قائد تحریک آزادی - علامہ فضل حق خیر آبادی

اسلاف کے زندہ جاوید کارناموں سے آگاہ رہنا اور دوسروں کو آگاہ رکھنا، آرام پرست غفلت شعاروں کا کام نہیں بلکہ بیدار مغز وفاداروں کا کام ہے نفسیات انسانی کا یہ فیصلہ بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ ہر انسان اپنی اندرونی صفات کے دائرے کے گرد گھومتا ہے۔ اس کی ساری چاہتیں، محبتیں انہیں فطری صفات کی مرہون منت ہوتی ہیں۔ علم دوست انسان اہل علم کو پسند کرتا ہے انہیں کے گیت گاتا ہے، انہیں کے کارناموں کو سن سنا کر اپنے جذبات کی تسکین کا سامان کرتا ہے۔ جن لوگوں کو طاقت و قوت پسند ہے وہ ہر وقت رستم و سہرات کے قصوں میں مگن رہتے ہیں۔ جو لوگ عدل و انصاف کو پسند کرتے ہیں وہ ہمیتہ نوشیرواں عادل جیسے لوگوں کی کہانیوں سے دل بہلاتے ہیں۔ غرضیکہ ہر شخص اپنے ہی جذبات و احساسات کا اسیر ہے۔

خوش بخت ہوتے ہیں وہ لوگ جنہیں صفات کمال سے حصہ ملا ہے۔ خود بھی خوگر ادب و احترام ہیں تو صاحب عزت و احترام سے محبت کرتے ہیں۔ خود اہل علم ہیں تو علماء سے پیار بھی ان کی فطرت کا حصہ ہے۔ اگر ان کے رگ و ریشے میں دین اسلام کی حمایت و محبت کا جذبہ کارفرما ہے تو اہل دین سے ان کی وابستگی چنداں قابل تعجب نہیں۔ اگر اللہ تعالٰی اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر مشروط غلامی کا طوق اپنے گلے میں سجانے والے ہیں تو اس راہِ حق کا ہر راہی ان کا قافلہ سالار ہے اور اسی راہ کے ہر مسافر سے انہیں پیار ہے۔ یہ ساری محبتیں، چاہتیں فدا کاریاں کسی خارجی دباؤ یا جبر سے نہیں بلکہ جی جان سے اٹھنے والا جذبہ دلبرانہ ہے۔ بالکل اسی طرح جو لوگ انبیاء کرام علیھم السلام، اولیا اللہ اور علماء حق سے محبت کرتے ہیں یہ محبت ان کے صفائے باطن کی دلیل ہے۔ کیونکہ چاند اور چکور کا رشتہ یا گل و بلبل کی محبت، شمع اور پروانے کی بے تابی کسی دلیل کی محتاج نہیں۔

اسی لئے اہل سفا نے ہمیشہ اہل وفا کو جی سے چاہا ہے اور ٹوٹ کے چاہا ہے۔ انہوں نے اس چاہت کا اظہار کبھی تقریر سے کیا تو کبھی تحریر سے، کبھی کتابوں کے ذریعے، کبھی رسالوں سے، کبھی سادہ جذبات سے تو کبھی حوالوں سے۔ ان تمام کوششوں کا مقصد یہ رہا کہ عظیم المرتبت ہستیوں کے چاند چہروں پہ گردشِ لیل و نہار سے غبار نہ پڑے۔

ان چاند سے چہروں میں ایک چہرہ خاتم الحکماء علامہ فضلِ حق خیر آبادی علیہ الرحمہ کا ہے جو سلطنت کے بے تاج بادشاہ ہو گزرے ہیں۔ جنہوں نے کامل ٥٠ سال علم و حکمت کے دریا بہائے۔ سر زمین ہند پر ایسا با کمال آفتاب شاید ہی چمکا ہو جو ایک طرف ارسطو اور افلاطون کی کوتاہیوں کے ازالے کر رہا تھا تو دوسری جانب عربی علم و ادب میں فرزدق، لبید اور نابغہ کے ہم پلہ نظر آ رہا تھا۔ علامہ فضل حق خیر آبادی قافلہء حریت کے اس جانباز قافلہ سالار کا نام ہے جس نے دزدان قافلہ انسانیت فرنگیوں کی سنگینیوں کے سائے میں فرنگی نظریات کا ابطال کیا اور حق کے آفتاب عالمتاب کو نصف النہار تک پہنچا دیا۔ چار ہزار سے زائد عربی اشعار کا خالق، الٹے پاؤں لوٹو تو امراءالقیس کا ثانی، واپس آئو تو آرزدہ، صہبائی، مومن اور غالب کا جانی مرزا اسد اللہ خان غالب اردو کا سب سے بڑا شاعر جس کی نظر کسی پہ ٹکتی نہیں تھی، وہ بھی علامہ کا قدرداں اور فیض یافتہ تھا۔

سلسلہ ولی اللٰہی کی مشہور علمی و فکری شخصیت حضرت مولانا فضل حق خیر آبادی چشتی علیہ الرحمہ نے خیر آباد میں یہ کر یہ دیکھا کہ مغلیہ خاندان اور ان کی حکومت و سطوت کی حیثیت چراغِ سحری سے بھی کم اور چند سانسوں کہ مہمان ہے۔ سراج الدین بہادر شاہ ظفر کی حکومت شاہی قلعہ کے اندر تک محدود ہے اور قلعہ سے باہر انگریز مسلط ہے بلکہ یوں محسوس کیا کہ بہادر شاہ ظفر اور ان کے جانثار ساتھیوں کی زندگیوں بھی میجر جنرل ہڈسن کے رحم و کرم پر تھیں۔ مغلیہ خاندان ریشہ دوانیوں کی آماجگاہ بن چکا تھا۔ انگریز جسے چاہتا اسے گرفتار کر کے اپنی مرضی و منشا کے مطابق سزاوار قرار دیتا۔ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ کا انتقال ہو چکا تھا۔ انگریزوں سے مقابلہ کرنا اگرچہ بظاہر آسان نہ تھا کیونکہ برصغیر کے جاگیردار، نواب اور رئوسا انگریزوں کے طرفدار بن چکے تھے۔ علاوہ ازیں اسماعیل دہلوی اور ان کے ساتھی بھی نہ صرف برٹش حکام کی غلامی اختیار کر چکے تھے بلکہ ان برطانوی حکمرانوں کی حمایت میں مسلمانانِ ہند کے خلاف تلوار اٹھا کر گلی گلی، کوچہ کوچہ گھوم کی خود کو انگریزوں کی “رعیت“ جتا تھے تھے۔ یہ وہ افسوسناک واقعات ہیں جسے مرزا حیرت دہلوی کی زبانی سنئے۔
“کلکتہ میں جب مولانا اسماعیل نے جہاد کا وعظ فرمانا شروع کیا اور دکھوں کے مظالم کی کیفیت پیش کی تو ایک شخص نے دریافت کیا۔ آپ انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ کیوں نہیں دیتے؟ آپ نے جواب دیا کہ ان پر جہاد کسی طرح واجب نہیں ہے۔ وہ ذرا بھی دست درازی نہیں کرتے۔ ہمیں ان کی حکومت میں ہر طرح کی آزادی ہے بلکہ ان پر کوئی حملہ آور ہو تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس سے لڑیں اور اپنی گورنمنٹ پر آنچ نہ آنے دیں۔(مرزہ حیرت دہلوی: حیات طیہ، ص:٢٩٦، مطبوعہ فاروقی دہلی طبع اول)“

بلکہ میاں نذیر حسین دہلوی نے تو انگریز کو “خدا کی رحمت“ قرار دیا۔ تثلیت پرستوں کو خدا کی رحمت قرار دے کر ان کی ایسٹ انڈیا کمپنی کو مضبوط کرنے میں ایسے لوگ پیش پیش تھے۔ اندریں حالات حجرت مولانا فضل حق دینی بقا و استحکام اور ملک کو انگریزوں کے اثر و نفود سے روکنے کیلئے میدانِ جہاد میں کود پڑے۔
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

حضرت مولانا کو انگریزوں نے فتوٰی جہاد دینے اور عوام کو بغاوت پر اکسانے کی پاداش میں دہلی سے لکھنو میں لے جا کر مقدمہ تیار کیا اور یہیں علامہ پر انگریزوں نے فرد جرم عائد کر کے جزیرہء انڈمان بھیج دیا۔ حضرت علامہ کا جذبہ اس قدر زیادہ بڑھا ہوا تھا کہ آپ کی چند تقریروں اور آپ کے فتویٰ جہاد نے مسلمانوں میں انگریزوں سے بے حد نفرت پیدا کر دی اور انگریزوں کو خطرہ لاحق ہوا اور آپ کو باغی قرار دے کر جزیرہ انڈمان بھیج دیا گیا۔

آپ نے جو دینی اور حربی کارنامے سرانجام دیے وہ خود آپ کے مخالفین کی نوک قلم پر آ گئے۔ جنانچہ اسی سلسلے میں محمد میاں دیوبندی دہلوی ناظم جمعیت علماء دیوبند کا بیان ملاحظہ ہو “جہاد حریت کے علمبردار اور کٹہرہ عدالت میں ایک سیاسی ملزم کی حیثیت سے حاضر ایک طر زندگی کا ہر ایک دور ناز و نعم، عزت و عظمت سے ہم کنار ہے تو زندگی کا ایک دور پابند سلاسل اور دیارِ غربت میں وحشت بداماں“۔

حضرت علامہ نے ایک دن بعد نماز جمعہ جامع مسجد میں انگریزوں کے خلاف فتوٰی پڑھ کر سنایا تو بہتوں کیلئے تشویش کا باعث بنا۔ اس فتویٰ پر مفتی صدر الدین آزردہ اور دوسرے پانچ علماء کے دستخط تھے۔ اس کا شائع ہونا تھا کہ جدوجہد نے ایک نیا زور پکڑا اور جگہ جگہ انگریزوں کے چھکے چھوٹ گئے۔ تاریخ زکاء اللہ کے مطابق اس فتویٰ کے بعد صرف دہلی میں نوے ہزار سپاہ جمع ہو گئی۔ بادشاہ گرفتار کر کے قلعہ میں بند کر دیے گئے۔ ٣ شاہزادوں کو قلعہ میں داخل ہوتے ہی گولی کا نشانہ بنا دیا گیا اور ان کے سروں کو خوان پوش سے ڈھک کر خوان میں لگا کر بادشاہ کے سامنے بطور تحفہ پیش کیا گیا۔ علامہ دہلی سے روانہ ہو گئے تھے۔ ١٩ ستمبر ١٨٥٧ء کے بعد ہندوستانیوں پر مصائب کے جو پہاڑ ٹوٹے اس کی نظیر تاریخ میں مشکل سے ملے گی۔ جن مظالم کو لکھتے ہوئے دل لرزتا، سینہ قلم شق اور جگر قرطاس پارہ پارہ ہوتا ہے۔ زندہ مسلمانوں کو سور کی کھال میں سلوا کر کڑھائو میں ڈلوانا۔ فتح پوری مسجد سے قلعہ کے دروازے تک درختوں کی شاخوں پر مسلمانوں کی لاشوں کو لٹکانا، مساجد کی بے حرمتی، جامع مسجد دہلی کے حجروں میں گھوڑوں کا باندھنا، حوض میں وضو کے پانی کی جگہ گھوڑوں کی لید ڈلوانا، ناقابل معافی و غیر ممکن تلافی جرم ہیں۔ اب قتل و غارت کا بازار گرم ہو چکا تھا۔ علامہ فضل حق کو بھی باغی قرار دیا گیا۔

سرسید کے حامی انتظام اللہ شہابی آپ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ “حاکم سیتاپور نے گرفتار کیا۔ لکھنو لائے گئے اور بغاوت کے جرم میں مقدمہ چلایا گیا۔ جج کے سامنے آپ کی موجودگی میں گواہ سرکاری پیش ہوا۔ اس نے آپ کو دیکھا تو کہا کہ یہ وہ فضل حق نہیں ہیں جنہوں نے جہاد کا فتویٰٰ دیا۔ وہ دوسرے شخص ہیں۔ آپ فوراً بول اٹھے پہلی اطلاع اس کی صحیح ہے۔ اب غلط کہہ رہا ہے۔ مجھ پر جو جرم عائد کیا گیا ہے وہ درست ہے۔ میں نے ہی فتویٰ لکھا اور آج بھی میری وہی رائے ہے۔ جج نے حبس دوام بعبور دریائے شور کی سزا تجویز کی چنانچہ عدالت نے حبس دوام بعبور دریائے شور (کالا پانی) کا حکم سنایا۔ علامہ نے بکمال مسرت و خندہ پیشانی سے اس سزا کو قبول فرمایا اور انڈمان گئے وہیں ١٢ صفر المظفر ١٢٧٨ہ کو وفات پائی۔“ (انتظام اللہ شہابی، علمائے حق اور ان کی مطلومیت کی داستانیں، ص:٥٦، دینی بک ڈپو دہلی)

حضرت علامہ کے فتویٰ جہاد سے پورا برصغیر الجہاد الجہاد کے نعروں سے گونج اٹھا جس سے فرنگی دیواستبداد کے صنم کدوں میں ارتعاش پیدا ہو گیا۔ مستقیم احسن فاضل دیوبند اپنے ایک طویل مقالے بعنوان مولانا فضل حق خیر آبادی ہفت روزہ خدام الدین میں لکھتے ہیں “برا ہو تاریخ کا۔ اس نے اپنے حافظہ سے ایسی ایسی جانباز، حق گو، بہادر اور جامع کمالات شخصیتوں کو دودھ کی مکھی کی طرح نکال پھینکا جنہوں نے اپنے دور میں وقت کے تیز و تند طوفانوں سے بو خوف و خطر ٹکر لی اور پیٹھ نہیں دکھائی۔ مولانا فضل حق تاریخ کے ان جواں مرد اور نڈر مجاہدین میں سے تھے جن کی جرات و ہمت اور حق گوئی و بے باکی نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا مگر تاریخ کے صفحات میں ان کو شایانِ شان کیا کوئی معمولی جگہ بھی نہیں مل سکی۔

مولانا فضل امام کا وہ شہزادہ جو کبھی ہاتھی اور پالکی پر بیٹھ کر باپ کی آغوش محبت میں درس پاتا تھا آج وہی جزیرہ انڈمان میں اپنے سر پر ٹوکرا اٹھا رہا ہے جس کو دیکھ کر بعض انگریز بھی آنکھوں سے آنسو بھر لائے۔ ادھر علامہ کے صاحبزادے مولوی شمس الحق اور خواجہ غلام غوث وغیرہ رہائی کی سعی میں جان توڑ کوشش کر رہے تھے یہاں تک کہ مولوی شمس الحق صاحب پروانہ رہائی حاصل کر کے جزیرہ انڈمان روانہ ہو گئے۔ وہاں جہاز سے اتر کر شہر گئے تو ایک جنازہ پر نظر پڑی جس کے ساتھ بڑا اژدھام تھا۔
عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

دریافت کرنے پو معلوم ہوا کہ کل ١٢ صفر ١٣٠٨ھ کو علامہ کا انتقال ہو گیا اور اب سپرد خاک کرنے جا رہے ہیں۔

مجاہد جلیل حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی علیہ الرحمہ کی علمی و مجاہدانہ زندگی کی یہ ایک مختصر و ناتمام داستان عبرت ہے جس میں علامہ کے مختلف گوشہ ہائے زندگی کے اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہندوستان کے مانے ہوئے شاعر مرزا غالب نے شعر و سخن میں جس کی صلاح کو قبول کیا ہو۔ سرسید احمد خان بانی مسلم یونیورسٹی و دیگر فاضل معاصرین نے جس فضل حق کو وقت کا امام و پیشوا سمجھا ہو۔ نواب یوسف علی خان والی رامپور نے جس سے شرف تلمذ کیا اور محکمہ نظامت بھی آپ کے سپرد کر دیا ہو۔ دلی سے روانگی کے وقت سلطنت مغلیہ کے آخری تاجدار مرزا ابو ظفر بہادر شاہ ظفر نے علامہ کو اپنا دوشالہ اوڑھا دیا اور وقت رخصت آبدیدہ ہو کر کہا چونکہ آپ جانے کو تیار ہیں میرے لئیے بجز اس کو کوئی چارہ نہیں کہ میں بھی اس کو منظور کر لوں مگر خدا علیم ہے کہ لفظ وداع زبان پر لانا دشوار ہے۔ واحسرتا! کہ آج اسی فضل حق کے دامن علم و ادب پر کچھ نام نہاد مولوی کیچڑ اچھال رہے ہیں اور صفحات تاریخ سے اس مرد مجاہد کا نام مٹا دینا چاہتے ہیں۔

کہاں حضرت علامہ فضل حق کا علمی رعب اور کجا مولوی اسماعیل دہلوی مگر افسوس! کہ آج اسماعیل دہلوی کی تقویہ الایمان جس کا ہر صفحہ توہین و تنقیص اولیاء سے بھرپور ہے اس کو تو عین اسلام کہا جا رہا ہے اور حضرت علامہ کی تصانیف جن کی ہر ہر سطر میں علم و فن کے سینکڑوں نکات ہیں ان سے بے اعتنائی کا یہ عالم ہے کہ صفحہ تاریخ پر مصنف کا نام دیکھنا بھی گوارا نہیں۔

علامہ فضل حق خیر آبادی علیہ الرحمہ نے اسماعیل دہلوی کی کتاب تقویہ الایمان میں موجود عقائد باطلہ و فاسدہ پر “تحقیق الفتوٰی فی ابطال الطغوی“ اور امتناع النظیر“ تصفیف فرمائیں اور مناظرے میں اسماعیل دہلوی کو چیلنج کیا جو شیر بیشہ حق و صداقت کی گرج کے سامنے نہ ٹھہر سکا اور راہِ فرار اختیار کی۔ (ان عقائد باطلہ کو یہاں پیش کرنا ممکن نہیں ناظرین تقویہ الایمان ملاحظہ فرمائیں)

امتناع نظیر مے متعلق علامہ نے مفصل اور مضبوط دلائل دیے ہیں جن میں انہوں نے ثابت کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ جل شانہ نے خاتم النبیین بنایا ہے اس لئے اس عالم میں حضور کا نظیر پیدا ہونا محال و ممتنع بالذات ہے۔ پھر جب حضور نذیرا للعالمین اور رحمہ للعالمین ہیں تو یہ جہاں چھوڑ کر اور بھی کئی جہاں ہوں، لاکھوں کروڑوں جہاں ہوں بلکہ لا تعداد جہاں ہوں تو بھی خاتم الانبیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی رہیں گے۔ اسماعیل دہلوی کا یہ کہنا کہ اللہ چاہے تو کروڑوں محمد جیسے پیدا کر سکتا ہے نری گمراہی، ضلالت اور حماقت ہے۔غالب نے بھی اپنے اشعار میں امکان نظیر کے خیال کو رد کرتے ہوئے علامہ کی رائے سے اتفاق کیا ہے۔

ان نام نہاد مولویوں کی نظر میں وہی فضل حق انگریزوں کا پٹھو ہے اور مولوی اسماعیل دہلوی جس نے انگریز دوستی میں ہزاروں مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہا دیا اور جس کے دامن پر نہ جانے کتنے بے گناہوں کے خون کی چھینٹیں ہیں۔ اسی طرح سرحد کے آزاد جنگجو پٹھانوں میں خلفشار پیدا کرکے ان کی لڑکیوں سے جبرا نکاح کے احکامات صادر کرکے ان عقائد میں خلل ڈال کر ان کے خلاف خانہ جنگی کو جہاد فی سبیل اللہ کا نام دینا؛ انگریزوں کے دشمن سکھوں پر دبائو دال کر انہیں انگریزون سے مصالحت کیلئے مجبور کرنا؛ خود مسلمانوں کے ساتھ لڑتا ہوا مارا جانا اور اس کے پیر کا اپنے آپ کو غائب کر دیا جس کا آج تک نہیں پتہ چل سکا اسی خون آلودہ دامن کو یہ مولوی اپنے پروپیگنڈے اور زور قلم سے پاک کرنا چاہتے ہیں۔ مگر یہ راز سربستہ اس وقت عیاں ہو گا جب قاتل خود ہی میدان قیامت میں یہ کہتا ہوا اٹھے گا:
دامن کو لیے ہاتھ میں کہتا تھا یہ قاتل
کب تک اسے دھویا کروں لالی نہیں جاتی

ناظرین کی انصاف پسند نگاہ پر اعتماد و بھروسہ ہے کہ آپ حضرات نے اس مختصر سی تحریر کے بعد اپنے قلب و ضمیر کا فیصلہ حاصل کر لیا ہو گا کہ مولوی اسماعیل دہلوی کی جنگ زرگری کو حضرت علامہ کی تحریک جہاد سے کوئی واسطہ اور نسبت نہیں۔ مولوی اسماعیل افغانی پٹھانوں سے جنگ کر رہا تھا اور انگریز بہادر یہاں سے ٧ ہزار کی ہنڈی بھیج رہا تھا اور حضرت علامہ جیسے بلند پایہ شخصیت جزیرہ انڈمان میں کسمپری کے عالم میں عزم و استقلال کی ایک تاریخ مرتب کر رہی تھی۔

سچ ہے کہ دونوں اپنے پیچھے ایک تاریخ چھوڑ گئے مگر فرق اتنا ہے کہ مولوی اسماعیل کی تاریخ نے اقوام عالم کے سامنے قوم مسلم کی گردن جھکا دی اور حضرت علامہ فضل حق کی تاریخ نے ہماری علمی و قومی تاریخ کو سرفرازی بخشی۔

اگر آج کوئی متعصب اہل قلم حضرت علامہ کی حربی زندگی اور انگریزوں کو خلاف جدوجہد کرنے سے انکار کرے تو ان کی اپنی مرضی مگر حقیقت کو چھپایا نہیں جا سکتا اور حقائق کو مسخ نہیں کیا جا سکتا۔

حضرت علامہ کی زندگی کے دو پہلو ہیں۔ آپ کی علمی و ادبی زندگی دیکھ کر بوعلی سینا، غزالی، رازی، ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہم کی یاد تازہ ہوتی ہے اور آپ کے مجاہدانہ کردار سے حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کی مظلومیت کی خونی داستان سامنے آ جاتی ہے۔ اللہ کریم حضرت علامہ کی قبر مبارک پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین۔۔۔۔۔۔۔۔۔بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم
Hafiz Jamil
About the Author: Hafiz Jamil Read More Articles by Hafiz Jamil: 12 Articles with 52237 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.