کیا نا اُمید ہوا جائے؟

پتہ نہیں کیوں میرا دل بھی کبھی کبھی بیٹھ جانے کو چاہتا ہے، اخباروں، میڈیا چینلز پر پھیلی ہوئی شور مچاتی خبریں، ڈکیتی، چوری، بدکاری اور بدعنوانی سے بھرے رہتے ہیں۔ الزام در الزام لگانے کا ایک ایسا ماحول بن گیا ہے کہ لگتا ہے ملک میں کوئی ایماندار آدمی ہی نہیں رہ گیا، ہر آدمی شک و شبہ کی نظروں سے دیکھا جا تا ہے، جو جتنے ہی اونچے عہدے پر فائز ہے ان میں اتنی ہی زیادہ برائیاں نظر آتی ہیں۔ اس کا اندازہ تو آپ روزآنہ اخبار پڑھ کر اور ٹی وی دیکھ کر لگا ہی چکے ہونگے۔ کبھی میرے استاد نے مجھ سے کہا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب بدعنوانی عروج پر ہوگی، کرپشن کا دور دورہ ہوگا۔ آج ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ وقت آ چکا ہے۔ اس وقت جو حالات ہیں اورایسے میں جو جو خبریں آپ اور ہم دیکھ رہے ہیں یعنی ایسے وقت وہی خوشحال نظر آتا ہے اور اپنی زندگی خیر و عافیت کے ساتھ گزار رہا ہے، جو کوئی کام نہیں کرتا یا کچھ نہیں کرتا، جو کچھ بھی کرے گا تو اس کے اندر لوگ طرح طرح کی برائیاں ڈھونڈھیں گے اور اس کی ساری خصوصیتوں کو بھلا دیں گے۔ ان کی برائیوں کو بڑھا چڑھا کر لوگوں کے سامنے پیش کریں گے۔ عیب کس میں نہیں ہوتے؟ یہی وجہ ہے کہ ہر آدمی قصور وار نظر آ رہا ہے۔ رجحان اگر ایسی ہی ہے تو وثوق ہی عوام کا موضوع رہے گا۔ کیا ایسا ہی خواب قائد اعظم محمد علی جناح نے دیکھا تھا۔ افسوس!پاکستان کو انگریزوں اور ہندوؤں کے چنگل سے آزاد کرانے والے عظیم رہنماؤں اور سپاہیوں نے جو قربانیاں دیں تھیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ سب رائیگاں جانے کو ہے۔(خاکم بہ دہن )بڑے لوگ فکرِ معاش میں کم اور کرپشن و بد عنوانی میں زیادہ اُلجھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔بقول شاعر:
بازار میں صدا یہ لگاتا تھا ایک فقیر
ہے کون اِس جہاں میں بتاؤ بھلا اَمیر
وہ میں کہ فکرِ مال سے آزاد و بے نیاز
یا وہ جو مال و زَر کے قفس میں ہوا اسیر

اب ایسے لوگ کیوں نہیں ملتے، وہ کس گفا میں ڈوب گئے ہیں، انہیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے، میرا دل کہتا ہے کہ ایسا نہیں ہے، ہمارے یہاں بھی ایماندار لیڈران ہونگے ، کیونکہ پاکستان ہمارے خوابوں کی تعبیر ہے اور رہے گا۔ یہ صحیح ہے کہ ان دنوں کچھ ایسا ماحول بنا ہوا ہے کہ ایمانداری سے محنت کرکے اپنی زندگی کو گزارنے والے بیچارے اور بھولے بھالے عوام پِس رہے ہیں، اور جھوٹ و فریب کا روزگار کرنے والے پھل پھول رہے ہیں۔ ایمانداری کو بیوقوفی سے ہم معنی لفظ سمجھا جانے لگا ہے اور سچائی صرف بے بس لوگوں کے حصہ میں پڑی ہے، ایسے وقت میں زندگی اور (Value)کی قدر و قیمت کے بارے میں لوگوں کو سوچنا ہوگا۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ۔
بھول کر بھی محبت کے جنگل میں نہ آنا
یہاں سانپ نہیں انسان ڈَسا کرتے ہیں

یہ تو غالبؔ صاحب نے بھی فرمایا تھا کہ ’’ ہر اک مکان کو ہے مکیں سے شرف اسد، تو غالب کے ذہن میں ایسا مکین رہا ہوگا جو اپنے مکان کا دھیان رکھتا ہو، اسے بنا کر سنوار کر رکھتا ہو اور وہ ہر قسم کے خطروں سے بچا کر رکھتا ہو۔ اس بات سے خیال اس حاکم کی طرف جاتا ہے جو اپنی رعایا کا دھیان رکھتا ہو، ان کے دکھ درد سے واقف ہو اور ان کو ہر طرح کے اندیشوں سے محفوظ رکھتا ہو۔ مگر ایسا نہ ہوا اور ہمارے فرماں رواں کا سارا زور ، زورِ خطابت پر صَرف ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس کی ساری ترجیحات بے تکی اور تمام تدبیریں بے سروپا ہوں تو ایسی رعایا وقت کی تپش میں جھلس جایا کرتی ہیں۔ اس کی صرف ایک مثال ہی پڑھنے والوں کے لئے کافی ہے کہ کراچی میں اس وقت ایک گھر کے بجلی کا بل دس ہزار کے قریب آ رہا ہے، اور جب بجلی کے نرخ سرکار کم کرتی ہے تو اس خبر کے نیچے آخر میں یہ لکھا ہوا ہوتا ہے کہ ’’اس کا اطلاق : کے الیکٹرک کے صارفین پر نہیں ہوگا‘‘۔اب آپ سمجھدار ہیں سمجھنے اور سمجھانے کے لئے۔

اس بات سے خیال سانحے کی طرف بھی جاتا ہے ، خدا جانے کیا ہوا ہے کہ جدھر دیکھئے آگ لگنے کی خبریں آتی ہیں، فاقہ کشوں کی جھونپڑیوں سے دولت مندوں کے کارخانوں اور گوداموں تک، گرتے ہوئے ہوائی جہازوں سے لے کر مسافروں سے بھری ریل گاڑیوں تک، شعلوں کو جہاں بھی دخل کا روزن نصیب ہو جائے، وہیں سب کچھ بھسم کر ڈالتے ہیں۔ مجھے تشویش جا بجا آگ لگنے پر نہیں جناب، مجھے جو احساس مارے ڈالتا ہے وہ حاکمِ وقت کی بے حسّی ہے۔

اس وقت پاکستان کے کسی بھی صوبے کے سیاسی کارکردگی کو دیکھیں تو سوائے ایک دوسرے پر الزام تراشی کے اور کچھ نظر نہیں آتا، سب ایک دوسرے کا پول کھول رہے ہیں اور چونکہ الیکشن بھی قریب ہی ہے اس لئے عوام کا دل لبھانے کا سامان بھی کیا جا رہا ہے، اب دیکھئے کہ اگلے الیکشن میں عوام کس باشعور سیاسی جماعت کو حقِ حکمرانی عطا کرتے ہیں۔ اس کے لئے آپ کو بھی ہمارے ساتھ انتظار کی زحمت سے دو چار رہنا پڑے گا۔ میری تو دعا ہے کہ اﷲ رب العزت! عوام کی خیر خواہ حکومت کو کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کرے۔ آمین

کیسے کہوں کہ روزافزوں حالات کو دیکھ کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ آدمی کے اندر انسانیت ایک دم ختم ہو گئی ہے! کیسے کہوں کہ لوگوں میں ہمدردی رہ ہی نہیں گئی ہے! زندگی میں نہ جانے کتنی ایسی کٹھنائیاں ہونگی جنہیں لوگ بھلا نہیں سکتے۔ آدمی کے بنائے ہوئے اصول غلط نتیجے تک پہنچ رہے ہیں انہیں واقعی بدلنے کی ضرورت ہے، بلکہ آئے دن ان میں ردّ و بدل بھی ہو رہا ہے، لیکن اب بھی اس ملک کے غیور عوام کو اُمید ہے کہ ایک نہ ایک دن سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ نا اُمید ہونے کی ضرورت نہیں ہے!
اختتامِ کلام بس اتنا کہ:
ضمیر کانپ تو جاتا ہوگا ، آپ کچھ بھی کہیں
وہ ہو گناہ سے پہلے یا ہو گناہ کے بعد
٭٭٭

Muhammad Jawed Iqbal Siddiqi
About the Author: Muhammad Jawed Iqbal Siddiqi Read More Articles by Muhammad Jawed Iqbal Siddiqi: 2 Articles with 1172 views friendly, cooperative.. View More