عہد نبوت ﷺ میں شاتمان رسولﷺ کے انجام بد

تمام تعریفیں اللہ رب العزت کے لئے اور کروڑ ہا درود نبی رحمتﷺ کے لئے آج اس موضوع پر قلم اٹھانے کا مقصد پوری دنیا بالخصوص یورپ اور امریکہ میں ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ ہمارے آقا تاجدار دو عالم کی سرکاری سرپرستی میں آزادئ اظہار کی آڑ میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہتک کرنے کی ایک مہم بڑے زوروشور سے جاری ہے جسکا مقصد امت مسلمہ کے دلوں سے آہستہ آہستہ محبت رسول ﷺ کو کم کیا جائےکفار رسول اللہ ﷺکی نبوت کا انکار کرنے کےلئے جو جواز پیش کرتے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو نبی بنانا ہوتا تو مکہ یا مدینہ کے کسی بڑے رئیس یا سردار کو کیوں نہ بناتا، تاکہ لوگ اس کی بات توجہ سے سنتے اور اس کے اثرو رسوخ اور معاشرے میں اس کے مقام کی وجہ سے جلد اس کے مطیع ہوجاتے۔ ان کی اسی بات کا اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کچھ یوں ذکر کیا ہے۔
وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ هَذَا الْقُرْآنُ عَلَىٰ رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ
"اور کہتے ہیں کہ کیوں نہ اترا یہ قرآن کسی بڑے آدمی پر ان دو بستیوں میں سے۔" (الزخرف:۳۱)
یہ کفار کا قول ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:
اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ
"اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ (رسالت کا کون سا محل ہے اور) وہ اپنی پیغمبری کسے عنایت فرمائے۔" (الانعام:۱۲۴)
کفار کی طرف سے بتائے گئے رسالت کے مجوزہ امیدواروں میں ایک عروہ بن مسعود ثقفی تھے، جن کا تعلق طائف سے تھا۔ برسوں بعد ایک مہم میں کفار مکہ نے عروہ بن مسعود ثقفی کو بطور ایلچی محمد ﷺسے ملاقات کے لئے بھیجا تاکہ وہ ان سے معاہدے کے لئے مذاکرات کریں جو بعد میں معاہدۂ حدیبیہ کے نام سے معروف ہوا۔ (گوکہ وہ معاہدے کی شرائط طے کرنے میں ناکام رہے تھے اور معاہدہ بعد ازاں ایک اور ایلچی سہیل بن عمرو کے ساتھ طے کیا گیا۔) کفار کے نمائندے کی حیثیت سے جب عروہ بن مسعود حدیبیہ کے مقام پر مسلمانوں کے پڑاؤ میں رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کرنے آئے تو انہیں محسوس ہوا کہ گویا وہ کسی دوسری دنیا میں قدم رکھ رہے تھے۔
صحابؓہ کی وارفتگی کا عالم
عروہ بن مسعود ثقفی جب رسول اللہ ﷺ کی زیارت کےلئے آئے تو انہوں نے اپنی آنکھوں سے ایسے مناظر دیکھے جنہوں نے انہیں حیران وششدر کرکے رکھ دیا۔ جب رسول اللہ ﷺ وضو فرماتے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آگے بڑھ کر وضو کا پانی جو آپ ﷺ کے جسم اطہر سے ٹپکتا تھا۔ اپنے ہاتھوں میں لے کر اپنے چہرے پر مل لیتے تھے تاکہ رسول اللہ ﷺ سے برکت حاصل کی جاسکے اور جب آپ ﷺ کا کوئی بال جسم اطہر سے گرتا تو سبھی اس کوحاصل کرنے کو لپکتے۔ رسول اللہ ﷺجب ان کو کوئی حکم دیتے تو وہ سرعت کے ساتھ اس کی تکمیل میں لگ جاتے تھے۔
جب عروہ بن مسعود ثقفی رسول اللہ ﷺ سے گفتگو کر رہے تھے تو وہاں ایک زرہ پوش جوان بھی کھڑا تھا۔ جب کبھی عروہ نبی مہربان ﷺکی داڑھی مبارک کو تھامنے کے لئے ہاتھ آگے بڑھاتے تو یہ جوان جو رسول اللہ ﷺ کے پیچھے کھڑا تھا، عروہ بن مسعود ثقفی کو اپنی تلوار کے دستے سے ضرب لگاتا اور کہتا تھا۔ "اپنے ہاتھ دور کھینچ لو اس سے پہلے کہ یہ تمہارے پاس واپس نہ لوٹ سکیں۔"اس پر عروہ بن مسعود ثقفی نے کہا:"میرے خیال میں یہ شخص آپ لوگوں میں سب سے بڑا سخت اور درشت ہے۔ آخر کون ہے کہ؟" نبی ﷺ مسکرائے اور فرمایا: "یہ تمہارا بھتیجا ہے ۔۔۔۔ مغیرہ بن شعبہ ثقفی ؓ ۔۔۔۔۔"یہ عروہ بن مسعود ثقفی کے بھتیجے تھے لیکن اب چونکہ وہ مسلمان ہوچکے تھے اور نبی کریم ﷺ سے محبت اور ان پر جانثاری کا جذبہ اس قدر تھا کہ انہوں نے اپنے چچا کو رسول اللہ اکرم ﷺ کی داڑھی چھونے کی بھی اجازت نہ دی۔ عروہ بن مسعود کو اس بات سے لازمی طور پر صدمہ پہنچا۔
ذرا اپنے آپ کو اس معاشرے میں لے جائیں، خود کو ان کی جگہ تصور کیجئے اور سوچئے جیسے وہ سوچا کرتے تھے اور ان حالات کو سمجھنے کی کوشش کیجئے جو ان لوگوں کے گرد تھے۔ یہ ایک قبائلی معاشرہ تھا۔ جہاں قبیلہ اور خاندانی رشتے ہی سب کچھ تھے۔ عروہ بن مسعود یہ دیکھ کر سخت حیران ہوئے کہ اسلام نے کس طرح ان کے بھتیجے کی کایا پلٹ دی اور وہ کیسے ان کے ساتھ پیش آرہا تھا۔۔۔!
عروہ بن مسعود جب قریش کی طرف واپس لوٹے تو ان کو بتایا:"اے قریش کے لوگو!میں نے دنیا کے بادشاہوں کی زیارت کی ہے، میں نے قیصر وکسریٰ سے ملاقاتیں کی ہیں اور میں نے کبھی کسی بادشاہ کے تابع فرمانوں کو اپنے لیڈر کے لئے اتنا فداکار نہیں پایا جتنا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو محمد ﷺکے لئے جان نثار کرنے کے جذبوں سے معمور پایا ہے اور میں نے کبھی کسی بادشاہ کے اطاعت گزاروں میں ایسی اطاعت نہیں دیکھی جیسی صحابہ کی اللہ کے رسول ﷺ کے لئے دیکھی۔ جب بھی وہ ان کو کوئی حکم دیتے تو وہ دوڑ کر اس کی تعمیل کرتے تھے اور جب بھی رسول اللہ ﷺصحابہ سے مخاطب ہوتے تو وہ یوں خاموش ہوجاتے گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں جو ان کے بولنے سے اُڑ جائیں گے۔ جب رسول اللہ ﷺ وضو کرتے تو آپ ﷺ کے صحابہ دوڑ کر جسم اطہر سے گرنے والے پانی کو حاصل کرتے اور اگر آپ ﷺ کا کوئی بال گرتا تو سبھی اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ۔۔۔ پس اے قریش کے لوگو! محمد ﷺ نے تم لوگوں کو ایک پیشکش کی ہے اس کو قبول کرلو، کیونکہ میں نہیں سمجھتا کہ ان کے جان نثار کبھی اس کا ساتھ چھوڑیں گے۔۔۔۔!!"
یہ وہ ثاثر تھا جو کفار اہل ایمان کے بارے میں رکھتے تھے کہ وہ کبھی نبی ﷺ کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے اور کبھی ان کو دغا نہیں دیں گے اور نہ تنہا چھوڑیں گے بلکہ آخری آدمی تک نبی ﷺ کی حفاظت کے لئے جنگ کریں گے ۔۔۔ مگر اب وقت تبدیل ہوچکا ہے!وہ رسول ﷺ کا وقت تھا اور عروہ بن مسعود کی گواہی تھی۔۔۔۔ جبکہ آج حالات یکسر مختلف ہیں۔
کچھ عرصہ قبل اللہ کی کتاب کو کچھ امریکی فوجیوں نے بطور مشق ہدف کے طور پر استعمال کیا اور یہ واقعہ کہاں پیش آیا؟ ایک مسلمان ملک میں جو کے اسلامی دنیا کے قلوب میں واقع ہے ۔۔۔ پھر کیا ہوا؟؟؟ اسلامی دنیا کی طرف سے ردِعمل خاموشی تھی۔۔۔!!
اس سے پہلے جب ڈنمارک میں کارٹونوں کی اشاعت کا معاملہ وقوع پذیر ہوا تو مسلم دنیا سخت غضب ناک ہوئی لیکن پھر جب سویڈن میں ایسا ہی واقعہ پیش آیا جو کہیں زیادہ بدتر تھا، ردعمل مقابلتًا کم تھا اور اب بتدریج ردعمل کم ہورہا ہے۔ سو ہمارے دشمنوں نے ہمیں کامیابی کے ساتھ بے حس کردیا ہے۔
جب یہ واقعہ پہلی دفعہ پیش آیا تو ہر کوئی اس کے بارے میں سوچ رہا تھا اور اس کی مذمت کررہا تھا اور اس معاملے پر متاسف تھا مگر پھر آہستہ آہستہ ہم اس کے عادی ہی ہوتے چلے گئے یہاں تک کے کفار گستاخی کی آخری حد تک پہنچ گئے ہیں۔۔۔ مگر ردِعمل کیا ہے؟ بہت تھوڑا۔۔۔۔!!
آئیے ذرا ایک نظر اپنے درخشندہ ماضی پر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ تب گستاخان کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا تھا؟ کیونکہ یہ وہ چیز ہے جو ہمارے قلوب واذہان کو منور کرنے کا سبب بنے گی، اور بالآخر ہمارے اندر یہ احساس بیدار ہوگا کہ گستاخان رسولﷺ کا انجام وہی ہونا چاہیے جو صحابہ رضی اللہ عنھم نے کیا اور بے شک اس معاملے میں بھی ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہی کی اتباع کرنے چاہیے۔
قرآنی نصوص ، احادیث مبارکہ ، عمل صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ، فتاویٰ ائمہ اور اجماع امت سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح اور عیاں ہے کہ گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا قتل ہے اس کی معافی کو قبول نہ کیا جائے ۔ لہٰذا مسلم ممالک کے حکمرانوں کو چاہیے کہ ان کے اس منافقانہ طرز عمل سے متاثر ہونے کے بجائے ایک غیور مسلمان کا موقف اختیار کریں ۔
یہود و نصاریٰ شروع دن سے ہی شان اقدس میں نازیبا کلمات کہتے چلے آ رہے ہیں ۔ کبھی یہودیہ عورتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں ، کبھی مردوں نے گستاخانہ قصیدے کہے ۔ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو میں اشعار پڑھے اور کبھی نازیبا کلمات کہے ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شان نبوت میں گستاخی کرنے والے بعض مردوں اور عورتوں کو بعض مواقع پر قتل کروا دیا ۔ کبھی صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حکم دے کر اور کبھی انہیں پورے پروگرام کے ساتھ روانہ کر کے ۔ کبھی کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے حب نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں خود گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر کو چیر دیا اور کسی نے نذر مان لی کہ گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور قتل کروں گا ۔ کبھی کسی نے یہ عزم کر لیا کہ خود زندہ رہوں گا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گستاخ ۔ اور کبھی کسی نے تمام رشتہ داریوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خود دیکھنے کے لئے گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور یہودیوں کے سردار کا سر آپکے سامنے لا کر رکھ دیا ۔ جو گستاخان مسلمانوں کی تلواروں سے بچے رہے اللہ تعالیٰ نے انہیں کن عذابوں میں مبتلا کیا اور کس رسوائی کا وہ شکار ہوئے اور کس طرح گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر نے اپنے اندر رکھنے کے بجائے باہر پھینک دیا تا کہ دنیا کیلئے عبرت بن جائے کہ گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انجام کیا ہے انہیں تمام روایات و واقعات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے یہ اوراق اپنوں اور بیگانوں کو پیغام دے رہے ہیں کہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور بات کا حلیہ نہ بگاڑنا ۔ ذات اور بات کا حلیہ بگاڑنے سے امام الانبیاءعلیہما لسلام کی شان اقدس میں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ آپ اپنی دنیا و آخرت تباہ کر بیٹھو گے ۔ رسوائی مقدر بن جائے گی ۔
جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دینے والوں کے بارے میں ارشاد فرما رہے ہیں ۔
(( ان الذین یوذون اللّٰہ ورسولہ لعنھم اللّٰہ فی الدنیا والآخرۃ واعد لھم عذابا مھینا )) ( 33/احزاب 57 ) ” بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دیتے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا و آخرت میں ان پر لعنت ہے اور ان کیلئے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ “
آئیے گستاخان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انجام دیکھئے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اسی حوالے سے کارہائے نمایاں ملاحظہ فرمائیے اور اسی بارے میں ائمہ سلف کے فرامین و فتاویٰ بھی پڑھئے پھر فیصلہ فرمائیے کہ ان حالات میں عالم اسلام کی کیا ذمہ داری ہے ۔
یہودیہ عورت کا قتل :
چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
(( ان یھودیة کانت تشتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم وتقع فیہ ، فخنقھا رجل حتی ماتت ، فاطل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دمھا (رواہ ابوداود ، کتاب الحدود باب الحکم فیمن سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ) ایک یہودیہ عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی ایک آدمی نے اس کا گلا گھونٹ کر ہلاک کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خون کو رائیگاں قرار دے دیا ۔
گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ام ولد کا قتل :
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ :
ایک اندھے شخص کی ایک ام ولد لونڈی تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی وہ اسے منع کرتا تھا وہ گالیاں دینے سے باز نہیں آتی تھی وہ اسے جھڑکتا تھا مگر وہ نہ رکتی تھی ایک رات اس عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینا شروع کیں اس نے ایک بھالا لے کر اس کے پیٹ میں پیوست کر دیا اور اسے زور سے دبا دیا جس سے وہ مر گئی ۔ صبح اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو جمع کرکے فرمایا ۔ میں اس آدمی کو قسم دیتا ہوں جس نے کیا ۔ جو کچھ کیا ۔ میرا اس پر حق ہے کہ وہ کھڑا ہو جائے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سن کر ایک نابینا آدمی کھڑا ہو گیا ۔ اضطراب کی کیفیت میں لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا ۔ اس نے آکر کہا ۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اسے منع کرتا تھا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے سے باز نہیں آتی تھی ۔ میں اسے جھڑکتا تھا مگر وہ اس کی پرواہ نہیں کرتی تھی اس کے بطن سے میرے دو ہیروں جیسے بیٹے ہیں اور وہ میری رفیقہ حیات تھی گزشتہ رات جب وہ آپکو گالیاں دینے لگی تو میں نے بھالا لے کر اس کے پیٹ میں پیوست کر دیا میں نے زور سے اسے دبایا یہاں تک کہ وہ مر گئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری گفتگو سننے کے بعد فرمایا تم گواہ رہو اس کا خون ہد رہے ۔ (ابوداود ، الحدود ، باب الحکم فیمن سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، نسائی ، تحریم الدم ، باب الحکم فیمن سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم
گستاخ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور گستاخ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا حکم :
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
(( قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من سب نبیا قتل ، ومن سب اصحابہ جلد )) ( رواہ الطبرانی الصغیر صفحہ 236 جلد 1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی اسے قتل کیا جائے اور جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو گالی دی اسے کوڑے مارے جائیں ۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا فتویٰ :
حضرت ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ :
(( کنت عند ابی بکر رضی اللہ عنہ ، فتغیظ علیٰ رجل ، فاشتد علیہ ، فقلت : ائذن لی یا خلیفۃ رسول اللّٰہ اضرب عنقہ قال : فاذھبت کلمتی غضبہ ، فقام فدخل ، فارسل الی فقال : ما الذی قلت آنفا ؟ قلت : ائذن لی اضرب عنقہ ، قال : اکنت فاعلا لو امرتک ؟ قلت : نعم قال : لا واللّٰہ ما کانت لبشر بعد رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم )) ( رواہ ابوداود ، کتاب الحدود باب الحکم فیمن سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم )
میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے پاس تھا آپ کسی شخص سے ناراض ہوئے تو وہ بھی جواباً بدکلامی کرنے لگا ۔ میں نے عرض کیا ۔ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ۔ مجھے اجازت دیں ۔ میں اس کی گردن اڑا دوں ۔ میرے ان الفاظ کو سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سارا غصہ ختم ہو گیا ۔ آپ وہاں سے کھڑے ہوئے اور گھر چلے گئے ۔ گھر جا کر مجھے بلوایا اور فرمانے لگے ابھی تھوڑی دیر پہلے آپ نے مجھے کیا کہا تھا ۔ میں نے کہا ۔ کہا تھا ۔ کہ آپ رضی اللہ عنہ مجھے اجازت دیں میں اس گستاخ کی گردن اڑا دوں ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرمانے لگے اگر میں تم کو حکم دے دیتا ۔ تو تم یہ کام کرتے ؟ میں نے عرض کیا اگر آپ رضی اللہ عنہ حکم فرماتے تو میں ضرور اس کی گردن اڑا دیتا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ۔ نہیں ۔ اللہ کی قسم ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ کسی کے لئے نہیں کہ اس سے بدکلامی کرنے والے کی گردن اڑا دی جائے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والے کی ہی گردن اڑائی جائے گی ۔
عصماءبنت مروان کا قتل :
اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
(( ھجت امراۃ من خطمۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال : ( من لی بھا ؟ ) فقال رجل من قومھا : انا یا رسول اللّٰہ ، فنھض فقتلھا فاخبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، فقال : ( لا ینتطح فیھا عنزان )) ( الصارم المسلول 129 ) ” خَطمَہ “ قبیلے کی ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس عورت سے کون نمٹے گا ۔ “ اس کی قوم کے ایک آدمی نے کہا ۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کام میں سرانجام دوں گا ، چنانچہ اس نے جا کر اسے قتل کر دیا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو بکریاں اس میں سینگوں سے نہ ٹکرائیں یعنی اس عورت کا خون رائیگاں ہے اور اس کے معاملے میں کوئی دو آپس میں نہ ٹکرائیں ۔ بعض مورخین نے اس کی تفصیل یوں بیان کی ہے ۔
عصماءبنت مروان بنی امیہ بن زید کے خاندان سے تھی وہ یزید بن زید بن حصن الخطمی کی بیوی تھی یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاءو تکلیف دیا کرتی ۔ اسلام میں عیب نکالتی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لوگوں کو اکساتی تھی ۔ عمیر بن عدی الخطمی کو جب اس عورت کی ان باتوں اور اشتعال انگیزی کا علم ہوا ۔ تو کہنے لگا ۔ اے اللہ میں تیری بارگاہ میں نذر مانتا ہوں اگر تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بخیر و عافیت مدینہ منورہ لوٹا دیا تو میں اسے ضرور قتل کردوں گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بدر میں تھے ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ بدر سے واپس تشریف لائے تو عمیر بن عدی آدھی رات کے وقت اس عورت کے گھر میں داخل ہوئے ۔ تو اس کے اردگرد اس کے بچے سوئے ہوئے تھے ۔ ایک بچہ اس کے سینے پر تھا جسے وہ دودھ پلا رہی تھی ۔ عمیر نے اپنے ہاتھ سے عورت کو ٹٹولا ۔ تو معلوم ہوا کہ یہ عورت اپنے اس بچے کو دودھ پلا رہی ہے ۔ عمیر نے بچے کو اس سے الگ کر دیا ۔ پھر اپنی تلوار کو اس کے سینے پر رکھ کر اسے زور سے دبایا کہ وہ تلوار اس کی پشت سے پار ہو گئی ۔ پھر نماز فجر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادا کی جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو عمیر کی طرف دیکھ کر فرمایا کیا تم نے بنت مروان کو قتل کیا ہے ؟ کہنے لگے ۔ جی ہاں ۔ میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔
عمیر کو اس بات سے ذرا ڈر سا لگا کہ کہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے خلاف تو قتل نہیں کیا ۔ کہنے لگے ۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا اس معاملے کی وجہ سے مجھ پر کوئی چیز واجب ہے ؟ فرمایا دو بکریاں اس میں سینگوں سے نہ ٹکرائیں ۔ پس یہ کلمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلی مرتبہ سنا گیا عمیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اردگرد دیکھا پھر فرمایا تم ایسے شخص کو دیکھنا پسند کرتے ہو جس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی غیبی مدد کی ہے تو عمیر بن عدی کو دیکھ لو ۔ ( الصارم المسلول 0

ابوعفک یہودی کا قتل :
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مورخین کے حوالے سے شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم ابوعفک یہودی کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ :
(( ان شیخا من بنی عمرو بن عوف یقال لہ ابوعفک وکان شیخا کبیرا قد بلغ عشرین ومایة سنة حین قدم النبی صلی اللہ علیہ وسلم المدینة ، کان یحرض علیٰ عداوۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ولم یدخل فی الاسلام ، فلما خرج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الی بدر ظفرہ اللہ بما ظفرہ ، فحسدہ وبغی فقال ، وذکر قصیدۃ تتضمن ھجو النبی صلی اللہ علیہ وسلم وذم من اتبعہ )) الصارم المسلول 138
بنی عمرو بن عوف کا ایک شیخ جسے ابوعفک کہتے تھے وہ نہایت بوڑھا آدمی تھا اس کی عمر 120 سال تھی جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے ۔ تو یہ بوڑھا لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت پر بھڑکاتا تھا اور مسلمان نہیں ہوا تھا جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کی طرف نکلے غزوہ بدر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے کامیابی عطاءفرمائی تو اس شخص نے حسد کرنا شروع کر دیا اور بغاوت و سرکشی پر اتر آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مذمت میں ہجو کرتے ہوئے ایک قصیدہ کہا ۔ اس قصیدے کو سن کر سالم بن عمیر نے نذر مان لی کہ میں ابوعفک کو قتل کروں گا یا اسے قتل کرتے ہوئے خود مرجاؤں گا ۔ سالم موقع کی تلاش میں تھا ۔ موسم گرما کی ایک رات ابوعفک قبیلہ بنی عمرو بن عوف کے صحن میں سویا ہوا تھا سالم بن عمیر رضی اللہ عنہ اس کی طرف آئے اور اس کے جگر پر تلوار رکھ دی جس سے وہ بستر پر چیخنے لگا ۔ لوگ اس کی طرف آئے جو اس کے اس قول میں ہم خیال تھے وہ اسے اس کے گھر لے گئے ۔ جس کے بعد اسے قبر میں دفن کر دیا اور کہنے لگے اس کو کس نے قتل کیا ہے ؟ اللہ کی قسم اگر ہم کو معلوم ہو جائے کہ اسے کس نے قتل کیا ہے تو ہم اس کو ضرور قتل کر دیں گے ۔
انس بن زنیم الدیلمی کی گستاخی :
انس بن زنیم الدیلمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی اس کو قبیلہ خزاعہ کے ایک بچے نے سن لیا اس نے انس پر حملہ کر دیا انس نے اپنا زخم اپنی قوم کو آ کر دکھایا ۔
واقدی نے لکھا ہے کہ عمرو بن سالم خزاعی قبیلہ خزاعہ کے چالیس سواروں کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدد طلب کرنے کیلئے گیا انہوں نے آ کر اس واقع کا تذکرہ کیا جو انہیں پیش آیا تھا جب قافلہ والے فارغ ہوئے تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انس بن زنیم الدیلمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خون کو رائیگاں قرار دیا ۔ ( الصارم المسلول139)
گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک عورت :
ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من یکفینی عدوی میری دشمن کی خبر کون لےگا ؟ تو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اس عورت کو قتل کر دیا ۔ ( الصارم المسلول163)
مشرک گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قتل :
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
((ان رجلا من المشرکین شتم ر سول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ( من یکفینی عدوی ؟ ) فقام الزبیر بن العوام فقال : انا فبارزہ ، فاعطاہ رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم سلبہ )) ( الصارم المسلول : 177 )
مشرکین میں سے ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے اس دشمن کی کون خبر لے گا ؟ تو حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے عرض کرنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوں حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کر دیا ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا سامان حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو دے دیا ۔ “
کعب بن اشرف یہودی کا قتل :
کعب بن اشرف ایک سرمایا دار متعصب یہودی تھا اسے اسلام سے سخت عداوت اور نفرت تھی جب مدینہ منورہ میں بدر کی فتح کی خوش خبری پہنچی ۔ تو کعب کو یہ سن کر بہت صدمہ اور دکھ ہوا ۔ اور کہنے لگا ۔ اگر یہ خبر درست ہے کہ مکہ کے سارے سردار اور اشراف مارے جا چکے ہیں تو پھر زندہ رہنے سے مر جانا بہتر ہے ۔ جب اس خبر کی تصدیق ہو گی تو کعب بن اشرف مقتولین کی تعزیت کے لئے مکہ روانہ ہوا مقتولین پر مرثیے لکھے ۔ جن کو پڑھ کر وہ خود بھی روتا اور دوسروں کو بھی رلاتا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف قتال کے لئے لوگوں کو جوش دلاتا رہا ۔ مدینہ واپس آکر اس نے مسلمان عورتوں کے خلاف عشقیہ اشعار کہنے شروع کر دئیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو میں بھی اشعار کہے ۔ کعب مسلمانوں کو مختلف طرح کی ایذائیں دیتا ۔ اہل مکہ نے کعب سے پوچھا کہ ہمارا دین بہتر ہے یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین ۔ تو اس نے جواب دیا کہ تمہارا دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے بہتر ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حرکات کی وجہ سے اسکے قتل کا پروگرام بنایا اور قتل کے لئے روانہ ہونے والے افراد کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع کی قبرستان تک چھوڑنے آئے ۔ چاندنی رات تھی پھر فرمایا جاؤ ۔ اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے ۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ :
(( قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ( من لکعب بن الاشرف ، فانہ قد اذی اللّٰہ ورسولہ ؟ ) فقام محمد بن مسلمۃ فقال : انا یا رسول اللّٰہ اتحب ان اقتلہ ؟ قال نعم قال : فاذن لی ان اقول شیا ، قال : قل )) رواہ البخاری کتاب المغازی باب قتل کعب بن الاشرف ، رواہ مسلم کتاب الجہاد والسیر باب قتل کعب بن الاشرف طاغوف الیھود ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کعب بن اشرف کا کام کون تمام کرے گا ۔ اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کو تکلیف دی ہے اس پر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے ۔ اور عرض کی۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پسند کرتے ہیں کہ میں اسے قتل کر آؤں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ہاں ۔ مجھ کو یہ پسند ہے ۔ محمد بن مسلمہ نے عرض کیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کچھ کہنے کی اجازت دے دیں یعنی ایسے مبہم کلمات اور ذومعنیٰ الفاظ جنہیں میں کہوں اور وہ سن کر خوش و خرم ہو جائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ اجازت ہے ۔ “
محمد بن مسلمہ کعب بن اشرف کے پاس آئے آ کر اس سے کہا کہ یہ شخص ( اشارہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تھا ) ہم سے صدقہ مانگتا ہے اس نے ہمیں تھکا مارا ہے اس لئے میں تم سے قرض لینے آیا ہوں ۔ جواباً کعب نے کہا ۔ ابھی آگے دیکھنا اللہ کی قسم بالکل اکتا جاؤ گے ۔ محمد بن مسلمہ نے کہا ۔ چونکہ ہم نے اب ان کی اتباع کر لی ہے جب تک ہم اس کا انجام نہ دیکھ لیں اسے چھوڑنا مناسب نہیں ہے ۔ میں تم سے ایک دو وسق غلہ قرض لینے آیا ہوں کعب نے کہا ۔ میرے پاس کوئی چیز گروی رکھ دو ۔ محمد بن مسلمہ نے کہا ۔ تم کیا چیز چاہتے ہو ۔ کہ میں گروی رکھ دوں ۔ کعب نے کہا
اپنی عورتوں کو گروی رکھ دو ۔ محمد بن مسلمہ نے کہا تم عرب کے خوبصورت جوان ہو تمہارے پاس ہم اپنی عورتیں کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں ۔ کعب نے کہا ۔ پھر اپنے بیٹوں کو گروی رکھ دو ۔ محمد بن مسلمہ نے کہا ۔ ہم اپنے بیٹوں کو گروی کس طرح رکھ سکتے ہیں ۔ کل انہیں اس پر ہر کوئی گالیاں دے گا کہ آپ کو ایک دو وسق غلے کے عوض گروی رکھا گیا تھا ۔ یہ ہمارے لئے بڑی عار ہو گی البتہ ہم آپ کے پاس اپنے اسلحہ کو گروی رکھ سکتے ہیں جس پر کعب راضی ہو گیا محمد بن مسلمہ نے کعب سے کہا کہ میں دوبارہ آؤں گا ۔
دوسری دفعہ محمد بن مسلمہ کعب کے پاس رات کے وقت آئے ۔ ان کے ہمراہ ابو نائلہ بھی تھے یہ کعب کے رضاعی بھائی تھے ۔ پھر انہوں نے اس کے قلعے کے پاس جا کر آواز دی ۔ وہ باہر آنے لگا ۔ تو اس کی بیوی نے کہا مجھے تو یہ آواز ایسی لگتی ہے جیسے اس سے خون ٹپک رہا ہے کعب نے جواب دیا کہ یہ تو محمد بن مسلمہ اور میرے رضاعی بھائی ابونائلہ ہیں اگر شریف آدمی کو رات کے وقت بھی نیزہ بازی کیلئے بلایا جائے تو وہ نکل پڑتا ہے محمد بن مسلمہ اور ابونائلہ کے ہمراہ ابوعبس بن جبر ، حارث بن اوس اور عباد بن بشر بھی تھے ۔
محمد بن مسلمہ نے اپنے ساتھیوں کو ہدایت کی تھی کہ جب کعب آئے تو میں اس کے سر کے بال ہاتھ میں لوں گا اور اسے سونگھنے لگوں گا ۔ جب تمہیں اندازہ ہو جائے کہ میں نے اس کا سر مضبوطی سے پکڑ لیا ہے تو پھر تم اس کو قتل کر ڈالنا ۔ کعب چادر لپٹے ہوئے باہر آیا ۔ اس کا جسم خوشبو سے معطر تھا ۔ محمد بن مسلمہ نے کہا ۔ میں نے آج سے زیادہ عمدہ خوشبو کبھی نہیں سونگھی ۔ کعب نے کہا ۔ میرے پاس عرب کی وہ عورت ہے جو عطر میں ہر وقت بسی رہتی ہے اور حسن و جمال میں بھی اس کی کوئی مثال نہیں محمد بن مسلمہ نے کہا ۔ کیا مجھے تمہارے سر کو سونگھنے کی اجازت ہے ؟ کعب نے کہا اجازت ہے ۔ محمد بن مسلمہ نے کعب کا سر سونگھا اس کے بعد اس کے ساتھیوں نے سونگھا پھر انہوں نے کہا ۔ دوبارہ سونگھنے کی اجازت ہے ؟ کعب نے کہا ۔ اجازت ہے ۔ پھر جب محمد بن مسلمہ نے پوری طرح سے اسے قابو کر لیا تو اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا کہ تیار ہو جاؤ چنانچہ انہوں نے اسے قتل کر دیا ۔
پھر رات کے آخری حصے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھتے ہی فرمایا : افلحت الوجوہ ان چہروں نے فلاح پائی اور کامیاب ہوئے ۔ انہوں نے جواباً عرض کیا ووجھک یا رسول اللہ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک ، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اس کے بعد کعب بن اشرف کا قلم کیا ہوا سر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے الحمد للہ کہا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا ۔ ( فتح الباری 272/7 )
کعب کے قتل کے نتائج
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ نے اس قصے کا تذکرہ اپنی کتاب "الصارم المسلول علی شاتم الرسول"(شاتم رسول پر سونتی ہوئی تلوار) میں کیا ہے اور انہوں نے چند چیزوں کا ذکر کیا ہے جن کو ہم یہاں دہرائیں گے۔
سب سے پہلے وہ سیرت کے علماء میں سے ایک عالم واقدی کا بیان پیش کرتے ہیں:
واقدی اس واقعہ کے نتائج پر بحث کرتے ہیں کیونکہ اپنے نتائج کے اعتبار سے یہ ایک بڑا اہم واقعہ تھا۔ اس نے مدینہ میں رہنے والے مشرکین اور یہودیوں میں ہلچل پیدا کردی تھی۔ واقدی لکھتے ہیں کہ یہودی مشرکین کہ ساتھ مل کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور شکایت کی کہ گزشتہ رات ان کے ایک معزز آدمی کو دھو کے سے قتل کردیا گیا۔ (انہوں نے قتل کے لئے غِلّہ کا لفظ استعمال کیا جس کا مطلب ہے کہ کسی کو چپکے سے بے خبری میں قتل کردینا۔) انہوں نے کہا اس کو بغیر کسی جرم کے قتل کردیا گیا۔"
کعب بن اشرف کو کیوں قتل کیا گیا؟ یہ تھا وہ سوال جسے لے کر وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ کیونکہ مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ایک امن معاہدہ موجود تھا۔ معاہدے کے ہوتے ہوئے کعب کو کیوں قتل کیا گیا؟ آخر یہ واقعہ کیوں پیش آیا؟ کیا مسلمان اس معاہدے کو سبوتاژ کرنا چاہتے تھے؟
یہ تھے وہ سوالات جن کے جوابات یہود جاننا چاہتے تھے۔ رسول اللہ نبی کریم ﷺ نے ان کے سوالات کے جواب میں فرمایا: "اگر وہ پرسکون رہتا ان لوگوں کی طرح جو اس کے ہم خیال ہیں اور اُن جیسی رائے رکھتا تو وہ قتل نہ کیا جاتا۔ مگر اس نے ہمیں نقصان پہنچایا اور اپنی شاعری سے ہماری ہجو کی ہے۔ اگر تم میں سے کوئی اور بھی یہ کام کرے گا تو ہم اس کے ساتھ تلوار ہی سے نمٹے گے۔"
ذرا نبی اکرم ﷺ کے جواب پر غور کیجئے: رسول اللہ ﷺ کہہ رہے ہیں کہ بہت سے ایسے لوگ ہیں جو مسلمانوں اور رسول اللہ ﷺ کے لئے کعب بن اشرف جیسا بغض وعناد رکھتے ہیں، سو وہ اپنے کفر کی وجہ سے قتل نہیں کیا گیا تھا۔ نہ ہی وہ اس وجہ سے قتل کیا گیا تھا کہ وہ اللہ کے رسول ﷺسے نفرت کرتا تھا یا مسلمانوں سے بغض وعناد رکھتا تھا۔ نہیں!یہ مرض تو بہت سے لوگوں کے دلوں میں موجود تھا جن سے کوئی تعرض نہ کیا گیا۔ پس اگر وہ سکون سے رہتا جیسے کہ اس جیسے باقی لوگ رہے تو اس کو بھی قتل نہ کیا جاتا۔ مگر کیونکہ اس نے زبان درازی کی اور نبی کریم ﷺ کی ہجو بیان کی تو اس کی گردن ماردی گئی۔ پھر آپ ﷺ نے یہودیوں پر واضح کردیا کہ اگر یہود یا مشرکین میں سے کسی نے آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کی اور اپنے دل میں چھپے ہوئے بغض وعناد کو ظاہر کردیا تو ایسا کرنے والے سے اسی طرح نمٹا جائے گا جیسے کعب بن اشرف سے نمٹا گیا تھا۔
آپ ﷺ کے الفاظ کا مفہوم تھا:"ہمارے اور تمہارے درمیان پھر تلوار کے علاوہ کچھ نہ ہوگا، کوئی مذاکرات نہ ہوں گے اور نہ ہی کوئی معافی ہوگی۔ مفاہمت کی کوئی کوشش نہ کی جائے گی۔ ہمارے اور تمہارے درمیان صرف اور صرف تلوار ہوگی ۔۔۔"
یہ بات آپﷺنے اُن پر روزِ روشن کی طرح واضح کردی تھی۔ پھر آپ ﷺ نے کفار کو بلایا اور ایک دستاویز پر دستخط کیے جس میں اُن سب نے یہ عہد کیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے خلاف نہیں بولیں گے اور اگر کوئی بولے گا تو اس کا فیصلہ تلوار کرے گی۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ کہتے ہیں:"یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو اذیت پہنچانا ایک حجت ہے مسلمانوں کو ترغیب دلانے کے لئے کہ وہ قتل کریں ہر اس شخص کو جس نے یہ فعل کیا، چاہے ان کے مسلمانوں کے ساتھ معاہدے ہی کیوں نہ ہوں، حتی ٰ کہ وہ ذمی ہی کیوں نہ ہوں۔"
ابن تیمیہ ؒ نے اپنی کتاب میں اس حکم کے خلاف اٹھنے والے اعتراضات اور شکوک کا بھی جواب دیا ہے۔ انہوں نے اس قصے کو دلیل کے طور پر اعتراضات کا رد کرنے کے لئے استعمال کیا ہے۔ کچھ لوگوں نے کوشش کی ہے کہ اس حدیث کے مطلب کو موڑیں اور کہیں کے کعب کو اس لئے قتل کیا گیا کیونکہ وہ کفار کو محمد ﷺ کے خلاف لڑنے پر اُبھار رہا تھا اور اسے اس کے گستاخانہ الفاظ کی وجہ سے قتل نہیں کیا گیا۔ ابن تیمیہؒ کہتے ہیں:"نہیں!وہ اپنی گستاخانہ شاعری کی بدولت قتل کیا گیا جو کہ اس کے سفر مکہ پر روانہ ہونے سے پہلے بھی موجود تھی۔ سو اس کا تعلق ہرگز مکہ جانے اور وہاں ان کو مسلمانوں کے خلاف لڑائی پر ابھارنے سے نہیں بلکہ اس کے قتل کا براہِ راست تعلق اس کی گستاخانہ شاعری سے ہی تھا۔"
آگے چل کر وہ لکھتے ہیں: "ابن اشرف نے جو بھی کیا وہ زبان سے تکلیف پہنچانے کی صورت میں تھا۔ کفار کے مرنے پر مرثیہ نگاری اور ان کو لڑائی پر اُبھارنا، مسلمانوں کو گالیاں دینا اور نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کرنا، دین اسلام کو نیچا دکھانا اور مشرکین کے دین کو ترجیح دینا، یہ سب کچھ زبان سے نکلے ہوئے الفاظ تھے۔ اس نے جسمانی طور پر مسلمانوں کے خلاف کوئی لڑائی نہیں شروع کی تھی۔ جو کچھ اس نے کہا وہ یہ تھا کہ اس نے اہل ایمان کو اپنی زبان سے تکلیف پہنچائی۔ یہ ایک حجت ہے ہر اس شخص کے خلاف جو ان معاملات میں بحث ومباحثہ کرتا ہے۔ اس طرح یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہر اس شخص کا خون جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو اذیت دیتا ہے شاعری اور گستاخی کے ذریعے سے، کسی بھی صورت میں محفوظ نہیں ہے۔"
یہ تھا کعب بن اشرف کا قصہ جسے قبیلہ اوس کے چند جانبازوں نے جہنم واصل کردیا تھا۔
 
Syed Irfan Hussain
About the Author: Syed Irfan Hussain Read More Articles by Syed Irfan Hussain: 12 Articles with 17176 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.