آؤ کامیابی کی طرف

ہم کامیاب کیوں نہیں ہیں؟
وہ حجام سے بال کٹوانے اور شیو کروانے کے بعدحجام کی دکان سے باہر نکلا۔ان کی عمر تقریباً(45)پنتالیس سال ہو گی۔ما شا اللہ پچھلے سال حج کے فرائض ادا کرکے آئے تھے۔وہ اپنے آپ کو حاجی صاحب کہلانے میں بالکل عار محسوس نہیں کرتے ہیں ۔گلی میں سے گزرتے ہوئے انہوں نے اپنے ایک غریب دوست کو دیکھا ۔ان کے دل میں فوراً خیال آیا ’’منگتا جا اج فیر ادھار منگن آریا ہے میرے ولے‘‘(فقیر سا آج پھر مجھ سے ادھار مانگنے آرہا ہے)۔پہلے تو ارادہ تھا کہ راستہ بدل لیں مگر پھر سوچا چلو ادھار مانگے گا تو میں نے کون سا دے دینا ہے۔کم از کم اِسے غریبی کے دو چار طعنے تو دینے بنتے ہیں ۔تو اسی خیال میں وہ اپنے کے قریب پہنچ گئے ۔

دوست بہت اپنایت سے ملا ۔حاجی صاحب کے دل میں تھا اس کا اپنایت سے ملنا اس کی مجبوری ہے۔یہ خیال یہ صرف حاجی صاحب کا نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کا وطیرہ بن چکا ہے۔ خیر دوست نے احوال دریافت کیے ۔جواب آیا ،اللہ پاک کا شکر ہے ۔خود حاجی صاحب نے دوست سے اس کی خیریت دریافت کرنا مناسب نہیں سمجھا ،کیونکہ ایسا کرنے سے حاجی صاحب کی شان میں فرق آجاتا۔کہاں حاجی صاحب اور کہاں اس کا غریب دوست۔کہاں حاجی صاحب کی شاندار کوٹھی اور کہاں غریب دوست کا کرائے کا مکان۔کرائے کا مکان بھی ایسا کہ بارش آجانے پر گھر دریا کا منظر پیش کرتا تھا۔اس دن دوست کو واقعی پیسوں کی ضرورت تھی ۔حاجی صاحب سے پیسے مانگتے ہوئے وہ کچھ ہچکچایا،وہ غریب ضرور تھا ،لیکن غیرت مند تھا۔حاجی صاحب کے خود کے حالات ان دنوں کچھ اچھے نا تھے ۔جب دوست نے اُن سے کچھ پیسے ادھار مانگے ،تو حاجی صاحب نے کہا’’خیر دینا ،تینوں پتا اے اج کل میرے حالات خراب نیں ،مرے سر تیں اگے بہت قرضا چڑھیا ہو یا اے۔(خیر دین تمہیں پتہ تو ہے کہ میرے حالات آج کل خراب ہیں ۔میں پہلے ہی کافی قرض دار ہوں ۔اس کے باوجود تم مجھ سے ادھار مانگنے آ گئے ہو۔اب حاجی صاحب کو غصہ آ گیا تھا۔

کچھ دیر قبل حاجی صاحب اللہ تعالی کے شکر میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے تھے۔مگر اب جب دوست کی مدد کی باری آئی تو ان سے بڑا قرض دار کوئی نہیں ہے ۔

قرآن مجید میں ارشاد ہے’’وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلَاہُ فَقَدَرَ عَلَیْْہِ رِزْقَہُ فَیَقُولُ رَبِّیْ أَہَانَنِ‘‘(اور جب اللہ تعالی انسان کو اس کا رزق تنگ کرکے آزماتا ہے تو یہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے خوار کیا)۔

عصر کی اذان کا وقت ہے۔مؤذن اذان کے کلمات ادا کر رہا ہے۔’’اللہ اکبر اللہ اکبر‘‘اللہ سب سے بڑا ہے،اللہ سب سے بڑا ہے۔شہر کے بازار میں لوگوں کا ہجوم ہے۔کوئی اپنی خریداری میں مصروف ہے۔کوئی گاہکوں سے بحث میں مصروف ہے۔کوئی اپنی دکان میں چمک دمک میں مگن دکھائی دے رہا ہے۔اگر وہاں جا کر کسی حالات دریافت کیے جائیں کہ صاحب کیسے حالات ہیں ؟مثال کے طور پر ایک صاحب جس کی دکان کی روزانہ بچت ایک لاکھ روپے ہے،اس سے یہ پوچھا جائے کہ کیسے ہیں ،کاروبار کیسا ہے۔وہ آسانی سے یہ کہہ دے گا کہ’’ الحمدُللہ‘‘مگر یہ زبان سے اقرار اس وقت انکار میں بدل جائے گا جب آپ اس سے کوئی چیز خریدیں گے ۔اب وہ کچھ یوں کہہ رہے ہوں گے ۔بھئی آپ کو حالات کا پتہ ہے۔مہنگائی بہت زیادہ ہے۔منڈی میں مندا چل رہا ہے۔اوپر سے گورنمنٹ نے اتنے ٹیکس لگائے ہیں ۔بجلی کا بل بھی دینا ہوتا ہے۔میں کیسے آپ کو اس ریٹ میں یہ چیز دے دو۔سمجھ نہیں آتا کہ ہمارا اپنے حالات بیان کرتے ہوئے بڑی آسانی سے اللہ تعالی کا زبانی کلامی شکر ادا کرتے ہیں مگر دل میں ہم اپنے آپ کو زکوۃ کا مستحق سمجھتے ہیں۔

مؤذن اب اذان کے یہ کلمات ادا کر رہا ہے ’’حی علی الفلاح حی علی الفلاح۔آؤ فلاح کی طرف ۔آؤکا میابی کی طرف ۔ہماری حالت یہ ہے کہ کوئی نماز کے لیے دعوت دے تو ہم کہہ دیتے ہیں(بھئی ساڈے حق وچ وی دعا کری)بھئی ہمارے حق میں بھی دعا کرنا کہ اللہ ہمیں ہدیت دے۔جب کائنات کے رب کی پکارکو (آؤ کامیابی کی طرف )ہم ایک کان سے سنتے ہیں اور دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں تو کسی کی آپ کے حق میں کی ہوئی دعا کیسے قبول ہو گی؟

خود کو حاجی صاحب کہلانے کا کوئی فائدہ نہیں کہ نام کے ساتھ حاجی بھی لگا ہوں مگر چہرے پہ سنت رسول ؐ تک نہ ہو۔نام کے ساتھ حاجی بھی لگا ہو مگر مسلمان بھائی کی مدد کرنے کی بجائے اسے حقارت سے دھتکار دیتاہوں۔ ایسے حاجی صرف حج کے مقدس فریضہ کو صرف اپنے محلے داروں میں ،رشتہ داروں میں ،عزیز و اقارب میں صرف اپنی شہرت بنانے کے لیے ادا کرتے ہیں۔لیکن مؤذن جب اللہ تعالی کا پیغام برحق کی صدا دیتا ہے تو حاجی صاحب A.Cکمرے میں بیٹھ کے ٹی وی دیکھ کے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں ۔پھر ہم لوگ کہتے ہیں کہ بس حالات بہت خراب ہیں ۔ایسا کیوں ہے کیونکہ ہم کامیابی کی طرف جانا ہی نہیں چاہتے۔
Abdul Kabeer
About the Author: Abdul Kabeer Read More Articles by Abdul Kabeer: 25 Articles with 38014 views I'm Abdul Kabir. I'm like to write my personal life moments as well social issues... View More