کوئی عقلی توجیہہ ممکن نہیں

اوہ ۔ ۔ ۔ یہ وہ لڑکی نہیں ہے جسے ہم لینے آئے تھے ۔ غلطی ہوگئی ۔ چلو واپس چلیں ۔ ۔ ۔
وہ گرمیوں کی ایک تپش آلود چڑھتی دوپہر تھی ۔ تیرہ سالہ عاصمہ جو کہ آٹھویں جماعت کی طالبہ تھی ، تیز بخار کے سبب آج اسکول نہیں جا سکی تھی ۔ اور اب گھر کے برآمدے میں بچھی ایک چارپائی پر اپنا تپتا ہؤا دھان پان سا وجود لئے بےسُدھ پڑی تھی ۔ باقی کے سب بہن بھائی اپنے اپنے اسکولوں کو گئے ہوئے تھے ۔ باپ دکان پر جا چکا تھا ۔ اور وہ بھی ماں کے ساتھ گلی ہی میں واقع ایک کلینک سے ہو کر آ گئی تھی اور اب گھر میں اس کے اور ماں کے علاوہ اور کوئی نہ تھا ۔ ماں نے اسے دوا دے دی تھی اور اب ضروری کام کاج سے فارغ ہو کر وہیں ساتھ ہی بچھے ہوئے تخت پر سلائی مشین رکھے کچھ سلائی کر رہی تھی اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد بیٹی کے ماتھے پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں بھی رکھتی جاتی ۔ اور ہر بار پوچھتی ۔ بیٹے! تُو ٹھیک تو ہے نا؟ اور وہ غنودگی کے عالم میں ہاں ہوں کر دیتی ۔

اسی دوران معاً ماں نے محسوس کیا کہ لڑکی کے چہرے پر ایک عجیب سی چمک اور سفیدی سی آ گئی ہے جسے اس نے بخار کی تپش اور باہر صحن میں پھیلی ہوئی دھوپ کے اثر پر محمول کیا اور پھر اپنے کام میں مشغول ہو گئی ۔ اور یہی وہ لمحہ تھا جب لڑکی کو اپنے دماغ میں روشنی کا ایک جھماکا سا محسوس ہؤا اور بند آنکھوں کے پار ایک دودھیا سا غبار پھیلتا دیکھا ۔ اسے لگا وہ بادلوں کے درمیان سفر کر رہی ہے ۔ اسے اپنا وجود ایک گہری دھند کے بیچ ڈولتا ہؤا معلوم ہؤا ۔ مگر نہ وہ اپنے ہاتھ ہلا سکتی تھی نہ ہی پیر نہ سر ۔ نہ آنکھیں کھل رہی تھیں ۔ اگرچہ وہ ذہنی طور سے پوری طرح بیدار تھی ۔ ایک سناٹا سا اس کے اندر بھر گیا ۔ گھبرا کر اس نے ماں کو پکارنا چاہا ۔ معلوم ہؤا کہ زبان بھی ساتھ چھوڑ چکی ہے ۔ کوئی آواز اس کے منہ سے نہ نکل سکی وہ اپنے ہونٹوں کو جنبش تک نہ دے سکی ۔ مگر سماعتیں اپنا کام پورا کر رہی تھیں ۔ ماں کی سلائی مشین کی آواز برابر اس کے کانوں میں آ رہی تھی بلکہ گلی اور ساتھ ہی واقع بازار سے آنے والی ملی جلی مختلف آوازوں اور آہٹوں کو بھی وہ بخوبی سن رہی تھی ۔ کوئی جسمانی تکلیف نہ ہونے کے باوجود بہت بےچینی ایک کرب اور بےبسی کی کیفیت اس پر طاری ہو رہی تھی ۔ اس نے پوری قوت لگا کر چیخنا چاہا اٹھ کر بیٹھنا چاہا مگر ناکام رہی ۔ پیر برف کی طرح ٹھنڈے ہو چکے تھے ۔ تبھی اس کو لگا کہ پیروں کی انگلیوں اور انگوٹھوں میں ایک سرسراہٹ سی ہو رہی ہے کوئی لرزش یا لہر سی ہے ۔ پھر وہ آگے بڑھنا شروع ہوئی تلووں کے درمیان آئی ایڑیوں تک پہنچی حتٰی کہ پنڈلیوں میں داخل ہوئی اور اوپر کی جانب اپنا سفر شروع کیا ۔ اور یکلخت گھٹنوں تک آ کر رک گئی ۔ تبھی اس نے گویا دور کسی کنوئیں میں سے نکل کر آتی ہوئی گمبھیر سی آوازیں سنیں ۔ کوئی کہہ رہا تھا ۔
" اوہ ۔ ۔ ۔ یہ وہ لڑکی نہیں ہے جسے ہم لینے آئے تھے ۔ غلطی ہو گئی ۔ چلو واپس چلیں "
اور وہ ایک لہر سی جو گھٹنوں تک آ کے رکی ہوئی تھی نیچے کی جانب چلنا شروع ہو گئی پنڈلیوں تک پہنچی ایڑیوں سے ہوتی ہوئی تلووں کے درمیان آئی اور پیروں کی انگلیوں اور انگوٹھوں میں داخل ہو کر پھر رک گئی ۔ اور وہ جیسے کسی ڈراؤنے خواب سے بیدار ہو گئی اور ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی ۔ اس کا وجود تھر تھر کانپ رہا تھا کانوں اور دماغ میں ایک سائیں سائیں سی چل رہی تھی اسے لگا وہ ایک دن کی نہیں برسوں کی بیمار ہے اور اپنی سب توانائیاں کھو چکی ہے ۔ ماں نے اس کی حالت دیکھی تو گھبرا کر اسے تھام لیا ۔ اس کا نحیف و ناتواں سا وجود ماں کے بازوؤں میں کسی سوکھے پتے کی طرح لرز رہا تھا ۔ بمشکل اس نے اپنے پر بیتنے والی واردات کو بیان کیا ۔ اب ماں کی باری تھی ۔ وہ جیسے کسی انجانے خوف و صدمے سے فق ہو کر رہ گئی ۔

اسی اثناء میں باپ گھر میں داخل ہؤا ۔ چہرے پر پریشانی اور رنج کے آثار تھے آتے ہی اپنے کسی جاننے والے کا نام لے کر بتایا کہ ابھی کچھ دیر پہلے اس کی بیٹی کا انتقال ہو گیا ہے عمر تیرہ سال تھی اس کے ایک گھٹنے میں ناسور ہو گیا تھا جس کا علاج چل رہا تھا مگر وہ جانبر نہ ہو سکی اور ابھی کچھ ہی دیر پہلے دم توڑ گئی ہے ۔ اس کا نام اسماء تھا ۔ ماں کی رنگت مزید متغیر ہو گئی ۔

یہاں ایک بات کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے اسے کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ۔ مذکورہ بالا واقعہ جب اس لڑکی کے ساتھ پیش آیا تھا تو وہ ابھی بلوغت کی منزل تک نہیں پہنچی تھی ۔ تو سوچنے والی بات ہے کہ ایک محض تیرہ سالہ کمسن نابالغ نازک و ناتواں معصوم سی بچی کے ساتھ اتنا سختی والا معاملہ ہؤا جو کہ عبرت انگیز بھی ہے اور سبق آموز بھی ۔ قارئین! آپ اس سارے معاملے کو سمجھ تو گئے ہونگے اور آپ کے ذہنوں میں سوالات بھی اٹھ رہے ہونگے کیونکہ یہ واقعہ آپ کی معروف دینی معلومات کی قدرے نفی کرتا ہوا نظر آ رہا ہے ۔ مگر قدرت بہت وسیع و لامحدود ہے ۔ آپ اسے اس کے سربستہ رازوں میں سے ایک سمجھئے ۔ ان گنت واقعات و معاملات ایسے ہیں جن کی کوئی عقلی توجیہہ ممکن نہیں ۔
Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 223 Articles with 1684120 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.