عروس البلاد ممبئی سے صدائے اتحاد

ملت اسلامیہ ہند کو اتحاد کی جیسی ضرورت آج ہے شاید پہلے کبھی نہیں تھی ۔ ایسے میں عروس البلاد ممبئی کے آل انڈیا مسلم مجلس کی قومی مجلس عاملہ کا اجلاس اور اس کے اندر ’’صدائے اتحاد‘‘ کے عنوان کے تحت خطاب عام کا اہتمام ملت کے دل کی آواز ہے۔ اتحاد امت کی ضرورت و اہمیت سے ہر کوئی واقف ہے ا ب وقت آگیا ہے کہ اس کی عملی تدابیر پر غور کیا جائے اور اس راہ کے روڑے ہٹائے جائیں تاکہ پائیدار اتحاد قائم ہوسکے ۔اتحاد کے قیام کی خاطردنیا دار لوگ بیرونی خطرات کو بنیاد بناتے ہیں ۔ اسلام دشمن طاقتوں کا خوف دلا کر اتحاد قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ نسخہ اس وقت تک تو کارگر ثابت ہوتا ہے جبتک کہ خطرہ شدید ہو مثلاً کسی جنگ یا فساد کے دوران یا اس کے فوراً بعد لیکن جیسے ہی حالات معمول پر آنے لگتے ہیں یہ بنیاد کمزور پڑنے لگتی ہے اور جب خوف و ہراس کا ماحول ختم ہوجاتا ہےتو اتحاد اتفاق کی ضرورت و اہمیت کابھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔

دیندار حضرات قرآن مجید کی ایک آیات بلکہ آیت کے ایک ٹکڑے کو سیاق و سباق سے الگ کرکے اس کے سہارے اتحاد قائم کرنےکی سعی کرتے ہیں جو نامکمل ہوتی ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے اتحاد بین المسلمین کی خاطر صرف ایک آیت نہیں بلکہ پورا رکوع نازل فرمایا ہے جس کے قلب میں واعتصموبحبل اللہ والی آیت ہے۔ انسان جس طرح دل کی دھڑکن کے بند ہوجانے پر زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح اگر دل کو باقی جسم سے الگ کردیا جائے تب بھی وہ ہلاک ہوجاتا ہے۔ مذکورہ آیت سے قبل ارشاد ربانی ہے ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جیسا کہاسکا حق ہے تم کو موت نہ آئےمگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو‘‘۔ اس آیت میں خطاب اہل ایمان سے ہے اور اتحاد بین المسلمین کی تلقین سے پہلے اس کا سیاق غماز ہے کہ تقویٰ کی حیثیت اتحاد کے ناگزیر (pre requisite( جیسی ہے۔

تقویٰ ایک انفرادی صفت ہے ۔جولوگ اتحاد کے خواہش مندہیں ان کے لئے اپنے آپ کو اس سے متصف نہ کرنا لازمی ہے وگرنہ لاکھ خواہش یا کوشش کے باوجود وہ متحد نہیں ہوسکتے۔حضور اکرم ﷺ نے فرمایا’’مومن ﴿دوسرے ﴾مومن کے لیے دیوار کے مثل ہے جس کی ایک اینٹ سے دوسرے اینٹ کو مضبوط بناتی ہے۔‘‘ اللہ کی محبت اور اللہ کا ڈر ہی ان اینٹوں کو خوشنما اور مضبوط بناتا ہے۔ اگر اینٹیں کمزور اور بدنما ہوں تو ان کی مدد سے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی تعمیر غیر ممکن ہے؟اس آیت مبارکہ میں موت تک تقویٰ مستقل مزاجی کی علامت ہے اور یہی استقلال دیوارکو پائیداری بخشتا ہے اور اس کی عدم موجودگی اتحاد کو عارضی اور ناپائیداربنادیتی ہے۔

اس مرحلے سےگزرنے کے بعد متقیوں کو حکم دیا گیا کہ وہ سب اللہ کی رسی یعنی کو مل کر تھام لیں۔ ان سب کا ایک کتاب سے وابستہ ہو جانا ازخود باہم منسلک کردیتاہے ۔ اتحاد کی بنیادیہی اعتصام باللہ ہے ۔ اگر کسی دیوار کی بنیاد ناہموار ہوتو اس میں لگنے والی اینٹوں کا معیار جوبھی ہو۔ اس کا نقشہ چاہے جتنا اعلیٰ درجہ کا ہو۔ اس کو تعمیر کرنے والوں کی مہارت جیسی بھی ہو۔ اس سے قطع نظردیوار جیسے جیسے بلند ہوگی اس کا ٹیڑھا پن واضح تر ہوتا چلا جائیگا اور دشمن کی زحمت کے بغیر وہ اپنے ہی بوجھ سے ڈھے جائیگی۔ کتاب اللہ ہی اہل ایمان کے درمیان قدر مشترک ہے اور اسی کے توسط سے باہمی اختلافات کوبخیر و خوبی نمٹایا جاسکتا ہے۔ اگر اس کتاب کے بجائے طاقت وقوت یا سازش وفریب کےمدد سے تفرقہ تو پھیلایا جاسکتا ہے مگراتحادقائم نہیں ہوسکتا اس لئےدرمیان میں تفرقہ سے اجتناب کی تاکیدا ٓجاتی ہے۔

آگے چل کراس آیت کریمہ میں اتحاد کو اللہ کا احسان قرار دیا گیا گویا اتحادقائم کرنے والوں کا رجوع اللہ سے بے نیاز ہوکر صرف اور صرف اپنی ذہانت وذکاوت پر انحصار کرلینا امت کو خلفشار کی آگ سے نہیں بچا سکتا ۔ انتشار کے سبب نہ صرف یہ دنیا جہنم زار بن جاتی ہے بلکہ دوزخ کی آگ کا ایندھن بھی فراہم ہوجاتا ہے۔اللہ کا فضل و کرم مومنین کےدلوں کو جوڑ کرانہیں بھائی بھائی بنا سکتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ یہ نشانیاں ہمارے سامنے اس لئے بیان فرماتا ہے کہ ہم ان کی مدد سے سیدھے راستے کی معرفت حاصل کریں فرمایا’’اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمہارے سامنے روشن کرتا ہے شاید کہ اِن علامتوں سے تمہیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آ جائے‘‘۔ یہاں پر سیدھے راستے پر پیش قدمی کی تلقین کی گئی ہے۔یہ کام عملاً کیسے ہو تو فرمایا’’ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کروجواپنے لیے پسند کرتے ہو‘‘۔ اس کے معنیٰ یہ نہیں ہیں کہ اپنی پسند دوسروں پر تھوپو بلکہ جس طرح کوئی نہیں چاہتاکہ اس پر زور زبردستی کی جائے اسی طرح کوئی دوسروں پر جبرنہ کرے۔ جیسےہر شخص اپنی عزت نفس کا خیال کرتاہے اسی طرح وہ دوسروں کا بھی احترام کرے بلکہ فرمایا ’’ اپنی ذات پر دوسروںکو ترجیح دو‘‘۔ صحابہ کی مانند ’’ کفار پر سخت اور آپس میں رحم و کرم کا پیکر بن جاو۔‘‘ بقول اقبال ؎
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

ان تقاضوں کو پورا کرنا خاصہ مشکل ہے ۔ دیوار اور اینٹوں کی مثال کو یاد کیجئے۔دیوار میں اینٹوں کے درمیان اگر سیمنٹ موجود نہ ہو تو ہوا کا ایک معمولی سا جھونکا اسے زمین بوس کرنے کیلئے کافی ہے ۔ امت کی بنیان المرصوص کے سیمنٹ کا بیان حدیث ِ رسول ؐمیں دیکھیں’’مومنوں کی مثال آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے، ایک دوسرے پر رحم کھانے اور شفقت کرنے میں ایک جسم کے مانند ہے کہ جب اس کا ایک عضو بیمار ہوتا ہے تو سارا جسم بخار اور بے خوابی میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔‘‘ اس نسخۂ کیمیاکو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔باہم محبت ، شفقت ، ہمدردی و غم گساری کے بغیر اتحاد کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا ۔

اتحاد بجائے خود بھی مقصود ہے نیز ایک عظیم مقصد کے حصول کا ذریعہ بھی ہے اسی لئے اس کے بعد والی آیت میں فرمایا’’تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی رہنے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے ۔ ‘‘ اس آیت کا اتحاد امت سے گہرہ تعلق ہے ۔ اگر اتحاد میں شامل تمام گروہ اس فرض منصبی کو ادا کرنے میں منہمک ہوں تو ان کے درمیان تعاون واشتراک کے مواقع پیدا ہوتے رہیں گے اور اتحاد و اتفاق کی فضا عمل کی دنیا میں چلتی پھرتی نظر آئیگی ۔ ایسے میں قرآن کےحکم ’’نیکی اور خدا ترسی کے کام میں تعاون کرو اور جوگناہ اور زیادتی کے کام ہیں میں تعاون کرنے سے اجتناب کرو۔‘‘ پر عملدرآمد کے مواقع ہاتھ آتے رہیں گے۔
ممبئی کےکرلا علاقہ میں جماعت اسلامی نے گزشتہ دنوں منشیات کی روک تھام کیلئے مختلف مکاتب فکر کی جماعتوں کے تعاون سے ایک مہم چلائی ۔ اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک معاشرتی برائی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی جدوجہد میں امت نے اتحاد کا عملی مظاہرہ کیا۔ اس مہم کے دوران امت کی مختلف تنظیموں سے تعارف کے مواقع پیدا ہوئے، فاصلوں میں کمی آئی ۔ غلط فہمیوں کا ازالہ ہواور باہمی اعتماد بحالہوا ۔ اس طرح کے عملی اقدامات ہی آگے چل کر اتحاد کی راہ استوار کرتے ہیں۔ رکوع کا اختتام پر اللہ تعالیٰ نے انتشار کے عبرتناک انجام سے خبردار کیا ہے۔ فرمانِ خداوندی ہے ’’کہیں تم اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھرفرقہ بندی کا شکار ہوکر اختلافات میں مبتلا ہوگئے۔ جنہوں نے یہ روش اختیار کی وہ اُس روزسخت سزا پائیں گے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی سخت سزا کا خوف ہی انسان کو انتشار و خلفشارپھیلانے سے روک سکتا ہے۔
امت کے اندراتحاد و اتفاق کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس میں رسول اللہﷺ نےفرمایا’’کیا(میں تمہیں ایک ایسی چیز نہ بتلادوں جس کا مقام روزہ، صدقہ اور نماز سے بڑھاہوا ہے۔ لوگوں نے عرض کیا ضرور بتائیے ۔آپ نے فرمایا کہ وہ چیز آپس کی لڑائی میں صلح کرانا ہے اور باہمی تعلقات کی خرابی نیکیوں کو مٹانے والی ہے۔‘‘ اخلاص نیت اور حکمت و دانائی کے ساتھ اگر باہمی صلح صفائی کا کام ہوتا رہے توانتشار کی خرابی اپنے آپ مٹ جائیگی اور ملت اسلامیہ امت واحدہ بن جائیگی ۔ اہلیان ممبئی کو یقین ہے کہ آل انڈیا مسلم مجلس کا حالیہ اجلاس اتحاد بین المسلمین کے قیام میں ایک سنگ میل ثابت ہوگا ۔
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1223575 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.