دوسری شادی

’’عاصمہ نے خلع لے کر دوسری شادی کرلی کہ وہ سسرال والوں کے رویے سے تنگ آچکی تھی اور شوہر کا بھی کوئی ذریعہ معاش نہ تھا کہ گذر بسر ہو سکتا۔ تب اس نے پہلی شادی ختم کرنے میں ہی عافیت تلاش کی۔ــــ‘ ‘

’’ عمر نے پہلی بیوی کو طلاق دے کر دوسری شادی کرلی۔‘‘

عثمان نے گھر والوں کی ضد پر شادی کرلی مگر پھر دوسری شادی اس لئے کرلی کہ وہ اپنی مرضی کی شریک حیات چاہتا تھا۔‘‘

ماریہ نے گھر والوں کی ضد پر انکی مرضی سے شادی کرلی مگر پھر وہاں جان بوجھ کر حالات ایسے پیدا کئے کہ وہاں سے طلاق ہوئی تاکہ وہ مرضی سے شادی کر سکے۔‘‘

حفصہ کے شوہر کی وفات کے بعد دوسری شادی پر خاندان بھر نے اُسکو سخت کوسنے دیئے کہ اس نے ایسا کر کے ناک کٹوا دی ،مگرحفصہ کو اپنے تحفظ کی خاطر ایسا کرنا ہی تھا۔‘‘

’’حنا نے اپنی محبت کے حصول کی خاطر مدثر سے شادی کرلی ،یہ مدثر کی دوسری شادی تھی اور حنا کو اس پر کوئی اعتراض نہ تھا۔‘‘

’’ابصار کی پہلی بیوی سے کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی تو گھر والوں کے زور پر اولاد کی خاطر دوسری شادی کرلی۔‘‘

یہ چند مثالیں ظاہر کر رہی ہیں کہ کوئی دوسری شادی کس وجہ سے کرتا ہے،اگرچہ اسکی دیگر بھی بہت ساری وجوہات ہیں جن کی بناء پر دوسری شادی لوگ کرتے ہیں۔ دوسری شادی کرنا کوئی گناہ کا فعل نہیں ہے مگر ہمارے ہاں شادی جیسے مقدس معاملے کو بھی اب لوگ ایسا بنا چکے ہیں کہ اگر کوئی شادی نہ بھی کرے تو بھی اُس پر طنز کئے جاتے ہیں۔ان کے حوالے سے طرح طرح کے قصے مشہور کئے جاتے ہیں۔اگر کوئی غلطی سے دوسری شادی کا سوچتا ہے تو پھر پہلے تو لڑکی کے گھر والے ہی ایسا کرنے سے روکتے ہیں کہ ہماری بیٹی کے ساتھ ظلم ہوگا۔کہیں پھر لڑکے کے گھر والے ہی شادی کے بعد اولاد نہ ہونے کی وجہ سے کہتے ہیں کہ بیٹا اب دوسری لے آؤ۔کچھ مرد اور خواتین تو طبی لحاظ سے بچے پیدا نہیں کرسکتے ہیں۔مگر یہاں یہ بات بھی سوچنی چاہیے کہ اولاد کی خواہش تو ہر عورت کو مرد کو ہو تی ہے مگر اولاد ینے والا تو رب کی ذات ہے اور اگر وہ ہی عطا نہ کرے تو اس لحاظ سے تنقید کرنا غیر مناسب بات ہے۔اگر کوئی دوسری یا تیسری یا چوتھی شادی کرنے کے بعد بھی صاحب اولاد نہ ہوتو تب جا کر یہ سمجھا جاتا ہے کہ رب کا حکم نہیں ہے۔مگر اُ س سے پہلے محض عورت کو خاص طور پر اولاد نہ ہونے کی بند پر طلاق دے کر گھرسے باہر کر دیاجاتا ہے۔حالانکہ طبی لحاظ سے مرد بھی اس کا برابر کا ذمہ دارہوتا ہے مگر یہاں کوئی بھی مرد اس کی ذمہ داری قبول نہیں کرتا ہے۔ہر معاملے میں عورت کو ہی ذیادہ قصوروار سمجھا جاتا ہے جوکہ ہماری ذہنیت کو ظاہر کرتاہے۔

یہاں بہت سے مرد و خواتین ایسے بھی ہوتے ہیں جنکی خواہش ہوتی ہے کہ اولاد نہ ہو تاکہ وہ جسمانی لحاظ سے صحت مند رہ سکیں اگرچہ ایسے افراد کی کمی ہے مگر دنیا میں ہر طرح کے افراد ہیں۔بہت کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ بچے نہ ہونے پر مرد و عورت پرسکون زندگی گذار سکیں اکثر ذہنی الجھن کا شکار رہتے ہیں۔ جبکہ اُنکو رب کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے خود کو اس دکھ سے بری الذمہ سمجھنا چاہیے کہ وہ اس قابل نہیں ہیں کہ اولاد پیدا نہیں کرسکتے ہیں۔جب اولاد منجانب اﷲ سے عطا ہوتی ہے تو پھر دوسری شادی کی خاطر پہلی بیوی کو طلاق دینا قطعی غیر مناسب بات ہوگی،اس سے بہتر یہ ہو سکتا ہے کہ آپ دوسری شادی کرلیں اور اپنی خواہش کو پوری کرلیں مگر وہ بھی تب ہی ہوگی جب اﷲ کی رضا شامل ہوگی۔یہاں یہ وضاحت کرتا چلوں کہ دوسری شادی کے بارے میں واضح حکم تو قرآن میں بھی آچکا ہے مگر اس کو اس بات سے مشروط کیا گیا ہے کہ انصاف دونوں بیویوں کے ساتھ یا زائد کے ہو سکتا ہو تو پھر کرنی چاہیے۔

ہمارے معاشرے کی سوچ ایسی بن چکی ہے کہ عورت کو اگر وہ طلا ق حاصل کرچکنے کے بعد یا پھر کسی بھی وجہ سے خلع حاصل کرلے تو پھر وہ اکیلی رہتی ہے تو معاشرے کے افراد کی گندی نگاہیں اسکے سراپے کے گرد گھومتی ہیں اور سب اپنے ہوس کے نشانے کے طور پر گھیرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس وجہ سے بھی اسکو دوسری شادی کرنا ضروری سا ہو جاتا ہے۔مزید براں گھرمیں شادی کامیاب نہ ہونے کی صورت میں دیگر افراد کی زیادہ سے زیادہ کوشش یہی ہوتی ہے کہ پھر سے اسکا گھر بس جائے تاکہ وہ لوگوں کی باتوں سے بچ سکیں۔دوسری طرف عورت بھی دوبارہ سے شادی کرنے بعد تحفظ میں رہتی ہے اسی وجہ وہ عقد ثانی کرلیتی ہے مگر یہاں بھی معاشرے کے افراد اپنی سوچ کے مطابق رائے زنی کرتے رہتے ہیں ۔یہی دیکھ لیں کہ نکاح کرنا جرم نہیں ہے مگر یہاں پر لوگ قرآن کے اس حکم کے خلاف چلتے ہیں جس میں بیان کیا گیا ہے کہ جو بے نکاح ہیں ،انکا نکاح کر ادیا جائے۔

ہمارے ہاں ایک رواج سا بن گیا ہے کہ اگر کوئی مرد دوسری شادی کرلیتا تھا تو پھر ایک عورت اس کو اپنے لئے ایک عذاب سمجھتی ہے۔یوں بھی اگر وہ اپنے تمام تر ذمہ داریاں بخوبی پوری کر رہی ہو تو پھر سوتن کو اپنے سر پرسوار کر لیتی ہے اور سمجھتی ہے کہ اُسکی وجہ سے زندگی عذاب ہو جائے گی اور اسکے بچے جہاں اپنے والد کی توجہ اور محبت سے محروم رہیں گے ۔وہاں دوسری طرف وہ خود بھی مستقبل کے خدشات کے حوالے سے ذہنی الجھن کا شکار رہے گی کہ کہیں دوسری کی وجہ سے پہلی کو ہی خاوند نہ چھوڑے دے۔اُسکی بدولت اسکا شوہر اپنے پہلی بیوی بچوں سے ہی دور ہو جائے گا یا پھر دوسری آنے والی کچھ ایسے حالات پیدا کر دے گی کہ وہ رابطہ کم کر وا دے گی۔اصل میں یہی سوچ ہی ہوتی ہے جو مسائل کو پیدا کرتی ہے۔دیکھیں اگر ایک عور ت بچوں کو سنبھال رہی ہے، مرد کے ساتھ اچھے تعلق میں ہے اور اُسکی ضروریات کے مطابق خود کو ڈھال چکی ہے ۔ایسے میں وہ دوسری شادی کے عمل کو اپنے طور پر بجا طورظلم تصور کر سکتی ہے ۔

اگرچہ ہمارے قانون میں دوسری شادی کی ممانعت نہیں ہے مگر اس کو پہلی کی رضا مندی کے حصول کے بعد سرانجام دیا جا سکتا ہے۔بہت سے مرد پہلی بیوی کی رضامند ی سے ہی اکثر دوسری شادی کر تے ہیں۔دیکھیں اگر پہلی بیوی کسی بھی طو ر پر شوہر کی ضروریات پورا کرنے سے قاصرہو،یوں سمجھ لیں کہ جسمانی طور پر بہت زیادہ بیمار رہتی ہو، بچوں کی جسمانی بیماری کی صورت میں دیکھ بھال نہ کر سکتی ہوبالخصوص وہ اگر بہت چھوٹے ہو ں،یا پھر مرد کے فطری تقاضوں کو پورا نہ کر سک پا رہی ہو تو پھر مرددوسری شادی کر سکتا ہے۔اس صورت میں کوئی بھی عورت انکار کی گنجائش نہیں رکھتی ہے مگر یہاں اسلام کے احکامات بھی یہی ہیں کہ مرد سب کے ساتھ انصاف کر سکتا ہو تو اسکے چار شادیاں جائز ہیں۔مگریہاں اپنی پسند سے دوسری شادی کرنے والے اپنی اولاد کو پہلی شادی بھی کرنے سے روکتے ہیں ایسا وہ کیوں کرتے ہیں ،اس حوالے سے ایسے افراد کو خود بھی سوچنا چاہیے کہ جب وہ اپنا حق استعمال کررہے ہیں تو کسی دوسرے کو حق دینے سے کیا ہو جائے گا،ایسا ہونے سے دو افراد عمر بھر بہترین رشتے میں خوشگوار زندگی بھی تو گذر سکتے ہیں۔

اسلام کی تعلیما ت کے مطابق دوسرا،تیسرا،چوتھا نکاح کوئی گناہ کا عمل نہیں ہے۔ اس حوالے سے واضح طور پر حکم دیا گیا ہے کہ اگر مرد ہر لحاظ سے انصاف کر سکتا ہے تو پھر ہی وہ اس کی طرف جائے اور سب کے ساتھ انصاف کا برتاؤ کرے۔ مگریہاں اگر کوئی انصاف کر سکتا ہو تو بھی کوشش کی جاتی ہے کہ مرد دوسری شادی نہ کرے۔ہمارے ہاں لڑکی کے ذہن میں یہ بات کچھ اس طرح سے ڈالی جاتی ہے کہ جب بھی کوئی مرد دوسری کی طرف سوچتا ہے تو ہنگامہ کھڑا کر دیتی ہے ۔کچھ خواتین تو ناراض ہو کر،اپنے بچوں کو چھوڑ کر اپنے میکے چلی جاتی ہیں یا پھر حالات ایسے رخ کی طرف لے جاتی ہیں کہ بسا بسایا گھر ٹوٹ جاتا ہے۔اکثر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں ،اگر واقعی ایسی بات ہے تو پھر تو اگر کوئی ایک سے زیادہ نکاح کر تاہے تو پھر تو کسی کو بھی اس حوالے سے تنقید نہیں کر نی چاہیے۔مگریہاں اس بات پر زور و شور سے باتیں کی جاتی ہیں مگر یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی جاتی ہے کہ اگر جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں تو پھر ہم یہاں کیوں دو لوگوں کو آپس میں نکاح کے تعلق میں بند ھ جانے سے روکتے ہیں۔دوسری طرف یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اگر جوڑے آسمانوں پر ہی بنتے ہیں تو وہ ٹو ٹ کیوں جاتے ہیں ،اس پر بھی غور وفکر کرنی چاہیے کہ کہیں ہم ہی تو کچھ غلط نہیں کر رہے ہیں۔اگر ہمیں دین کے احکامات پر چلنا ہے تو پھر ہمیں تمام تر اعمال کو دین کے حکم کے مطابق چلنا چاہیے کہ ایسا کرنے سے ہی ہم خوشگوار زندگی گذار سکتے ہیں ۔
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 392 Articles with 480618 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More