تعلیم، توجہ طلب!

 آئین کی ایک ایک شق کی پاسداری حکومتوں کا فرض ہوتا ہے، ان پر عمل درآمدکرنا اور کروانا ریاست کی ذمہ داری ہی ہوتی ہے۔ آئین کی محبت میں تقریریں تو بہت ہوتی ہیں، اس کتاب کو متبرک کتاب بھی تصور کیا جاتا ہے، اس کے خلاف بات کرنے والے کو ’غداری‘ کا سرٹیفیکٹ دینا بھی کوئی مشکل کام نہیں ہوتا۔ مگر اس حقیقت کو کون جھٹلائے کہ اپنے ہاں آئین کی انہی شقوں پر عمل درآمد کیا جاتا ہے، جو آئین کے علمبرداروں کی ضرورتیں پوری کرتی ہوں۔ جو شقیں عوام کالانعام سے متعلق ہوتی ہیں، وہ صرف نعروں اور تقریروں وغیرہ کے لئے ہی رکھی جاتی ہیں۔ اسی طرح آئین کی ایک شق پچیس بھی ہے، جو پاکستانی عوام کے پانچ سے سولہ سال کے بچوں کو مفت تعلیم دینے کا تقاضا کرتی ہے۔ حکومتیں اپنا فرض نبھاتے ہوئے اس شق پر عمل تو نہیں کرتیں ، البتہ دعووں وغیرہ میں کمی نہیں آنے دیتیں، جب عوام تعلیم کی بجائے دعووں اور نعروں پر ہی مطمئن ہو جاتے ہیں تو پھر حکومت کو عمل کرنے اور خرچے اٹھانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ’’جنگ ڈویلپمنٹ رپورٹنگ سیل‘‘ کی تحقیق کے مطابق گزشتہ نصف عشرے میں 75فیصد نئے تعلیمی ادارے وجود میں آئے ہیں، اگرچہ نجی تعلیمی اداروں کی تعداد سرکاری اداروں سے کم ہے، مگر طلبہ کی اوسط تعداد نجی اداروں کی زیادہ ہے۔ اسی عرصہ میں نجی اداروں کی تعداد 31سے 37فیصد ہو گئی ہے، جبکہ ان میں داخل طلبہ کی تعداد 36سے 42فیصد ہو گئی ہے۔

نجی تعلیمی اداروں کو اکثر تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو لوگ اپنے بچوں کو ایسے اداروں میں تعلیم دلوانے پر مطمئن بھی ہیں، وہ بھی حسبِ موقع تنقید کرکے اس کارِ خیر میں اپنا حصہ ضرور ملا لیتے ہیں۔ اگر تنقید ہے تو ضرورمسائل بھی ہونگے، کبھی زیادہ فیس کا مسئلہ، کبھی مختلف مدات میں فنڈز کی وصولی، کبھی چھٹیوں کی فیس یکمشت لینے کی کہانی۔ ہے تو یہ تضاد ہی، کہ کسی ادارے میں تعلیم حاصل کرنے پر فخر بھی کیا جائے اور اسی کو برا بھلا بھی کہا جائے۔ اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ نجی تعلیمی اداروں کی بڑھوتری سرکاری اداروں کی نسبت نمایاں ہے۔اس کی سب سے اہم وجہ معیار تعلیم ہے، سرکاری سکولوں میں توجہ نہیں دی جاتی۔ دوسری اہم وجہ سہولتوں کی عدم دستیابی ہے، سرکاری سکولوں میں تو حالت یہ ہے کہ بعض مقامات پر بجلی بھی موجود نہیں، عمارت، چاردیواری، فرنیچر، واش روم، پینے کا صاف پانی حتیٰ کہ اساتذہ کا وجود بھی نہیں پایا جاتا۔ سیکنڈری سکولوں اور کالج ، یونیورسٹی کی حد تک تو سرکاری اداروں کی پوزیشن کافی بہتر ہے، مگر پرائمری تعلیم کا حال بہت پتلا ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت پتا پتا ، بوٹا بوٹا جانتا ہے، بس نہیں جانتے تو حکمران۔ اگر تعلیم ان کی ترجیح ہو تو وہ اسی کو ’’میگا پراجیکٹ‘‘ تصور کرلیتے اور ملک کی حالت بدل جاتی۔ تین تین بار ملک اور صوبے کی باگ ڈور سنبھالنے کے باوجود بھی شرح خواندگی شرمناک ہی ہے، تعلیمی اداروں کی حالت ناقابلِ بیان ہے۔ اور پریشانی یہ ہے کہ دعوے کم ہونے کا نام نہیں لیتے۔

موجودہ حکمرانوں کا دورحکومت چونکہ تمام سیاستدانوں سے زیادہ ہے، تعلیمی پسماندگی بھی جوں کی توں ہے، اس صورت حال کے پیش نظر پنجاب حکومت نے اپنے پرائمری سکول پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کا تیسرا فیز روبہ عمل ہے۔ جو سکول سرکاری سرپرستی میں ناکام ہو چکے تھے ، جونہی وہ پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی تحویل میں گئے، تو وہاں رونقیں بحال ہو گئیں۔ جس سکول میں پچاس بچے تھے، اب وہاں دو سو کے قریب ہیں۔ پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن بھی تو حکومت کا ہی خود مختار ادارہ ہے، آخر اس میں اس قدر اتنی کشش کیوں ہے؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ ادارہ نہایت دیانتداری اور محنت سے کام کر رہا ہے، اس کی سکولوں کی نگرانی، امتحان اور سہولتوں کی بہم رسانی مثالی ہے، جس کی وجہ سے معیار خود بخود قائم ہو جاتا ہے۔ ان سکولوں کی کامیابی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اس ادارے کے تحت چلنے والے سکول بھی نجی سکول ہی ہیں، اگر یہ سرکاری ہوتے تو شاید فاؤنڈیشن والے بھی ان کو چلانے میں ناکام ہو جاتے۔ حکومتوں کو میگا پراجیکٹس سے فرصت پا کر تعلیم کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ حکمران بھی جانتے ہیں کہ ’سنگ وخشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا‘۔ میٹرو اور اورنج ٹرین بھی ضروری ہیں ،مگر تعلیم ان سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ دعووں ، عمل اور نتائج کا تجزیہ بھی ضروری ہے۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428307 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.