جشنِ ریختہ:ہزاروں کام محبت میں ہیں مزے کے داغ!

 گزشتہ تین سالوں سے اردوزبان کے فروغ وتوسیع کے لیے وقف ریختہ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام منعقدہونے والے جشنِ ریختہ کے ذریعے اردوزبان و ادب اور شاعری کے شائقین کے دل و نگاہ کے سروروکیف کاسامان نہایت خوب صورتی کے ساتھ کیاجارہاہے،اس جشن کا انتظام،تشکیل اور اہتمام اتناخوب صورت ہوتاہے کہ جوکوئی بھی اس میں شرکت کرتاہے،اس سے متاثرہوئے بغیرنہیں رہتا۔خود اردو کے بڑے بڑے ادبا،شعرا،حتی کہ اردواداروں کے ذمے داران کی زبانی یہ سننے میں آرہاہے کہ ہندوستان ہی نہیں،عالمگیرسطح پراردوکاایسارنگارنگ پروگرام دیکھنے کونہیں ملتا۔جشنِ ریختہ کوخوب صورت،دل فریب اور سحرانگیزادبی مناظرکی کہکشاں کہاجاسکتاہے،ایک لمبے چوڑے احاطے میں بہ یک وقت تین تین چارچارمقامات پر کج کلاہانِ ادب کی نشستیں،ان نشستوں میں اردوزبان، اردوادب، اردو تاریخ، لسانی باریکیوں،ادبی لطافتوں،شعری امتیازات،نثری خصوصیات،شعراکی تخلیقات،غزل خوانی ونغمہ سرائی کی ایک سے بڑھ کر ایک سامعہ نوازوباصرہ افروزپیش کش سامعین و ناظرین کوسرمستی وسرشاری کی نت نئی منزلوں سے گزارتی ہے۔جشنِ ریختہ کے محتویات میں جس قسم کاتنوع اور رنگارنگی پائی جاتی ہے،اس کی مثال اردوکی حدتک عالم گیر سطح پرکہیں دیکھنے میں نہیں آئی ہوگی،ہاں اس کی نظیرہمیں قدیم عربی ادب کی تاریخ میں ضرورملتی ہے،جب ہم پڑھتے ہیں کہ زمانہ قبل ازاسلام میں عکاظ یاذوالمجنہ میں ایسے جشن برپاکیے جاتے تھے،جہاں وقت کے بڑے بڑے شعرا، ادبا،خطبااورماہرینِ فن اپنی مجلسیں برپاکرتے ، ان کے اردگرداصحابِ ذوق کاجم غفیر جمع ہوتااوروہ انھیں اپنی گل افشانیِ گفتارسے شادکام کیاکرتے تھے۔

ایک جشن،اَنیک رنگ:
سالِ رواں جشنِ ریختہ کاانعقاد دہلی میں واقع اندراگاندھی نیشنل سینٹرفارآرٹس میں ہواتھا،اس جشن میں ہماری شرکت اس سال پہلی بار تھی،احاطے میں داخل ہوتے ہی دل ودماغ پر ایک خوشگواراحساس چھا گیا،قدم قدم پرغالب،میر،اقبال،فیض،قتیل شفائی،کلیم عاجز،پروین شاکر،جون ایلیا، ساحر لدھیانوی،فراق گورکھپوری وغیرہ کے منتخب اشعارپرمشتمل خوب صورت وپرکشش اسٹینڈزدامنِ دل ونگہہ کو کھینچتے اور’’جاایں جاست ‘‘ کامنظرپیش کررہے تھے،اس کے ساتھ ساتھ دیوانِ عام، دیوانِ خاص،بزمِ رواں اورکنجِ سخن جیسے خوب صورت عنوانوں سے برپاادبی ،شعری وثقافتی محفلیں ناظرین و سامعین کومسلسل اپنی جانب متوجہ کررہی تھیں،لگ بھگ تین دن تک چلنے والے اس جشن میں ملک کے پچاسوں بڑے بڑے اربابِ ادب وشعراورفن کاروں نے شرکت کی اوران کے خیالات وتخلیقات اورکارکردگی سے مجموعی طورپرلاکھوں لوگوں نے حظ اٹھایا،خطاطی،دست کاری،پینٹنگز،ملبوسات،ہندوستان کے طول وعرض کے مزے دارکھانوں اورکتابوں کے اسٹالزباذوق لوگوں کو مسلسل دعوتِ نظارہ دے رہے تھے۔نوجوان لڑکے اورلڑکیوں کے چہروں کی دمک اور نگاہوں کی چمک کودیکھ کر ایسالگ رہاتھاکہ وہ کسی اَن کہی فرحت وانبساط میں ڈوبے ہوئے ہیں،شام کے وقت رنگ برنگی روشنیوں میں نہائے جشن کے مناظراوربھی سحرانگیزتھے ،چہارسوچلتے پھرتے مہتاب توان کے جمال کواوربھی تاب ناک کیے دے رہے تھے۔

ویسے تواس جشن میں شرکت کرنے والے ادھیڑاوربڑی عمرکے لوگوں کی بھی ایک بڑی تعداد تھی؛لیکن زیادہ ترنوجوان اس کا حصہ تھے،نوجوانوں میں بھی صرف اردوداں نہیں؛بلکہ انگریزی،ہندی،پنجابی ، بنگلہ اوردیگر زبانوں کے طلبا،اسکالرس کی بھی بہت بڑی تعداد تھی،جولوگ اردوخواں تھے،ان کے لیے توجشن میں پیش کیے جانے والے تمام ترپروگرامزکوسمجھنااوران سے لطف اندوزہوناآسان تھا،مگرجو کماحقہ نہیں سمجھ رہے تھے،وہ بھی وجدان کے زورپر جھومتے نظرآتے تھے۔ریختہ کے سوینئرمیں گزشتہ سال کے جشن میں شرکت کرنے والوں کی مجموعی تعدادپچاسی ہزاردی گئی ہے،اِس سال یہ تعدادکم ازکم ایک لاکھ تک تو پہنچ ہی گئی ہوگی۔خسرو،غالب ،میر،حالی،فراق،خمار،مجروح سلطانپوری وغیرہ کی شاعری پر مختلف نشستوں میں گفتگوئیں بھی ہوئیں اوران کے کلام بھی پیش کیے گئے،ایک خاص پروگرام معروف شاعرجون ایلیا سے منسوب رہا،جس میں ہندوستان کے مشہورشاعرکماروشواس نے گفتگوکی،جون ایلیا ان شاعروں میں سے ہیں،جن کی شاعری ایک حساس انسان کے دل ودماغ کوفوراً اپیل کرتی ہے اوران کاشعرسن کر یکلخت انسان کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں،جون کی شاعری میں ایک انفرادیت ہے،جاذبیت ہے،وارفتگی کاعکس اورشیفتگی کانقش ہے،کماروشواس نے ہزاروں کے مجمع میں -جس میں آدھے سے کچھ کم لوگ تو یقیناًاردودنیاسے راست تعلق رکھنے والے نہیں تھے-جب اپنے منفرداندازمیں جون ایلیاکی شخصیت،حیات اورشاعری کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی توبڑااچھالگا،ہندی میں انھوں نے جون ایلیاکی منتخب غزلیں مرتب کی ہیں،جسے ’’میں جوہوں جون ایلیاہوں‘‘کے نام سے وانی پرکاشن نے شائع کیاہے،اس کتاب کااجرااصلاً توانھوں نے عالمی کتاب میلہ کے دوران کیاتھا،مگرجشنِ ریختہ میں جون پر ان کی گفتگوکاسرِآغازبھی یہی کتاب تھی، اُنھوں نے جون کے بعض نہایت ہی خوب صورت اورچونکانے والے اشعار سنائے،جن سے سامعین نے خاصالطف اٹھایا۔آخری دن کاایک اہم پروگرام بیت بازی کا مقابلہ بھی تھا،جس میں ملک بھرکی سات یونیورسٹیزکی آٹھ ٹیموں نے حصہ لیاتھا،یہ پروگرام سب سے بڑے جلسہ گاہ (دیوانِ عام)میں تھااورشروع ہونے سے پہلے ہی پنڈال کھچاکھچ بھرگیاتھا،اس سے اندازہ ہو ا کہ اردووالوں کے علاوہ اردوکے نئے شائقین بھی تیزی سے بیت بازی کے تصورکونہ صرف قبول کررہے ہیں؛بلکہ اس کے تئیں غایت درجہ دلچسپی کابھی مظاہرہ کررہے ہیں۔بیچ بیچ میں اینکرعام سامعین کوبھی اپنی پسندکے اشعار سنانے کاموقع دیتے تھے اور یہ منظربھی خاصا دلچسپ تھا۔بیت بازی کے مقابلے میں جواہرلال نہرویونیورسٹی کی جون ایلیا ٹیم نمبرایک کی فاتح رہی،جبکہ دوسرے نمبرپرجامعہ ملیہ اسلامیہ کی مرزاغالب ٹیم رہی،سامعین نے ڈیڑھ دوگھنٹے کے اس پروگرام کوحیرت انگیز دلجمعی اوردلچسپی سے دیکھا،سنااورمساہمین کی دل کھول کر حوصلہ افزائی کی۔’’اردوسروں کاموسمِ بہار‘‘میں معروف اداکارانوکپورنے بھی اپنی اردودانی کے جوہرخوب دکھائے،ان کے علاوہ جشنِ ریختہ کے اہم پروگراموں میں داستان گوئی،تمثیلی مشاعرہ،غزل سرائی،خواتین کامشاعرہ، نوجوانوں کا مشاعرہ، نابیناؤں کا مشاعرہ،قوالی خوانی، صوفیانہ غزل سرائی اورمختلف ادبی و تنقیدی موضوعات پرمباحثے بھی شامل رہے۔نظم ایسا تھا کہ بہ یک وقت چارچارمقامات پرالگ الگ موضوعات پرپروگرام چل رہے ہوتے،اس کاایک فائدہ تویہ تھاکہ ہرشخص اپنی دلچسپی اور طبعی انسیت کے مطابق جس پروگرام میں چاہے شریک ہوکر لطف اندوزہو؛لیکن ایک نقصان میری سمجھ سے یہ ہواکہ بہت سے لوگوں کا ایک پروگرام میں شریک ہونے کی وجہ سے دوسراپروگرام رہ گیا،حالاں کہ انھیں دونوں سے دلچسپی تھی،جیسے کہ بیت بازی اورتمثیلی مشاعرہ دونوں ایک ہی وقت میں منعقدہوئے؛ہم چاہتے تھے کہ تمثیلی مشاعرے میں بھی شریک ہوں اوربیت بازی کامقابلہ بھی دیکھیں،مگردونوں میں سے ایک ہی پر صبر کرناپڑا۔جشنِ ریختہ کی رنگینی وخوش نمائی کوچارچاندلگانے میں خاص طورپراردوادب وثقافت سے وابستہ ان نابغہ افرادکی شرکت کااہم رول رہا، جنھوں نے تینوں دن مختلف حوالوں سے سامعین وناظرین کے لیے تفریحِ طبع کاسامان کیا،معروف شاعرگلزاراوراستادامجدعلی خان کے ذریعے جشن کا آغاز ہوا، گلزارصاحب دوسرے دن بھی آئے،ان کے علاوہ دہلی وعلی گڑھ وغیرہ میں مقیم کئی بڑے اوراہم نام مثلاً پروفیسرابوالکلام قاسمی،شین کاف نظام،عرفان حبیب،شمیم حنفی،گوپی چندنارنگ،فرحت احساس،طاہرمحمود،سابق چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر، جسٹس آفتاب عالم، سلمان خورشید، شمیم طارق،پروفیسرزماں آزردہ،ارتضی کریم،ڈاکٹرنجمہ رحمانی،اداکارانوکپور،نغمہ نگارپرسون جوشی،بالی ووڈہنگامہ کے فریدون شہریار، کامیڈین ذاکرخان،غزل سنگرہنس راج ہنس اوردیگر دسیوں اعلیٰ درجے کے فن کاروں نے جشنِ ریختہ کوگل وگلزاربنائے رکھا۔

ایک اشارہ،ایک سبق:
اس جشن میں شرکت اورشرکاے جشن کے بے پناہ ذوق و شوق کودیکھ کربہ آسانی یہ اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ اردوزبان کے مستقبل کوکوئی خطرہ نہیں ہے ،وہ اپنی فطری شیرینی،جاذبیت اورجمال و کمال کی وجہ سے آنے والے دنوں میں اوربھی وسعت پذیرہوگی،یہ جوروزروزہم اس طرح کی یاس انگیزباتیں سنتے ہیں کہ اردوکے ساتھ ایساہوگااورویساہوگا،وہ دراصل اردوکے نام پر اپنی روٹی سینکنے والے نام نہاد ٹھیکیداروں کے مفادات کی بازگشت ہوتی ہیں،دراصل جولوگ اردوکے نام پراپنی دکان چلاتے ہیں،صرف وہی محرومیوں اور ناامیدیوں کی بات کرتے ہیں،ریختہ والے یہ ثابت کررہے ہیں کہ مخلصانہ پیش قدمی اورحوصلہ مندانہ اقدام سے اس صدی میں بھی اردوکومقبولیت کی اُسی سطح پرلایاجاسکتاہے،جوکبھی اسے ہندوستان میں حاصل تھی۔اس حوالے سے سنجیوصراف لائقِ تحسین وآفرین ہیں کہ ان کی اردوسے محبت جنون کی حدوں تک پہنچ چکی ہے اوروہ اردوکے فروغ کے لیے رضاکارانہ طورپرجوکام کررہے ہیں،وہ اب تک اردوزبان کی ترقی کے لیے مختص کسی منظم ادارے سے بھی نہیں بن پڑاہے۔اردووالوں کے لیے اس میں سامانِ مسرت توہے ہی،مگرساتھ ہی پیغامِ سبق آموزی بھی ہے۔قومی کونسل،عرشیہ پبلیکیشن،اردواکادمی ،ساہتیہ اکادمی،الحسنات وغیرہ اردوکے اشاعتی ادارے بھی جشن میں موجودتھے،مگران کے ساتھ ساتھ وانی پرکاشن،راج کمل پرکاشن ،اسٹار،سہمت وغیرہ ہندی کے اشاعتی اداروں نے بھی اپنے اسٹالزپراردو شاعروں کے منتخب کلام کااچھاخاصا ذخیرہ اکٹھاکررکھاتھا،ان کے یہاں غالب اور میرسے لے کرفیض و فراق واحمدفراز،کلیم عاجزوغیرہ سب ہندی لباس میں موجودتھے اورادب نوازافراد،خصوصاً نوجوان انھیں بڑے ذوق و شوق سے خریدرہے تھے،اس دوران مجھے یہ محسوس ہواکہ ہمارے عہدکی نسل اردوادب اور اردوشاعری سے ہم رشتہ ہونے کے لیے بے تاب ہے،اب چوں کہ بعض وجوہ کی بناپروہ غالب،میر،فیض وغیرہ کوبراہِ راست اردوزبان میں نہیں پڑھ سکتی،سووہ متبادل زبانوں میں ہی انھیں پڑھناچاہتی ہے۔اردواداروں کی ذمے داری ہے کہ وہ اردورسم الخط کودرپیش خدشات کاصرف رونانہ روئیں؛بلکہ اس کی حفاظت کے لیے عملی تدبیربھی کریں،ریختہ پرہی میں نے گلزار صاحب کاایک انٹرویودیکھاتھا،جس میں انھوں نے کہاتھاکہ انھوں نے اردوزبان کی تدریس کاایک نصابی خاکہ این سی پی یوایل کو پیش کیاتھا؛تاکہ اردوزبان کواس کے رسم الخط سمیت فروغ دیاجاسکے،مگر کونسل والوں نے اسے قابلِ اعتناہی نہ سمجھا۔

ایک تحیرزاتجربہ:
تیسرے دن کے پروگرام کاکچھ وقفہ گزارنے کے بعدہم چنداحباب جب چائے کے لیے گئے اورٹوکن وصول کرکے ابھی چائے لینے ہی لگے تھے کہ پیچھے سے ایک شخص ہماری طرف متوجہ ہوا،اس کے ہاتھوں میں بڑے سائزکے رسالوں کاایک بنڈل نظرآرہاتھا،اس نے کچھ کہے بغیرہماری طرف ایک ایک رسالہ بڑھایا،اس کاکلراورلک ایساتھاکہ مجھے لگاشایداردودنیاکاتازہ شمارہ ہے،مگرہاتھ میں لینے کے بعداس کاٹائٹل دیکھا،تواس پر لکھاتھا’’ایک عظیم ترین شخص جوکبھی روے زمین پر تھا․․․․․․یسوع مسیح․․․․․اس کی داستانِ حیات‘‘یہ گویاایک دوسری کتاب تھی،اردوزبان میں رنگین،عمدہ طباعت اورکل صفحات ساٹھ،اس میں ایک یک ورقی پمفلیٹ بھی تھا،جس کے دونوں جانب اردواور ہندی میں محرَّف توریت وانجیل کی آیات واقتباسات درج تھے۔یہ دونوں چیزیں پکڑاکروہ شخص یہ جاوہ جا!اس وقت توہم کسی اوردھن میں تھے،سواس کتاب کوبیگ میں رکھ لیا،رہایش گاہ پہنچنے کے بعداسے کھول کردیکھا،توپتاچلاکہ یہ انجیل (مرقس)کے ایک حصے کااردوترجمہ ہے،اس میں حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی اوران کے مختلف احوال کاذکرہے،کتاب کی طباعت انٹرنیشنل بائبل سوسائٹی انڈیاکی جانب سے ہوئی ہے اوریہ بچوں کے لیے ایک نصابی اورتدریسی کتاب ہے؛کیوں کہ اخیرمیں کتاب کے مشمولات کی روشنی میں نمونے کے سوالات بھی دیے گئے تھے۔ذاتی طورپرمجھے بڑی حیرت ہوئی کہ ایک ایسے پروگرام میں،جہاں مذہب یامذہب کی تبلیغ و اشاعت جیسی چیزکاتصوربھی نہیں تھا،وہاں ایک شخص کتنی چالاکی سے عیسائیت کی تبلیغ میں مصروف تھا،ایک احساس یہ بھی ہواکہ عیسائی مشنریز اپنے مذہب کی تبلیغ اتنی ہوشیاری اورغیر محسوس طریقے سے کردیتی ہیں کہ ہمیں پتابھی نہیں لگ پاتا،جبکہ اس کے برخلاف کم ازکم برصغیر ہند و پاک کے مسلمانوں کارویہ توہم یہی دیکھتے ہیں کہ وہ اس حوالے سے کام کم؛بلکہ بہت کم اورشوروغل بہت زیادہ کرتے ہیں،اس سے تبلیغ توخیرکیاہوگی،دوسرے لوگوں میں اپنے مذہب کے تئیں مزیدشدت پسندی آجاتی ہے اوروہ اسلام اورمسلمانوں کے تئیں مزید بدگمانی کے شکارہوجاتے ہیں۔

ایک معمہ:
لگ بھگ چھ بجے ہم لوگ بیت بازی کے پروگرام سے فارغ ہوئے،تو’’بزمِ رواں‘‘کی طرف آنے لگے،جہاں ’’شامِ غزل‘‘چل رہی تھی، راستے میں تھے کہ ایک طرف کم وبیش سو نوجوانوں کو نعرہ لگاتے دیکھا،قریب گئے،توپتاچلاکہ بھیڑکے بیچوں بیچ حالیہ دنوں میں اپنی بے ہودہ گوئیوں کی وجہ سے سرخیوں میں رہنے والاپاکستان بدرکنیڈین طارق فتح ہے اورنوجوان پاکستانی ایجنٹ مردہ باد وغیرہ کے نعرے لگارہے ہیں۔میری بھی کچھ سمجھ میں نہیں آیاکہ آخر جشنِ اردومیں اس شخص کے پائے جانے کاکیامطلب ہے؛کیوں کہ ایک ٹی وی انٹرویومیں میں نے خود دیکھااور سناہے کہ وہ شخص پاکستان میں رونما ہونے والے تمام تر سانحات کی ذمے داری اردوزبان پر ڈال رہاتھااوروہ اس طیش میں بول رہاتھاکہ مبادااردواگرکسی انسان کی شکل میں ہوتی،تووہ اسے مار ہی ڈالتا،بھلاایسے متعفن ذہن والاانسان اردوکے جشن میں کیاکرنے آئے گا،پھریہ بھی کہ ریختہ والوں نے خودہی ملکی حالات اورپاکستان سے تعلقات میں کشیدگی کومدنظررکھتے ہوئے اس سال کسی بھی پاکستانی ادیب یا شاعر کوبطورمہمان کے توبلایا؛ لیکن پرفارم کرنے کے لیے نہیں بلایاتھا، معروف پاکستانی شاعرہ کشورناہیدکودونوں ملکوں کے سیاسی احوال کے پس منظرمیں کسی اَنہونی کے خدشے کے پیشِ نظر اسٹیج پرموجودہونے کے باوجوددعوتِ سخن نہیں دی گئی،توریختہ والے آخرطارق فتح جیسے بدبودارانسان کواس خوب صورت پروگرام میں کیسے بلاسکتے ہیں(بعدمیں ریختہ نے اس کی صراحت بھی کی)پھرفوراً ہی میرے ذہن میں ایک بات آئی،جسے معروف ادیب مشرف عالم ذوقی سمیت کئی لوگوں نے کہا اور لکھاہے کہ اسے باقاعدہ بھیجاگیاتھااوروہ یاپردے کے پیچھے چھپے ہوئے اس کے آقایانِ ولیِ نعمت یہ چاہتے تھے کہ وہ اس جشن میں جائے ،خبربنے اور ارد و سے منسوب اس جشن میں رخنہ اندازی کرے،مگراچھاہواکہ حساس اوربیدارمغزنوجوانوں کی نگاہ فوراًہی اس پرپڑی،انھوں نے اسے گھیرا،اس کی زبان بگڑنے لگی،تواس کے منہ پرپڑنے کے لیے چپل اورجوتے بھی لہرانے لگے،پھرپولیس والوں نے اسے اپنے دائرے میں لے کرکسی طرح باہرکیا،ورنہ اس کی توایسی تیسی ہوجانی تھی! بعض لوگوں کواس سے غیر معمولی ہمدردی ہے ، اس حادثے کے بعدٹوئٹرپروہ خودبھی اول فول لکھ کرلوگوں کی ہمدردیاں بٹورنے میں مشغول ہے،خوداسی احتجاجی بھیڑکے نزدیک سے گزرتے ہوئے ایک ساٹھ سترسالہ خاتون کویہ کہتے سناکہ ’’بیچارہ اچھاانسان ہے،یہ لڑکے اس کے پیچھے کیوں پڑے ہیں؟‘‘اس کے پیچھے پڑنے کی کوئی ایک وجہ ہوتی توہم بتاتے بھی،سوہم نے اس کی بات ان سنی کردی،دوچارقدم آگے بڑھے ہوں گے کہ ایک خوب صورت اوربالکل ’’نئے انداز‘‘کی دوشیزہ کویہ کہتے سناکہ طارق فتح کااس پروگرام میں آناہی غلط ہے،He is not Urdu person اس کی یہ بات مجھے بالکل معقول لگی۔

چلتے چلتے:
اخیرمیں کچھ باتیں اُس ’’بیاض‘‘کے بارے میں،جوریختہ فاؤنڈیشن نے اپنے تمام شرکاکوتحفتاً دی ہے۔اسے یادگاری مجلہ یاسوینئربھی کہہ سکتے ہیں،کل چوراسی صفحات پر مشتمل یہ اردواور ہندی زبانوں میں دستیاب تھا،اپنی پسندکے مطابق کوئی بھی شخص اردویاہندی یادونوں مجلے لے سکتاتھا،مشمولات دونوں ہی کے مساوی تھے،اندرون میں مختلف پرائیویٹ کمپنیوں کے اشتہارات اورگزشتہ سالوں کے جشن کی تصویری جھلکیوں کے علاوہ سب سے پہلے ریختہ کے بانی سنجیوصراف کاپیغام ہے،اس میں انھوں نے کہاہے کہ ریختہ فاؤنڈیشن ایک تحریک ہے اوراس کامقصداردوادب،تہذیب اور ثقافت کی خوشبوکوہندوستان ہی نہیں،عالمگیرسطح پر پھیلانا اور بڑھانا ہے، انھوں نے گزشتہ محضـ تین سالوں میں ریختہ کی حیرت انگیزکامیابی پراپنی دلی مسرت کااظہارکرتے ہوئے اپنے معاونین،سرپرستوں اورریختہ کوپسندکرنے والے شائقین کے تئیں اظہارِتشکرکے ساتھ اردوکے کاژکومزید مضبوطی سے آگے بڑھانے کاعزم دوہرایا ہے۔ دوسرے صفحے پر ریختہ فاؤنڈیشن کے بارے میں مختصراً کچھ قیمتی معلومات درج کی گئی ہیں، مثلاً: ریختہ کی شروعات2013میں ہوئی،اِس وقتrekhta.orgاردوشاعری اور اردوادب سے متعلق کتابوں اورتخلیقات کاعالمی سطح پرسب سے بڑاذخیرہ پیش کرتاہے،اردواسکالرس اوراردوزبان و ادب سے شغف رکھنے والے افرادکی پہلی پسند ہے۔ rekhta.orgکواِس وقت 223ممالک سے سالانہ نوملین(نوے لاکھ)لوگ وزٹ کرتے ہیں اوریہ تعدادروزبروزبڑھ رہی ہے،ریختہ کی سائٹ پر اس وقت اردوادب وشعر سے متعلق بائیس ہزارکتابیں موجودہیں،ہرماہ لگ بھگ ایک ہزار کتابوں کے اضافے کاعمل جاری ہے،اس سائٹ پر2100شعراکی پچیس ہزار غزلیں اور نظمیں جمع کی گئی ہیں،آٹھ ہزار آڈیوزاورویڈیوزاپ لوڈ کیے گئے ہیں،کسی بھی مشکل لفظ کاہندی یاانگریزی ترجمہ ایک کلک پرمعلوم کرنے کی سہولت موجود ہے،شائقین کی سہولت کے لیے اردواشعارفارسی،دیوناگری اوررومن رسم الخط میں بھی موجودہیں۔’’بیاض‘‘کے اندرعزم وحوصلہ ،حب الوطنی،مزاح،خاص مواقع وموضوعات سے متعلق اشعاراورنظم و غزل کے علاوہ ذوق، مومن، غالب،میر،داغ،اقبال،امیرمینائی،قمرجلالوی،نوح ناروی، جگرمرادآبادی،اکبرالہ آبادی،فیض احمدفیض،جون ایلیا، ظفراقبال، شہریار، ساقی فاروقی، ندافاضلی،ناصرکاظمی،محمدعلوی،مجروح سلطانپوری،خلیل الرحمن اعظمی،فراق گورکھپوری،عرفان صدیقی،بسمل سعیدی، عبدالحمیدعدم،احمدفرازوغیرہ کے ایک ایک دودوصفحات پرمشتمل منتخب اشعاردرج کیے گئے ہیں، اخیرمیں اردوشاعری میں عام طورپراستعمال ہونے والے تقریباً سوالفاظ کے ہندی وانگریزی معانی بھی دے دیے گئے ہیں؛تاکہ غیراردوداں قاری کوشعرسمجھنے میں سہولت ہو۔

Nayab Hasan
About the Author: Nayab Hasan Read More Articles by Nayab Hasan: 28 Articles with 22099 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.