گڑیوں کا گاؤں

جاپان کے اس جزیرے کا ذکر جہاں انسانوں سے زیادہ کپڑے، بھوسے اور گھاس پھوس سے بنی شبیہیں نظر آتی ہیں

1960ء کی دہائی تک پیدا ہونے والے افراد نے کٹھ پتلی کا تماشہ تو ضرور دیکھا ہوگا، جس میں ایک شخص تار یا دھاگے کے توسط سے کپڑے اور روئی سے بنائی گئی چھوٹی چھوٹی گڑیا اور گڈوں کو ان کے کردار کے مطابق حرکت دیتا ہے۔ ہزاروں سال قبل راجستھان کی بھٹ برادری کے فن کاروںنے ’’کٹھ پتلی تماشے‘‘کو تھیٹر کے طور پر متعارف کرایاتھا، بعد میں یہ برصغیر کے علاوہ مشرق بعید اور یورپی ممالک میں بھی مقبول ہوگیا۔رواں صدی میں روایتی کھیلوں اور ثقافتی شوز سے تماش بینوں کی عدم دل چسپی کے باعث ، برصغیر میں یہ تماشہ تقریباً متروک ہوچکاہے، لیکن چینی ثقافت میں اسے آج بھی نمایاں مقام حاصل ہے۔چینی طائفے کےارکان، دنیا کے مختلف ممالک میں ثقافتی شوز کرتے ہوئے کٹھ پتلیوں کے کھیل بھی پیش کرتے ہیں۔ جاپان کے ایک دورافتادہ دیہی قصبے میں ایک خاتون نے اسے بالکل انوکھے انداز میں متعارف کرایا ہے اور مذکورہ گاؤں میں ہر طرف انسانی جسامت کے برابر گڈے اور گڑیامختلف کرداروں کی ادائیگی کرتے نظر آتے ہیں۔ غیر ممالک سے آنے والے سیاح جب جاپان کے سیاحتی مقامات کی سیر کرتے ہوئے جنوب مغربی علاقے میں واقع ایک گاؤں میں پہنچتے ہیں تو انہیں یہاں قد آدم کے برابر گڈے اور گڑیا ہی نظر آتے ہیں ، گاؤں میں جیتے جاگتے انسان بھی بستے ہیں لیکن ان کی آبادی انتہائی قلیل ہے، اس ناتے سے یہ گاؤںدنیا بھر میں ’’ گڑیوں کے گاؤں ‘‘ کے نام سے معروف ہوگیا ہے۔لوگوں کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ گڑیوں کا ایک گاؤں پاکستان کے شہر اوکاڑہ کے نزدیک، ’’ٹھٹھہ غلام کا دھیروکا‘‘نامی قصبے کو بھی کہا جاتاہے، جہاں کی خواتین ایک جرمن خاتون سنیتا سلرکے قائم کردہ دست کاری مرکز میں گڑیا سازی کا کام کرتی ہیں، ان کی بنائی ہوئی گڑیوں میں پاکستانی ثقافت کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ سنیتا سلرنےاوکاڑہ کی دیہی خواتین کے اس کام کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی دلوائی ۔ ان کے شاہ کار ہینوور ایکسپو 2000، دبئی اور نورمبرگ کےعالمی میلوں ، آئس لینڈ کے گڑیوں کے عجائب گھر اور یونان کے ’’بیناکی ‘‘عجائب گھرمیں رکھے گئے ہیں۔ کشمیری، پنجابی، سندھی، بلوچی اور کالاشی لباس اور زیورات میں سجی ہوئی یہ گڑیا، پاکستان میں تین سےچار ہزار روپے اور مغربی ممالک میں ایک سو ڈالر میں فروخت ہوتی ہیں، وہاںاوکاڑہ کا یہ گاؤں ’’گڑیوں کے گاؤں‘‘ کی حیثیت سے مشہورہے جب کہ ناگورو گاؤں کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ اس کی کثیرآبادی صرف گڑیوں پر مشتمل ہے۔

جاپان کے جنوب مغرب میں شکوکو نامی گرم مرطوب آب و ہوا والے جزیرے میں کئی قصبات ہیں، جن میں سے بلند و بالا پہاڑوں کے درمیان ناگورو کا قصبہ بھی ہے۔ گزشتہ چندعشروں کے دوران جاپان کے تقریباً دس ہزار دیہی علاقوں کے باشندے معاشی حالات کی ابتری کے باعث ہجرت کرکے شہری علاقوں میں رہائش پذیر ہوگئے جب کہ بوڑھے والدین ، ان ہی علاقوں کے کھیتوں میںکاشت کاری کے کاموں کے لیےچھوڑ گئے۔ اس جزیرے کی مرکزی شاہ راہ پر واقع ایک گاؤں تو مکمل طور سے ویران ہوگیا ہے ، وہاں کی تمام آبادی اپنے گھروں اور دکانوں کو تالا لگا کر شہروں میں منتقل ہوگئی ہے جب کہ ایک پرائمری اسکول، طلباء کی عدم موجودگی کے باعث ویران پڑاہے۔ ناگوروکے قصبے کو بھی ان ہی حالات سے گزرنا پڑا ۔ چند عشرے قبل یہ کثیر آبادی والا گاؤں تھا، لیکن دور دراز جزیرے اور دشوار گزار پہاڑی مقام پر واقع ہونے کی وجہ سے اس کے باسی بیرونی دنیا سے کٹے ہوئے تھے جس کی وجہ سے انہیں معاشی مسائل درپیش تھے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے گاؤں کی آبادی کے زیادہ تر افراد نے روزگار کی تلاش میں شہری علاقوں میںسکونت اختیار کرلی، جس کے باعث سیکڑوںنفوس کی آبادی والا یہ گاؤں سکڑ کر صرف 35افراد پر محیط ہوگیا۔ یہاں سکونت پذیر لوگوں میں سوکیمی نامی بوڑھا شخص بھی ہے جس کی بیٹی ایانو سوکیمی اوساکا میں رہتی تھی۔وہ ایک اچھی مصورہ ہونے کے علاوہ گڑیا سازی کے ہنر میں بھی مہارت رکھتی ہے۔تیرہ سال قبل ، اُسے جب اس گاؤں کی آبادی کے انخلاء کی خبر ملی، ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کا بوڑھا باپ سخت علیل ہے تو وہ اس کی تیمارداری کے لیےاپنے گاؤں واپس آگئی، جہاں ہر طرف ویرانی اور سناٹے کا راج تھا، وسیع و عریض قصبے میں شاذو نادر ہی کوئی انسان دکھائی دیتا تھا۔ باپ کی دیکھ بھال کے بعد اس کے پاس جو وقت بچتا، وہ گاؤں میں چہل قدمی کرتے ہوئے گزارتی، جہاں ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا، جس کی وجہ سے اسے اکیلے پن کا شدید احساس ستاتا تھا۔ ابتدا میں اس نے اجڑے ہوئے کھیتوں میں بیج ڈال کر سبزی اور پھل اگانے کی کوشش کی لیکن کھیتی باڑی کا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس میں ناکام رہی تو اس نے کھیتوں کی بچی کھچی فصلوں کو اجڑنے سے بچانے کے لیے انسانی شکل کے پتلے بنا کر کھڑے کردیئے۔ وہ فاضل وقت میں اپنے باپ کے پاس بیٹھ کر چائے کی چسکی لگاتے ہوئے اس سے گفتگو کیا کرتی جب کہ اس کا باپ سوکیمی، مشروبات کے گھونٹ بھرتے ہوئے اسے یہاں رہنے والوں کی زندگی سے متعلق قصے سنایا کرتا تھا جنہیں سن کر وہ یہاں کے رہائشیوں کے کرداراور روزمرہ کے مشاغل سے آگاہ ہوتی۔ اِس وقت اس کی عمر 67سال ہے اور ناگورو کی آبادی کےمعیار کے مطابق، اس عمر میںوہ ایک جوان العمر خاتون ہے جب کہ اس کے والدسوکیمی87سال کی عمر کے ہونے کے باعث اس گاؤں کے معمر ترین شخص ہیں۔ اس نے گاؤں میں رہنے والے ایک بزرگ جوڑے سے دوستی کرلی تھی، جنہیں وہ اکثر چائے پر بلالیتی اور چائے نوشی کے دوران وہ مذکورہ بوڑھی خاتون اور اس کے معمر شوہر سے گاؤں کے سابقہ باسیوں کے بارے میں آگاہی حاصل کرتی تھی۔

اپنے والد اور بزرگ دوستوں سےگزرے ہوئے وقت کی باتیں کرتے ہوئے وہ دنیا سے کوچ کرنے اور گاؤں سے ہجرت کرکے شہروں میں بسنے والوں کے خاکے اپنے ذہن میں اجاگر کرتی جس کے بعد ان کی شبیہ کو پنسل ورک کے ذریعے کینوس پر منتقل کرتی تھی، اس طرح اسے وقت گزاری کا ایک دل چسپ مشغلہ ہاتھ آگیا۔ وہ گڑیا بنانے کے کام میں بھی ماہر تھی، اس نے اپنے اس فن سے استفادہ کرنے کا فیصلہ کیا اور مصوری و دست کاری کے فنون کو یکجا کرکے انوکھی تخلیقات شروع کیں۔اسے اپنے اس مشن کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سازوسامان کی ضرورت تھی۔ بوسیدہ کپڑے اور ریشمی لبادے اسے گاؤں کے خالی گھروں سے دستیاب ہوگئے ،جب کہ بھوسہ اور گھاس پھوس اس نے کھیتوں اور مویشیوں کے باڑےسے اکٹھا کیا۔ بڑی سوئیاں اور دھاگہ 90کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گاؤں کے بازار سے خریدا۔پانچ سے چھ فٹ لمبے کپڑے کےٹکڑے کے بالائی سرے پر اس نے انسانی خدوخال ، زندگی سے بھرپور احساسات کے ساتھ بنائے، پھر ان کو سلائی کرکےجوڑااور ان کے اندر بھوسا اور گھاس پھوس بھرا ، ہاتھ ، پیر اور دوسرے جسمانی اعضاء تخلیق کرنے کے بعد انہیں وہ پیراہن اور پاپوش پہنائے گئے، جو وہ اپنی عام زندگی میں زیب تن کیا کرتے تھے۔ اس کے بعد انہیں ان کے حقیقی کردار کے مطابق ، مختلف مقامات پر ایستادہ کیا گیا۔ سب سے پہلے اس نے اپنے والد کی شکل اور جسامت کو ایک بڑے گڈے کی صورت میں بنایا، جنہیں بستر علالت پر لیٹا دکھایا گیا تھا۔ ان کے چہرے پر بیماری کی تکلیف اور کرب کے تاثرات نمایاں تھے۔ والد کی طرف سے حوصلہ افزائی ملنے کے بعد اس نے اپنی آں جہانی والدہ کی شکل کی گڑیا بنائی، جنہیں کچن میں کام کرتے ہوئے دکھایا گیا، اس گڑیاکے چہرے پر وہی جذبات اجاگر کیے گئے جو ایک عورت کے خوراک کی تیاری کے دوران ہوتے ہیں۔ اس کے بعدایانو نے اپنے بچھڑے ہوئے رشتہ داروں کے خدوخال کو بڑی بڑی گڑیا ںاور گڈوں کی شکل میں ڈھالااور انہیں ، ان ہی کاموں میں مصروف دکھایا گیا، جو وہ گاؤںمیں کرتے تھے۔ اپنی فن کارانہ صلاحیتوں اور ذہانت کو بروئے کار لا کر اس نے انسانی قدوقامت کی 350گڑیا اور گڈے بنائے۔ کچھ گڈے اس نے بچوں کے بھی بنائے جنہیں نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں مصروف دکھایا گیاہے۔ اپنے سابقہ پڑوسیوں کی شباہت کی بھی گڑیا بنائیں، جنہیں ان کے گھروں میں ایستادہ کیا گیا۔ اس کے بعد اس نے تقریباً دو سو گڑیا نزدیکی قصبات کے باسیوں کی بنائیں جنہیں ان کے گاؤں میں آویزاں کیا گیا۔ اسے سودا سلف اور کھانے پینے کی اشیاء خریدنے کے لیے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت طے کرکے جزیرے کے دوردراز قصبے میں جانا پڑتا تھا،طویل راستے کی بوریت دور کرنے کے لیے اس نے ایک گڈا بنا یا جسے وہ ہم سفر کے طور پر اپنے ساتھ رکھتی ہے، دوران سفر وہ اس سے باتیں بھی کرتی جاتی ہے، جس کی وجہ سے اس کا سفر دل چسپ انداز میں کٹ جاتا ہے اور اسے راستے کی صعوبتوں کا احساس بھی نہیں ہوتا۔

سیاحوں کا ایک گروپ جب جاپان کے مختلف شہروں کی سیر کرتا ہوا ،شکوکو جزیرے کے اس پہاڑی قصبے میں پہنچا تو اسے جیتے جاگتے انسانوں سے زیادہ انسانی قامت کے گڑیا اور گڈے نظر آئے جنہیں مختلف مشاغل میں مصروف دکھایا گیا تھا،یہ ان کے لیے حیران کن مناظر تھے ۔ یہاں ان کی ملاقات ایانو سوکیمی سے ہوئی ، جس نے ان کے گائیڈ کے فرائض انجام دیتےہوئے انہیں اس قصبے کی سیر کرائی، سیاحوں کے مذکورہ گروپ نے اپنے ملک میں واپس پہنچ کر مختلف جریدوں میں اس قصبے سے متعلق فیچر تحریر کیے اور اسے ’’گڑیوں کے گاؤں‘‘ کا نام دیاگیا۔ ان مضامین کے شائع ہونے کے بعد اس قصبے کو عالم گیر شہرت حاصل ہوگئی اور دنیا بھر سے سیاحوں نے اس قصبے کا رخ کیا، جن کے گائیڈ کے فرائض کی انجام دہی کی صورت میں’’ ایانو‘‘ کومعقول آمدنی ہوجاتی ہے، یوں اسے اپنے اور اپنے والد کی گزر اوقات کے لیے روزگار کے سہل ذرائع بھی میسر آگئے ہیں۔ سیاح جب اس گاؤں کی سیر کے لیے آتے ہیں تو انہیں بس اسٹاپ کے چھپرے کے نیچے زندہ انسانوں کی بجائے کپڑے سے بنائے گئے بڑے بڑے پُتلے بسوں کے انتظار میں کھڑے نظر آتے ہیں،جن کے چہرے پر وہی تاثرات دکھائی دیتے ہیں، جو سواری کے منتظر مسافروں کے چہروں پر ہوتے ہیں۔ اسی شیڈ کے نیچے بنچ پر بیٹھے ہوئے بوڑھے افراد گفتگو میں منہمک دکھائی دیتے ہیں۔ جب وہ اس سڑک پر چلتے ہوئے کھیتوں کے قریب سے گزرتے ہیں تو گڈے، ہل چلاتے، بیج ڈالتے ، کھیتوں میں پانی دیتےاور کاشت کاری کے دیگر امور نمٹاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ان کے جسم پر وہی بوسیدہ ملبوسات ہوتےہیں جو کسانوں کے لیے ان کے کام کاج کے دوران ضروری ہیں۔ان شاہ کاروں کی خالق، ایانو سوکیمی جو اس دوران گائیڈ کی صورت میں ان کے ساتھ ہوتی ہے، کپڑے کے ان مجسموں کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہے۔ایک مرتبہ سیاحوں کا ایسا ہی ایک گروپ، جب انسانوں سے خالی اس گاؤں کی سیر کرتا ہواپرائمری اسکول کی عمارت میں پہنچا تو اسےایک کلاس روم میں کپڑے اور گھاس پھوس سے بنائے گئے درجنوں گڈے اور گڑیاڈیسک کے پیچھے بنچوں پر بیٹھے نظر آئے، جو حقیقی طلباء کی طرح انتہائی انہماک کے ساتھ بلیک بورڈ کے سامنے کھڑے، استاد کا لیکچر سن رہےتھے،جب کہ دوسری جماعت کے کمرے میں گڈے، گڑیاں( مصنوعی طالب علم )کتابیں سامنے رکھے ہوئے،پڑھائی شروع ہونے کا انتظار کرتے نظر آئے۔ دریا کے کنارے ایک شخص بنسی ڈالے مچھلیاں پکڑتادکھائی دیا،قریب جانے پر معلوم ہوا کہ وہ بھی کپڑے سے بنایا گیا ایک گڈاتھا۔ ایک نو عمر لڑکاجو بیس بال کی کیپ پہنے ہوئے تھا، کٹی ہوئی لکڑیوں کے ڈھیر کے پاس جھکا ہوا نظر آیا۔ سبزیوں کے اسٹال پر لوگ سبزیاں خریدتے دکھائی دیئے جب کہ تپتی ہوئی دھوپ میں ایک شخص درخت کے نیچے آرام کرتا ہوا ملا، جو اصل کی ہو بہونقل تھی، گڑیا گڈوں کی شکل میں چلتے پھرتےانسانوں کی طرح پورے گاؤں میں انہیں لاتعدار گڈے اور گڑیا دیکھنے کو ملے۔ درحقیقت یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد گاؤں ہے، لیکن کیا اس کی تخلیق کار ، اس سونے گاؤں میں، باپ کی صورت میں واحد رفیق کی وفات کے بعد بھی اپنے بنائے ہوئےخاموش کرداروں کے ساتھ رہ سکے گی یا وہ بھی گڑیوں کے اس گاؤں کی سکونت ترک کرکےشہر کی طرف نقل مکانی کرجائیںگی۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 13 Articles with 18468 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.