نبوی تعلیم وتربیت

 سرفراز احمد
شعبہ اسلامیات

عالم عرب دور جہالت میں جس فکری پس ماندگی اور ذہنی واخلاقی پستی کا شکار تھا وہ تاریخ عالم سے مخفی نہیں ، لیکن رحمت عالم ﷺ نے اسے مختصر ترین مدت میں جن انسانی قدروں سے آشنا کیا اس نے انہیں اخلاقایت کی بلندیوں تک پہنچادیا ، ’’ وہ کیا تھے اور کیا بن گئے ‘‘ اس تصویر کے دونوں رُخ دیکھ کر آپ باآسانی نبوی تعلیم وتربیت کی عظمت کا اندازہ لگانے کے قابل ہوجائیں ۔

حضور ﷺ کی بعثت اور قوانین اسلام کی تعلیم وترویج سے پہلے ،عرب کے طول وعرض میں جو رہن سہن عام تھا اُسے عرب کا ’’جاہلی کلچر ‘‘ کہتے ہیں ۔جاہلیت کے اس دور میں جو روایات تھیں اُنکا انسانیت اور تہذیب سے کوئی تعلق نہ تھا ۔ چونکہ اﷲ کے رسول ﷺ ، مکارم اخلاق کی تکمیل کیلئے اس دنیا میں تشریف لائے تھے ۔ اس لئے جب اُن کے غیر انسانی ،خونخوار کلچر کی تفصیلات سنتے تو آپ کی آنکھیں اشکبار ہوجاتیں ۔ جاہلیت کی اُس دور کی تاریخ، بے رحمی اور سفاکی کی اِن داستانوں سے بھری پڑی ہے ۔ مگر اﷲ کے رسول ﷺ نے مختصر مدت میں عرب کی سرزمین پر ایک انقلاب برپا کردیا اور افکار واذہان اور انسانوں کو بالکل بدل کررکھ دیا تھا ۔

دارمی کی جامع الصحیح میں یہ ہوش رباواقعہ مذکور ہے ،جسے خود راوی نے آ پ بیتی کے انداز میں بیان کیا ہے ک ہم ایک ایسے معاشرے میں زندگی گزار رہے تھے ۔ جو بتوں کا بجاری اور خالص جہالت کی پیداوارتھا ۔ بیٹیوں کو بڑی بے رحمی سے موت کے گھاٹ اُٹاردیتے تھے ، اور یہ ستم ڈھاتے ہوئے دل میں یہ خیال تک نہیں لاتے تھے کہ یہ ایک شیطانی فعل ہے ۔

میرے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی ، تو میں نے عرب کے دستور کے مطابق دل میں فیصلہ کر لیا کہ وقت آنے پر صفح ہستی سے اسکا نام ونشان مٹادوں گا تاکہ آئندہ زندگی میں کسی کو داماد بنانے کی نوبت ہی نہ آئے اور میں ’’سسر‘‘ کہلانے کی ذلت سے بچ جاؤں ۔ وہ بیٹی زندگی کی منزلیں طے کرنے لگی ۔ اور اپنی پیاری صورت اور معصوم حرکتوں کی وجہ سے مرکز نگاہ بن گئی جو بھی دیکھتا دیکھتا ہی رہ جاتا ۔ میں جب بھی اسے پکارتا وہ بھاگتی ہوئی میری طرف آتی اور گود میں بیٹھ کر خوشی محسوس کرتی ۔

ایک دن بد بختی اس پر سوار ہوئی ۔میں نے بچی کو بلایا تو وہ بھاگتی ہوئی میری طرف آئی، میں نے آگے آگے چلنا شروع کردیا ۔ وہ محبت کی ماری بھی پیچھے پیچھے آتی رہی ۔ ہمارے گھر کے قریب ہی ایک کنواں تھا ہم وہاں پہنچ گئے میں نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر کنویں میں دھکا دے دیا ۔ وہ آخری وقت تک ابّا ابّا ہی پکارتی رہ گئی اور پانی میں ڈوب گئی ۔

بیٹیوں کو زندہ ڈبونے یا زمین میں زندہ دفنانے کی یہ رسم ، عرب کے کسی ایک حصے تک محدود نہ تھی ، بلکہ سارا معاشرہ ہی اس ابلیسی حرکت کا دلدادہ تھا ۔ حضور پاک ﷺ نے خونخوار اور پٹڑی سے اُترے ہوئے بے ڈھب معاشرے کی ایسی حکمت عملی سے تربیت فرمائی کہ وہ نبوی صحبت اور تعلیم کی بدولت جلد ہی راہ راست پر آگیا ۔ ہدایت اور ارشادات نبوت کو دل وجان سے قبول کرلیا اور تمام غیر انسانی رسوم و روایات کو ترک کردیا ، اور ایک ایسا معاشرہ وجود میں آیا جو چشمِ فلک نے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ اس معاشرے نے تہذیب وشرافت ، انسانی ہمدردی اور اخلاق ومروت کی شاندار مثالیں قائم کیں ۔ حضور اکرم ﷺ کے وہ ارشادات جن میں اُنہیں یہ خو شخبری دی گئی تھی کہ اُن پر عمل کرکے آخرت میں اُنہیں اُن کے محبوب نبی کی سنگت نصیب ہوگی ۔اور وہ جنت میں حضور ﷺ کے ساتھ رہیں گے ۔ اس نے اُنہیں اعمال خیر کا شائق بنادیا اور بالکل بدل کر رکھ دیا ۔ مثلاً : آپ ﷺ نے فرمایا
۱) ’’جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی میں اور وہ جنت میں اِن دو اُنگلیوں کی طرح اکھٹے رہیں گے ۔(ترمذی شریف ) ‘‘
۲) ’’میں اور یتیم کو پالنے والا ، ہم دونوں جنت میں ہاتھ کی اِن دو اُنگلیوں کی طرح اکھٹے رہیں گے ۔(بخاری شریف ) ‘‘

حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ ایک دفعہ میرے گھر میں ایک نادار عورت آئی جس کے ساتھ دو بیٹیاں تھیں ، میں نے اُسے ایک کھجور دی ۔ میرا خیال تھا وہ اسکے تین حصے کرکے دو اپنی دونوں بیٹیوں کو دیگی اور ایک حصہ خود کھالے گی۔ مگر میری حیرت کی انتہاء نہ رہی جب اُس نے اس کھجور کے دو حصے کیے اور ایک ایک ٹکڑا دونوں بیٹیوں کو دیدیا ۔ اور بھوکی ہونے کے باجود خود کچھ نہ لیا ۔ میں اس ایثار ومحبت پر ابھی مجسمہ حیرت بنی بیٹھی تھی کہ حضور ﷺ تشریف لے آئے اور مجھے غرقِ حیرت دیکھ کر وجہ پوچھی : میں نے ساری صورتحال بیان کردی۔ آپ ﷺ نے اس ایثار کا اجر بیان کرتے ہوئے فرمایا :
’’بیٹیوں کی ذمہ داری سونپ کر ، جس کا امتحان لیا گیا وہ اُسکو دوزخ کی آگ سے بچالیں گی ‘‘

حضور ﷺ کی ایسی ہی خوشخبریاں تھیں جنہوں نے صحابہ کرام ؓ میں جوش عمل کی بجلیاں بھر دیں اور وہ دوزخ سے بچنے اور آپ ﷺ کی سنگت حاصل کرنے کیلئے اپنی سابقہ زندگی کو بدلنے اور ساری خونخوار رسمیں چھوڑنے کیلئے تیار ہوگئے ۔ اور شفقت ومحبت کا آسمان بن گئیں ۔ اور صرف انسان ہی کو نہیں بلکہ دوسری مخلوق کو بھی اس سائباں تلے لے لیا ۔ ایک عجیب وغریب اور حیرت انگیز مثال یہ ہے :

شوقِ شہادت سے سرشار صحابہ کرام ؓ نے ایک جنگی سرزمین پر قیام کیا ، کچھ عرصہ کیلئے اُس جگہ فوجی کیمپ قائم کرلیا اور عارضی رہائش کیلئے خیمے لگالیئے ۔ حضرت عمرو بن العاص ؓ اسلامی لشکر کے سپہ سالار تھے ۔ کچھ عرصہ بعد جب کوچ کرنے کا وقت آیا تو آپؓ نے حکم دیا کہ خیمے اُکھاڑ کر روانگی کی تیاری کی جائے ۔ پتہ چلا اِن کے خیمے میں کبوتری نے انڈے دیے ہوئے ہیں ۔ اگر خیمہ اُکھاڑا گیا تو کبوتری بے گھر ہوجائیگی اور اپنے بچوں کی حفاظت نہیں کرسکے گی ۔

آپؓ نے حکم جاری کیا کہ کبوتری اور اسکے بچوں کو بے گھر ہونے سے بچانے کیلئے خیمہ اسی طرح نصب رہنے دیا جائے اور لشکر روانہ ہوجائے ، چنانچہ ایسا ہی ہوا ، لشکر روانہ ہوگیا ۔ اور خیمہ اسی طرح قائم رہا ۔ وہ ہاتھ جو بڑی بے رحمی سے بیٹیوں کو زندہ دفن کردیا کرتے تھے ، خیمے کو اُکھاڑ نے کیلئے حرکت میں نہ آئے، صرف ایک کبوتری کی دل آزاری سے بچنے کیلئے ، جو نہ اُن کی بیٹی تھی اور نہ انسان تھی ۔ یہ حیرت انگیز شفقت اُس تعلیم وتربیت کا نتیجہ تھی جو اُنہیں پیارے نبی ﷺ نے دی تھی ۔ اُنہوں نے حکم دیا تھا کہ انسان ہی نہیں ، جو بھی جاندار مخلوق ہیں اُس پر شفقت کرو ۔ یہ آپ ﷺ کی تربیت ہی تھی کہ بیٹیوں پر ترس نہ کھانے والے ، کبوتروں اور چیڑیوں پر بھی شفقت کرنے لگ گئے ۔
Hazrat Ali
About the Author: Hazrat Ali Read More Articles by Hazrat Ali: 10 Articles with 11500 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.