَاهُنَّ إِنشَاء {35} فَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْكَارًا {36} عُرُبًا أَتْرَابًا {37}
ان کی بیویوں کو ہم خاص طور پر نئے سرے سے پیدا کریں گے اور انہیں کنواریاں بنا دیں گے، اپنے شوہروں کی عاشق اور عمر میں ہم سِن ۔

سورة الرحمن ( 55 )
فِيهِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ {56} فَبِأَيِّ آلَاء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ {57} كَأَنَّهُنَّ الْيَاقُوتُ وَالْمَرْجَانُ {58}
ان نعمتوں کے درمیان شرمیلی نگاہوں والیاں ہوں گی جنہیں ان جنتیوں سے پہلےکبھی کسی انسان یا جن نے نہ چھوا ہو گا۔ ا پنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے؟ ایسی خوبصورت جیسے ہیرے اور موتی۔

•جنت کی حوریں
جنتی بیویوں کے علاوہ قرآن حکیم میں جنتیوں کے لیے حوروں کا ایک نعمت کے طور پر تذکرہ کیا گيا ہے اوریہ بتلایا گيا ہے کہ ان کو بھی اہل جنت کی زوجیت میں دیا جائے گا۔

سورة الواقعة ( 56 )
وَحُورٌ عِينٌ {22} كَأَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَكْنُونِ {23}
اور ان کے لیے خوبصورت آنکھوں والی حوریں ہو ں گی ، ایسی حسین جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی۔

سورة الطور ( 52 )
۔۔۔وَزَوَّجْنَاهُم بِحُورٍ عِينٍ {20}
اور ہم خوبصورت آنکھوں والی حوریں ان سے بیاہ دیں گے۔

سورة الرحمن ( 55 )
فِيهِنَّ خَيْرَاتٌ حِسَانٌ {70} فَبِأَيِّ آلَاء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ {71} حُورٌ مَّقْصُورَاتٌ فِي الْخِيَامِ {72} فَبِأَيِّ آلَاء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ {73} لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ {74} فَبِأَيِّ آلَاء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ {75}
ان نعمتوں کے درمیان خوب سیرت اور خوبصورت بیویاں ۔ اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے ؟ خیموں میں ٹھیرائی ہوئی حوریں ۔ اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے ؟ ان جنتیوں سے پہلے کبھی کسی انسان یا جن نے ان کو نہ چھوا ہو گا ۔

جنتی بیویوں اور حوروں کے بارےمیں یہ آیات پڑھ کر یوں لگتا ہے جیسے اہل جنت کی بیویاں تو ان کےساتھ ملکہ کی حیثیت سے محلوں میں رہیں گی جبکہ ان کی سیرگاہوں میں ان کی خدمت کے لیے خیموں میں ٹھہرائی ہوئی جوان و حسین و جمیل حوریں ہوں گي۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ و ہ معصوم لڑکیاں ہوں جو بلوغت سے پہلے ہی فوت ہوگئيں اور جن کے والدین جنت کے مستحق نہ ہوسکے کہ وہ ان کی اولاد کی حیثیت سے ان کے ساتھ رہتیں۔اور اللہ انہیں جنتیوں کی خدمتگارحسین و جمیل لڑکیاں یعنی حوریں بنا کر جنت میں رکھے۔(واللہ اعلم بالصواب)

بہرحال جنت کی عورتیں اور حوریں شرم و حیا کی بہترین نسوانی صفات سے متصف اپنے شوہروں کی چاہنے والیاں ہوں گي اور ان کے حسن و جمال کا یہ عالم ہوگا کہ:

سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا :’’ اگر اہل جنت میں سے کوئی عورت زمین والوں کی طرف جھانک لے تو وہ تمام فضا کو جو آسمان وزمین کے درمیان ہے، روشن کردے اور اس کو خوشبو سے بھر دے اور بے شک اس کا دوپٹہ جو اس کے سر پر ہے۔ تمام دنیا والو ں اور جو کچھ اس میں ہے سے بہتر ہے۔ ‘‘(بخاری)

حوروں ہی کے تعلق سے ایک سوال کچھ لوگ یہ کرتے ہیں کہ " جی مردوں کے لیے تو حوریں ہوں گي عورتوں کے لیے کیا ہوگا؟"

اس سوال کے دو معنی ہیں ۔ ایک تو سیدھا سادہ یہ ہے کہ جنتی عورتوں کی زندگی کیسی ہوگي، ان کا جوڑا ہو گا یہ نہیں اور اگر ہو گا توکون ہوگا؟

اگر اس سوال کا مطلب یہ ہے تو جواب واضح ہے کہ ان کے لیے خاوند ہوں گے جن کی وہ عاشق ہوں گي۔ قرآن حکیم میں لفظ"زوج" استعمال کیا گیا ہے جس کے لفظی معنی سپاؤز spouseکے ہیں یعنی بیوی کے لیے خاوند اور خاوند کے لیے بیوی۔ اس کا جواب ہم اوپر تفصیل سے پڑھ آئے ہیں کہ جنت میں بغیر جوڑے کے کوئی نہ ہو گا اورکس طرح خدائي انتظام کے ذریعےان کی رضامندی سے اہل جنت مرد اور عورتوں کو رشتہء ازدواج میں منسلک کیا جائے گا۔تو سیدھا جواب یہ ہے کہ جس طرح جنتی مردوں کے لیے ان کی جنتی بیویاں ہوں گي جو اہل دنیا میں سے ہوں گي اسی طرح ہر جنتی عورت کے لیے اس کا اپنا شوہرہوگا۔گویا جنتی مرد اگر وہاں اپنی جنت کا بادشاہ ہوگا تو اس کی ملکہ اس کی بیوی ہوگی ۔

اس سوال کا دوسرا معنی کج فہمی پر مشتمل ہے اور یہ کچھ بیمارذہن لوگوں کی سوچ کی پیداوار ہے کہ جنت میں مردوں کی "عیاشی"کےلیے تو حوریں ہوں گي عورتوں کی "عیاشی " کے لیے کیا ہوگا۔ اس معنی کے ساتھ یہ سوال کرنے والے حقیقتا انتہائي نادان اور جنت کی زندگی کے بارےمیں کچھ بھی نہ جاننے والے لوگ ہیں اور انہی میں سے بعض کے نزدیک جنت غلیظ شرابیوں کا مئے کدہ اور عیاشی کا اڈہ ہے۔کاش انہیں یہ معلوم ہو کہ جنت اللہ کی عظیم الشان نعمت اور سلامتی کا وہ گھر ہے جہاں انسانیت کے بہترین لوگ یعنی انبیاء، صدیقین، شہدا، صالحین اور ان کے پاکیزہ رفقاء رہتے ہیں۔ جہاں کسی نفرت و کدورت یا برائی اور بےہودگی کا سرے سے وجود ہی نہیں ۔جہاں ادنی ترین جنتی کی عزت، بادشاہی اور نعمتوں کا بھی وہ مرتبہ اور مقام ہے کہ دنیا کا کوئی بڑے سے بڑے بادشاہ بھی اس کا تصور تک بھی نہیں کر سکتا۔اب ایسے بادشاہوں کی نفرت و کدورت اور برائیوں سے پاک ان کی عاشق بیویوں سے کون یہ توقع کر سکتا ہے کہ رب کی رضا کی جنت میں پہنچنے کےبعد بھی، اپنے اللہ کی طرف سے بہترین جوڑ عطا کیے جانے کےبعد،انہیں بھی اپنے خاوندوں کے علاوہ کسی دوسرے کی ضرورت ہوگی جبکہ ان کے اپنے خاوند ان کے ہم عمر جوان ہوں اور ان کی ہرجسمانی اور مادی ضرورت بدرجہء اتم پوری کی جا رہی ہو۔حقیقت یہ ہے کہ جنتی بیویوں کے دل میں اللہ صرف ان کے خاوندوں کا عشق بٹھا دے گا اور وہ صرف اپنے خاوندوں کی مشتاق ہوں گي۔آپ کسی عاشق سے پوچھ دیکھیے کہ کیا اسے اپنے محبوب کے سوا کسی دوسرے کی کوئي خواہش ہوتی ہے؟ دنیا میں ہی ،جہاں برائی کا امکان بہرحال موجود ہے، ذرا کسی صاحب کردارعزت دار عورت سے جو اپنے شوہر کی عاشق ہو پوچھ دیکھیں کہ اس کی خوشی کس میں ہے اپنے خاوندمیں یا کہیں اور۔نعوذ باللہ من ذلک کیسی بدگمانی ہے ایسی عظیم الشان جنت کے وارث خاوندوں کی اہل جنت بیویوں کے بارے میں کہ انہیں بھی اپنے خاوندوں کے علاوہ کچھ درکار ہو گا جبکہ ہم یہ پڑھ چکے ہیں کہ جنت میں داخل کیے جانے سے پہلے ہی ہر جنتی کی ہر برائی اس سے دور کر دی جائے گي اورجنتی عورتوں میں ایسی بے حیا کوئي نہ ہوگی جواپنے خاوند کے علاوہ کچھ اور چاہے۔جنتی بیویاں ہوں یا حوریں ہوں قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ ہوں گي یعنی شرم وحیا کا پیکر، نگاہیں بچانے والیاں جنہیں صرف اپنے ہی خاوندوں سے عشق ہوگا وہ نہ کسی اور کو دیکھناگوارا کریں گي اور نہ ہی یہ چاہیں گي کہ کوئي اور انہیں دیکھے۔

•والدین اور اولاد کا اکٹھا کیا جانا
والدین اور اولاد ہی خاندان کی اکائی ہیں۔والدین اولاد سے اور اولاد والدین سے دور ہوں تو نعمتوں کاحسن و لطف برقرار نہیں رہتا۔ جنت نعمتوں کا گھر ہے وہاں بھی والدین اور اولاددونوں کی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے اللہ جنتی والدین اور اولاد کو باہم اکٹھا کردے گا۔اور یہ جنت کی زندگي کی ایک اور بہت ہی بڑی نعمت ہے۔ہاں شرط یہ ہے کہ والدین بھی جنتی ہوں اور اولاد بھی جنتی ہوں ۔ یعنی ہر ایک اپنے اپنے ایمان وعمل کی بنا پر جنت میں پہنچا ہو۔وگرنہ جنت میں پہنچانے کے لیے رشتہ داری نہیں چلے گی۔ جو اپنی کمائی سے جہنم کا مستحق ہو گيا اسے باپ دادا یا اولاد کی خاطر جنت میں نہ پہنچایا جائےگا۔ کیونکہ انہی آیات کے ساتھ یہ تذکرہ آرہا ہے کہكُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌ ہر شخص اپنے کسب کے عوض رہن ہے۔ہاں جو اپنے ایمان و عمل کی بنا پروہاں پہنچ گيا اس پر اللہ کا مزید کرم یہ ہو گا کہ والدین اور اولاد میں سے جس کا مرتبہ اعلی ہو گا سب کو وہی درجہ دیا جائے گا تاکہ خوشیوں کے لیے سارے اکٹھے رہیں لیکن اکٹھے رہنے کے باعث کسی کے اجر میں کوئي کمی یا گھاٹا نہ ہو۔یاد رہے کہ یہ اس اولاد کا تذکرہ ہے جوبالغ ہوئی اورجس نے اپنے اختیار اور ارادےسے ایمان لاکر عمل صالح کیے اور جنت کے مستحق ہوئی رہی جنتیوں کی وہ اولاد جو بلوغت کوپہنچنے سے پہلے ہی مر گئی تھی تو وہ تو بہرحال جنت ہی میں جائے گي اور اپنے جنتی والدین ہی کے ساتھ رہےگی۔

آیات ملاحظہ ہوں:

سورة الطور ( 52 )
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُم مِّنْ عَمَلِهِم مِّن شَيْءٍ كُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌ {21}
جو لوگ ایمان لائے ہیں اور ان کی اولاد بھی کسی درجہء ایمان میں ان کے نقش قدم پر چلی ہے ان کی اس اولاد کو بھی ہم(جنت میں)ان کے ساتھ ملا دیں گے اور ان کے عمل میں کوئی گھاٹا ان کو نہ دیں گے ۔ ہر شخص اپنے کسب کے عوض رہن ہے۔

سورة الرعد ( 13 )
جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ ۔۔۔{23}
یعنی ایسے باغ جو اُن کی ابدی قیامگاہ ہوں گے۔ وہ خود بھی ان میں داخل ہوں گے اور اُن کے آباؤ اجداد اور ‎ اُن کی بیویوں اور اُن کی اولاد میں سے جو جو صالح ہیں وہ بھی اُن کے ساتھ وہاں جائیں گے۔

‍ قرآن حکیم میں حاملین عرش فرشتوں کی مومنین کے حق میں یہ دعابھی مذکور ہے جس میں وہ اللہ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ:

سورة غافر (40)
رَبَّنَا وَأَدْخِلْهُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدتَّهُم وَمَن صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ {8}
اے ہمارے رب ، اور داخل کر ان کو ہمیشہ رہنے والی اُن جنتوں میں جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے۔اوران کے والدین اور بیویوں اور اولاد میں سے جو صالح ہوں(اُن کو بھی وہاں اُن کے ساتھ ہی پہنچا دے)۔ تو بلا شبہ قادرِ مطلق اور حکیم ہے۔

جیسا ہم نے اوپر پڑھا اہل جنت کے حق میں یہ دعا اللہ رب العالمین قبول فرمائے گا۔اللہ ہمیں بھی اس دعا میں حصہ دار بنائے،ہمیں بھی اپنےآباءو والدین اور اولاد کے ساتھ وہاں جمع فرمائے اوراپنے پیاروں کے ساتھ اکٹھے رہنے کی نعمت عطا فرمائے۔یہ بھی نہ بھولیے کہ آباء و اجداد ہوں،والدین یا اولاد، وہاں سارے ہی جوان ہوں گے اور ہم عمر ہوں گےبوڑھا کوئی نہ ہوگا۔اور یہ ہوگي اس نعمت پر ایک اور نعمت۔دنیا میں اس نعمت سے کس طرح آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں اس کا اندازہ وہی لوگ کر سکتےہیں جن کی شادیاں وقت پر ہوئی ہوں اور جن کی اولاد ان کی جوانی میں ہی جوان ہو جائے اور ان کے ساتھ چلنے پھرنے لگے۔
بس ہمیں یہ خیال رہے کہ کہیں جنت میں والدین اور اولاد کے ساتھ اکٹھے رہنے کی یہ نعمت چھن نہ جائے اسی لیے قرآن اس پر زور دیتا ہے کہ جس جنت میں خود جانا چاہتے ہو وہیں اپنے پیاروں کو بھی پہنچانے کی کوشش کرو:

سورة التحريم ( 66 )
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ {6}
اےلوگو جو ایمان لائے ہو، بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سےجس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، جس پر نہایت تُند خُو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انہیں دیا جاتا ہے اُسے بجا لاتے ہیں۔

اللھم انا نسالک الجنۃ و نعوذبک من عذاب النار
(اے اللہ ہم تجھ سے جنت کا سوال کرتے ہیں اور آگ کے عذاب سے تیری پناہ مانگتے ہیں)

(جاری ہے)
Aurangzeb Yousaf
About the Author: Aurangzeb Yousaf Read More Articles by Aurangzeb Yousaf: 23 Articles with 45794 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.