’’آبنوسی ہار‘‘---مادّہ پرستانہ دورِ زیاں کا روحانیت کیش ناول

سلطان سبحانی مالیگاؤں کے ممتاز ناول نگارو افسانہ نویس ،مشہور فکشن رائٹر، مایۂ ناز ادیب و شاعر ، مصور ، صحافی اور خلوص و متانت کے پیکر سلجھے اور منجھے ہوئے منفرد نقّادبھی ہیں ۔ آپ کا تنقیدی شعور کسی سے مستعار نہیں بلکہ خود اختراعی ہے۔ آپ یکم جون ۱۹۴۲ء کو مالیگاؤں میں پیدا ہوئے، تعلیم معمولی حاصل کی ، لیکن خداداد ذہانت کے ہوتے جب اپنے شعور و فکر کو شعر و ادب کی خدمت کے لیے وقف کیا تو اہلِ ادب محوِ حیرت رہ گئے ۔ آپ کی زنبیلِ حیات میں افسانہ، ناول، طنز و مزاح ، ادبی صحافت، کہانی ، نقد و نظر، مصوری ، ادبِ اطفال اور شاعری وغیرہ اصناف پر مشتمل ایک درجن سے زائد کتب جگمگا رہی ہیں ۔ جن میں ’’اجنبی نگاہیں(افسانوی مجموعہ 1966ء) ، شاعری کی دکان(طنز و مزاح1968ء) ، راستے بھی چلتے ہیں (افسانوی مجموعہ 1969ء) ، پت جھڑ کی خوشبو / گنج رواں(مشترکہ شعری مجموعہ 1974ء)، حکم نامہ( شعری مجموعہ 1985ء) ، میرا کھویا ہوا ہاتھ (افسانوی مجموعہ 1987ء) ، بدن گشت بادبان(افسانوی مجموعہ 1990ء) ، شام کی ٹہنی کا پھول( افسانوی مجموعہ 1999ء) ، مافوق الفطرت ( بچوں کاناول 2001ء) ، گولر کا پھول ( بچوں کی کہانیاں2005ء ) ، شمائلہ ( بچوں کا ناول 2007ء ) ، سکۂ خاک( مضامین 2009ء) ، کہانیوں کی کہکشاں ( بچوں کی کہانیاں 2012ء ) ،اور اندھے سانپ والا( افسانوی مجموعہ 2012ء) ‘‘ … قابلِ ذکر ہیں۔ ایک افسانہ ’’ چابک بہ دست امام ‘‘ ۱۹۷۹ء میں جب تیسری دنیا کا ادب نمبر ماہ نامہ ’’احتساب ‘‘ لاہور میں طبع ہوا تو پاکستانی حکومت نے اس کی کاپیاں ضبط کرلیں ۔ علاوہ ازیں آپ نے ماہ نامہ’’ نشانات‘‘ مالیگاؤں کی ۱۹۷۴ء سے ۱۹۷۶ء تک اور ماہ نامہ’’ ہم زباں‘‘ مالیگاؤں کی ۱۹۷۷ء سے ۱۹۸۰ء تک کامیاب ادارت بھی کی یہ دونوں رسائل ادبی دنیا کے معتبر جریدوں میں نمایاں حیثیت کے حامل کہلاتے تھے۔سلطان سبحانی شہرِ ادب مالیگاؤں کے وہ منفرد فن کار ہیں جن کی کتابوں پر جتنے انعامات، اعزازات اور ایوارڈز ملے ہیں وہ شہر کے کسی دوسرے فن کار کے حصے میں نہیں آ پائے ۔ آپ کے بعض افسانوں کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ ہندی ، مراٹھی ، انگریزی اور گجراتی جیسی زبانوں میں ان کے تراجم بھی ہوچکے ہیں۔ ریسرچ اسکالر عبدالعظیم صاحب نے آپ کے افسانوں کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے ممبئی یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو سے ایم۔ فِل کی باوقارڈگری حاصل کی ہے۔ سلطان سبحانی کو مصوری سے بھی حد درجہ لگاو ہے آپ کی دو ایک تصانیف کو چھوڑ کر بقیہ کے سرورق آپ ہی نے بنائے ہیں۔ موصوف ناچیز کے پسندیدہ مصنفین امام احمد رضا بریلوی، آوارہؔ مارہروی ، علامہ مشتاق احمد نظامی، علامہ ارشدالقادری، علامہ بدرالقادری مصباحی، پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد مجددی ، منشی پریم چند، کرشن چندر ، رشید احمد صدیقی، ابن صفی ، مجتبیٰ حسین اور سید محمد اشرف وغیرہ میں سے ایک ہیں۔

سلطان سبحانی کو مَیں اپنے بچپن سے ایک بہترین کہانی کار کی حیثیت سے جانتا ہوں ۔ بچوں کے لیے نکلنے والے مختلف ماہ ناموں ، رسائل اور جرائد میں مسلسل شائع ہونے والی آپ کی کہانیاں بہ صد شوق و ذوق پڑھتا رہا ہوں ۔ بلکہ اب بھی کبھی کبھار ان کے موے قلم سے نکلی ہوئی کہانیاں پڑھنے کا موقع ملتے رہتا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ دہلی سے نکلنے والے مشہور ماہ نامہ’’ امنگ ؃‘‘ میں بچوں کے لیے لکھا گیا آپ کا ناول’’ مافوق الفطرت ؃‘‘جب قسط وار شائع ہوتا تھا تو ہر مہینہ صرف اسی کو پڑھنے کے لیے ہم’’ امنگ‘‘ کا بے چینی سے انتظار کیا کرتے تھے۔ مافوق الفطرت بہت خوب اور دل چسپ ناول ہے۔ یہ ناول جب کتابی صورت میں شائع ہوا تو اس کا انتساب پڑھ کر بے ساختہ دل کی گہرائیوں سے سلطان سبحانی کے لیے تحسین و آفرین کے کلمات نکلے کہ بچوں کے ادیب کو اسی طرح بچوں کے لیے مخلص ہونا چاہیے۔ مافوق الفطرت کا انتساب آپ بھی ملاحظہ کریں ، سلطان سبحانی راقم ہیں :’’ هر عهد كی سب سے خوب صورت اور معصوم نسل (معصوم صرف انبیاو رسل اور فرشتے ہیں)بچوں كے نام ، جن كی مٹھیوں سے دنیا کامستقبل طلوع ہوتاہے۔‘‘ موصوف کا یہ ناول بچوں میں ذوق اور باذوق بچوں میں تجسس اور تفکر کی شمعیں جلانے کا کام کرسکتا ہے ۔ اس ناول سے بچوں کے جامد اور تاریک اذہان میں ایک چنگاری روشن ہوسکتی ہے۔

یوں تو سلطان سبحانی نے بڑوں کے لیے ناول اور افسانے خاصی تعداد میں لکھے ہیں لیکن بچوں کے لیے لکھے گئے ان کے ناول اور کہانیوں کی بات ہی مثالی ہے۔ کہاجاتا ہے کہ بچوں کے لیے صحت مند اور جامع ادب کی اتنی ہی ضرورت ہوتی ہے جتنی خشک زمین اور قحط زدہ علاقوں کو پانی کی۔ سلطان سبحانی مبدءِ فیاض کی طرف ودیعت کردہ اپنی منفرد قوتِ متخیلہ کو کام میں لاتے ہوئے بچوں کے لیے بہت اچھا ادب پیش کررہے ہیں ۔ جو بچوں کی تفریح اور دل چسپی کے ساتھ ہمہ جہت تعلیم و تربیت کے لیے بھی مفید ہے۔ سلطان سبحانی کی کہانیوں کی خاص بات یہی ہے کہ وہ اپنی کہانیوں کو محض تفریحِ طبع کا سامان نہیں بننے دیتے بلکہ اُن کی کہانیوں میں بچوں کی کردار سازی کا جوہر چھپا ہوتا ہے ۔ جس کا نظارا بچوں کے لیے لکھی گئی اُن کی جملہ تصانیف میں کیا جاسکتا ہے۔ خصوصیت کے ساتھ اساطیری ادب پر مشتمل اُن کی کتاب ’’شمائلہ‘‘اس ضمن میں اہمیت کی حامل ہے۔ اس میں انھوں نے نیکی کی فتح اور ظلم کی شکست کے لیے حق و صداقت کا ایک پیمانہ مقرر کیا ہے۔ آج کے اِس مادہ پرستانہ اور خوں آشام ماحول میں شمائلہ جیسی کتاب کے مطالعہ سے اصلاحِ قلب کے ساتھ ساتھ خوش گوار اور پرامن دنیاکا سراغ لگانا بے حد آسان ہوجائے گا۔

علاوہ ازیں2012ء میں آپ کی منظر عام پر آئی ’’ كهانیوں كی كهكشاں ‘‘ نے بھی مجھے كافی متاثر كیا ۔ آپ کی دیگر کتب کی طرح اس میں شامل جمله كهانیاں محض تفریحِ طبع كے لیے لکھی ہوئی نہیں ہیں بلکہ اُن کہانیوں سے بچوں کی کردار سازی کا کام بہتر طور پرلیا جاسکتا ہے۔ مہم جوئی ، بہادری ، جرأت و بے باکی جیسے اوصاف غیر محسوس طور پر بچوں میں ’’كهانیوں كی كهكشاں ‘‘ كے مطالعه سے پیدا هوسكتے هیں۔ سلطان سبحانی کے بہ قول :’’ كهانیاں آئینۂ جہاں نما کے مصداق ہیں جن میں ہم خود کو بھی دیکھتے ہیں ، نظامِ قدرت کو بھی اور دنیا کے تمام نظارۂ حالات کو بھی ، اس لیے یہ ہماری بہترین رفیق و محسن ہیں جو ہمارے بچوں کے ذہن کو نہایت پیار و محبت ، ہو ش مندی اور فطری انداز میں موڑ کر ان کی کردار سازی کرتی ہیں ۔ ‘‘ سلطان سبحانی كے یه جملے مكمل طور پر اُن كی كهانیوں پر منطبق هوتے هیں۔

آج ہم اور آپ سلطان سبحانی کی تازہ کتاب ’’آبنوسی هار‘‘ كے رسم اجرا كی تقریب میںحاضر ہیں ۔ پیشِ نظر کتاب ’’آبنوسی ہار‘‘ آدھی دنیا کے تناظر میں انتہائی دل چسپ ، حیرت انگیز ، انسان کی عظمت و جدو جہد ، بہادری و شجاعت پر مثالی کارناموں سے بھرپور ایک بامقصد اور معرکہ آرا داستانی طرز کا ناول ہے۔ جس کا انتساب مصنف نے اُن حوصلہ مند بچوں کے نام کیا ہے :’’جو درس گاہوں میں تعلیم کے بلند ترین زینے اترتے چڑھتے ہیں اور اس دوران بہت گرتے پڑتے بھی ہیں لیکن ہمت نہیں ہارتے ۔ اور وہاں کچھ طلائی تمغے یا نقرئی دستاویزات حاصل کرکے ہی باہر آتے ہیں۔ ‘‘ آبنوسی ہار‘‘ کا یہ منفرد انتسابی صفحہ بچوں کے لیے سلطان سبحانی کے بے پناہ پیار ومحبت اور خلوص وہمدردی کا بین اشاریہ ہے۔ اس ناول میں خیر و شر کی معرکہ آرائی میں حق کی جیت اور باطل کی شکست کا دلچسپ بیانیہ بچوں کو حق پسند بنانے میں یقیناً معاون ثابت ہوگا۔ سلطان سبحانی کے بہ قول : ’’ یه ناول بچوں كواور ان كی دنیا کو پورے طور پر روشنی میں لانے کا منظر نامہ ہے ۔اس نسل کی ہمت و حوصلہ مندی ، بے خوفی ، شجاعت ، جہدِ مسلسل اور انسان کی عظمت کو اجاگر کرنے کا ایک داستانی معرکہ ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے ذہن میں کچھ کرنے کی جودھن سماجاتی ہے اسے کوئی طاقت مٹانہیں سکتی اور اس ناول کا اساسی پہلو بھی یہی ہے جس کے پھیلاؤ میں آدھی دنیا کے تاریخی پس منظر کے ساتھ جنگ ، جادو اور روحانیت کے آثار و اَسرار بھی چشمِ نیم باز کی طرح موجود ہیں ۔ اگر چہ جنگ اور جادو کا روحانیت سے کوئی تال میل نہیں ہے ۔ لیکن یہ اس دنیا میں اپنے اپنے مرکز پر اپنی بربریت ، سفاکی اور فتنہ انگیزی کے ساتھ موجود ہیں اور روحانیت کی آفاقی قوتوں سے برسرِ پیکار ہیں ۔ ان میں جنگ ایک ایسا مہیب عفریت ہے جو دنیا کو تباہ و برباد کرنے کے لیے بارود کی آندھیوں میں آگ اور خون کی بارش کرتا ہے ۔ انسان اور اس کے بچوں کے چیتھڑے اڑادیتا ہے اور دنیا کی صورت مسخ کرکے اسے بھیانک بنادیتا ہے ۔ ‘‘ سلطان سبحانی اپنے ناول ’’آبنوسی ہار‘‘کی مدد سے چاہتے ہیں کہ بچوں کے اندر روحانیت ،صداقت ، حقانیت، امن پسندی ، خلوص و للہیت اور پیار و محبت کے جذبات کو پروان چڑھایا جائے تاکہ حالیہ مادہ پرستانہ دورِ زیاں امن و امان کا گہوارہ بن جائے ۔

’ ’آبنوسی ہار‘‘ میں بیان کردہ باتیں کہیں کہیں بچوں کی فہم و فراست سے بلند تر لگتی ہیں ۔لیکن یہ بھی ایک سچائی ہے کہ بچے بہت زبردست صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں ذرا سی عمر میں مکمل قرآن کریم حفظ کرلیتے ہیں لہٰذا اِس تناظر میں یہ ناول اُن کے شعور و فکر پر بار نہیں گذرے گا۔ اس کتاب میں پیش کیے گئے واقعات میں سے بعض واقعات ایسے بھی ہیں جن کے اندر مصنف نے اسطوریات، تمثیلات، تلمیحات ، طلسمات اور مہمات کا حیرت انگیز نگار خانہ بھی سجایا ہے جس کی وجہ سے معنویت ، گہرائی اور تاثر کی فضا ایسی صاف اور دلکش ہوگئی ہےکہ قاری کہانی کومکمل پڑھے بغیرنہیں رہ پاتا۔

’’آبنوسی ہار‘‘ کی نثر پیرایۂ بیان کی دل کشی ، جدت و ندرت کی رنگارنگی ، شگفتگی و پختگی ، سلاست و روانی اور دل آویز کشش کی حامل بولتی اور چمکتی ہوئی ہے۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس کتاب میں بہت سی باتیں یا بہت سے الفاظ ایسے بھی ہیں جو بچوں کی سمجھ سے باہرہیں۔ اس سچائی کو خود مصنف بھی محسوس کرتے ہیں لیکن ان کے نزدیک ایسا کرنا کہانی سنانے والے کی مجبوری ہوتی ہے ، جس کا ذکر کرتے ہوئے مصنف یوں مخاطب ہے:’’ اس میں بہت سی باتیں یا بہت سے الفاط تمہاری سمجھ سے باہر ہوں گے۔ لیکن اگر میں کہانی چھوڑ کر ان کی وضاحت کرنے لگ جاؤں تو کہانی ، کہانی نہیں رہ جائے گی بلکہ اسکول یا مدرسہ کا کوئی سبق ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ یہ بھی بتلادوں کہ کہانی میں بہت سے الفاظ بچوں کی زبان کے نہیں ہوتے ۔ انھیں مسخ کرکے ان کی زبان میں منتقل کرنا بھی ناممکن رہتا ہے۔ اس لیےاس مقام پر کہانی سنانے والے کو مجبور ہوجانا پڑتا ہے۔ ویسے عمر کے لحاظ سے بچے جوں جوں آگے بڑھتے ہیں ، ان کی سمجھ میں رفتہ رفتہ سب کچھ آنےلگتا ہے ۔ یہاں میں یہ بھی کہہ دوں کہ کوئی بھی کہانی یا اسکول کا نصاب بچوں کی کمزوری کو ملحوظ رکھ کرپیش نہیں کیا جاسکتا ۔ اگر یوں کیا جائے تو بچوں کے زینہ بہ زینہ آگے بڑھنے کے امکانات ہی ختم ہوجائیں گے۔‘‘

بچوں کے لیے لکھاگیاسلطان سبحانی کا تازہ ناول ’’آبنوسی ہار‘‘اِس مادہ پرستانہ دورِ زیاںمیں جینے والے بچوں کو روحانیت سے قریب کرنے کے لیے یقیناً ایک حسین اور خوشگوار اضافہ قرار دیا جائے گا۔ میں سلطان سبحانی کو اس دلچسپ اور بہترین ناول کی اشاعت پر ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں۔
محمد حسین مشاہدؔ رضوی
(24؍فروری 2017ء ، شب 41:1)

 

Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi
About the Author: Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi Read More Articles by Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi: 409 Articles with 595469 views

Dr.Muhammed Husain Mushahid Razvi

Date of Birth 01/06/1979
Diploma in Education M.A. UGC-NET + Ph.D. Topic of Ph.D
"Mufti e A
.. View More