کرائے دار اور مالک مکان

بقول شاعر:ـ۔
چپ رہوں تو ہر نفس ڈستہ ہے ناگن کی طرح
آہ بھر نے میں ہے رسوائی کسے آواز دوں
انسان کو اﷲ تعالیٰ نے تمام مخلوقا ت پر فضیلت عطا فرمائی اور اشرف المخلوقات کے رتبے سے نوازا۔ خاندانوں میں تقسیم کیا تا کہ ایک دوسرے کی پہچان ہو سکے، انسان کے لیئے زمین کا فرش بچھایا تا کہ انسان اس پر کھیتی باڑی کر ے اور اپنے لیئے خوراک کا انتظام کرے، اپنے نظام زندگی کو بہتر طریقوں سے چلا سکے ۔مختلف ادوار میں انسان نے خوب ترقی کی ، پہاڑوں ، جنگلوں میں رہ کر انسان نے اپنے زندگی کی شروعات کی اور وقت کے ساتھ ساتھ انسان نے بہت ترقی کی ، مہینوں کی مسافت گھنٹوں میں ، ہزاروں میل دور بیٹھے شخص کے ساتھ براہِ راست بمہ متعلقہ بندے کی تصویر بات کرنے کا ہنر تو سیکھا ، ہزاورں میل ہوا میں اُڑنے کا فن تو نے سیکھا۔مگر جہاں اتنی ترقی کی وہیں کچھ انسانی اقدار اس تیزرفتاری میں بھول گیا۔آج ہم ہزاورں میل دو ر انسان کے قریب تو آ گئے مگر اپنے پڑوس میں اپنے بھائی کو بھول گئے۔
کچھ دوستوں کے ساتھ گفتگو ہو رہی تھی جسے سن کر دل خون کے آنسو روتا ہے :۔
سنانا چاہتا ہوں حال دل جس ایک جملے میں
بکھر جاتا ہے وہ جملہ کبھی یک جاں نہیں ہوتا

ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے افراد ہیں جن کا تعلق متوست گھرانے سے ہے جو شب و روز محنت کرتے ہیں اور خواب دیکھتے ان میں سے اکثر کی زندگیا ں یوں ہی گزجاتی ہیں مگر وہ اپناایک چھوٹا سا گھر نہیں بنا سکتے ، اور اتفاق سے( اہل علم سے بڑی معذرت کے ساتھ ) ہمارے معاشرے میں ان کو کمتر سمجھا جاتا ہے اس کی کئی مثالیں اس کالم میں دوں گا ، ایک بار مجھے رمضان المبارک میں 27 رمضان جب تمام مسلمان بھائی شب قدر کی فضیلت اور شب بیداری کا شرف حاصل کرنے مسجد جاتے ہیں ، جب تمام علماء کرام اپنے اپنے انداز میں لمبی لمبی انسانی حقوق پر تقریریں سناکر واہ واہ لیتے ہیں اور صاحب استطاعت خوب پیسا پھینک رہے ہوتے ہیں اور لوگوں میں بلے بلے ہو رہی ہوتی ہے اور تقریر کے آخر میں ایک عجیب سا ماحول دیکھنے کو ملتا ہے ، کہا جاتا ہے فلاں صاحب فلاں محکمے میں بہت بڑے آفیسر ہیں وہ آگے تشریف لائیں، فلاں صاحب تو بہت امیر آدمی ہیں وہ بھی آگے تشریف لائیں، اور جو بند ہ جو پورا ماہ تراویح ادا کرنے کے بعد وہاں بیٹھا ہوتا ہے اسے کہا جاتا ہے آپ پیچھے تشریف لے جائیں حاجی صاحب کو آگے آنے دیں۔ میں بھی وہیں بیٹھا تھا سلسلہ شروع ہوا پھولوں کی مالا دالنے کا، مسجد انتظامیہ میں سے ایک شخص نے ہا تھ میں پھولوں کی مالا پکڑی اور باری باری بڑے بڑے با اثر لوگوں کے گلے میں ڈالنا شروع کی ایک ہی قطار میں سب کے گلے میں ڈالی مگر ایک آدمی کو چھوڑ دیا ، میں نے عرض کی جناب ا ن صاحب کو بھی پہنا دیں یہ سارا مہینہ نماز تراویح باقاعدہ باجماعت ادا کرتے رہے ہیں ان کے گلے میں بھی ہار پہنا دیں تو انتظامیہ سرکار بولے کہ یہ کرائے دار ہے۔
بقول شاعر:۔
ہم جو انسانوں کی تہذیب لیئے پھرتے ہیں
ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں

ایسی کئی مثالیں ہیں جو انسانیت کی تذلیل میں پیش پیش ہیں ، کسی محلے میں اگر چوری ہو جائے تو سب سے پہلے کرائے دار کو ذلت کا نشانہ بنایا جاتا ہے ، کرائے دار گھر سے اگر پانی باہر آ جائے تو پور ا محلہ نصیحت و وعض کر نا شروع کردیتا ہے جیسے وہ انسان نہیں اچھوت کی بیماری ہو، قربانی جسے ہر مسلمان بڑے جوش و خروش سے مناتا ہے اور پاکستان میں توسنت ابراہیمی کو بھی ایک تقریب کے طور پر منایا جاتا ہے لوگ اپنے جانوروں کے ساتھ سیلفیاں بنا تے ہیں اور خوب اترا اترا کر لوگوں کو بتاتے ہیں ایسے ہی ایک صاحب نے بڑے بیل کی قربانی دی اور جانور لا کر کر ائے دار کے گھر کھڑا کر دیا ، کرائے دار نے درخواست کی جناب میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں آپ مہربانی فرما کر اس جانور کو اپنے گھر کھڑا کر لیں تو جناب مالک نے فرمایا یہ گھر میر ا ہے اگر تو نے ادھر رہنا ہے تو ایسے ہی رہ جیسے میر ی مرضی ورنہ 2 دن کے اندر مکان خالی کرو اور چلتے بنو بے چارہ کرائے درا جو ٹھہرا گذارا کرنا پڑا۔

اور ویسے بھی جب سے ہمارے معاشرے میں مغربی تہذیب کی لعنت مسلط ہوئی ہے اس وقت سے اس نے ہمارے اسلامی معاشرے کا ملیا میٹ کر ڈالا ہے ہم اسلامی تہواروں کو بھی تقریبات کی صورت میں مناتے ہیں۔ایک صاحب بتا رہے تھے وہ ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں 3 مرلہ کے گھر میں رہائش پذیر ہیں 3 بچے ہیں بیوی کو شوگر کی مرض لا حق ہے اور خود صاحب دل کے عارضہ میں مبتلا ہیں اور اتفاق سے کرائے دار ہیں، صاحب کی تنخواہ تقریبا 30000 (تیس ہزار روپے ) ہے ، ایک بیٹے کا داخلہ کالج میں ہوا جس سے وہ بہت خوش تھے کہ ان کے بیٹے کو اچھے کالج میں داخلہ مل گیا لیکن غریب انسان کو خوشیاں کم وقت کے لیئے ملتی ہیں ، مالک مکان کے بیٹے کی شادی ہے اور وہ فرما رہے ہیں اس سال کرایہ میں زیادہ بڑھاؤں گا ، اگر آپ نے رہنا ہے تومطلوبہ کرایہ ادا کریں ورنہ اپنا بوریا بستر گول کریں ،3 مرلہ کے گھر کے 15000(پندرہ ہزار روپے )۔ کرائے دار نے عرض کی جناب یہ تو میری بساط میں نہیں، تو انہوں نے گذرے 10 سالوں کا مان بھی نہ رکھا اور کہا اور جلد از جلد میرا مکان خالی کر دیں میں نے کو ئی یتم خانہ نہیں کھول رکھا ۔ اس مہنگائی کے دور میں جہاں اپنی دال روٹی بڑی مشکل سے چل رہی ہو بچوں کی اتنی زیادہ زیادہ فیسیں ادا کرنا ، پھر اتنازیادہ کرایہ ادا کرنا بہت مشکل عمل ہے ۔ اور ایسے حالات میں مالک مکان کی باتیں سننا اور سہنا مشکل کام ہے اس لیئے میری معاشرے میں کوئی عزت قدر نہیں کیونکہ میں کرائے دار ہوں۔

ہم بہت بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں انسانیت کی باتیں کرتے ہیں، دہشت گردی کی روک تھام میں اپنا کردرار ادا کررہے ہیں ، لیکن اس سے بڑی دہشت گردی انسانی حقوق کی پامالی ہے اگر کوئی مالی طور پر کمزور ہے تو اس کی دادرسی کرنی چاہیے نا کہ اسے اس کی غربت کی سزا ۔کیا حکومت وقت نے کوئی ایسی قانوں سازی کی جس سے متوسط طبقے کو بھی فائد ہ پہنچے ، کیا کوئی ایسا قانون بنا یا جو ان درندہ صفت مالک مکان کو نکیل ڈال سکے۔ حکومت وقت سے درخواست ہے کہ ایسے اقدامات اور قانوں سازی کی جائے جومالک مکان اور کرائے دار دونوں کے لیئے فائدہ مند ہو ، جس سے ایک منظم معاشرے کی تشکیل ہو اور لوگ عزت سے اپنی زندگی کو بسر کر سکیں
 
M Tahir Tabassum Durrani
About the Author: M Tahir Tabassum Durrani Read More Articles by M Tahir Tabassum Durrani: 53 Articles with 48972 views Freelance Column Writer
Columnist, Author of وعدوں سے تکمیل تک
Spokes Person .All Pakistan Writer Welfare Association (APWWA)
Editor @ http://paigh
.. View More