اوم شانتی شانتی شانتی

کہوٹہ کے ایک رواحانی مرکز بگھار شریف کے ایک شکستہ مندر کا احوال

بگھار شریف کہوٹہ کے شکستہ مندر کا ایک منظر

تحصیل کہوٹہ کے معروف مٹور کے راستے بگھار شریف جائیں تو ایک پہاڑی کے دامن میں موتی کی طرح دمکتے دارالعلوم یعقوبیہ کی دلکش عمارت نگاہوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ اس کاخوبصورت مینار بگھار شریف جانے والوں کا دور سے استقبال کرتا ہے۔ دو پہاڑیوں کے درمیان برساتی کس کے دھانے واقع یہ ادارہ دین و دنیا، شریعت و طریقت، جدت و قدامت۔۔۔ غرض ہر حوالے سے معتدل اور متوازن ہے۔یہ ایک اقامتی ادارہ ہے۔ جس کے ماحول میں پاکیزگی اور طہارت رچی بسی ہے۔اس میں ایک دلکش ہال اورایک قابل قدر لائبریری ہے۔ یہاں طلبہ سے برائے نام فیس لی جاتی ہے۔ نصابی سرگرمیوں کے علاوہ ہم نصابی سرگرمیاں بھی جاری رہتی ہیں۔ ہرسال نومبر میں کہوٹہ اور کلر سیداں کے نئے ستاروں کی کہکشاں سجتی ہے۔ پہلے دن سپورٹس، دوسرے دن قرات، نعت اور تقریری مقابلے اور آخری دن تقریب تقسیمِ انعامات ہوتی ہے۔ جس میں حکومتی شخصیات کے علاوہ اعلی علمی، سیاسی اور سماجی شخصیات شرکت کرتی ہیں۔گزشتہ سال 20 تا22 نومبر یہ سالانہ تقریبات ہوئیں۔ حسبِ سابق تقریری مقابلے کے دن حاضری دی۔اس مرتبہ بگھار شریف پر کچھ لکھنے کا ارادہ تھا۔۔۔اس لیے تقریب کے بعد صاحبزادہ ڈاکٹر ساجد الرحمان سجادہ نشین آستانہ عالیہ بگھار شریف سے اس حوالے سے گفتگو بھی ہوئی۔

میں کافی عرصے سے متجسس تھا کہ آخر یہ سالانہ کھیل کس جگہ ہوتے ہیں؟ میرا خیال تھا کہ کوئی کھیت اس مقصد کے لیے تیار کیا جاتا ہو گا۔ کیوں کہ بھگار میں کسی ہموار جگہ کا ملنا مشکل ہے۔ یہ دو پہاڑی سلسوں کےدامن میں ایک برساتی رو کے دھانے واقع ہے۔ کسی کھیت کے علاوہ اس میں کوئی ہموار جگہ ہو سکتی ہے تو صرف یہ برساتی رو ہے جو ''روڑوں'' سے اٹی ہوئی ہے۔ایک طالب علم کی نشان دہی پر میں میدان کی تلاش میں ان پتھروں پر مشرق کی سمت چلنے لگا۔ پانچ سات منٹ کے بعد دائیں طرف پہاڑی کے دامن میں ایک وسیع میدان دکھائی دیا۔میدان کے محلِ وقوع، وسعت اور ہمواری حیران کن تھی۔ میں سوچنے لگا کہ کہوٹہ سے بھگار اچھا ہے جہاں جسے اتنا شاندار میدان میسر ہے۔ چونے سے باؤنڈری اور ٹریکس کی تازہ نشان دہی نے میدان کی کشش کو بڑھا دیا تھا۔ میں پہاڑی کے دھانے سے میدان کی تصویر بنانے لگا تو میری نظر میدان کے پار برساتی رو کی دوسری جانب ایک مندر کے مینار پر جا پڑی۔ جوآم کے پیڑوں تلے، گرنڈا کے جھاڑ جھنکار میں چھپا ہواتھا۔

مندر عموماً پانی کے قریب بنائے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ دیوتا پانی سے کھیلتے ہیں۔ پوجا اور پرارتھنا کے لیے آنے والے ان مقامات پر اشنان بھی کرتے ہیں جسے باعثِ ثواب سمجھا جاتا ہے۔ برساتی رو کے دھانے مندر کا پائیدار مگر شکستہ ڈھانچہ ناروا رتوں کےجبر کا گلہ کر رہا تھا۔ اسے بنانے والوں کی محبت اورعقیدت کا اندازہ اس نقش و نگار سے بخوبی ہو سکتا ہے جس کی آخری جھلکیاں اب بھی مندر کی اندرونی دیواروں پر دیکھی جا سکتی ہیں۔

سرسبز و شاداب پہاڑیوں کے بیچ مندر اپنے محل وقوع کے حوالے سے سحر انگیز ہے۔ اس کی عمارت زیادہ بڑی نہیں لیکن مندر کے مجموعی رقبے کی وسعت حیران کن ہے۔ مندر کے دائیں باغیچہ ۔۔۔جس میں آم کے کچھ پیڑ اور ایک کنواں بچا ہے۔ اس کے سامنے تالاب اور برساتی رو کے پار وسیع باغ تھا جو اب میدان کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ مندر کی پائیداراور نفیس تعمیربتاتی ہے کہ اس میں نایاب لکڑی کے منقش دروازے اور کھڑکیاں لگی ہوں گی لیکن اب کچھ بھی نہیں بچا۔ مندرکی تعمیر اور اس کے رقبے کی وسعت کو دیکھ کر تقسیم سے پہلے مقامی برھمنوں کی امارت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ پتا نہیں چل سکا کہ یہ مندر کب تعمیر ہوا، کس نے تعمیر کروایا اور اتنی زیادہ زمین کس نے عطیہ کی؟

مندر کے باہر جھاڑ جھنکار میرے شوقِ دید میں رکاوٹ نہیں بن سکا۔ اندر سے اس کی ویرانی اور شکستگی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ دیواروں کا پلستر اور فرش اکھڑچکا ہے۔ دیواروں پر گائے، گھوڑے اور ہرن سواروں کے بچے کچھے نقوش کی مدھم جھلک اب بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ مینار کی بیرونی سطح پر شاید دیوناگری میں کوئی عبارت لکھی ہوئی ہے۔ مندر کے دو کمرے وحشت کا منظر پیش کر رہے ہیں۔دیوی استھان کے اندر اندھیرا ہے۔ جانے آخری زائرنے کب یہاں ماتھا ٹیکا ہو گا۔

میں شکستہ مندر کا جائزہ لے رہا تھا کہ ایک افسردہ طاق پر نظر جا پڑی ۔۔۔ تصور میں دیے جھلملانے اور چراغوں کی قطاریں تیرنے لگیں۔۔۔ سحرخیز بھگار میں جشن کا سماں ہے۔۔۔ بچےپھلجھڑیاں چھوڑرہے ہیں۔ بڑے مشالیں نکال رہے ہیں۔ حنائی ہاتھ پکوان تل کر رہے ہیں ۔۔۔ مندر میں لکشمی کی پوجا ہو رہی ہے ۔۔۔ لوگوں کا تانتا بندھا ہوا ہے ۔۔۔ علاقے کے سکھ اس شبھ گھڑی کی '' ودھایاں '' اورمسلمان مبارک بادیں دے رہے ہیں۔

دیوالی سے میرا دھیان ہولی کی طرف چلا گیا۔۔۔!

بھگار میں بہار کا سماں ہے۔۔سرسبزوشاداب پہاڑیوں کے بیچ موتی کی طرح جھلملاتا مندر پھولوں میں گھرا ہوا ہے۔۔۔''برساتی کس '' خوشبووں کی گزر گاہ بنی ہوئی ہے۔بہار کی شروعات بسنتی رنگوں سے ہوئی۔ اب ہولی کے رنگوں کا راج ہے۔۔۔ بھگار برھمناں کے ہر شخص کو ہلدی اور زعفران کے شوخ رنگوں سے رنگا جا رہا ہے۔۔ وہ اسے اپنے لیے نیک شگون خیال کررہا ہے۔۔۔لڈی اور بھنگڑے ڈل رہے ہیں۔۔۔ خوشیوں کے گیت گائے جا رہے ہیں۔رنگوں کی برسات میں '' بھگاریے '' اور '' پوٹھوہاریے '' دودھ میں بھنگ گھول کر پی رہے ہیں اور ہری ہری کے نعرے لگا رہے ہیں۔۔۔!

اللہ اکبراللہ اکبر ۔۔۔ اللہ اکبراللہ اکبر۔۔۔۔۔ !
دارالعلوم یعقوبیہ بگھار شریف کے سربفلک مینار سے آذان عصر نے میری آنکھیں کھول دیں۔ بانگ کی سرمدی بازگشت نے بھگار کے اس درے میں عجیب طلسم بکھیر دیا۔۔۔ کبھی یہاں گھنٹیاں طلسم بکھیرتی تھیں۔۔۔ پنڈت ''اوم شانتی شانتی شانتی '' کی مالا جپتے مندر کی طرف لپکتے تھے۔ بہار سنتالیس میں تحصیل کہوٹہ میں نفرت کی ایسی گھنٹیاں بجیں کہ ہولی کے لیے ہلدی اور زعفران کی ضرورت نہیں پڑی۔۔۔!

مارچ سن سنتالیس جب کوچ کی گھنٹی بجی ہو گی تو بگھار کا یہ درہ اشکوں سے بھر گیا ہو گا۔۔۔آہ و زاری کی کرلاہٹ پہاڑیوں کا جگر چیر گئی ہو گی۔۔۔ برھمن مندر کے درودیوار سے لپٹ لپٹ کر روئے ہوں گے۔ میں شرمندگی کی رو میں بہتا مندر سے باہر نکلا تو دیکھا کہ دارالعلوم بگھار شریف کے سفید پوش فرشتے میدان کی طرف قطار اندر قطارچلے آرہے ہیں۔ میں سوچنے لگا کہ مندر کے میدان کی طرف بڑھتے مدرسے کے ان بچوں کی معتدل تعلیم و تربیت ہی شانتی کی ضمانت دے سکتی ہے۔ ورنہ بگھار وی مندر کی طرح بابری مسجدیں مسمار ہوتی رہیں گی۔

Habib Gohar
About the Author: Habib Gohar Read More Articles by Habib Gohar: 2 Articles with 3751 views Lecturer URDU, Govt Degree College Kahuta
President Kahuta Literary Society
Ex Editor IMKAN
.. View More