چینی کے بغیر چینی چائے کا لطف

چینی ثقافت میں چائے کو ایک خاص اہمیت حاصل ہےاگرچہ پاکستان میں پی جانے والی چائے سے چینی چائے قدرے مختلف ہے لیکن چائے سے منسلک کچھ روایات ، چائے سے جڑے کچھ لوازمات اور لوگوں کی پسندیدگی کے مختلف معیارات چینی چائے کو ایک خاص رنگ دیتے ہیں۔ چینی معاشرے میں اگر چائے کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں پانچ ہزار سال پیچھے جانا پڑے گا۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک چینی بادشاہ شین نوننگ نے اپنے دور حکومت میں جہاں دیگر فرمان جاری کیے ان میں ایک حکم یہ بھی تھا کہ صحت مند اور توانا رہنے کے لیے پینے کے پانی کو استعمال سے قبل ضرور ابالا جائے۔ گرمیوں کی ایک دوپہر اپنی سلطنت کے ایک دور دراز علاقے کے دورے کے دوران بادشاہ اور ان کے درباری ایک مقام پر سستانے کی غرض سے رکے اور بادشاہ سلامت کے لیے پانی ابالا جا رہا تھا کہ اسی دوران نزدیکی جھاڑی سے کچھ پتیاں ابلتے پانی میں آ گری اور پانی کا رنگ فوری تبدیل ہو گیا۔ اب بادشاہ کے دل میں پانی کے اس نئے ذائقے کو چکھنے کی خواہش نے جنم لیا ، جب انہوں نے پتیوں ملا رنگ دار پانی پیا تو ذائقے دار بھی لگا سو یہیں سے چائے کا آ غاز ہوتا ہے اور یہ دور تھا 2337 قبل مسیح ۔ اس وقت سے لیکر آ ج تک چین میں چائے کو مختلف تقاریب میں نمایاں اہمیت حاصل ہے بلکہ یوں کہا جائے کا چائے کا راج ہے تو بے جا نہ ہو گا۔

اگر چینی معاشرے میں چائے کے استعمال کی بات کی جائے تو اس میں بھی آپ کو مختلف رنگ ملیں گے۔ کچھ لوگ چائے کو پیاس بجھانے اور پانی کے نعم البدل کے طور پر استعمال کرتے ہیں تو کچھ کے نزدیک چائے پینے سے ان کی تخلیقی صلاحیتیں کھل کر سامنے آ تی ہیں ۔ بعض افراد تو فطری ماحول سے محبت ، موسیقی میں دلچسپی اور باہمی روابط استوار کرنے میں بھی چائے کے معترف نظر آ تے ہیں۔ مزید دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ چین میں معیاری چائے کے بھی پیمانے وضع کیے گئے ہیں ایسا ہر گز نہیں کہ جس طرح پاکستان میں اکثر کہا جاتا ہے کہ بس چائے ہونی چاہیے چاہے کسی ٹرک ہوٹل کی ہو یا کسی فائیو اسٹار ہوٹل ، یہ الگ بات ہے کہ پاکستان میں لوگوں کی اکثریت ٹرک ہوٹل کی چائے کو کسی بھی بڑے ہوٹل کی چائے سے بہتر قرار دیتی ہے، پیمانوں کی بات ہو رہی تھی تو چین میں چائے کو جن خصوصیات کی بناء پر پرکھا جاتا ہے اس میں پہلی خاصیت چائے کی رنگت ، دوسری چائے کی خوشبو ، تیسری خاصیت چائے کا زائقہ ہے لیکن جناب بات یہیں ختم نہیں ہوتی مزید دو چیزیں اور بھی شامل ہیں جو پاکستان سمیت دیگر دنیا سے قدرے مختلف ہیں پہلی چیز پانی کا معیار مطلب یہ کہ پانی کون سا استعمال کیا گیا ہے اور آ خری چیز چائے سیٹ ،مطلب چائے پیش کرنے کے لیے کس قسم کے برتن استعمال کیے گئے ہیں۔ مختصراً یہی کہ برتن جتنا معیاری اور اچھا ہو گا اتنی ہی چائے کے لیے پسندیدگی بڑھے گی ، ویسے معیاری کو آپ مہنگے برتن سے بھی تعبیر کریں تو کوئی حرج نہیں۔

اب چائے تو پیش کر دی گئی اگلا مرحلہ پینے کا ہے تو جناب چین میں چائے پینے کے بھی کچھ اصول ہیں مثلاً چائے آپ نے گرم گرم ہی ختم کرنی ہے ایسا نہیں کہ ساتھ ساتھ دفتر کا کام بھی جاری ہے اور چائے بے شک ٹھنڈی ہو جائے ، اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ چائے میں موجود مفید اجزاء سے لطف اندوز صرف گرم چائے سے ہی ہوا جا سکتا ہے۔ ایک اصول یہ بھی ہے کہ زیادہ سخت یا اگر پاکستانی لفظ استعمال کریں تو زیادہ کڑک چائے نہیں پینی ہے بقول چینی افراد کے کہ زیادہ کڑک چائے انسانی معدے کے لیے نقصان دہ ہے ۔اس کا معیار یہ طے کیا گیا ہے کہ پورے دن میں آپ بارہ سے پندرہ گرام کے درمیان چائے کی پتیاں استعمال کریں گے۔چائے پینے کے لیے بہترین اوقات کا تعین بھی کیا گیا ہے ایسا نہیں ہے کہ جب جی چاہا چائے پی لی ، چینی افراد کھانے سے کچھ دیر قبل یا فوری بعد چائے نہیں پیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر کھانے سے پہلے چائے پی لی تو بھوک ختم ہو جائے گی اور اگر فوری بعد پی تو بد ہضمی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ایک اور اہم بات جس کا چینی افراد بہت خیال رکھتے ہیں کہ چائے کے ساتھ کسی بھی قسم کی ادویات کا استعمال نہیں کریں گے ایسا نہیں کہ پاکستان میں ہم بخار یا سر درد کی گولی بھی اکثر چائے کے ساتھ ہی لیتے ہیں۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے ایک اور بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ دفاتر ، گھر اور ہوٹل میں پی جانے والی چائے میں بھی فرق ہو گا مثلاً دفاتر میں زیادہ گرین ٹی یا سبز چائے استعمال کی جائے گی اس کی وجہ بتائی جاتی ہے کہ سبز چائے میں ایسے اجزاء پائے جاتے ہیں جو کمپیوٹر سے نکلنے والی شعاعوں سے انسانی جسم کو بچانے میں مفید ثابت ہوتے ہیں اور انسانی جسم میں سبز چائے نمی کی مقدار کو برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

اگر چین میں چائے کی مختلف اقسام کے حوالے سے دیکھیں تو ان کو گرین ٹی ، بلیک ٹی ، ڈارک ٹی ، اولانگ ٹی اور وائٹ ٹی میں تقسیم کیا گیا ہے اور چائے کی ہر قسم کے ساتھ کچھ کہاوتیں یا کچھ روایات منسوب ہیں۔ مثلاً گرین ٹی کو سادگی سے منسوب کیا جاتا ہے اور عام طور پر جنوبی چین میں رہنے والے باشندوں کے حوالے سے کہا جاتا ہے وہ اس کو زیادہ استعمال کرتے ہیں ، بلیک ٹی کو ایسے افراد سے منسوب کیا جاتا ہے جو نرم دل اور شرمیلے ہوتے ہیں ، اولانگ ٹی کو ملنسار اور عام طور پر فلسفیانہ مزاج رکھنے والے افراد کی پسند قرار دیا جاتا ہے اسی طرح ڈارک ٹی کو بزرگ دانا افراد کی پسند میں شمار کیا جاتا ہے۔ایک اور بات نہایت اہم ہے کہ پورے چین میں چینی کے بغیر چائے پینے کا رواج ہے کیونکہ چین کے لوگ چینی کے زیادہ استعمال کو صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ قرار دیتے ہیں اور موٹاپے کی بڑی وجہ بھی چینی کے زیادہ استعمال کو قرار دیتے ہیں۔

اگر معاشی اعتبار سے دیکھیں تو چین میں چائے کی صنعت ملک کی معاشی ترقی میں بھی ایک کلیدی کردار ادا کر رہی ہے اور چین کا شمار دنیا کے ان بڑے ممالک میں ہوتا ہے جو دنیا کے دیگر ممالک کو چائے کی بر آ مد میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ چین کی حکومت بھی اس صنعت کی ترقی کے حوالے سے اقدامات کرتی رہتی ہے اور یہ کوشش کی جاتی ہے جہاں ملکی ضروریات کوپورا کیا جا سکے وہاں بیرونی ممالک میں بھی معیاری چائے بر آ مد کی جا سکے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر ملک کے مختلف حصوں میں چائے کی صنعت کی ترقی اور ملک میں ٹی کلچر کے فروغ کے لیے بھی مختلف سیمینارز ، کانفرنسز اور دیگرتقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ سو جب بھی چین آ ئیں چینی چائے سے ضرور لطف اٹھائیں لیکن وہ بھی بغیر چینی کے۔۔۔۔

Shahid Afraz Ahmed
About the Author: Shahid Afraz Ahmed Read More Articles by Shahid Afraz Ahmed: 3 Articles with 1892 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.