بسنت میلے کی حقیقت اور تاریخ

بسنت ایسا تہوار ہے جس سے مذہب اسلام کا اور نہ ہی مسلمانوں کا کوئی تعلق ہے لیکن اسے اس طرح ہر سال منایا جانے لگا ہے جیسے یہ کوئی مسملمانوں کا اہم فریضہ ہے یہ صدیوں سے ہندوؤں کا ایک تہوار رہا ہے جو خاص موسم بہار میں منایا جاتا ہے ہندو اس تہوار کو بسنت نچمپی کہتے ہیں جو ماگھ سدی نچمپی کے موقع پر منیا جاتا ہے۔

ہمارے ملک میں بسنت کے موقع پر پتنگ بازی کی جانے لگی اور خوب کی جانے لگی ہزاروں کی تعداد میں پتنگیں اڑائی جاتی ہیں پتنگوں کے لئیے جو مانجھ، دھاگہ یا ڈور استعمال کی جاتی ہے اس سے گردنیں کٹنے کے خطرناک واقعات رونماء ہوتے رہتے ہیں جس سے کئی لوگوں خصوصاً بچوں کی جانیں بھی جا چکی ہیں جبکہ اس بسنت میلہ پر کروڑوں روپیہ خرچ کردیا جاتا ہے۔

بسنت میلہ کی تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ تہوار کسی طور پر بھی مسلمانوں کا نہیں ہے بلکہ یہ تہوار ١٧٤٧ میں رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت بی بی فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی شان میں گستاخی کرنے والے سیالکوٹ کے ایک کھتری کے بیٹے حقیقت رائے کی موت پر احتجاج کے طور پر ہندوؤں نے لاہور میں شروع کیا تھا۔

نہ جانے کب اس بسنت میلہ کو کس نے پتنگ بازی سے جوڑ دیا اور یہ منحوس روایت آج تک لاہور میں چلی آرہی ہے۔

سکھ مؤرخ ڈاکٹر بی ایس نجار “ پنجاب مغل دور کے اواخر میں “ لکھا ہے کہ ١٧٤٧ میں سیالکوٹ کے ایک کھتری کے بیٹے حقیقت رائے نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور بی بی فاطمہ کے لئے نازیبا الفاظ استعمال کیئے تھے اس جرم میں حقیقت رائے کو گرفتار کر کے عدالتی کاروائی کے لیئے لاہور بھیجا گیا ، عدالتی کاروائی کے نتیجے میں گستاخ رسول (ص) مجرم حقیقت رائے کو موت کی سزا سنادی گئی اس کی سزائے موت پر پنجاب کی ساری غیر مسلم آبادی کو دھچکا لگا۔ اس وقت زکریہ خان (١٧٠٧-١٧٥٩
) پنجاب کا گورنر تھا کچھ ہندو افسر اس وقت گورنر زکریہ خان کے پاس حقیقت رائے کی معافی کی درخواست لیکر گئے لیکن گورنر زکریہ خان نے سزائے موت پر نظر ثانی کرنے سے سختی سے انکار کردیا جس کے بعد مجرم حقیقت رائے کو ایک ستون سے باندہ کر پہلے کوڑے لگائے گئے پھر اس کی گردن تن سے جدا کردی گئی ۔ یہ تھی سزا ہمارے پیارے نبی(ص) اور حضرت بی بی فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی شان میں گستاخی کرنے کی۔

ڈاکٹر ایس بی نجار نے اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ٢٧٩ پر واضع طور پر لکھا ہے کہ ہندوؤں نے حقیقت رائے کی موت پر احتجاج کیا اور اس کی سمادی بناکر اس کو بسنتی رنگ (زرد، زعفرانی) سے رنگ دیا بعد ازاں ایک ہندو رئیس کالو رام نے بسنت میلے کا آغاز کیا ڈاکٹر ایس بی نجار نے لکھا ہے کہ بسنت میلہ اسی کی یاد میں منایا جاتا ہے حقیقت رائے کی یہ یادگار آج بھی کوجے شاہی (کوٹ خواجہ سعید) ہے اس جگہ کو آج بھی باوا دی ہٹی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ تو ہے بسنت میلے کی تاریخ لیکن مجھے بسنت میلے کے دوران پتنگوں کی ڈوروں سے گردن کٹنے کے واقعات سے شبہ ہوتا ہے کہ کہیں حقیقت رائے کی بد روح اپنا انتقام تو نہیں لیتی کیونکہ اکثر لوگوں کی گردن ہی کٹتی ہے۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 152488 views I'm Journalist. .. View More