انمول رشتوں کی انمول کہانی

میرا ایک بہت ہی پیارا دوست ، جس کا نام توصیف خان ہے ۔ اس سے میری دوستی کا آغاز اس وقت ہوا جب میں مکہ کالونی گلبرگ تھرڈ لاہور میں چار مرلے کا ایک پلاٹ پر مکان بنانے کی جستجو کررہا تھا۔ اس دوران جب مکہ کالونی کی جامع مسجد میں نماز کی ادائیگی کے لیے آتا تو وہاں ایک پرکشش شخصیت ،ہر دلعزیز شخصیت کا حامل نوجوان دکھائی دیا۔ اس کی شخصیت میں اس قدر جاذبیت تھی کہ پہلی ہی ملاقات میں دل نے فیصلہ کرلیا کہ اسے ہر صورت ایسا دوست بنانا ہے جو زندگی بھر مجھ سے جدانہ ہو۔کچھ ایسے ہی جذبات دوسری جانب بھی تھے ۔یہی وجہ ہے کہ پہلی ہی اتفاقیہ ملاقات بہت جلد گہری دوستی میں بدلتی چلی گئی ۔اس وقت وہ فریج اور ریفریجٹرکی فیکٹری "ایمبیسڈر " میں ملازمت کرتا تھا اور روزانہ سائیکل پر فیکٹری جانا اور واپس گھر پہنچنا اس کی روٹین میں شامل تھا۔اس کے باوجود کہ میرا دفتر پنجاب صنعتی ترقیاتی بورڈ ، کورس کورس روڈ پر موجود تھا اور راستے بھی الگ تھلگ تھے لیکن پھر بھی دل میں یہ خواہش ضرور پیدا ہوتی کہ ہم کیوں نہ اکٹھے گھر سے نکلا کریں ۔ شاید اسی خواہش کی تکمیل میں جب دفتر جانے کے لیے صبح گھر سے نکلتا تو راستے میں ہی توصیف سے ملاقات ہوجاتی ۔وہ مجھے دیکھ کر اور میں اسے دیکھ کر پھولا نہ سماتا ۔ ہم دونوں ایک ساتھ گفتگو کرتے ہوئے چلتے بے حد خوشی محسوس کرتے ۔ چونکہ وہ سائیکل پر سوار ہوتا اس لیے وہ پیڈل گھمائے بغیر ہی میرے کندھے پر ہاتھ رکھ لیتا اور سائیکل خود بخود چلنے لگتی اور ہم دور تک ایک ساتھ چلتے رہتے۔ پھر ایسا مقام آتا جہاں ہمارے راستے جدا ہوتے تو ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی الگ ہو ناپڑتا ۔لیکن اس ملاقات کا خوشگوار اثر تمام دن ہم دونوں کو اپنے حصار میں لیے رکھتا ۔ پھر جب میں شام ڈھلے ہم گھر پہنچتے تو ہماری ملاقات کا مرکز ایک بار پھر مسجد قرار پاتا ۔ نماز کے بعد ہم کئی کئی گھنٹے مسجد کے تھڑے پر ہی بیٹھ کر ایک دوسرے کو اپنا حال دل سناتے رہتے۔دن میں ہونے والی سرگرمیوں اور واقعات کو شیئر کرتے ۔یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ جب انسان کے دل مل جاتے ہیں تو دوسرے کی ہر بات اور برائی بھی اچھی لگنے لگتی ہے ۔ اس وقت ہم دونوں کے دل میں صرف ایک ہی آرزو تھی کہ ہم جتناممکن ہوسکتا ہے زیادہ سے زیادہ وقت اکٹھے گزاریں ۔دیر سے گھر پہنچنے پر بیگم استفسار کرتی کہ آپ نماز پڑھنے گئے تھے یا پڑھانے گئے تھے ۔ اس بات پر اکثر ہلکی پھلکی نوک جھوک شروع ہوجاتی ، جس کا تسلسل گہری نیند میں اترنے تک جاری رہتا ۔دوست ہو اور وہ بھی من پسند۔ پھر کس کا دل جدا ہونے کو چاہتا ہے ۔

میرا یہ دوست ہر فن مولا بھی ہے ۔بظاہر تو یہ عام سا انسان ہی دکھائی دیتا ہے لیکن اس کا دماغ آئن سٹائن سے بھی زیادہ بڑا اور ذہین لگتا ہے ۔ شاید ہی کوئی کام ہو جو اسے نہ آتا ہو۔یہ بجلی کا کام بھی کرلیتا ہے ،یہ خراب فریج کو ٹھیک اور ٹھیک فریج کو خراب بھی کرلیتاہے ۔ یہ ٹی وی بھی ٹھیک اور خراب کرلیتا ہے ۔سبزی خریدنی ہو ، یا پھل اتنی دانش مند ی سے عورت نہیں خریدتیں جتنا خریداری کے دوران عقل و دانش کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ اس کی یہی خوبیاں ہمارے درمیان ایک لمبی رفاقت اور دوستی کی بنیاد بنیں ۔ یہ 1985/86 کی بات ہے ۔ پھر وہ وقت بھی آیا۔ جب ہم حسب پروگرام صبح کی سیر کے لیے لبرٹی پارک جانے لگے ۔ پروگرام کے مطابق ہم مقررہ وقت پر مسجد پہنچتے پھر نماز فجرکی ادائیگی کے بعدلبرٹی پارک کا رخ کرتے جو یہاں سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھا ۔دیکھا دیکھی مزید چند دوست (جن میں خالد نظام ، سجاد خان، غلام محی الدین، سیدندیم احمد اور محمد قاسم ) بھی ہمارے ساتھ صبح کی سیر کے لیے جانے لگے ۔ لبرٹی پارک جو 35 ایکڑ پر مشتمل ہے جس کا ایک چکر دو کلومیٹر کا بنتا ہے اس کا چکر لگا کر جب ہم خراما خراما چلتے ہوئے واپس مکہ کالونی آنے لگتے تو گانوں کا فرمائشی پروگرام شروع ہوجاتا۔شریک سفر کو جو گاناپسند ہوتا وہ فرمائش کرتااور توصیف بہت مدھر آواز میں نغمہ صرائی کرنے لگتا ۔ اس کی آوا ز میں اس قدر کشش ، سوز اور جادو تھا کہ جس جس کے کانوں میں بھی اس کی نغمہ سرائی کی آواز پہنچتی وہ چونک کر ایک بار مڑ کر ضرور دیکھتا ۔ مجھے یاد ہے ان دنوں انڈیا کاایک گانا بہت مشہور تھا جس کے بول تھے ۔
ہم سے نہ سہی ، غیروں سے سہی .......تمہیں دل کالگانا آ تو گیا
بیٹھے ہو کسی کے پہلو میں ..........تمہیں پیار نبھانا آتو گیا

ایک تو اس گانے کے بول ہی تجس بھرے تھے ، اس پر توصیف کی آواز میں گانے کے یہ الفاظ سننے والوں کی روح میں اتر جاتے تھے۔ اس بات سے اندازا لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کس قدر مدھر آواز میں یہ گانا گایا کرتا تھا ۔ہم راستے میں چلتے ہوئے کئی مرتبہ یہی گانا سننے کی فرمائش کیا کرتے تھے۔مزے کی بات تو یہ ہے کہ توصیف نے کبھی سنانے سے انکار نہیں کیا۔ وہ بھی ہماری فرمائش پر جھجک کے بغیر سنانا شروع کردیتا۔ ایک مرتبہ مسجد سے اس کے نئے جوگر اٹھالیے گئے۔جس پر توصیف بہت دل گرفتہ تھاکیونکہ اس کی تنخواہ بہت کم تھی۔نہ جانے اس نے کس مشکل سے پیسے جمع کرکے نئے جوگر خریدے تھے جو پہن کر وہ ہمارے ساتھ لبرٹی پارک جایا کرتا تھا۔اس واقعے کے بعد توصیف بہت غم زدہ دکھائی دیتا ۔ جوگر چوری ہونے کی تشویش بہت عرصے تک اس کے دل و دماغ میں چھائی رہی ۔

ایک مرتبہ میری ہی گلی کا ایک نوجوان جس کا نام مطیع الرحمان تھا- وہ مجھے اپنے ساتھ لے کر پارک میں پہنچ گیا ۔ توصیف کوجب میں مسجد میں دکھائی نہ دیا تو اس کا تشویش میں مبتلا ہونا برحق تھا ۔ وہ باامر مجبوری اکیلا ہی جب لبرٹی پارک پہنچا تو اس نے مجھے وہاں مطیع الرحمان کے ساتھ سیرکرتے ہوئے دیکھ لیا ۔ پھر تو اس کے تن بدن میں حسد کی آگ لگ گئی اور غصے کے عالم میں اس کی آنکھیں سرخ ہوگئیں ۔وہ جتنی مجھ سے محبت کرتا تھا اتنی ہی نفرت کرنے لگا ۔ ایک وقت یہ بھی آیا کہ ہم ایک دوسرے کی شکل دیکھنے سے بھی عاجز آگئے ۔ مسجد میں سامنے ہونے کے باوجود ہم بات کیے بغیر آنکھیں چرا کر جلدی سے باہر نکل جاتے ۔ اگر میں مسجد میں ہوتا تو باہر ہوتا اور اگر وہ مسجد میں ہوتا تو مسجد میں ٹھہرنا میرے لیے مسئلہ ہوتا ۔ بول چال تو دور کی بات ہے ہم نے ایک دوسرے کے سامنے آنا بھی بند کردیا ۔اپنی اس غلطی کا مجھے بھی احساس تھا لیکن کئی مرتبہ معذرت کرنے کے باوجود توصیف میری غلطی کو معاف کرنے کے لیے تیار نہ تھا جس کانتیجہ محبت سے یکدم نفرت میں بدل گیا ۔اسے کہتے ہیں کہ دوستی کے مضبوط سے مضبوط رشتے بھی کبھی کبھار معمولی سے غلطی سے ٹوٹ کر تنکوں کی طرح بکھر جاتے ہیں ۔اس طرح ہم نہ چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے جدا ہوگئے ۔

اسی طرح کئی مہینے گزر گئے اور دلوں کے فاصلے میلوں پر محیط ہوگئے ۔ سردیوں کی شام جب رات کے اندھیرے نے ماحول کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا ۔ٹھنڈی سرد ہوا نے ماحول کو اور بھی سرد بنا دیا تھا جس سے بچنے کے لیے ہم گرم گرم لحافوں میں دبکے بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے ۔اچانک دروازے پر دستک ہوئی ۔ بیٹا شاہد گھر سے باہر نکلا تو سامنے توصیف کھڑا نظر آیا ۔توصیف نے اسے انگلی کے اشارے سے سمجھادیا کہ اندر جاکر یہ نہیں بتانا کہ کون آیا ہے ، بس ابو کو جاکر بتا د وکہ آپ کا کوئی دوست ملنے آیا ہے ۔ یہ پیغام ملتے ہی میں گھر سے باہر نکلا تو اندھیرے میں کھڑا ہوا توصیف آگے بڑھ کر گلے لگ گیا اور زار و قطار رونے لگا ۔ دلی کیفیت تو میری بھی ویسی ہی تھی لیکن ہم دونوں کافی دیر تک ایک انجانے غم کو دل سے مٹانے کے لیے روتے رہے ۔کچھ دیر بعدجب دل ہلکا ہوگیا تو ہم ڈرائنگ روم میں آ بیٹھے ۔اس نے مجھے مٹھائی کا ڈبہ تھماتے ہوئے بتایا کہ اسے گھی کارپوریشن میں بطور کمپیوٹر آپریٹر جاب مل گئی ہے وہ ابھی اپنے گھر بھی نہیں گیا تھا ۔ سب سے پہلے خوشخبری سنانے کے لیے میرے پاس آگیا ۔ جب جان سے پیارا دوست چل کے خود میرے پاس آگیا جس کے بغیر میں خود بھی بہت اداس اور پریشان تھا تو ہم نے یک جنبش تمام گلے شکوے ختم کردیئے اور نئے انداز سے دوستی کے شاہراہ پر گامزن ہوگئے ۔

وقت گزرتا رہا پھر وہ وقت بھی آ پہنچا جب اس کے سر پر سہرے بندھے اور شہنائیوں کی گونج نے پورے ماحول کو اپنے حصار میں لے لیا ۔ وہ اپنی خالہ کے گھر دولہا بن کے جا پہنچا ۔ وہ اس لیے بھی بہت خوش تھا کہ ہونے والی بیوی اس کی پسندیدہ بلکہ اپنا ہی انتخاب تھا ۔ شادی ہوگئی ۔بہت سارے روٹین بھی بدل گئے لیکن دوستی میں کوئی دراڑ نہ آئی ۔ وہ اسی طرح ملنے کے لیے میرے گھر چلا آتا ۔ بیگم کے ساتھ کہیں جانا پڑتا تو مجھ سے موٹرسائیکل لے کر چلاجاتا۔ بائیک اس کی تھی یا میری ، اس بات میں کوئی فرق نہیں تھا ۔ اس بات کا احساس توصیف کی والدہ کو بھی تھا اور نئی آنے والی بیگم کے گوش گزار بھی کردیاگیا تھا کہ ہماری دوستی کے درمیان کسی کو حائل نہیں ہونا چاہیئے ۔ہاں ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے کہ شادی کے ابتدائی ایام میں ہی سڑک پر گرنے سے توصیف کا بازو اتر گیا ۔ ہم اسے لے کر آصف پہلوان کے پاس گئے جو ریلوے لائن کے اس پار گلبہار کالونی میں پریکٹس کرتا تھا۔ اس نے بازو کو چڑھا کر پٹی باندھ دی اور ہدایت کی کہ ایک ہفتے سے پہلے یہ پٹی نہیں اترنی چاہیئے ۔ یہ ہدایت لے کر جب ہم اسے گھر چھوڑ کے آتے تو پتہ چلتا کہ وہ دوسرے دن بھی پہلوان کی دکان پر پٹی لگوانے پہنچا ہواہے ۔ پہلوان ناراض تو ہوتا لیکن پھر پٹی لگا دیتا ۔اس طرح دو تین ہفتے کے بعد بازو ٹھیک ہوگیا ۔

پھر اﷲ نے کرم کیا اور اس کے گھر ایک چاند سی بیٹی(کومل ) پیدا ہوئی ۔ ماشااﷲ وہ کافی صحت مند بچی تھی جسے میں پیار سے اٹھا تو لیتا لیکن زیادہ دیر تک اٹھنا میرے لیے مشکل ہوجاتا۔ توصیف اسے آغوش میں لے کر ہمارے گھر چلا آتا پھر وہاں وہ کافی دیر تک کھیلتی رہتی ۔ قدرت نے جہاں توصیف کے دامن میں خوشیاں بھریں وہاں غم بھی ہمیشہ تعاقب میں رہے ۔ چھوٹے بہن کی ناگہانی موت نے سارا منظر ہی بدل دیا ۔ توصیف نے اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں کی باپ بن کر پرورش کی تھی ۔ توصیف کے والد تو بہت عرصہ پہلے ہی فوت ہوگئے تھے اس کے بعد کمسنی میں ہی توصیف کے کندھوں پر ہی گھر کے اخراجات کا تمام تر بوجھ آ پڑا ۔اس کے باوجود کہ سفر بہت مشکل اور کٹھن تھا لیکن ماں کی محبت نے وقت کی سختیوں اور آزمائشوں کو کسی قدر تھامے رکھا ۔جس گھر میں چھوٹے بھائی کی اچانک موت واقع ہوئی تھی وہ گھر اب انہیں کاٹنے کو دوڑتا تھا چنانچہ باہمی مشاورت کے بعد توصیف فیملی سمیت اپنی خالہ (یعنی سسرال ) سے کچھ ہی فاصلے پرکرنال پورہ میں گھر خرید کر شفٹ ہوگیا ۔ جہاں اﷲ تعالی نے اسے دو مزید بیٹیوں( عنبر اوراقصی )اور ایک چاند سا ( مزمل )بیٹاعطا کیا ۔توصیف کے مکہ کالونی سے چلے جانے کے بعد بہت عرصے تک اس کی جدائی کا غم سہنا پڑا ۔ محبت ہو یا دوستی دونوں انسان کو نڈھال کردیتی ہیں ۔ توصیف تو میرا قابل اعتماد دوست تھا اور چھوٹا بھائی بھی ۔ مجھے اپنے سگے بھائیوں پر اتنا اعتماد نہیں تھا جتنا توصیف پر ہے ۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ توصیف نے کبھی مجھ سے بے وفائی نہیں کی ۔آزمائش اور مشکل حالات میں بھی وہ میرے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا رہا ۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہماری دوستی اگلی نسل تک منتقل ہوچکی ہے ۔ ہماری بیگمات ایک دوسرے کی جگری دوست بن چکی ہیں ۔توصیف کو دیکھے جب کافی دن ہوجائیں تو ہم ان کے گھر پہنچ جاتے ہیں جہاں وہ ہماری توقع سے بہت زیادہ اہتمام کرتا ہے اور اس کی ہر بات پر خوشی اور مسرت دکھائی دیتی ہے ۔جیسے ہمارے آنے سے اس کو حقیقی خوشی کااحساس ہوا ہے ۔ یہی عالم اس وقت ہوتا ہے جب وہ اپنی پسندیدہ بیگم کے ساتھ گاڑی میں سوار ہوکر میرے گھر آتا ہے ۔ اﷲ تعالی نے اس پر اتنا کرم کیا ہے کہ وہ اب سائیکل کو چھوڑ کر گاڑی پر سوار ہوچکا ہے اور میں ابھی تک بائیک پر بھی زندگی کو انجوائے کررہا ہوں ۔ گھی کارپوریشن کی ملازمت ختم ہونے کے بعد وہ سائر ہ میموریل ہسپتال میں اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ کا انچارج ہے اپنی ذہانت اور تکنیک سے آج کے ایم بی اے فنانس پر بھی بھاری ہے ۔ حالات کچھ بھی ہوں وہ کبھی نہیں گبھراتا لیکن اس وقت اس کی آنکھوں میں آنسووں کی برسات جاری تھی جب اس کاایک اور چھوٹا بھائی دماغ کی شریان پھٹنے سے موت کی وادی میں جاسویا۔ جہاں بیٹے کی موت کا صدمہ ماں پر بھاری تھا وہاں بھائی کی حیثیت سے توصیف کی حالت بھی دیکھی نہ جاتی تھی ۔ وہ زخمی پرندے کی طرح تڑپتا دکھائی دیتا ۔ اس لمحے ہم اسے اپنا پیار تو دے سکتے تھے لیکن اس کے مرنے والے بھائی کو واپس لانا کسی کے بھی بس میں نہیں تھا ۔ پھر بھی ہمارے دکھ اور سکھ سانجھے تھے اور اب بھی ہیں۔

یہ تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ جس جتنا پیار توصیف مجھے کرتا ، اس سے کہیں زیادہ شفقت ان کی والدہ کرتی تھی ۔ وہ مجھے اپنا بڑا بیٹا ہی تصور کرتی تھی کئی مرتبہ تو توصیف کی شکایتیں بھی مجھے لگا دیتیں ۔ حسن اتفاق سے توصیف کی والدہ کو شوگر کا مرض لاحق تھا ۔ یہ مرض اتنا خطرناک ہے کہ کسی بھی انسان کو موم کی طرح پگھلا دیتا ہے ۔ توصیف اب ماں کا اکلوتا بیٹا ہی رہ گیا تھا ۔ جس کی تمام تر توجہ ماں کی صحت پر مرکوز تھی جو توصیف کے لیے محبت اور چاہت کی اکلوتی درسگاہ بن چکی تھی ۔ یہ انسانی فطرت کا کمال ہے کہ انسان کو جو چیز کھانے سے روکا جائے وہیں چیز کھانے کو دل کرتا ہے ۔ دنیاکے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حواعلیہ السلام جنہیں اﷲ تعالی نے گندم کا دانہ کھانے سے منع فرمایا تھا وہ بھی شیطان کے بہکاوے میں آگئے اور نہ چاہتے ہوئے گندم کا دانہ کھا ہی لیا ۔پھر انکے ساتھ اس لغزش کے پاداش میں ان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو جہاں سے روکا جائے اسی جانب جانے کو دل کرتا ۔کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ توصیف کی والدہ کی طبیعت شوگر بڑھنے سے خرا ب ہوئی۔ انہیں فوری طور پرہسپتال لے کر جانا پڑا۔ جہاں انہیں کئی کئی دن داخل بھی رہنا پڑا ۔توصیف نے نہایت ادب کے ساتھ والدہ سے گزارش کی کہ امی جان میٹھا نہ کھایا کریں۔ اس سے آپ کی طبیعت خراب ہوجاتی ہے اور پھر کتنے ہی دن نارمل نہیں ہوتی ۔ والدہ بیٹے کی بات خاموشی سنتی لیکن جونہی رات ہوتی تو فریج سے مٹھائی نکال کر کھانا نہ بھولتی ۔ ایک دن توصیف نے ذرا سخت لہجے میں سمجھایا تو والدہ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور وہ کہنے لگی ...... میں ابھی تمہارے دوست اسلم کو بلاتی ہوں اور اسے بتاتی ہوں کہ تم مجھے ڈانٹتے ہو ۔ والدہ کی بات سن کر توصیف اپنے رویے پر نادم ہوا اور اس نے کہا امی جان اب جو چاہیں آپ کھائیں، میں آپ کو نہیں رکوں گا ۔ اس واقعے کا ذکر کرنے مقصد یہ ہے کہ نہ صرف توصیف بلکہ والدہ بھی مجھے اپنا سمجھتی تھی ۔ اب و ہ اس دنیامیں نہیں رہی ۔لیکن جب میں بھی توصیف کے گھر واقع رحمان پورہ جاتا ہوں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ توصیف کی والدہ مجھ سے توصیف کی شکایتیں لگا رہی ہے ۔ یہ اعتماداور بھروسہ ہی انسان کی سب سے بڑی دولت ہے ۔

میری والدہ ( ہدایت بیگم ) کو اکثر ہائی بلڈ پریشر رہتا تھا ۔جس کے وجہ سے اکثر انہیں ڈاکٹر کے پاس لے جانا پڑتا ۔الگ گھر میں رہنے کے باوجود میں جب بنک میں ڈیوٹی کرنے کے بعد واپس آتا تو سیدھا اپنے والدین کے گھر پہنچ جاتا ۔جہاں ریلوے میرے والد اور والدہ بھی موجود ہوتیں۔شام کا کھانا اکثر ہم اکٹھے ہی کھاتے ۔ گھر کے صحن میں تندور لگا ہوا تھا جس پر میری چھوٹی بھابی روٹیاں لگایا کرتی تھی ۔ والدہ کو اس بات کاعلم تھا کہ مجھے کریلے قیمہ ، گوشت بھنڈیا ں ، کلیجی اور ساگ بہت پسند ہیں ۔ اس لیے وہ دن کی مناسبت سے بطور خاص میرے لیے شام کا کھانا اپنی نگرانی میں تیار کرواتیں۔جب میں گھر پہنچ کر ان کے پاؤں دبانے لگتا تو وہ مجھے ڈھیروں دعائیں دیتیں ۔ صحن میں بچھی چارپائی پر بیٹھ کر ہی ہم کھانا کھانے لگتے تو والدہ نہایت راز داری کے انداز میں اپنے پہلو میں چھپائی ہوئی نمک دانی نکالتی اورسالن میں ڈال کر کھانے لگتیں ۔ اگلے دن جب میں گھر پہنچتا تو ان کی طبیعت خراب دیکھ کرپریشان ہوجاتا اور جلد ی سے ڈاکٹر کے پاس لے جاتا ۔ ڈاکٹر چیک کرنے کے بعد بتاتا کہ ان کا بلڈپریشر 180 سے بھی آگے کراس کررہا ہے ۔ ڈاکٹر سمجھانے کے انداز میں کہتا ۔اماں جی اتنا بلڈ پریشر تو دل اوردماغ پر اثرانداز ہوتاہے ۔ پلیز آپ نمک زیادہ نہ کھایا کریں بلکہ جتنا سالن میں موجودہوتا ہے اسی پر اکتفا کرلیا کریں ۔ والدہ نہایت تحمل سے ڈاکٹر کی باس سنتیں اور خاموش ہوکر گھر چلی آتیں لیکن کرتی وہی جو ان کی مرضی ہوتی ۔ایک دن جب میں ان کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا تو باتوں ہی باتوں میں انہوں نے اپنے پہلو میں چھپائی ہوئی نمک دانی سے چھٹکی بھری اور اپنے سالن میں ڈال لی ۔ جب والدہ یہ کارنامہ انجام دے رہی تھی تو میری نظر پڑ گئی ۔ میں نے نہایت ادب کے ساتھ والدہ کو سمجھایا کہ نمک آپ کے لیے زہر ہے ۔والدہ کہتی ، میں تھوڑا سا ہی تو ڈالتی ہوں ۔ میں نے کہا زہر تھوڑا بھی ہو تو وہ اپنا اثر ضرور دکھاتا ہے ۔ میری بار بار تاکید کے باوجود والدہ نے سالن میں نمک ڈالنا بند نہیں کیا ۔ اس کے نتیجے میں انہیں کتنی ہی مرتبہ ہسپتال میں زیر علاج بھی رہنا پڑا ۔ حتی کہ وہ 10 جون 2007ء کو بلڈپریشر کی زیادتی کی وجہ اس دنیا سے رخصت ہوگئیں ۔

ایک ممتاز صحافی ،جن کانام میں یہاں نہیں لکھنا چاہتا ۔ کسی زمانے میں، میں ان کا پرائیویٹ سیکرٹری ہوا کرتا تھا ۔ وہ بہت ہی نفیس اور شفقت کرنے والے عظیم انسان ہیں ۔ ادب و صحافت میں ان کو بہت اعلی مقام حاصل ہے ۔ ان کو بھی شوگر کا مرض لاحق تھا ۔ گرمیوں کا موسم تھا ۔ کراچی سے ملنے کے لیے مہمان آگئے۔ جن کی تواضع کے لیے موسمی پھل بھی ٹرے میں سجا کر رکھے گئے ۔ ان کٹے ہوئے آم بھی تھے ۔ وہ بھی مہمان کے ساتھ ساتھ آم کھانے لگے بلکہ پوری ٹرے خالی کردی ۔ جب ملازم چائے کی ٹرالی لے کر ڈرائنگ میں داخل ہوا تو وہ غصے میں گرج کر بولے ....... تمہیں پتہ نہیں تھا کہ مجھے شوگر ہے ۔ تم نے پھر بھی میرے سامنے آم لاکر کیوں رکھے ۔ ملازم اپنی اس غلطی پر معافی بھی مانگ رہا تھا اور اندر ہی اندر مسکرا بھی رہا تھا کہ آم خود کھائے اور ڈانٹ مجھے رہے ہیں ۔شاید اسی وجہ سے ایک مٹھائی کی دکان پر اشتہار آویزاں تھا کہ ایک مٹھائی بنانے کاریگر کی ضرورت ہے جس کو شوگر کی بیماری لاحق ہو۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 663405 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.