اسٹریٹ کرائم کے بڑھتے واقعات باعث تشویش

کراچی کی دو کروڑ سے زائد آبادی میں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کوئی شہری اپنے قیمتی موبائل اور رقم سے محروم ہوجاتے ہیں ۔ گذشتہ دنوں اسٹریٹ کرائم کے ایک واقعے نے جہاں پولیس کے نگراں 15 سروس کے غیر فعال و ناقص کردار نے 20برس کے نوجوا ن زین الدین ولد عثان الدین ساکنہ محمد پور کو بھی قیمتی زندگی سے محروم کردیا ۔ مورخہ 15جون 2017کو زین الدین اپنے گھر سے شاہراہ فیصل پرواقع ایک نجی ادارے میں اپنی ڈیوٹی پر جانے کے لئے روانہ ہوا ، تو ایسے معلوم نہیں تھا کہ وہ اپنی موت کے قریب جا رہا ہے۔سوک سینیٹر گلشن اقبال کے قریب ایسے احساس ہوا کہ موٹرسائیکل سوار نامعلوم افراد اس کا پیچھا کر رہے ہیں ۔ زین الدین نے اپنے چچا کو فون کیا کہ کوئی اس تعاقب میں ہے ۔ چچا نے فوراََ اس سے کہا کہ اگر سامان مانگتے ہیں تو دے دو ، زین نے ایسے بتایا کہ وہ شاہراہ فیصل پر واقع ایک پٹرول پمپ کے قریب ہے ، زین فوراََ پٹرول پمپ میں چلا گیا ۔ وہاں سے اس نے گیارہ بجے شب کے قریب دو مرتبہ 15پر کال کی ، لیکن پولیس کی ہنگامی امداد کی سروس 15سے کسی نے فون نہیں اٹھایا۔ کچھ دیر انتظار کے بعد جیسے ہی موٹر سائیکل پر وہ نکلا ، تو چھپے ہوئے بائیکر نے ایف ٹی سی پل کے قریب نہ رکنے پر زین الدین کو گولی کا نشانہ بنایا ۔ زین کی پسلیوں کے قریب سے گولی دل پر لگی جب ایک راہگیر بھی زخمی ہوگیا ۔ اسی طرح کچھ عرصہ قبل شارع نورجہاں تھانے کی حدود میں ڈکیتوں نے ایک کار کو جبراََ روکا ۔ جلد باز ڈکیٹ نے شوہر کے سامنے اس کی بیوی کو گولی مار کر ہلاک کر ڈالا ۔ خود راقم کے سامنے حیدری مارکیٹ تھانے کے عقب میں ایک رکشہ میں سوار خاتون کو دو موٹر سائیکل سوار نے دن کی روشنی میں بے خوف ہوکر لوٹ مار کی اور آرام سے فرار ہوگئے ۔ نارتھ ناظم آباد کے علاقے میں راقم کے ساتھ خود بھی ایسا ہی واقعہ ہوچکا ہے جس میں موبائل فونز ، رقم اور گاڑی سے محروم ہونا پڑا ۔یہاں تک کہ روزنامہ جہان پاکستان کے ہیڈ آفس کے سامنے ادارے کے صحافی سے چوکیدار کی موجودگی کے باوجود لوٹ مار کی گئی اور انڈسٹریل ایریا کی گلیوں سے واقف ڈکیٹ فرار ہوگئے۔

سٹیزن پولیس لائژن کمیٹی کی رپورٹ‘ کے مطابق گزشتہ ماہ اسٹریٹ کرائم کی 4ہزار 667 وارداتیں ہوئی تھیں۔ تفصیلات کے مطابق سی پی ایل سی کی رپورٹ کے مطابق ماہ مئی کے دوران مجموعی طورپر اسٹریٹ کرائم کی 4ہزار 667 وارداتیں رپورٹ ہوئیں اس طرح یومیہ اسٹریٹ کرائم کی 150 وارداتیں ریکارڈ کا حصہ بنیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جرائم پیشہ عناصر کی ضمانت پر رہائی اسٹریٹ کرائم میں اضافے کی بڑی وجہ ہے۔دوسری جانب جہاں شہری موبائل فونز سے محروم ہوئے وہیں یکم رمضان سے بائیس رمضان تک سولہ سے زائد موٹر سائیکلیں چوری اور چھین لی گئیں۔تفصیلات کے مطابق کراچی میں آپریشن کے بعد ٹارگٹ کلنگ سمیت دیگر سنگین جرائم میں تو خاطرخواہ کمی ریکارڈ ہوئی ہے تاہم اسٹریٹ کرائم کا جن تاحال قابو نہیں آ رہا۔ جرائم پیشہ عناصر نے رمضان المبارک میں شاپنگ سینٹرز اور بازاروں کا رخ کرنیوالے شہریوں کو اپنا ہدف بنایا ہوا ہے۔

اسٹریٹ کرائم کے یہ اعداد و شمار ہوش ربا ہیں ۔ اے ٹی ایم مشین اور تنخواہ والے دن اسٹریٹ کریمنل کے خاص ہدف ہوتے ہیں ۔ انہی دنوں میں اسٹریٹ کریمنل ، اپنے ساتھ خواتین کو بھی ساتھ ملاتے ہیں ۔ جو شہریوں کو قیمتی سامان سے محروم کردیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اسٹریٹ کرائم کی بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لئے رینجرز نے خصوصی پلان تشکیل دیا ۔شہر قائد میں بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائم کو روکنے کیلئے سندھ رینجرز میدان میں آئی۔ ذرائع کے مطابق شہر میں بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائم اور ملزمان کی عدم گرفتاری پر رینجرز نے عملی اقدامات کا فیصلہ کرلیا اور عید سے قبل شہر کے بازاروں میں گاہکوں کے بڑھتے ہوئے رش اور لوٹ مار کے واقعات میں اضافے کے خدشے کے پیش نظر رینجرز نے حکمت عملی بناتے ہوئے 84 ہاٹ اسپاٹس کی نشاندہی کرکے 500 سے زائد مقامات پر اسنیپ چیکنگ شروع کردی۔ شاپنگ مالز اور بازاروں کی کڑی نگرانی ‘ موبائل اور موٹر سائیکلوں پر سوار اہلکاروں کا گشت بھی بڑھادیا گیا۔ لوٹ مار کے واقعات کے پیش نظر پیٹرولنگ بڑھادی گئی‘ شاپنگ مالز اور بازاروں کے راستوں کی کڑی نگرانی کی جارہی ہے۔ رینجرز حکام کا کہنا ہے کہ شہری بلاخوف خریداری کریں رینجرز سیکیورٹی کیلئے ہر وقت موجود ہے۔

جنوری 2017میں اپیکس کے18ویں اجلاس میں وزیر اعلی سند ھ سید مراد علی شاہ کا یہ بھی کہنا تھاکراچی میں اسٹریٹ کرائم میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ انہوں نے پیر کو ہی تعطیلات سے ڈیوٹی پر واپس آنے والے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو اسٹریٹ کرائم میں ملوث ملزمان کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کرنے کی ہدایات جاری کرتے ہوئے اے ڈی خواجہ کو اسٹریٹ کرمنلز کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر کریک ڈاؤن کی رپورٹ دینے کی بھی ہدایت کی۔لیکن 6مہینے گذر جانے کے باوجود اسٹریٹ کرائم کا عفریت کسی طور قابو میں نہیں آرہا۔

اسٹریٹ کرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کی مانیٹرنگ کے لیے محکمہ داخلہ میں مانیٹرنگ سیل کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ہے جس میں شہر کراچی میں ہونے والے اسٹریٹ کرائم اور جرائم کی ماہانہ رپورٹ تیار کر کے وزیراعلیٰ سندھ کو پیش کی جائے گی۔مانٹرنگ سیل میں آئی جی سندھ پولیس، ایڈیشنل آئی جیز، ڈی آئی جیز، ایس ایس پیز، تمام تھانیداروں،تفتیشی افسران، سی ٹی ڈی، کرائم برانچ اور اینٹی کار لفٹنگ سیل سمیت پولیس کی مجموعی کارکردگی رپورٹ کا جائزہ بھی لیا جائے گا،

کراچی پولیس شہر میں بڑھتی ہوئی اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں پر قابو پانے میں بری طرح سے ناکام ہے۔ جس کے باعث شہریوں میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے شہر کا کوئی علاقہ اسٹریٹ کرمنلز سے محفوظ نہیں وہیں لٹیروں کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں وہ جب اور جہاں چاہیں شہریوں کو نقدی، موبائل فون اور قیمتی اشیا سے محروم کر کے فرار ہوجاتے ہیں، پولیس جرائم پیشہ عناصر کے نام پر اسنیپ چیکنگ اور گشت کر کے پرامن شہریوں کو ہی روک کر تلاشی اور دستاویزات کی جانچ پڑتال میں مصروف رہتی ہے، ذرائع کے مطابق شہر کراچی میں روزانہ کی بنیاد پر نہ صرف شہریوں سے گاڑیاں، نقدی، موبائل فونز، طلائی زیورات اور قیمتی اشیا لوٹ لی جاتی ہیں بلکہ بینکوں اور منی ایکس چینجز سے رقوم لے کر نکلنے والوں سے رقم چھیننے کی وارداتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کرپٹ پولیس افسران اور اہلکار اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں پر کنٹرول کے بجائے لینڈ مافیا اور اسٹریٹ کرمنلز کے سرپرست بن گئے ہیں جس کی وجہ سے جرائم پیشہ عناصر کے حوصلے بڑھ گئے ہیں اور وہ دن دھاڑے ٹریفک سگنلز، چوراہوں، مارکیٹوں، سڑکوں اور گلیوں میں اسلحہ کے زور پر شہریوں کو لوٹ لیتے ہیں لوٹ مار کا شکار ہونے والے شہری جب تھانوں میں مقدمات درج کرانے جاتے ہیں تو پولیس اہلکار انھیں الٹا ڈرا دھمکا کر مقدمات درج نہیں کرتے اور صرف روزنامچوں میں اندراج کرکے سمجھاتے ہیں کہ ایف آئی آر درج کرنے سے مسائل پیدا ہوں گے شہریوں کو رہزنوں سے زیادہ پولیس افسران و عملہ خوفزدہ کردیتا ہے جس کی وجہ سے لوٹ مار کی وارداتوں کے مقدمات کا اندراج نہیں ہوتا"۔ ذرائع کے مطابق سیکریٹری داخلہ قاضی شاہد پرویز نے شہر میں بڑھتی ہوئی وارداتوں پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو ہدایت کی ہے کہ فوری طور پر مانیٹرنگ سیل قائم کر کے ماہانہ بنیاد پر شہر میں ہونے والی وارداتوں کا پولیس کی جانب سے بھیجے گئے ڈیٹا کے علاوہ آزاد ذرائع سے بھی ڈیٹا حاصل کیا جائے اور پھر ماہانہ بنیاد پر رپورٹ تیار کی جائے تاکہ وزیراعلیٰ سندھ کو پیش کر کے جرائم اور پولیس افسران کی کارکردگی سے آگاہ کیا جاسکے۔

میئر کراچی وسیم اختر نے بھی شہر میں بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائم پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "وزیراعلیٰ سندھ کراچی میں اسٹریٹ کرائم کے اضافے کا فوری نوٹس لیں، عوام کے رش اور شاپنگ سینٹرز والے علاقوں میں پولیس کے گشت میں فوری اضافہ کیا جائے انہوں نے کہا کہ کراچی کو بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا ہے اور روزانہ سینکڑوں شہریوں کو بازاروں، سڑکوں اور شاپنگ سینٹرز کے قریب لوٹ لیا جاتا ہے انہیں روکنے والا کوئی نہیں ہے، انہوں نے آئی جی سندھ سے کہا کہ وہ شہر میں موٹرسائیکلوں اور پیدل گشت میں اضافہ کریں اور شاپنگ سینٹرز والے علاقوں میں پولیس کی نفری بڑھائیں تاکہ شہریوں کو لوٹنے سے بچایا جاسکے، میئر کراچی نے کہا کہ عید کے قریب آتے ہی بڑی تعداد میں دوسروں شہروں سے گداگر کراچی آچکے ہیں جو کراچی میں بھیک مانگنے کے ساتھ ساتھ اسٹریٹ کرائم میں بھی ملوث ہوتے ہیں، انہوں نے کہا کہ شہری بجلی، پانی، سیوریج، سڑکیں اور شہر کے انفراسٹرکچر کی تباہی کے باعث پہلے ہی بے انتہا پریشان ہیں اس پر ستم یہ کہ ان کی محنت کی کمائی کو بھی سرے عام لوٹا جارہا ہے انہوں نے کہا کہ کراچی شہر کو ہر طرح سے نظر انداز کیا جارہا ہے اور اب شہریوں کی حفاظت کا بھی موثر انتظام نظر نہیں آرہا، میئر کراچی نے اسٹر یٹ کرائم میں بے پناہ اضافے کے باعث شہریوں سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت احتیاط سے کام لیں اور حفاظتی تدابیر اپنائیں، انہوں نے کہا کہ شہری رات کے اوقات میں اپنے گھروں کو جلد واپس لوٹیں تاکہ جرائم پیشہ عناصر سے بچ سکیں، میئر کراچی نے کہا کہ شہری اپنے اپنے محلوں میں مشکوک افراد پر نظر رکھیں اور کسی غیرمعمولی صورتحال میں فوری طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اطلاع دیں، انہوں نے کہا کہ ہر سال عید کے قریب آتے ہی شہر میں اسٹریٹ کرائم میں اضافہ ہوجاتا ہے لیکن گزشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی کوئی اس سلسلے میں حفاظتی اقدامات نہیں کئے گئے۔ـ"

ماہ فروری میں آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے 15سروس کی ناقص کارکردگی پر ایکشن لینے کا فیصلہ کیا تھا ۔ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کی جانب سے سندھ پولیس کی 15 کی سروس کو آوٹ سورس کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا تھا۔نجی چینل کے مطابق یہ فیصلہ سندھ پولیس کی 15 سروس کے کال سینٹر کی ناقص کارکردگی کو دیکھتے ہوئے کیا گیا ہے، نجی کال سینٹر 15 پر درج کرائی جانے والی شکایات سن کر اسے متعلقہ تھانے کو مطلع کرے گا، جس کے بعد 15 کی فورس فوری طور پر کارروائی عمل میں لائے گی۔ذرائع کے مطابق آئی جی سندھ نے صوبے کے تمام تھانوں میں ایک پولیس موبائل اور عملے کو 15 کی شکایت کیلئے مخصوص کرنے کے احکامات بھی جاری کئے ہیں، کال سینٹر آوٹ سورس کرنے کی سمری وزیر اعلیٰ سندھ کو ارسال کردی گئی ہے۔ لیکن بد قسمتی سے سندھ پولیس کی 15 سروس کے کال سینٹر کی ناقص کارکردگی برقرار ہے ۔ اگر سندھ پولیس کی 15 سروس کے کال سینٹر وقت پر اپنی کارکردگی دکھاتا تو جوان سال زین الدین اسٹریٹ کریمنل کی دہشت گردی کا شکار نہیں ہوتا ۔اور ان کے والدین اپنے جوان سال بیٹے سے محروم نہیں ہوتے۔

ہم ایسے قدرت میں لکھا کہہ کر خود کو اپنی ذمے داری سے بری الزما نہیں کرسکتے ۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے شہر کراچی امن کی راہ پر چل نکلا ہے ۔ لیکن جہاں رینجرز کی اپنی ذمے داریاں ہیں وہاں پولیس کو بھی اپنی ذمے داریاں بروقت سر انجام دینی چاہیے ۔ دعوام کا اعتماد پولیس کے ادارے سے اٹھ چکا ہے ۔ پولیس کے مورال کو بلند کرنے کے لئے حقیقی معنوں میں سنجیدگی سے کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔

وزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال کو کراچی پولیس آفس میں بتایا گیا کہ رمضان میں شہر کے شاپنگ سینٹرز کی سیکیورٹی پلان بنایا گیا ہے۔وزیر داخلہ سندھ نے تمام اضلاع کے ڈی آئی جیز، ایس ایس پیز اور ایس پیز کو افطاری کے وقت سے لے کر تراویح کے اختتام تک سڑکوں پر موجودگی کو یقینی بنانے کی ہدایت کی۔ان کا کہنا تھا کہ ’اس حوالے سے کوئی بھی عذر قابل قبول نہیں ہوگا۔‘انہوں نے ایڈیشنل آئی جی سے کہا کہ وہ ایک واٹس ایپ گروپ بنائیں جس کے ذریعے تمام ڈی آئی جیز، ایس ایس پیز اور ایس پیز کو کسی بھی مسجد، امام بارگاہ اور تراویح کے مقام کے دورے سے متعلق اپ ڈیٹ کرنے کی ہدایت جاری کی جائیں۔‘سہیل انور سیال کا کہنا تھا کہ ’میں تمام افسران کی کارکردگی کا ذاتی طور پر جائزہ لوں گا۔‘انہوں نے زونل ڈی آئی جیز اور ضلعی ایس ایس پیز پر شہر میں اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں میں کمی لانے کے لیے مزید محنت کرنے پر زور دیا اور اسنیپ چیکنگ اور پولیس پیٹرولنگ بڑھانے کی ہدایت کی۔

ارباب اختیار اپنی میٹنگز میں جرائم کی روک تھام کیلئے ہدایات جاری کرتے ہیں ، جس کا واضح مطلب ہے کہ وہ واقف ہوتے ہیں کہ اسٹریٹ کرائم اور دیگر جرائم کی تعداد بڑھ رہی ہے ۔ کسی بھی اعلی حکام کے اجلاس میں اسٹریٹ کرائم کے حوالے سے اطمینان کا اظہار نہیں کیا گیا کہ حکومتی اقدامات کے ذریعے اسٹریٹ کرائم میں کوئی کمی آئی ہو۔وفاقی وزیر داخلہ سے لیکر پولیس چوکی انچارج تک اس حقیقت سے واقف ہیں کہ اسٹریٹ کرائم کراچی کے شہریوں کے لئے خوفناک جن بن چکا ہے ، جس کو قابو میں لانے کیلئے تمام اداروں کو ایک پیچ پر آنا ہوگا ۔ یہاں شہریو ں میں اعتماد بحال کرنے کیلئے پولیس کے نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اور ایسی جگہوں پر جہاں موبائل فونز با آسانی فروخت ہوجاتے ہیں وہاں سادہ لباس پولیس اہلکاروں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ ایسی مارکیٹ یونین سے خصوصی میٹنگز کو مسلسل جاری رکھنا ہوگا ، کیونکہ دیکھا یہ گیا ہے کہ جب کسی بڑی اطلاع پر کاروائی کی جاتی ہے تو یونین احتجاج شروع کردیتی ہے ۔ ان کا یہ رویہ اسٹریٹ کرائم کے خاتمے میں مددگار بننے کے بجائے سہولت کار بن رہا ہے ۔ زیادہ منافع کے لالچ میں موبائل فونز ارزاں قیمتوں پر خرید تو لئے جاتے ہیں ۔ لیکن اتنا ضرور سوچ لیں کہ کتنے گھروں کے کفیل اپنے پیاروں سے محروم ہوجاتے ہیں۔ایسے واقعات خدانخواستہ کسی کے بھی ساتھ ہوسکتے ہیں ۔ ہمیں اسٹریٹ کرائم کے خاتمے کیلئے مل کر کام کرنا ہوگا ۔ حکومت کو ایک ایسا میکنزم بنانے کی ضرورت ہے ، جس سے اسٹریٹ کریمنل قانون کی گرفت میں آسکیں اور کراچی کے شہری بلا خوف و خطر روشنیوں کے شہر میں گھوم سکیں ۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 660213 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.