خدا کی اونٹنی

حضرت ہود علیہ السلام قوم عاد کو پچاس برس دعوت توحید دیتے رہے مگر ان پر آپؑ کی نصیحتوں کا کوئی اثر نہ ہوا۔ بلکہ وقت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی سرکشی اور مخالفت میں اضافہ ہوتا گیا۔ اور قوم عاد نے کہا۔ ’’ اے ہود ! جب سے تو نے ہمارے معبودوں کو برا کہنا اور ہم کو ان کی عبادت سے باز رہنے کی تلقین شروع کی ہے۔ اس وقت سے ہم دیکھتے ہیں کہ تیرا حال خراب ہوگیا ہے۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ تمہارا یہ حال ہمارے معبودوں کے اثر سے ہوا ہے ‘‘۔

ایسی مجبوری کی حالت میں حضرت ہود علیہ السلام نے قوم کے واسطے بد دعا کی۔ تو پھر تین سال تک بارشیں نہ ہوئیں ، چشمے خشک ہوگئے ، چوپائے مرگئے اور قحط سالی نے قوم کا برا حال کردیا۔ ایسی صورت حال میں حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم والوں کو پھر سمجھایا اور راہ راست پر چلنے کی تلقین کی۔ لیکن اس بد نصیب اور بھٹکی ہوئی قوم پر نصیحتوں کا کوئی اثر نہ ہوا۔ تب ایک ہولناک عذاب نے ان کو آگھیرا۔ اور آٹھ دن اور سات راتیں تندوتیز ہوا کے طوفان نے انہیں اور ان کی بستیوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا۔جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے ۔ ’’ اور جو عاد تھے سو وہ ایک تندوتیز ہوا سے ہلاک ہوگئے۔ جس کو اﷲ تعالیٰ نے ان پر سات رات اور آٹھ دن متواتر مسلط کر دیا تھا ‘‘ ۔

قوم عاد کے جو لوگ حضرت ہود علیہ السلام پر ایمان لائے تھے وہ اس عذاب سے محفوظ رہے۔اور یہی لوگ بعد میں قوم ثمود ( عاد ثانیہ ) کے نام سے مشہور ہوئے۔جب تک یہ لوگ حضرت ہود علیہ السلام کی شریعت پر چلتے رہے ان کو عروج حاصل ہوا۔ لیکن جب قوم عاد کی بربادی کا ڈر ان کے دل و دماغ سے نکل گیا اور دولت و طاقت کے نشے میں مست ہوگئے تو ان میں بد خصلتوں نے جنم لے لیا اور انہوں نے پہاڑوں کے تراشنے کے ساتھ ساتھ مورتیاں تراشنا شروع کیں اور یوں شرک میں مبتلا ہوگئے۔

ایسے وقت میں اﷲ تعالیٰ قوم ثمود کی طرف حضرت صالح علیہ السلام کو قومِ ثمود کی طرف مبعوث فرمایا۔ تاکہ وہ ان لوگوں کو ہدایت کی تعلیمات دے ، اﷲ کی واحدنیت کی طرف بلائے اور بتوں کی پرستش سے منع کرے۔قومِ ثمودسر زمین عرب کے شمال میں مدینہ اور شام کے درمیان رہتی تھی۔ان کے علاقے میں پہاڑ اور ایک وسیع زرخیز وادی بھی شامل تھی۔ آپ ؑ نے فریضہ ٔ نبوت کو سر انجام دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ انہوں نے باربار قوم کو سمجھایا لیکن بت پرست قوم پر ان کی تعلیمات کا کوئی اثر نہ ہوا۔ قومِ ثمود سخت مغرور اور گستاخ تھی۔ اس نے دعوت حق کو مسترد کرتے ہوئے آپ علیہ السلام کو ’’سحر زدہ ‘‘قرار دیا اور آپ علیہ السلام کی تعلیمات کا مذاق اُڑانا شروع کردیا۔جب قوم ثمود آپؑ کی تعلیمات اور نصیحتوں سے اکتا گئی تو ان کے سرداروں نے قوم کی موجودگی میں آپؑ سے معجزے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’ اگر تم واقعی خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں تو کوئی ایسی نشانی دکھا کہ ہم تیری صداقت پر ایمان لے آئیں ‘‘۔

آپؑ نے جواب دیا۔ ’’ کہیں ایسا نہ ہوا کہ معجزہ آجانے کے بعد بھی تم اپنی روش سے باز نہ آؤ ‘‘۔لیکن سرداروں نے وعدہ کیا کہ معجزے کے ظاہر ہونے کے بعد ہم ایمان لے آئیں گے تب آپؑ نے دریافت کیا۔ ’’ تم کس قسم کا معجزہ چاہتے ہو ‘‘۔انہوں نے جواب میں کہا۔ ’’ بستی کے کنارے نصب پتھر سے ایسی اونٹنی ظاہر کر جو حاملہ ہو اور پتھر سے باہر آتے ہی بچہ جنم دے ‘‘ ۔

آپؑ نے بارگاہ الٰہی میں دعا کی۔ اور اسی وقت قوم ثمود کے سامنے پتھر پھٹا اور اس میں سے ایک حاملہ اونٹنی باہر نکلی اور جس نے اسی وقت ایک بچہ جنم دیا۔قرآن پاک نے اس اونٹنی کو ’’ ناقۃ اﷲ ‘‘ یعنی خدا کی اونٹنی کا نام دیا ہے۔یہ معجزہ دیکھ کر ایک سردار جندع بن عمرو اسی وقت ایمان لے آیا۔ اور دوسرے سردارو ں نے بھی ایمان لانے کا ارادہ کیا لیکن ان کے کاہنوں نے ان کو ایمان لانے سے منع کیا۔ اگرچہ قوم ثمود اس معجزے پر ظاہراً ایمان نہ لائی مگر دلی طور پر اقرار کر لینے نے اونٹنی کو ہر قسم کی تکلیف دینے سے باز رکھا۔لہٰذا اونٹنی اور اس کا بچہ بلا روک ٹوک چراگاہوں میں چرتے پھرتے اور آسودۂ حال زندگی گزارنے لگے۔ مگر آہستہ آہستہ قوم ثمود کو یہ بات کھٹکنے لگی اور پھر ایک دن انہوں نے اونٹنی کا کام تمام کردیا۔ جب آپؑ کو اس بات کا علم ہوا تو بڑے رنجیدہ ہوئے اور قوم سے کہا۔ ’’ اے بد بخت قوم ! آخر تم سے صبر نہ ہوسکا۔ اب خدا کے عذاب کا انتظار کرو۔ صرف تین دن کی مہلت ہے ، اپنے گھروں میں کھا پی لو ‘‘۔ تین دن بعد جب عذاب کا وقت آ پہنچا تو رات کے وقت ایک ہیبت ناک آواز نے ہر شخص کو ہلاک کردیا۔جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے۔ ’ ہم نے بھیجی ان پر ایک خوف ناک چیخ ـ‘‘۔جب حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی فوج کے ہمراہ تبوک پہنچے تو آپ ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو قومِ ثمود کی بستی اور ان کے مکانوں میں داخل ہونے اور وہاں کا پانی پینے سے منع فرمایااور فرمایا۔ ’’ میں ڈرتا ہوں کہ تم پر بھی ویسا عذاب نہ آجائے جیسا ان پر آیا تھا، اس لئے ان کے علاقے میں داخل نہ ہوا کرو‘‘۔
 

Abu Abad
About the Author: Abu Abad Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.