فلم اور ٹی وی کے سینئر اداکار حبیب (مرحوم )کی یاد میں !

صدارتی تمغہ حسن کارکردگی اور3 نگار ایوارڈ یافتہ فنکار جن کو قسمت نے فلمی دنیا تک اور صلاحیتوں نے بام عروج تک پہنچایا۔
فلم اسٹار حبیب نے 500 سے زائد اردو اور پنجابی فلموں میں شاندار اداکاری کرنے کے ساتھ کئی فلمیں پروڈیوس کیں اور ہدایتکاری بھی کی۔

حبیب کی شہرت اور کامیابی کا آغاز1958 میں ریلیز ہونے والی ہدایتکار لقمان کی فلم ’’آدمی ‘‘ سے ہواجس کو متعد د نگار ایوارڈ ز سے نوازا گیا !

حبیب نے اپنے دور کی 35 ہیروئینز کے ساتھ کام کیا، ان کی کامیاب ترین فلمی جوڑی اداکارہ نغمہ کے ساتھ بنی جن کے ساتھ حبیب نے 70 سے زائد فلموں میں کام کیا !

حبیب کا فلمی کیرئیر 54 سالوں پر محیط ہے جس کے دوران انہوں نے بہترین اداکار کے3 نگار ایوارڈ بھی حاصل کیئے !

فلم’’اولاد‘‘ میں حبیب نے اداکار وحیدمراد کے باپ کا کردار ادا کیا ،یہ بطور اداکار وحیدمراد کی پہلی فلم تھی اور اتفاق دیکھئے کہ وحیدمراد کے سپر اسٹار بن جانے کے بھی کافی عرصہ بعد اداکار حبیب نے فلم’’وقت‘‘ میں ایک بار پھر وحیدمراد کے باپ کا کردار ادا کیا اور یہ دونوں ہی فلمیں کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔
فلم ’’باغی‘‘کی تیاری پر حبیب نے اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی لگائی جو ڈوب گئی جس کی وجہ سے انہیں ذہنی اذیت اور مالی پریشانیوں کا شکار ہونا پڑا۔

فروری کا مہینہ فن اور فنکاروں کے لحاظ سے کافی بدقسمت ثابت ہوا کہ اس ماہ میں علم و فن کے کئی روشن چراغ بجھ گئے جن میں فاطمہ ثریا بجیا اور روبن گھوش کے بعد پاکستانی فلموں کے نامور اداکار حبیب کا25 فروری 2016 کو 85 سال کی عمر میں انتقال کرجاناایک ایسا افسوسناک واقعہ ہے جس نے فن کی دنیا کو ایک بار پھر سوگوار کردیا ہے۔اداکار حبیب ایک فنکار کا نہیں بلکہ ایک عہد کا نام تھا جو ان کے انتقال کے ساتھ ہی ختم ہوگیا کہ اب ان جیسا اعلیٰ تعلیم یافتہ ،خوش اخلاق اور باصلاحیت فنکار شاید ہی پیدا ہو کہ کچھ لوگوں کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا اور ان کی کمی ہمیشہ محسوس کی جاتی رہتی ہے۔

پاکستانی فلموں اور ٹی وی ڈراموں کے حوالے سے سینئر اداکار حبیب کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں انہوں نے 500 سے زائد اردو اور پنجابی فلموں میں شاندار اداکاری کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ کئی فلمیں پروڈیوس کیں اور ہدایتکاری بھی کی، ان کا شمار اپنے زمانے کے مصروف اور کامیاب فلمی ہیروز میں ہوتا تھا جبکہ کچھ عرصہ سے وہ ٹی وی ڈراموں میں بھی اپنی عمدہ اداکارانہ صلاحیتوں کا خوبصورت مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آرہے تھے۔اداکار حبیب ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور خوش اخلاق انسان تھے جو ان سے ایک بار مل لیتا وہ ان کا گرویدہ ہوجاتا ۔انہوں نے اردو،انگلش ،فارسی میں ایم اے کیا ہوا تھا اور ایک فنکار کی حیثیت سے لولی ووڈ میں ان کا بڑا کام اور مقام تھا۔پاکستان فلم انڈسٹری کے ابتدائی دور کے فنکاروں میں سدھیر اور اعجاز کے بعد مقبول اور کامیاب ہونے والے ہیروز میں تیسرا بڑانام حبیب کا ہی لیا جاتا ہے ۔

اداکار حبیب کی پہلی فلم 1956 میں ریلیز ہونے والی فلم ’’لخت جگر ‘‘ تھی جس میں انہیں ملکہ ترنم نورجہاں کے چھوٹے بھائی کے کردار میں کاسٹ کیا گیالیکن فلم کامیاب نہ ہوسکی اس کے بعد ان کوہدایتکار نذیر اجمیری نے اپنی فلم’’ شرارت ‘‘میں اداکارہ نسرین کے ساتھ بطور ہیرو کاسٹ کیا لیکن یہ فلم بھی ناکام رہی مگر حبیب کی اداکاری اور شخصیت کو پسند کیاگیاجس کی وجہ سے ان کو مزید فلمیں مل گئیں،حبیب کی شہرت اور کامیابی کا آغاز1958 میں ریلیز ہونے والی ہدایتکار لقمان کی فلم ’’آدمی ‘‘ سے ہواجس کو متعد د نگار ایوارڈ ز سے نوازا گیا اس کے علاوہ ان کی کامیاب اردوفلموں میں فلم ’’ایاز،زہر عشق ،سپیرن،ثریا،اولاد، مہتاب ،خاندان ،آشیانہ ،عیدمبارک ،ماں کے آنسو،فیشن ،دل کے ٹکڑے ،ہارگیا انسان اور وقت جیسی فلمیں شامل ہیں جبکہ پنجابی فلموں میں 1963 میں ریلیز ہونے والی فلم ’’موج میلا‘‘ حبیب کی ایک سپرہٹ میوزیکل فلم تھی جبکہ1965 میں ریلیز ہونے والی ان کی فلم’’ جی دار‘‘ کامیاب پلاٹینم جوبلی فلم تھی۔ان کی مشہور اور کامیاب پنجابی فلموں میں فلم’’دل دا جانی،یارمار،بابل دا وہیڑا،چن مکھنا،ٹیکسی ڈرائیور،چن ویر،چن پتر،دنیا پیسے دی،رنگو جٹ،سجن بے پرواہ ،زیلدار اور خوشیا شامل ہیں لیکن ایک فلمساز کے طور پر حبیب کامیابی حاصل نہیں کرسکے کیو نکہ ان کی پروڈیوس کی ہوئی فلمیں’’پردیس ‘‘ اور ’’ ہار گیا انسان ‘‘ کاروباری طور پر کامیابی حاصل نہیں کرسکیں۔ حبیب نے اپنے دور کی 35 ہیروئینز کے ساتھ کام کیا جو ایک ریکار ڈ ہے۔جبکہ حبیب نے صرف اداکارہ نغمہ کے ساتھ 70 سے زائد فلموں میں کام کیاجس سے اس فلمی جوڑی کی مقبولیت اور کامیابی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اداکار حبیب پر مختلف فلموں میں نامور گلوکاروں کے گائے ہوئے بہت سے سپر ہٹ فلمی گانے بھی پکچرائز کیئے گئے ۔انہوں نے عین عالم شباب میں اداکار وحیدمراد،اسلم پرویز،علاؤالدین،محمد علی اوراداکارہ لیلیٰ کے والد کے بوڑھے کرداروں میں عمدہ فنکارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرکے داد حاصل کی اور اپنے فنی قد میں اضافہ کیا ۔فلم’’اولاد‘‘ میں حبیب نے اداکار وحیدمراد کے باپ کا کردار ادا کیا واضح رہے کہ یہ بطور اداکار وحیدمراد کی پہلی فلم تھی اور اتفاق دیکھئے کہ وحیدمراد کے سپر اسٹار بن جانے کے بھی کافی عرصہ بعد اداکار حبیب نے فلم’’وقت‘‘ میں ایک بار پھر وحیدمراد کے باپ کا کردار ادا کیا اور یہ دونوں ہی فلمیں کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔حبیب کا شمار پاکستانی فلم انڈسٹری کے چند بڑے اور مثالی فنکاروں میں ہوتا ہے ایک وقت تھا جب ان کا شمار پاکستانی فلموں کے مصرو ف ترین ہیروز میں ہوتا تھالیکن گزشتہ کچھ سالوں سے فلموں میں کام نہ ہونے کے باعث وہ گزر بسر کرنے کے لیئے ٹی وی ڈراموں میں کام کررہے تھے۔

اداکارحبیب کا فلمی کیرئیر 54 سالوں پر محیط ہے جس کے دوران انہوں نے بہت اچھا کام کیا اور3 نگار ایوارڈ بھی حاصل کیئے ،ان کو پہلا نگار ایوارڈ 1958 میں فلم ’’آدمی ‘‘ میں بہترین اداکار کا دیا گیا ، بہترین ایکٹر کا دوسرا نگار ایوارڈان کو1961 میں فلم ’’ثریا‘‘ پر ملا اور تیسرا نگار ایوار ڈ ان کو2002 میں ’’لائیف اچیومینٹ ایوارڈ‘‘ کے طو ر پر دیا گیا جبکہ اداکار حبیب کو آخری عمر میں حکومت پاکستان نے تمغہ حسن کارکردگی سے بھی نوازا۔

اداکارحبیب جنہوں نے 1956 میں ہدایتکار لقمان کی فلم’’لخت جگر‘‘ سے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز کیاتھاوہ اس وقت سے لے کر اپنی موت تک شعبہ فن اداکاری سے وابستہ رہے۔ ان کے کریڈٹ پر بے شمار شاہکار فلمیں اور بے شمار یادگار کردار ہیں۔1963 میں ریلیز ہونے والی ان کی فلم’’موج میلہ‘‘ ایک سپرہٹ میوزیکل فلم تھی۔حبیب ایک کامیاب اداکار ہونے کے ساتھ بہت اچھے فلم پروڈیوسر بھی ہیں۔حبیب پاکستان کے وہ پہلے اداکار ہیں جنہوں نے ’’دیوداس‘‘ کا تاریخی کردار ادا کیا ،بھارتی فلموں میں اداکار کے ایل سہگل ،اشوک کمار، دلیپ کمار اور شاہ رخ خان نے بھی دیوداس کا کردار ادا کرچکے ہیں۔اداکار حبیب نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں کی فلموں میں کام کیا لیکن ان کو پنجابی فلموں میں زیادہ پسند کیا گیا یہی وجہ ہے کہ ان کی کامیاب فلموں میں پنجابی فلموں کی تعداد زیادہ ہے۔اداکار حبیب کو منفرد اسٹائل کے لباس،ٹوپیاں ،انگریزی ہیٹ،کرتا،پاجامہ اور مفلر کے استعمال کے حوالے سے بھی شہرت حاصل ہوئی اور کئی فلموں میں ان کی ڈریسنگ کو بہت پسند کیا گیا۔

فلم اسٹارحبیب 29 نومبر1934 کو بھارتی پنجاب میں لدھیانہ کے قریب سدھند شریف میں پیدا ہوئے ان کا پیدائشی نام حبیب الرحمٰن تھا ان کے والدریلوے کے ملازم تھے ملازمت کے دوران ان کا تبادلہ یوپی کے ضلع ’’سہارنپور ‘‘میں ہوگیا اور یوں ان کا پورا خاندان سہارنپور میں آکر بس گیا،حبیب نے ابتدائی تعلیم سہارنپور سے حاصل کی جبکہ میٹرک ’’پٹیالہ‘‘ سے کیا اس کے بعدمسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی اس دوران پاکستان کا قیام عمل میں آگیا جس کے بعد وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور گوجرانوالہ میں رہائش اختیار کی جس کے کچھ عرصہ بعد لاہور جاکر ملازمت کے حصول کے لیئے کوششیں شروع کیں جس کے دوران انہوں نے ٹائپنگ اور شارٹ ہینڈ کے کورس بھی کیئے جس کی وجہ سے ان کو ا یک پرائیویٹ فرم میں ملازمت مل گئی لیکن ملازمت سے فارغ ہوکروہ کالج بھی جایا کرتے تھے تاکہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکیں ۔انہوں نے تعلیم پر توجہ دی اورآخر کار باآسانی ایم اے کا امتحان پاس کرلیا انہیں لٹریچر پڑھنے کا بہت شوق تھا یہی وجہ تھی کہ ان کی جنرل نالج بہت اچھی تھی، ایک بار انہوں نے پی ٹی وی کے مشہور پروگرام ’’نیلام گھر ‘‘ میں شریک ہوکر اس پروگرام کے میزبان طارق عزیز کی جانب سے پوچھے گئے تمام سوالات کے صحیح جوابات دے کر انعام بھی حاصل کیاتھا۔حبیب نے 1972 میں اس دور کی مشہور فلمی ہیروئن اداکارہ نغمہ سے شادی کرلی تھی ان دونوں کی فلمی جوڑی تو بہت زیادہ کامیاب رہی اور ان دونوں نے 70 فلموں میں ایک ساتھ کام کیا لیکن گھریلو زندگی زیادہ دیر نہیں چل سکی اورشادی کے کچھ عرصہ بعدان کے درمیان علیحدگی ہوگئی اور پھر حبیب نے نغمہ کو طلاق دے دی ،نغمہ کے بطن سے ان کا ایک بیٹا اور 4بیٹیاں ہیں جبکہ ایک اور بیٹی ان کی دوسری بیوی سے بھی ہے‘‘۔
حبیب کو دراصل قسمت نے فلمی دنیا تک پہنچا یاجس کا قصہ کچھ یوں ہے کہ 1956 میں حبیب اپنے کالج کے دوستوں کے ہمراہ لاہور کے ایک فلم اسٹوڈیو میں فلم کی شوٹنگ دیکھنے گئے جہاں ہدایتکار لقمان اپنی ایک فلم کی شوٹنگ میں مصروف تھے اور سیٹ پر بڑی گہما گہمی تھی ،یہ سب بھی وہاں کھڑے ہوگئے کہ اچانک ہدایتکار لقمان نے ان لڑکوں پر ایک بھر پور نظر ڈالی اور پھرحبیب کے قریب آکر کہا کہ میری فلم میں کام کروگے؟ یہ غیرمتوقع آفر سن کر حبیب بالکل ہکا بکا رہ گئے کیونکہ انہوں نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ اداکار بنوں گا لیکن لقمان صاحب کا اسرار تھا کہ حبیب سکرین ٹیسٹ دے دیں چنانچہ حبیب کااسکرین ٹیسٹ ہوا جس کو دیکھنے کے بعد ہدایتکار لقمان نے حبیب کو اپنی فلم’’ لخت جگر‘‘ میں مشہور گلوکارہ واداکارہ نورجہاں کے چھوٹے بھائی کے کردار میں کاسٹ کرلیا اور یوں قسمت نے اچانک حبیب کو فلم اسٹار بنادیا۔
اتفاق سے حببب اور اعجاز کا فلمی کیرئیر ایک ساتھ شروع ہوا ۔1956 میں حبیب فلم’’لخت جگر ‘‘ سے اور اعجاز فلم’’حمیدہ‘‘ سے منظرعام پر آئے یہ دونوں فلمیں ایک ہی کہانی پر بنائی گئی تھیں۔حبیب کی بطور اداکار پہلی فلم لخت جگر کامیابی حاصل نہیں کرسکی لیکن ان کی اداکاری کو پسند کیا گیا جس کے بعد ہدایتکار نذیر اجمیری نے حبیب کو اپنی نئی فلم’’ شہرت‘‘ میں اداکارہ نسرین کے ہمراہ بطور ہیرو کاسٹ کر لیالیکن بدقسمتی سے یہ فلم بھی کامیاب نہ ہوسکی لیکن ان کی اداکاری اور شخصیت کو لوگوں نے پسند کیا اور یوں ہدایتکار لقمان نے اپنی ایک اور فلم’’آدمی ‘‘ میں حبیب کو کاسٹ کرلیا ،1958 میں ریلیز ہونے والی فلم’’آدمی ‘‘ نے سپرہٹ کامیابی حاصل کی اور کئی نگار ایوارڈ بھی حاصل کیئے جن میں مجھے بھی بہترین اداکار کا نگار ایوارڈ دیا گیا۔ فلم ’’آدمی ‘‘ کی کہانی بھارتی فلموں کے مشہور اداکار دلیپ کمار کے بھائی ایوب خان نے تحریر کی تھی ۔نگار ایوارڈ یافتہ فلم ’’آدمی ‘‘کی سپر ہٹ کامیابی نے حبیب کو راتوں رات فلموں میں مصروف کردیا اور انہیں متعدد فلموں میں اہم کرداروں میں کاسٹ کیا جانے لگا۔بطور ہیرو حبیب کی پہلی فلم ہدایتکار نذیر اجمیری کی فلم ’’شہرت ‘‘ تھی، انہوں نے اپنے دور کی تقریباً تمام ہیروئینز کے ساتھ کام کیا جبکہ حبیب نے اپنی سابقہ شریک حیات اداکارہ نغمہ کے ساتھ 70 سے زائد فلموں میں کام کیاجس سے ان کی فلمی جوڑی کی مقبولیت اور کامیابی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔فلم ’’خلیفہ‘‘ اور فلم ’’میں چپ رہوں گی ‘‘ان دونوں کی جوڑی کی مقبول اور کامیاب ترین فلمیں تھیں جبکہ ان دونوں کی مشترکہ فلموں میں فلم ’’مکھڑا چن ورگا،بابل داوہیڑا،ات خدا دا ویر،رنگوجٹ،ایک ڈولی دو کہار،سجن بے پرواہ اور ہارگیا انسان بھی بہت مقبول اور کامیاب فلمیں تھیں۔ان دونوں کی بطور ہیروہیروئن پہلی فلم ’’مہتاب ‘‘ تھی جو1962 میں ریلیز ہوئی یہ اردو فلم تھی جبکہ ان کی آخری مشترکہ فلم’’جھلک‘‘ تھی جو2005 میں ریلیز ہوئی اس طرح ان دونوں نے 71 فلموں میں ایک ساتھ کام کیا ،نغمہ کے بعد حبیب کی فلمی جوڑی اداکارہ فردوس کے ساتھ بنی ان دونوں نے25 فلموں میں مشترکہ طور پر کام کیا ان دونوں کی پہلی مشترکہ فلم’’جھانجھر‘‘ تھی جو1965 میں ریلیز ہوئی جبکہ ان کی آخری مشترکہ فلم’’مان جوانی دا‘‘ تھی جو1976 میں ریلیز ہوئی۔

اداکارہ دیبا کے ہمراہ حبیب نے 14 فلموں میں کام کیا لیکن ان کی کوئی بھی مشترکہ فلم بڑی کامیابی حاصل نہ کرسکی، اداکارہ رانی کے ساتھ حبیب نے 10 فلموں میں کام کیا جن میں ان دونوں کی کامیاب ترین مشترکہ فلم’’ٹیکسی ڈرائیور‘‘ تھی۔نغمہ ،فردوس اور رانی کے علاوہ نورجہاں،مسرت نذیر،یاسمین ،سلونی ،بہار،صابرہ سلطانہ ،ترانہ ،شمیم آراء،عالیہ ،نائلہ ،نیرسلطانہ،مینا شوری ،رخسانہ ،نیلو،صبیحہ ، روزینہ ،سنگیتا،زیبااور دیبا کے ساتھ بھی حبیب نے کام کیا اور ان سب ہی کے ساتھ ان کی کئی فلموں نے کامیابی حاصل کی۔حبیب اپنے طویل فلمی کیرئر میں اداکارہ شبنم کے ساتھ کسی فلم میں ہیرو کے کردار میں نہیں آئے۔ البتہ شبنم کے ساتھ حبیب نے1984 میں ریلیزہونے والی ایک فلم ’’آندھی اور طوفان ‘‘ میں کام کیاجبکہ مرد اداکاروں میں حبیب کی جوڑی اداکار اعجاز کے ساتھ بہت پسند کی گئی اور حبیب نے ان کے ساتھ کئی فلموں میں کام کیا۔واضح رہے کہ اتفاق سے حبیب اور اعجاز کا فلمی کیرئیر بھی ایک ہی ساتھ شروع ہوا اوان دونوں کو1956 میں فلموں میں متعارف کروایا گیا۔

یوں تو حبیب نے سینکڑوں فلموں میں کام کیا جن میں کافی اچھی فلمیں شامل تھیں لیکن چند منتخب فلمیں ایسی تھیں جو خود حبیب کو بھی بہت زیادہ پسند تھیں جن میں فلم’’آدمی ،دیوداس،ایاز،دل کے ٹکڑے ،،ہارگیا انسان،ٹیکسی ڈرائیور،پردیس،خلیفہ،گمراہ ،میں چپ رہوں گی،موج میلہ ،سپیرن ،ثریا،ہابو،شرابی ،ماں کے آنسو،پردہ ،لاڈو،خاندان ،دیوانہ ،نادرہ ،آشیانہ ،خریدار،وقت اورباغی شامل تھیں ۔فلم دیوداس میں حبیب نے ایک شرابی کا کردار اس خوبی اور فنی مہارت کے ساتھ ادا کیا کہ لوگ بھارتی فلم دیوداس کو بھول گئے لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ایک شرابی کا کردار ادا کرنے والے حبیب نے پوری زندگی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا۔

حبیب نے فلموں میں اداکاری کرنے کے ساتھ سرمایہ کاری بھی کی اور کئی فلمیں پروڈیوس کیں بطور فلمسازان کی پہلی فلم’’پردیس‘‘ تھی جو انہوں نے 1972 میں بنائی تھی جس کی فلمبندی لندن اور پیرس کے علاوہ سعودی عرب کے مقدس مقامات پر بھی کی گئی، سعودی عرب میں فلمبند کی گئی یہ پہلی پاکستانی فلم تھی جس کے چند مناظر کی عکسبندی حجاز مقدس میں بھی کی گئی اس فلم کی ہیروئن اداکارہ دیبا تھی جبکہ روس کی اداکار ہ جینیٹ میری نے بھی اس میں کام کیا تھا اور اداکارہ نغمہ بھی اس فلم میں ایک اہم کردار میں موجود تھی لیکن یہ فلم ناکام رہی اس فلم کے ہدایتکار ثقلین رضوی تھے۔بطور فلمساز حبیب نے دوسری فلم’’ شرابی‘‘ 1974 میں پروڈیوس کی یہ ایک پنجابی فلم تھی جس میں شرابی کا ٹائٹل رول حبیب نے خود ادا کیا تھا لیکن یہ فلم بھی کامیاب نہ ہوسکی۔1975 میں ایک اور پنجابی فلم’’قاتل‘‘ کے نام سے پروڈیوس کی مگریہ فلم بھی ناکام ہوگئی اس کے بعد حبیب نے اداکار ریحان کے ساتھ مشترکہ طور پرایک پنجابی فلم’’مورچہ‘‘ بنائی، اس فلم میں ،حبیب نے ہدایتکاری کاتجربہ بھی کیا جو فلم کی ناکامی کی وجہ سے ناکام ثابت ہوا۔ پھر انہوں نے ایک اور فلم’’ہار گیا انسان‘‘ کے نام سے پروڈیوس کی جو 1975 میں ریلیز ہوئی جس کی ہدایتکاری کے فرائض ہدایتکار ایس ایم یوسف نے انجام دیئے، اس فلم کی کاسٹ میں حبیب کے ساتھ نغمہ،ندیم اور ممتاز بھی شامل تھے اس فلم نے کاروباری لحاظ سے اوسط درجے کا بزنس کیا ۔1978 میں،حبیب نے ایک اور فلم’’میرا نام راجہ ‘‘ پروڈیوس کی جس کے ہدایتکار حامد عثمانی تھے لیکن یہ فلم بھی ناکام رہی ۔

حبیب نے فلم ’’پردیس‘ــسے لے کرفلم’’میرانام ہے راجہ‘‘ تک جتنی فلمیں بنائیں وہ ناکام ثابت ہوئیں سوائے ایک فلم ’’ہار گیا انسان‘‘ کے جس نے اوسط درجے کا بزنس کیا اس لیئے حبیب کو ایک ناکام فلمساز اور ہدایتکار کہہ سکتے ہیں۔حبیب نے 1992 میں بطور فلمساز اور ہدایتکار ایک معیاری فلم’’باغی‘‘ کے نام سے بنائی جو اردو کے علاوہ سندھی ورژن میں بھی ریلیز کی گئی اس فلم کی کہانی بہت جاندار تھی جس کا موضوع کاروکاری تھا ،حبیب نے فلم ’’باغی ‘‘کی حساس کہانی کو موثر اندازسے پردہ اسکرین پر پیش کرنے کی کوشش کی لیکن جب حبیب نے اس فلم کو ریلیز کرنے کافیصلہ کیا تو اس فلم کے موضوع اورمعیاری ہونے کی وجہ سے حکومت وقت نے ا س فلم کے حقوق کے حوالے سے ان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے مطابق حبیب نے اپنی یہ فلم حکومتی ادارے کو دے دی لیکن اس وقت کی حکومت نے طے شدہ معاہدے کی پابندی نہیں کی اور حبیب کو اس فلم کی مطلوبہ رقم ادا نہیں کی گئی جس کی وجہ سے حبیب کو شدیدذہنی اذیت اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اس فلم پر انہوں نے اپنی ساری جمع پونجی لگادی تھی اور جب ان کو رقم واپس نہیں ملی تو وہ پریشانیوں میں گھر گئے اورمعاشی حالات کی وجہ سے ان کو اپنا بنگلہ تک فروخت کرنا پڑگیااور کرائے کے مکان میں رہائش اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ فلمسٹار حبیب سے راقم الحروف کی بھی کئی ملاقاتیں ہوئیں اور راقم نے ان کا ایک انٹرویو بھی کیا جن کے دوران ان کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا جس سے اندازہ ہوا کہ وہ نہ صرف ایک بہترین اداکار بلکہ بہت خوش اخلاق اور بہترین انسان تھے ۔

فنکار ہمارے معاشرے کا وہ طبقہ ہے جومرجھائے ہوئے چہروں پر خوشی لانے کا مقدس فریضہ انجام دیتا ہے لیکن جب کسی فنکار کا اپنا چہرہ مرجھاجائے تو فن کی دنیا اجڑ کر رہ جاتی ہے اور یہی حبیب کے ساتھ بھی ہوا،ذہنی او ر مالی پریشانیوں نے لولی ووڈ کے ایک سینئر اور کامیاب اداکار کو شوگر اور بلڈ پریشر کا مریض بنادیااور پھر انتقال سے کچھ عرصہ قبل ان کو برین ہیمریج بھی ہوا جبکہ وہ پھیپڑوں میں پانی بھر جانے اور فالج کا اثر ہوجانے کی وجہ سے ایک نجی ہسپتال میں زیر علاج رہے جہاں ان کی جان بچانے کے لیئے ان کو وینٹی لینٹر پر بھی رکھا گیا لیکن طویل عرصہ تک علیل رہنے کے بعدوہ 25 فروری2016 کو85 سال کی عمر میں دماغ کی شریان پھٹ جانے کی وجہ سے اس فانی دنیا سے ہمیشہ کے لیئے روٹھ کر وہاں چلے گئے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔حبیب کے انتقال کرجانے سے فن کی دنیا ہی اجڑ کر رہ گئی کہ حبیب جیسے خو ش اخلاق ،بلند کردار اور باصلاحیت فنکار روز روز پیدا نہیں ہوتے ۔آخر میں دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ حبیب مرحوم کی مغفرت فرماتے ہوئے ان کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل کرنے کی توفیق دے (آمین)
Fareed Ashraf Ghazi
About the Author: Fareed Ashraf Ghazi Read More Articles by Fareed Ashraf Ghazi : 119 Articles with 125811 views Famous Writer,Poet,Host,Journalist of Karachi.
Author of Several Book on Different Topics.
.. View More