مشت غبار : جذبا ت و احساسات کا راست بیانیہ

شاعری کسی محضوص فرد یا جماعت کی ملکیت نہیں ہوتی ۔قدرت کا عطا کیا ہوا یہ وہ فن ہے جو کسی کے بھی حصے میں جاسکتا ہے ،اپنے محسوسات اور تاثرات کو خوبصورت معیاری اور معنی خیز لفظیات کے ذریعے شعری تجسیم کرنے کا نام شاعری ہے ۔تاج الدین شاہد نے وہی کام کیا ہے اور بڑی خوبصورتی سے کیا ہے ۔اگر چہ وہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں اور مزدور پیشہ اور محنت کش انسان ہیں لیکن ان کے تجربات گہرے اور دورس ہیں وہ جو کچھ دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں اسے بڑے دلپذیر انداز میں شعری پیکر میں تبدیل کردیتے ہیں ۔

تعارف و تبصرہ : وصیل خان
نام کتاب : مشت غبار ( شعری مجموعہ )
شاعر : احمد عاجز بیاولی
قیمت : 150/-روپئے ، صفحات : 112
رابطہ : پلاٹ نمبر 79،سروے نمبر 14، سالار نگر جلگاؤں 25001
(مہاراشٹر) موبائل نمبر 9822767860
کسی بھی خطے کی تہذیبی روایات خواہ کتنی ہی قدیم کیوں نہ ہو ں،اطراف و جوانب میں اس کے اثرات کسی نہ کسی صورت دکھائی ضروردیتے ہیں ، یہی حال ولی اور سراج اورنگ آباد ی کے خطہ ٔ دکن کا ہے یہاں جو ادبی و شعری تحریکات اٹھیں ان کی مہک آس پاس کے علاقوں تک پہنچی، ودربھ ، برار اور خاندیش کے خطوں میں تو وہ خوشبوآج بھی مشام جا ں کو معطر کئے ہوئے ہے ، یہ علاقے ایک عرصہ تک عہد مغلیہ اور نظام شاہی کے زیر نگیں رہے ، یہی وجہ ہے کہ یہاں زبان و ثقافت کا ایسا معیاری اور انفرادی رنگ جھلکتا ہے جو اسے دیگر علاقوں کی بہ نسبت زیادہ ممتاز و نمایاں کرتا ہے ۔ بقول سلیم شہزاد ’’اردو اسلوب کے بھی یہاں دو خطے بنے ہوئے ہیں ، مشرقی خاندیش اور مغربی خاندیش ،اول الذکر میں برار، ودربھ مدھیہ پردیش سے جڑے ہوئے علاقے شامل ہیں اور ضلع جلگاؤں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔ جلگاؤ ں سے ملحقہ چھوٹے چھوٹے شہر نصیرآباد ، بیاول ، دھرن گاؤں وغیرہ کی خاک سے اردو کے بعض اہم فنکار نظم و نثر میں پیدا ہوئے ہیں ۔‘‘
یہاں کے شعراء کی ایک طویل فہرست ہے جس میں ایمان بیاولی سے لے کر عاجز بیاولی کے نام جڑے ہوئے ہیں ۔مشت غبار بزرگ شاعر عاجز بیاولی کا تازہ شعری مجموعہ ہے جو ابھی جلد ہی منظر عام ہوا ہے اس سے قبل بھی ان کے دو شعری مجموعے نقش پائے گماں اور متاع خودی کے عنوان سے شائع ہوچکے ہیں ۔اول الذکر شعری مجموعے تو ہماری نگاہوں سے نہیں گزرے لیکن مشت غبار کو بالاستیعاب دیکھنے کا موقع ملا تو اندازہ ہوا کہ موصوف کے رنگ و آہنگ میں ایک مخصوص لہجے کی کھنک ہے ، حالانکہ ان کی غزلوں میں قدیم روایتی رنگ نمایاں ہے لیکن اس طرح کہ اس میں جدید رنگ اور عصری حلاوتوں کی آمیزش سے ایک خاص کیفیت کا ظہور ہوتا ہے جو قاری کو اپنی طرف متوجہ کرلیتا ہے ۔ ان کے یہاںلیت و لعل اور گو مگو کی کیفیات بہت کم ہیں اور ان کے مشاہدے اور محسوسات میں جو بھی تصویر ابھرتی ہے اسے بڑی بے خوفی اور برجستگی کے ساتھ شعری پیکر میں ڈھال دیتے ہیں ان کے یہاں جہاں معنی آفرینی ایک ترتیب سے آگے بڑھتی ہے وہیں نغمگی کے ساتھ گہرائی وگیرائی کا نفوذ بھی توانا دکھائی دیتا ہے ۔سرور ونشاط کے ساتھ دردو غم کی تیز لہریں بھی محسوس کی جاسکتی ہیں ۔مجموعی طور پر ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ موصوف کی شاعری حقائق آشنا ہی نہیں عصر جدید کیلئے اک ایسا آئینہ ہے جس میں ماضی حال اور مستقبل کی تصویریں نظر آتی ہیں اور یہی وصف انہیں آ ج کے دور میں کی جانے والی تک بندیوں اور فکر سےبڑی حد تک خالی شاعری کی بھیڑ میں منفرد بناتی ہے ۔چند اشعار بطورتمثیل یہاں درج کرکے ہم قاری اور شاعر کے درمیان سے ہٹ جاتے ہیں آپ خود ہی دیکھ لیں اور پرکھ بھی لیں ۔
رونق بزم زمانہ محتصر تفصیل ہے تو کرم کی جو ت ہے سارا جہاں قندیل ہے
عہد نو لاکھ ترقی کا ہے چڑھتا سورج سر سے انسان کے افلاک کا سایہ نہ گیا
کوئی کتنے خیالی گھر بنائے ٹوٹ جاتے ہیں فریب و مکر کے رنگین جالے ٹوٹ جاتے ہیں
ہمارے ساتھ ہمارا ہی غم نہیںہوتا غم جہاں کو بھی اپنا بناکے چلتے ہیں
سیرت حضرت بابا جان رحمتہ اللہ علیہ
قرآن کے مطابق زمین کا کوئی ایسا حصہ نہیں ہے جہاں انبیائے کرام کی بعثت نہ ہوئی ہو ۔ یہ اللہ کےتوحیدی مشن کا ایک حصہ ہے تاکہ انسان اپنی گمرہی،سرکشی اور طغیا ن کو جواز نہ فراہم کرسکے اور یہ نہ کہہ سکے کہ اس تک نور ہدایت پہنچا ہی نہیں ۔نبی ٔ آخرالزماں پر سلسلہ ٔ نبوت ختم ہوچکاہے اور اب تا قیامت کوئی نبی آنے والانہیں ،لیکن نیابت رسول ؐاور ولایت کا سلسلہ بدستور جاری ہے، یہ اللہ کے ایسے برگزیدہ افراد ہوتے ہیں جو روئے زمین پر اللہ اور اس کے رسول ﷺکے مشن کو بے آمیز انداز میں عوام الناس کے سامنے پیش کرتے رہتے ہیں اور اپنی کوششوں سے ظلمات کونورحق میں تبدیل کرنے میں ساری قوت صرف کردیتے ہیں ۔تاریخ گواہ ہے کہ زمین کو شرو فساد سے محفوظ رکھنے کیلئے ان اولیائے کرام نے بڑ ا ہی اہم رول ادا کیا ہے ۔ سرزمین پونہ بھی ان اولیائے کرام سے فیضیاب ہوئی جن کے تذکرے تاریخی کتابوں میں محفوظ ہیں ۔ایسے ہی برگزیدہ بندوں میں حضرت بابا جانؒ بھی گزرے ہیں جن کا مزار آج بھی پونہ میں مرجع خلائق بنا ہوا ہے ۔ زیر تذکرہ کتاب میں حضرت کی سیرت ، کرامات اور تحریکات پر بھرپور روشنی ڈالی گئی ہے ۔اس کتاب کے مصنف ناصر یوسف خان ہیں جنہوں نے ذاتی تحقیق اور مشاہدات کے ساتھ ساتھ دیگر نایاب کتب کی مدد سے بڑی تفصیل کے ساتھ حضرت کی سیرت کا احاطہ کیا ہے ۔ کتاب کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ مصنف نے اس تصنیفی کام میں بڑی عرق ریزی کے ساتھ حقائق اکٹھے کئے ہیں اور تمام واقعات وکرامات کو مستند اور پختہ دلائل سے مبرہن کرنے کیلئے سخت محنت کی ہے ۔ اس طرح یہ کتاب حضرت بابا جان ؒ کی سیرت اور تمام تر جدوجہدکی ایسی دستاویز بن گئی ہے جس سے آنے والی نسلیں یقینا ً مستفید ہوں گی ۔ کتاب کے حصول کیلئے شائقین اس نمبر پر رابطہ کرسکتے ہیں جس کا ہدیہ صرف پچاس روپئے ہے ۔موبائل : 9371081470
آئینہ ( شعری مجموعہ )
شاعری کسی محضوص فرد یا جماعت کی ملکیت نہیں ہوتی ۔قدرت کا عطا کیا ہوا یہ وہ فن ہے جو کسی کے بھی حصے میں جاسکتا ہے ،اپنے محسوسات اور تاثرات کو خوبصورت معیاری اور معنی خیز لفظیات کے ذریعے شعری تجسیم کرنے کا نام شاعری ہے ۔تاج الدین شاہد نے وہی کام کیا ہے اور بڑی خوبصورتی سے کیا ہے ۔اگر چہ وہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں اور مزدور پیشہ اور محنت کش انسان ہیں لیکن ان کے تجربات گہرے اور دورس ہیں وہ جو کچھ دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں اسے بڑے دلپذیر انداز میں شعری پیکر میں تبدیل کردیتے ہیں ۔ نئے استعارات اور محاوروں کے استعمال کے سبب ان کی شاعری میں ایک نیا اسلوب اور رنگ و آہنگ ابھرآیا ہے جو انہیں انفرادیت کی طرف لے جاتا ہے اور یہی انداز ان کے شعری سفر کو نئی راہ فراہم کرے گا ، بشرطیکہ ثابت قدمی کے وہ اسیر رہیں اور غیر ضروری تشکیلات سے اپنے دامن کو محفوظ رکھیں ۔خاص بات یہ بھی کہ انہوں نے جدت کی تلاش و آرزو میں قدیم رنگوں سے ناطہ نہیں توڑا ہے ۔ قدیم و جدید رنگوں کی یہی آمیزش انہیں مستقبل میں ایسی شناخت فراہم کرسکتی ہے جس کے رنگ انمٹ ہوں گے ۔ کمال کی بات یہ بھی کہ بساط سخن پر نووارد ہونے کے باوجود ان کی پختہ گوئی انہیں ایک خاص تمکنت سے ہمکنار کرتی ہے جوبہت کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے ۔سماجی ناہمواریوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے وہ قطعی مشتعل نہیں ہوتے بلکہ تفہیمی انداز اختیار کرتے ہوئے حکیمانہ طرز پر علاج تجویز کرتے ہیں اوریہ طرز فکر اصلاح معاشرہ کیلئے انتہائی موثر اور مفید عمل ہے ۔آئینہ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ شعر کہنے میں وہ کچھ عجلت سے کام لیتے ہیں اگر وہ استقامت اور توقف سے کام لیں تو ان کے اشعار مزید چمک دکھلاسکتے ہیں ۔ ان کے بیشتر اشعار ایسے ہیں جو پڑھتے ہی دل میں اترتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ، اس صفت میں ان کی سہل بیانی اور محاوراتی انداز بیان کا بڑا دخل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات یہ محسوس ہوتا ہےکہ شاعر خود قاری کی ترجمانی کررہا ہے ۔ اچھی اور دل نشین شاعری کی یہ بھی ایک بڑی علامت تسلیم کی جاتی ہے ۔ہمیں تاج الدین شاہد سےکافی امیدیں وابستہ ہیں اگر وہ اسی طرح مستحکم رہے تو کامیابی ان سے دیر تک دور نہیں رہ سکتی ۔چند اشعار ہم یہاں نقل کررہے ہیں ۔دیکھیں ،کیونکہ خوب و ناخوب کا فیصلہ آپ ہی پر ہے ۔کتاب کے حصول کیلئے یہ پتہ نوٹ کرلیں ۔تاج الدین شاہد پوسٹ کرلا، متصل رتناگیری ،ضلع رتنا گیری ، پن کوڈ 415630( مہاراشٹر )
رحیم تو ہی کریم تو ہی جو ہو خطا درگزر تو کردے
سب کو شاہدمرا سلام کہو کل سعودی سے فون آیا تھا
شاہد چال سنبھل کر چل تینوں جانب مہرہ ہے
پتھروں کی بستی میں موم کا نہیں کوئی
لوگ نظریں بچا کے چلتے ہیں راستے میں کسی کی لاش نہ ہو
سر بہت ہیں آج کل دربار میں کس کے سر پر ہے مگر دستار دیکھ
ماہنامہ سنی دعوت اسلامی ( ممبئی )
اپریل ۲۰۱۷کا تازہ شمارہ حسب معمول مختلف الموضوع اور اہم مضامین سے مزین ہے ۔ انسان مٹی سےبنایا گیا ہے تو ظاہر ہے اس کے اندر مٹی کی صفات بھی ہونی چاہیئں، مٹی میں انکساری اور نرمی ہوتی ہے لیکن انسان فخر و غرور کی نفسیات میں مبتلا ہوجاتا ہے ادارتی صفحات پر مدیر نے اسی موضوع پر بڑی نرم اور مفید و موثر گفتگو کی ہے ۔اس کے علاوہ تذکیر و تذکیہ ، دعوت دین ، نورمبین ،رضویات ، دعوت عام ، بزم اطفال اور پیش رفت کے عنوانات سےقابل توجہ مضامین موجود ہیں ۔قلم کاروں میں مولانا شہباز عالم ،مولانا عبدالمبین نعمانی ، مفتی محمد نظام الدین ، علامہ محمد احمد مصباحی ، ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی ، مولانا محمد سجاد برکاتی وغیرہم شامل ہیں ۔رسالے کے حصول اور دیگر تفصیلات کے لئے رابطے کا نمبر 022-23451292
(مبصرسے رابطہ : الثنا بلڈنگ M/39 احمدزکریا نگر باندرہ ( ایسٹ ) ممبئی 51موبائل :9004538929)

 

vaseel khan
About the Author: vaseel khan Read More Articles by vaseel khan: 126 Articles with 94819 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.