مرد کا اجنبی عورت کی عیادت کرنا

ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں ، ان میں ایک بیمار پرسی بھی ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
حقُّ المسلمِ على المسلمِ ستٌّ . قيل : ما هنَّ ؟ يا رسولَ اللهِ ! قال : إذا لقِيتَه فسلِّمْ عليه . وإذا دعاك فأَجِبْه . وإذا استنصحَك فانصحْ له . وإذا عطِس فحمِدَ اللهَ فشَمِّتْهُ وإذا مرِضَ فعُدْهُ . وإذا مات فاتَّبِعْهُ(صحيح مسلم:2162)
ترجمہ: ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں ، جب تیری اس سے ملاقات ہو تو اسے سلام کر ، جب وہ تجھے دعوت دے تو اسے قبول کر ، جب وہ تجھ سے خیر خواہی و نصیحت طلب کرے تو اس سے خیر خواہی کر ، جب اسے چھینک آئے اور الحمد للہ کہے تو اسے یرحمک اللہ کہکر جواب دے ، جب وہ بیمار ہو تو اسکی مزاج پرسی کر اور جب وہ مرجائے تو اسکے جنازے میں شریک ہو ۔

اس لئے جب ہمیں کسی مسلمان کے بیمار ى میں مبتلا ہونے کی خبر ملے تو بلاتاخیر اس کی عیادت کرنى چاہئے ۔ جہاں بیمار کی عیادت کرنا ایک طرف حقوق العباد میں سے ہے وہیں دوسری طرف بیمار پرسی کے بڑے اجر وثواب بھی ہیں ۔
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إنَّ المُسْلِمَ إذا عادَ أخاهُ المُسْلِمَ ، لَم يزلْ في خُرْفَةِ الجنَّةِ حتَّى يرجعَ(صحيح مسلم:2568)
ترجمہ: مریض کی عیادت کرنے والا واپس آنے تک جنت کے باغ میں رہتا ہے۔
عیادت کے لئے تکلف کی ضرورت نہیں ، تھوڑی دیر کے لئے سہی عیادت کرکے آنا چاہئے اور جب مسلمان اپنا رشتہ دار ہو تو عیادت کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے مگر ہم لوگ اس سلسلے میں بہت کوتاہ ثابت ہوئے ہیں ۔

یہاں ایک اہم مسئلہ بیان کرنا مقصود ہے کہ کیا کوئی مرد ، اجنبی عورت کی عیادت کرسکتا ہے خصوصا جب رشتے میں ہو جیسے چچازاد ، خالہ زاد وغیرہ ؟

اس سوال کا جواب جب ہم شرع میں تلاش کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مرد ، اجنبی عورت کی عیادت کرسکتا ہے نیز عورت بھی اجنبی مرد کی عیادت کرسکتی ہے ۔ مسلم شریف کتاب فضائل الصحابہ میں ام ایمن رضی اللہ عنہا کا واقعہ مذکور ہے جن کی عیادت کے لئے حضرت ابوبکر اور حضرت عمررضی اللہ عنہما گئے تھے ، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں :
قال أبو بكرٍ رضي اللهُ عنه ، بعد وفاةِ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ ، لعمرَ : انطلِقْ بنا إلى أمِّ أيمنَ نزورها . كما كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يزورُها . فلما انتهينا إليها بكَتْ . فقالا لها : ما يُبكيكِ ؟ ما عندَ اللهِ خيرٌ لرسولِه صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ . فقالت : ما أبكي أن لا أكون أعلمُ أنَّ ما عند اللهِ خيرٌ لرسولِه صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ . ولكن أبكي أنَّ الوحيَ قد انقطع من السماءِ . فهيَّجَتْهما على البكاءِ . فجعلا يبكيانِ معها .(صحيح مسلم:2454)
ترجمہ: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ہمارے ساتھ ام ایمن کی ملاقات کے لئے چلو ہم اس سے ملیں گے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملنے کو جایا کرتے تھے۔ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو وہ رونے لگیں۔ دونوں ساتھیوں نے کہا کہ تم کیوں روتی ہو؟ اللہ جل جلالہ کے پاس اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جو سامان ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بہتر ہے۔ ام ایمن رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں اس لئے نہیں روتی کہ یہ بات نہیں جانتی بلکہ اس وجہ سے روتی ہوں کہ اب آسمان سے وحی کا آنا بند ہو گیا۔ ام ایمن کے اس کہنے سے سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بھی رونا آیا پس وہ بھی ان کے ساتھ رونے لگے۔
اسی طرح ابوداؤد میں عیادت نبوی کا ذکر ہے ۔ سیدہ ام علاء رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
عادَني رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ وأَنا مَريضةٌ، فقالَ: أبشِري يا أمَّ العلاءِ، فإنَّ مَرضَ المسلمِ يذهبُ اللَّهُ بِهِ خطاياهُ، كما تُذهبُ النَّارُ خَبثَ الذَّهبِ والفضَّةِ(صحيح أبي داود:3092)
ترجمہ: میں بیمار ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے اور فرمایا : اے ام علاء ! تمہیں خوشخبری ہو بلاشبہ مسلمان کی بیماری کے ذریعے سے اﷲ تعالیٰ اس کے گناہوں کو ختم کر دیتا ہے جیسے کہ آگ سونے اور چاندی کا کھوٹ نکال دیتی ہے ۔

یہ دو دلیلیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ مرد، عورت کی عیادت کرسکتا ہے ۔ اسی طرح عورت بھی مرد کی عیادت کرسکتی ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں ایک باب باندھا ہے " بَابُ عِيَادَةِ النِّسَاءِ الرِّجَالَ "(باب: عورتیں مردوں کی بیماری میں پوچھنے کے لیے جا سکتی ہیں(۔اس باب کے تحت امام بخاری ؒ نے پہلے ذکر کیا کہ ام درداءؓ اہل مسجد میں سے ایک انصاری مرد کی عیادت کی ۔پھرحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ذکر کی ہے انہوں نے بیان کیا :
لما قدم رسول الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم المدينة، وعك أبو بكر وبلال رضي الله عنهما، قالتْ : فدخلت عليهما، قُلْت : يا أبت كيف تجدك، ويا بلال كيف تجدك(صحيح البخاري:5654)
ترجمہ: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ اور بلال رضی اللہ عنہ کو بخار ہوگیا ۔ بیان کیا کہ پھر میں ان کے پاس ( عیادت کے لیے ) گئی اور پوچھا ، محترم والد بزرگوار آپ کا مزاج کیسا ہے ؟ بلال رضی اللہ عنہ سے بھی پوچھا کہ آپ کا کیا حال ہے ؟(مختصرا)

اجنبی عورت کی عیادت کے لئے ضروری ہے کہ مرد اکیلے نہ آئے تاکہ خلوت سے بچاجائے ،کسی اور کو بھی ساتھ لے لے ۔ خلوت دو کے درمیان ہے تیسرے کے ساتھ خلوت ختم ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح پردے کا اہتمام ہو نیز فتنے سے بھی امن ہو ۔عمردراز مرد وعورت کی عیادت میں کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔

Maqubool Ahmad
About the Author: Maqubool Ahmad Read More Articles by Maqubool Ahmad: 315 Articles with 312968 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.