حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت

صحابہ رسول حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا ایک غلام تھا جو مجوسی تھا۔ اس کا نام ابو لولوہ تھا۔ یہ مجوسی ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس اپنے مالک کی شکایت لے کر آیا کہ اس کا مالک مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ اس سے روزانہ چار درہم وصول کرتے ہیں آپ اس میں کمی کرا دیجئے۔ امیر المؤمنین نے فرمایا تم بہت سے کام کے ہنرمند ہو تو چار درہم روز کے تمہارے لئے زیادہ نہیں ہیں۔ یہ جواب سن کر وہ غصّے میں آگ بگولہ ہو گیا اور آپ کو قتل کرنے کا مکمل ارادہ کر لیا اور اپنے پاس ایک زہر آلود خنجر رکھ لیا۔ 26 ذی الحجہ 23ھ بروز بدھ آپ نماز فجر کی ادائیگی کے لئے مسجد نبوی میں تشریف لائے۔ جب آپ نماز پڑھانے کے لئے کھڑے ہوئے تو اسلام دشمن مجوسی آپ پر حملہ آور ہو گیا اور اتنا سخت وار کیا کہ آپ بُری طرح زخمی ہو گئے اور تین دن کے بعد دس سال چھ ماہ اور چار دن مسلمانوں کی خلافت کے امور انجام دینے کے بعد جامِ شہادت نوش فرمایا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ان کی شہادت کے موقع پر لوگوں نے پوچھا، یا امیر المؤمنین کچھ وصیتیں فرمائیے اور خلافت کے لئے کسی کا انتخاب بھی فرما دیجئے اس موقع پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا خلافت کے لئے میں ان چھ صحابہ کو مستحق سمجھتا ہوں جن سے اللہ کے رسول دنیا سے راضی ہو کر گئے ہیں۔ پھر آپ نے چھ صحابہ کے نام بتائے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ ، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ۔ ان چھ صحابہ میں سے جن کو چاہیں منتخب کر لیں۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے چھ صحابہ کو خلیفہ کے انتخاب کے لئے جمع کیا اور ان سے فرمایا کہ پہلے تین آدمی اپنا حق تین آدمیوں کو دے کر خلافت کے حق سے الگ ہو جائیں۔ لوگوں نے اس کی حمایت کی۔ چنانچہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں، حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے حق میں، اور حضرت طلحہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حق میں دست بردار ہو گئے۔

تینوں منتخب صحابہ باہمی مشورے کے لئے ایک طرف چلے گئے اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں اپنے لئے خلافت پسند نہیں کرتا لٰہذا میں اس سے دست بردار ہوتا ہوں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ خاموش کھڑے رہے۔ پھر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے دونوں صحابہ سے فرمایا۔ اگر آپ دونوں حضرات خلیفہ کے انتخاب کا کام میرے ذمے چھوڑ دیں تو خدا کی قسم ! میں آپ دونوں میں سے بہتر اور افضل شخص کا انتخاب کروں گا۔ دونوں حضرات اس پر متفق ہو گئے۔ دونوں بزرگوں سے عہد و پیماں لینے کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک کونے میں لے گئے اور ان سے کہنے لگے کہ اے علی رضی اللہ عنہ آپ اسلام قبول کرنے والے اولین میں سے ہیں اور آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی عزیز ہیں لہٰذا میں اگر آپ کو خلیفہ مقرر کروں تو کیا آپ خلافت قبول کر لیں گے۔ آپ نے فرمایا۔ ہاں ۔ اگر میں آپ کے علاوہ کسی دوسرے کو آپ پر خلیفہ مقرر کروں تو کیا آپ منظور کر لیں گے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ مجھے یہ بھی منظور ہے۔ اس کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو ایک کونے میں لے گئے اور یہی دو سوال کئے وہ بھی متفق ہو گئے۔ اس کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی اس طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی بیعت کر لی۔
bashir
About the Author: bashir Read More Articles by bashir: 26 Articles with 60907 views i m honestly and sensory.. View More