جوشؔ ملیح آبادی ۔ اردو کا پر جوش شاعر

اردو کے پرجوش قادر الکلام شاعرو نثر نگار جوشؔ ملیح آبادی نے ایک علمی وادبی گھرانے میں آنکھ کھولی، ان کے دوھدیالی اور ننھیالی دونوں ہی خاندان شاعری کا ذوق رکھتے تھے۔ ان کے دادا نواب محمد احمد خان اور ان کے والد بشیر احمد خان بشیرؔ اپنے وقت کے معروف شاعر اور صاحب دیوان شعراء میں سے تھے۔ان کے پردادا کا شمار استاد شعراء میں ہوتا تھا وہ استاد ناسخ ؔ کے شاگرد تھے۔دوسری جانب جوشؔ ملیح آبادی کی ننھیال کا تعلق اردو کے معروف شاعر غالبؔ کے خاندان سے جا ملتا ہے۔ جوشؔ کی دادی کو شعر وادب سے خاص دلچسپی تھی انہیں اردو اور فارسی کے بے شمار اشعار ازبر تھے۔ اس اعتبار سے کہا جاسکتا ہے کہ جوشؔ کو شاعری ورثے میں ملی۔ جوشؔ نے 5دسمبر 1898میں ہندوستان کے شہر ملیح آباد (یوپی) میں آنکھ کھولی۔ ملیح آباد کی سرحدیں لکھنؤ سے ملتی ہیں۔ جوش ؔ کی جنم بھومی لکھنؤ سے چند میل کی مسافت پر ہے۔ اس لیے بھی لکھنؤ کے شاعرانہ اثرات کا جوشؔ پر ہونا لازمی تھا۔ جوشؔ لکھنوی تو نہیں لیکن لکھنوی انداز کے برعکس ان میں جوش، ولولہ اور انقلابی رنگ نمایاں ہے۔ کیونکہ جوشؔ خاندانی شاعر تھے، انہوں نے جوں ہی آنکھ کھولی اپنے بڑوں سے شاعری سننے کو ملی ۔ ایسے ماحول میں ان کا کم عمری میں شاعری کرنا کوئی اچنبے کی بات نہیں تھی ، جوشؔ نے نو سال کی عمر میں شاعری کی ابتدا کی۔ ابتدا میں عزیز لکھنوی سے تلمذ رہا ۔ دونوں کے درمیان استاد و شادگردی کا سلسلہ زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکا ۔ اس کی وجہ جوشؔ میں ان خوبیوں ، صلاحیتوں کو پایا جانا تھا ، کچھ ان کا مزاج بھی ان کے تخلص کی مانند جوشیلااور انقلابی تھا۔ اس لیے وہ جلد ہی خود ہی اپنے استاد ہوگئے۔ جوشؔ نے ابتدائی تعلیم لکھنؤ ہی میں حاصل کی ، روایت کے مطابق اردو فارسی کی کتب گھر پر ہی مطالعہ کیں ۔ اردو، عربی اور انگریزی کے الگ الگ استادوں سے فیض حاصل کیا۔ ان کے اساتذہ میں مرزا ہادی رسوا، مولانا قدرت اللہ بیگ، مولانا نیاز علی خان ملیح آبادی اور مولانا طاہر شامل ہیں۔انہوں نے سیتا پور اسکول، جوبلی اسکول لکھنؤ ، سینٹ پیٹرز کالج آگرہ اور علی گڑھ کالج سے تعلیم حاصل کی لیکن بعض نہ گزیر حالات اور اپنی طبیعت کے باعث تعلیم مکمل نہ کر سکے۔

جوشؔ کا خاندانی نام شبیر احمد خان تھا پھر وہ شبیر حسن خان ہوگئے اور شبیر تخلص کیا کرتے تھے، وہ شبیر تو تھے ہی لیکن ان میں تو جوش و جنون تھا بھلا وہ شبیر کیسے رہ سکتے تھے ان کے اندر کے جوشیلی انسان نے ان کا تخلص شبیر سے جوشؔ میں بدل دیا۔ تخلص تبدیل کرنے کی روایت بہت پرانی ہے مرزا اسد اللہ خان غالبؔ نے بھی پہلے اسدؔ تخلص پھر غالبؔ کر لیا تھا۔ تخلص کی تبدیلی کا عمل بھی نو برس کی عمر میں واقع ہوگیا۔پہلا شعر بھی اسی عمر میں کہا۔ اس شعر میں شعر وادب کے ورثے میں ملنے کی جانب اشارہ ہے۔
شاعری کیوں نہ راس آئے مجھے
یہ مر ا فن خاندانی ہے

بات بہت سادہ اور حقیقت پر مبنی کہی ۔ جوشؔ کے خاندان میں دیگر زبانوں سے اردو میں ترجمہ کرنے کا فن چلا آرہا تھا چنانچہ جوشؔ نے بھی ترجمہ کرکے روزی کمانے کی روایت قائم رکھی۔ وہ سرکار نظام میں دار الترجمہ ناظر ادب کے عہدے پر فائز ہوئے لیکن جلد ہی اس سے علیحدگی حاصل کر لی۔یہاں سے جوشؔ کی شعری ، علمی و ادبی مصروفیات کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ 1934 میں اپنا رسالہ’کلیم ‘نکالا، یہ رسالہ دہلی سے نکالا گیا، کچھ عرصے سرکاری رسالے ’آجکل‘ کی ادارت بھی کی۔ قیام پاکستان کے وقت جوشؔ اس رسالے کی ادارت کر رہے تھے۔ اس دوران جوشؔ نے فلموں کے لیے بھی کام کیا، فلم ’من کی جیت‘ کے لیے لکھے گئے جوشؔ کے گانے بہت مشہور ہوئے۔جوش رسالہ آجکل سے وابستہ تھے ، پاکستان قائم ہوچکا تھا ، 1955میں جوش نے پاکستان ہجرت کا فیصلہ کیا، کہا جاتا ہے کہ جوشؔ کے جواہر لعل نہرو سے بہت دوستانہ تعلقات تھے، نہرو جی نے جوشؔ کو بہت منع کیا کہ وہ ہندوستان چھوڑ کر نہ جائیں لیکن جوش ؔ میں پاکستان سے محبت کا ایسا جوش اور ولولہ تھا کہ انہوں نے بھارت کو خیر باد کہا اور پاکستان ہجرت کی ۔ حالانکہ 1954میں بھارتی حکومت کی جانب سے جوشؔ کو بھارت کا امتیازی شہری اعزاز ’پدم بھوشن‘ بھی دیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود جوشؔ نے ہندوستان میں قیام کرنا پسند نہیں کیا اور وہ 1955میں پاکستان آگئے ، کراچی کو اپنا مسکن بنا یا۔

جوشؔ کی زندگی کے 88سالہ زندگی کے61سال ہندوستان میں گزرے جہاں پر انہوں نے ہوش سنبھالنے کے بعد انگریز کے خلاف اعلان جنگ جاری رکھا ، ایک مرتبہ انہوں نے انگریز کے خلاف ایک نظم ایسی لکھی کہ جس کا چرچا جگہ جگہ ہوا، انگریز نے جوشؔ کے اس عمل پر انہیں گرفتار کرنے کا سوچا لیکن پھر بعض انگریز وں ہی کہ کہنے پر ان کی گرفتاری کو مناسب نہ جانا۔انگریز کے خلاف نظم ’وطن‘ لکھی جس میں انہوں نے دنیا کے انسانوں کے لیے ایک خاندان کا تصور پیش کیا۔ جوشؔ کی یہ نظم انگریز کے خلاف بغاوت تھی ؂
ہم زمیں کو تری ناپاک نہ ہونے دیں گے
تیرے دامن کو کبھی چاک نہ ہونے دیں گے

پاکستان میں جوشؔ 27برس زندہ رہے ۔ یہاں بھی ان کے مزاج نے انہیں حکمرانوں کے خلاف شاعری کرنے پر مجبور کیا ، 1955سے 1982تک جوشؔ نے پاکستانی حکمرانوں کو للکارا، برا بھلا کہا، انہیں تنقید کا نشانہ بنا یا۔ یہ دور جنرل اسکندر مرزا، جنرل ایوب خان، جنرل محمد یحییٰ خان، اور ذوالفقار علی بھٹو کا تھا۔ مجھے اسکندر مرزا کا دور تو یاد نہیں لیکن ایوب خان اور جنرل محمد یحییٰ خان کا دور اچھی طرح یاد ہے، ایوب خان کے خلاف جوشؔ ہی نہیں بلکہ حبیب جالب بھی میدان میں تھے۔ حبیب جالب نے تو ایوب خان کو کالا ناگ تک کہا،’’دستور‘‘ حبیب جالب کی ایسی نظم تھی کہ جس نے عوام الناس کو حبیب جالب کے عشق میں گرفتار کردیا تھا۔ لاکھوں کے مجمعے میں حبیب جالب کی آواز لوگوں کے دلوں میں اتر جایا کرتی ؂
دیپ جس کا محلات ہی میں چلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا ، میں نہیں جانتا

جوش ؔ کی ایک نظم بھی ایوب خان کے خلاف بہت مقبول ہوئی ۔ وہ کچھ اس طرح تھی ؂
آپ کو آگاہ کرتا ہے یہ رندِ بادہ خوار
قلب انسان کو سڑا دیتا ہے لمسِ اقدار

جوش نے کالم نگاری بھی کی وہ روزنامہ جنگ سے منسلک ہوئے اور ’’علم و فکر ‘‘ کے عنوان سے کالم لکھے۔ ان کا اولین کالم اکتوبر 1962کو شائع ہوا۔ جوش کی طویل ترین نظم ’حرفِ آخر‘ ہے ۔ جوش کی شاعری بلاشبہ اردو زبان و ادب کی آبرو میں اضافہ کرتی ہے۔ اس کی شاعرانہ عظمت سے انکار ممکن نہیں۔جوشؔ اردو کے ان شعراء متاخرین میں سے ہیں جو نظم و غزل دونوں پر یکساں عبور رکھتے ہیں۔بعض بعض نقادوں نے جوشؔ کا مقام و مرتبہ اقبال کے بعد قرار دیا ہے۔ جوشؔ کی مقبولیت اور عوامی پسندیدگی کا مقابلہ فیض ؔ اور فراز ؔ سے کیا جاتا ہے ۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ اقبال کے بعد فیضؔ اور فرازؔ کو زیادہ مقبولیت و شہرت حاصل ہوئی لیکن جوشؔ کا مقام اور مرتبہ اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ بعض باتوں کی وجہ سے جوش ؔ کو حرفِ تنقید بنا یا گیا لیکن جوش ؔ کی شاعری میں جو جدت، انقلابیت اور سلاست ، روانی، صاف گوئی، بے باکی کا اظہار ہے وہ منفرد اور اعلیٰ ہے۔ کسی نے کہا کہ ان کے شاعری میں مردانگی پائی جاتی ہے۔ عشق و رندی ان کی غزل کا خاص موضوع ہے ۔ انہوں نے از خود اپنے آپ کو ھمتائے ’حافظ شیراز‘ کہا ہے ؂
آرہی ہے صدائے ھاتف غیب
جوشؔ ‘ ھمتائے حافظ شیراز
جوشؔ کا جوش دیکھئے ؂
ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روز حساب تیرا
پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عذاب تیرا

غزل اپنی جگہ نظم میں جوش ؔ کا رتبہ زیادہ بلند دکھائی دیتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ جوشؔ نظم کے شاعر ہیں، درحقیقت جوشؔ نظم اور غزل دونوں اصنا ف شاعری پر یکساں عبور رکھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ شاعری میں الفاظ جوشؔ کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے رہا کرتے تھے، ان کے حافظہ میں الفاظ کا وسیع ذخیرہ تھا جنہیں وہ اس طرح استعمال میں لایا کرتے جیسے آسماں سے کہکشاں اتر رہی ہو۔ ان کی نظم البیلی صبح کا ایک شعر ؂
نظرجھکائے عروس فطرت ‘ جبیں سے زلفیں ھٹا رہی ہے
سحر کا تارا ہے زلزلے میں ‘ اُفق کی لو تھر تھرا رہی ہے
غزل کا ایک شعر ؂
مجھ کو تو ہوش نہیں تم کو خبر ہو شاید
لوگ کہتے ہیں تم نے مجھے برباد یا
جوش ؔ کی نظم ’مردِ انقلاب کی آواز‘ کاایک شعر ؂
اگرانساں ہوں ‘ دنیا کو حیراں کر کے چھوڑوں گا
میں ہر ناچیز ذرے کو گلستاں کر کے چھوڑوں گا

جوش ؔ نے88سال کی عمر میں 22فروری 1982کو داعی اجل کو لبیک کہا اور کراچی ان کا مستقر ٹہری۔ ان کے کلام سے انتخاب:
زندگی خواب پریشاں ہے، کوئی کیا جاے
موت کی لرزش مژ گاں ہے کوئی کیا جانے
وہ یار پری چہرہ کہ کل شب کو سدھار ا
طوفاں تھا ، چھلاوا تھا ، شرارا
تجھے اس سے زیادہ کوئی سمجھاہی نہیں سکتا
خدا وہ ہے جو حدِ عقل میں آہی نہیں سکتا
دنیا نے فسانوں کو بخشی افسردہ حقائق کی تلخی
اور ہم نے حقائق کے نقشے میں رنگ بھرا افسانوں کا
ہم گئے تھے اس سے کرنے شکوۂ درد فراق
مسسکرا کر اس نے دیکھا سب گلا جاتا رہا

جوشؔ پر بہت لکھا گیا ، لکھا جاتا رہے گا، صہبا لکھنوی مرحوم نے افکار کا ’جوش نمبر‘ شائع کیا اس سے قبل شاہد احمد دہلوی اپنے رسالے ’ساقی‘ کا 1963میں جوشؔ نمبر نکال چکے تھے۔ کتابوں کی تو بات ہی کیا ہے ۔ خود جوشؔ کو کثیر التصانیف شاعر و مصنف کہا جاتا ہے۔ ان کی نثر کی کتابوں میں ’یادوں کی بارات‘ کو بہت شہرت حاصل ہوئی جس کی ایک وجہ بے باکی، صاف گوئی تھی۔ وہ لغت کی ترتیب میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ انہوں نے لغت کی تدوین میں بھی اپناحصہ ڈالا۔ جوشؔ ایسا موضوع ہے کہ اسے ایک مضمون یا چند صفحات میں سمیٹنا نہ ممکن ہے۔ آخر میں جوش کے مجموعوں اور تصانیف کی فہرست پر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔

جوش ؔ کی تصانیف میں روح ادب، آوازہ حق، شاعری کی راتیں، جوش کے سو شعر، نقش و نگار، شبنم شعلہ ، پیغمبر اسلام، فکر و نشاط، جنوں و حکمت، حرف و حکایت، حسین اور انقلاب، آیات و نغمات، عرش و فرش، رامش و رنگ، سنبل و سلاسل، سیف و سبو، سرور و خروش، سموم وسبا، طلوع فکر، موجد و مفکر، قطرہ قلزم، نوادر جوش، الہام و افکار، نجوم و جواہر، جوش کے مرثیے، عروس ادب ، عرفانیات جوش، محراب و مضراب، دیوان جوش شامل ہیں۔ نثری مجموعوں میں مقالات جوش، اوراق زریں، جذبات فطرت، اشارات، مقالات جوش، مکالمات جوش اور خود نوشت سوانح ’یادوں کی بارات‘ شامل ہیں۔ (22فروری2017)
 
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1280670 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More