بے رحم اقدامات سے ہی ملاوٹ ختم ہوسکتی ہے؟

نبی کریم ﷺ کا فرمان عالی شان ہے کہ جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں ۔ ہم فخر سے خود کو مسلمان بھی کہتے ہیں اور عشق محمد ﷺ کو زندگی کا بہترین حصہ بھی قرار دیتے ہیں لیکن ہم ملاوٹ سے باز پھر بھی نہیں آتے ۔از خود نوٹس کی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ زہریلا دودھ پلاکر شہریوں کو مارنے کی کوشش نہ کی جائے ۔پی سی ایس آر لیبارٹری کی رپورٹ میں ثابت ہوچکا ہے کہ ڈبہ بند دودھ میں ڈیٹرجنٹ پوڈر اور زہریلے کیمیائی مادے استعمال کیے جا رہے ہیں ۔عدالت عظمی نے فوڈ اتھارٹی کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے حکم دیا کہ صوبہ پنجاب کے تمام علاقوں میں دودھ اور پانی کو مستند لیبارٹریز سے ٹیسٹ کروایا جائے اور رپورٹ آئندہ سماعت پر پیش کی جائے ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہم انتظامی طور پرمکمل ناکام ، نااہل اور بیکار ثابت ہوچکے ہیں ۔وفاقی اور صوبائی سطح پر افسروں کی فوج ظفر موج موجود ہے جو حکومت کے داماد بن کر ہر اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ لیکن اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کو تیار نہیں۔ سرکاری ملازمین کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ کام نہ کرنے کی تنخواہ لیتے ہیں اور کام کرنے کی رشوت وصول کرتے ہیں۔جہاں تک ڈبہ پیک دودھ میں ملاوٹ کامعاملہ ہے ۔پاکستان میں زیادہ تر یہ کاروبار انٹرنیشنل کمپنیاں ہی کررہی ہیں اور اپنی مصنوعات کی منہ مانگی قیمت بھی وصول کر تی ہیں ۔ یہ انکشاف یقینا تکلیف دہ ہے کہ دودھ جیسی نعمت میں بھی زہر ملایاجارہاہے۔ کیا لوگ بچوں کو دودھ پلانا چھوڑ دیں ۔ اگر ڈبہ بند دودھ کااستعمال بند کرکے کھلا دودھ استعمال کرنا شروع کردیں تو کھلے دودھ کی کوالٹی کی ضمانت کون دے گا۔ دودھ کو گاڑھا اور جھاگ دار بنانے کے لیے بلا خوف خطر سرف اور سنگھاڑوں کا آٹا ڈالاجاتاہے ۔ پھر زیادہ دودھ حاصل کرنے کے لیے بھینسوں کوہارمون کاجو ٹیکہ لگایاجاتاہے اس کے مضر اثر ات انسانی صحت پر یقینا مرتب ہوتے ہیں۔ انسانی صحت کے لیے صاف پانی بھی ضروری ہے ۔ بطور خاص شہروں میں پرانی پائپ لائنیں زیر زمین ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جس کی وجہ سے پینے والے پانی میں آمیزش ہو رہی ہے جس سے پانی پینے کے قابل نہیں رہتا۔یہی وجہ ہے کہ لوگ پرانے زمانے کی طرح برتن اٹھائے ٹریٹ منٹ پلانٹ کی تلاش میں سرگرداں دکھائی دیتے ہیں۔ حکومت نے چند علاقوں میں ٹریٹمنٹ پلانٹ تو لگا دیئے ہیں لیکن ان پلانٹس کو چالو رکھنے کی ذمہ داری کوئی محکمہ اٹھانے کو تیار نہیں ۔ آلودہ اور زہریلا پانی پینے سے انسانی صحت پر بیماریوں کی یلغار ہورہی ہے۔ ہسپتال چھوٹے اور مریض زیادہ ہوچکے ہیں ۔ ہیپاٹائٹس سی ، دل ، معدے اور گردوں کی بیماریاں عام ہیں ۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ ملاوٹ صرف دودھ یا پانی میں نہیں ہورہی بلکہ سر خ مرچوں میں اینٹوں کی کیری ، بیکریوں میں گندے انڈے کا استعمال ، برگر میں انتہائی گھٹیا اور سریش والا ٹماٹوکیچپ ڈالا جاتاہے ۔ہوٹلوں، تکہ شاپ اور مچھلی فروخت کرنے والے انتہائی غیر معیاری کوکنگ آئل کااستعمال کر تے ہیں ۔ اس جرم میں چھوٹے بڑے سبھی ہوٹلوں والے شریک ہیں ۔ پہلے انہیں فو ڈ اتھارٹی کی عائشہ ممتاز کا کچھ ڈر تھا ، وہ خوف بھی اب ختم ہوچکا ہے ۔ سبزیوں اور پھلوں پر کیڑے مارنے والا جو زہر چھڑکاؤ کیا جاتاہے کیا اس کا اثر سبزی اور پھل نہیں ہوتا ۔پھر لاہور جیسے بڑے شہر کے گندے نالوں کے پانی کو ٹریٹمنٹ کیے بغیر ہی کھیتوں کو سیراب کردیاجاتا ہے ۔یہ کیمیکل شدہ زہریلا پانی بھی یقینا اپنا اثر دکھاتا ہوگا ۔ کہیں گائے کا گوشت کہہ کر گدھے اور بکرے کا کہہ کتے کا فروخت ہورہا ہے ۔انتظامی نااہلی اور ملی بھگت کی بنا پر قصائیوں نے ڈاکٹروں کی مہریں خود بنا رکھی ہیں ۔گوشت کسی بھی جانور کاہو مہر لگا کر اسے حلال کر لیاجاتا ہے ۔ چونکہ خوف خدا کسی کو بھی نہیں ہے اس لیے اپنے فرائض سے غفلت کرنے والا اور فروخت کرنے والا اپنے اپنے کام میں مصروف عمل ہیں ۔ پولٹری فارم میں مرغیوں کو زہریلی خوراک کھلا ئی جاتی ہے جبکہ مرغیاں ذبح کرنے والے انتہائی غلیظ لباس اور کیمیکل ڈرم استعمال کرتے ہیں اور تو اور یہاں ام الخبائث شراب بھی اصلی نہیں ملتی ۔زہریلی شراب پینے سے کتنے ہی لوگ ہلاک ہوچکے ہیں ۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں ہوا،پانی، کھانے کی چیزیں ، ادویات اور دودھ بھی زہر یلا دستیاب ہے ،وہاں زندہ رہنا بھی معجزے سے کم نہیں ہے ۔اب حکومت اور انتظامی اداروں کو دو ٹوک فیصلہ کرنا ہوگا کہ ملاوٹ ختم کرنی ہے یااسی طرح لوگوں کو زندہ درگور کرنا ہے ۔ اگر واقعی ختم کرنی ہے تو پھر دودھ فروخت کرنے والی کمپنیاں ہوں یا دودھ فروخت کرنے والی شاپس ، ادویات تیار کرنے والی کمپنیاں ہوں یا میڈیکل سٹور ، ہوٹل ہوں یا فش اور بارکیو شاپش ، تھوک سودا بیچنے والے ہوں یا پرچون ، گوشت فروخت کرنے والوں ہوں یا برگر والے ۔جس جگہ اور مقام پر بھی ملاوٹ شدہ چیز ملے اس کمپنی ، ادارے اور شاپش کو اسی وقت ہمیشہ کے لیے بلیک لسٹ قرار دے کرمالکان کے خلاف دفعہ 302 کے تحت مقدمہ قائم کرکے جیل بھجوایا دیاجائے اور اس کمپنی کی تمام مصنوعات بازار سے فوری طور پر ہٹا لی جائیں جو پھر بھی فروخت کرے ، اس کو بھی وہی سزا دی جائے ۔ جب تک ملاوٹ کے مجرموں کو سخت اور بے رحم سزانہیں دی جائے گی اس وقت تک یہ بیماری ختم نہیں ہوسکتی اور جس علاقے میں ملاوٹ شدہ اشیائے خوردونوش فروخت ہوتی پکڑی جائیں اس علاقے کے فوڈ انسپکٹر کو فوری طور پر ملازمت سے برطرف کردیاجائے ۔ اب روایت شکن اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔لیکن یاد رہے اس مقصد کے لیے فوڈ عدالتیں بھی قائم کرنا ضروری ہیں۔ جنہیں پابندکردیا جائے کہ وہ اپنے ہاں دائر ہونے والے مقدمات کو زیادہ سے زیادہ دو ہفتوں میں نمٹادیں ۔بارہ بارہ سال سماعت کا چکر اب ہر سطح پر ختم کرناہو گا ۔ اس وقت کہیں کہیں فوڈ اتھارٹی کے چھاپوں کی خبریں اخبار میں چھپتی ہیں۔یا تورشوت لے کر مجرموں کو چھوڑ دیا جاتا ہے یا معمولی جرمانہ کرکے ایک بار پھر ملاوٹ شدہ اشیائے فروخت کرنے کی اجازت دے دی جاتی ہے ۔ وزیر اعلی پنجاب اور انتظامی اداروں کو ترقی یافتہ ممالک میں ملاوٹ کی روک تھام کے لیے اقدامات اور نوعیت کا ضرور جائزہ لینا چاہیئے کہ وہاں کس طرح ملاوٹ کی روک تھام کی جاتی ہے ۔اگر عرب اور یورپی ممالک میں ملاوٹ شدہ اشیائے فروخت کرنا جرم ہے تو پاکستان میں ایسے اداروں اور افراد کو حکومت نے کیوں کھلی چھٹی دے رکھی ہے ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 666253 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.