نصراﷲ خان کی خاکہ نگاری اور فکر وفن

 نصراﷲ خان اردو صحافت اور اردو ادب کا ایک بڑا نام ہے۔ان کے تحریر کردہ خاکے بڑے جاندار و شاندار اور پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔وہ بنیادی طور پر علم و فضل اور نیک رویوں کے پرچارک خوشیاں باٹنے دوسروں کی خوشیوں میں خوش اور ان کے غموں میں ان کے غمخو ار ہیں۔ ان کے خاکوں میں طنز وظرافت اور لطافت بھی ہے اور تاریخی حقائق بھی۔ان کی نظر میں تحریک پاکستان اوراس کے بنانے والی شخصیات بھی ہیں۔ وہ اکثر واقعات کے ناظر اور ان میں شریک رہے ہیں۔ آئیے ان کی پسندیدہ شخصیات سے متعارف ہوں۔ علامہ عبدالعزیز میمن کے علم و فضل کو سر آنکھوں پر بٹھانے کے سا تھ وہ ان کی صحبت میں حاضری اور ان سے علمی استفادہ کرنے کی تڑپ رکھتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ غالب کو فارسی پر جو دعوٰی تھا وہی پروفیسر صاحب عربی پر کرسکتے ہیں۔

علامہ عربی ادب کا چلتا پھرتا کتب خا نہ تھے،جب عرب ملکوں کے علمی و ادبی حلقوں میں پاکستان کا نام لیا جاتا تو پوچھا جاتا کہ کیا یہ وہی پاکستان ہے جہاں پروفیسر میمن رہتے ہیں۔علامہ کے تحبر علمی پر اہل عرب ک فخرتھا۔ علامہ ڈپٹی نذیر احمد کے چہیتے اور مایہ ناز شاگرد تھے۔اس روشن مثال کے بعد ہم خان صا حب کی ذکر کردہ دوسری شخصیت سے ملتے ہیں جن کی علمیت کے ساتھ ساتھ ان کی خطابت کا بڑا شہرہ تھا۔وہ تھے عطا اﷲ شاہ بخاری جن کے نام سے فرنگی حکومت کانپ جاتی اور جو اپنی تقریروں سے توپوں کا منہ کیل دیا کرتے۔
شاہ جی کے بارے میں خان صاحب کا کہنا ہے کہ وہ اپنی تقریر نماز عشاء کے بعد شروع کرتے جسے سننے کے لئے لوگ جوق در جوق جلسہ گاہ میں اس طرح پہنجتے، جیسے عید کی نماز پڑھنے جارہے ہیں۔ مولانا ظفرعلی خان نے ان کے لئے کہا تھا:
کانوں میں گونجتے ہیں بخاری کے زمزمے
بُلبُل چہک رہا ہے، ریاض رسولﷺ میں
اور خان صاحب کہتے ہیں: "شاہ جی نہ جانے کیا سحر کرتے کہ جب وہ بولتے تو لوگوں کو سانپ سونگھ جاتا۔کسی کو پہلو بدلنے کا موقع نہ ملتا۔لب بند ہوجاتے۔ہنسانے پر آتے مجمع کِشت زعفران بن جاتااور رلانے پر آتے تو خود بھی روتے ا ور دوسروں کو بھی رلاتے۔گریبان آنسؤں سے بھیگ جاتیا ا ور جب صبح کی اذان ہوتی تو لوگوں کو معلوم ہوتاکہ وقت کہاں سے کہاں پہنچ گیاہے۔

کیا متحرک تصویر کشی ہے، معلوم ہوتا ہے کہ ہم بھی جلسہ میں شریک ہیں۔یہ منظر کشی عطا اﷲ شاہ بخاری کی مقّررانہ صلاحیتوں کو کمال کے ساتھ پیش کرتی ہے۔اس جادو بیاں خطیب کے بعد درویش صفت مولوی محمد ایوب دہلوی کا ذکر خیر ہوجائے کہ وہ علم منطق اور علم کلام میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ خان صاحب لکھتے ہیں:
"مولوی صاحب کی اساس فکر قران حکیم تھی۔وہ ساٹھ برس تک اس کا مطالعہ کرتے رہے۔کوئی تفسیر ایسی نہیں تھی جو ان کی نظر سے نہ گزری ہو۔یاد داشت ایسی تھی کہ اگر کسی آیت کی تفسیر بیان کرنے لگتے تو کوئی مفسر ایسا نہیں جس کی رائیـــــــ،مطالب ومعنی کا مولوی صاحب حوالہ نہ دیں۔ وہ اپنے عہد میں امام المتکلمین تھے اور اعلٰےٰ پائے کے مفسر بھی"۔
مولوی صاحب کا کہنا تھاکہ یہ کتاب (قران پاک) ساری کتابوں پر بھاری ہے۔اس کے مطالعہ سے دل روشن ہوجاتا ہے اور کائنات کے اسرار و غوامض سامنے آجاتے ہیں۔وہ پردے جو خالق ومخلوق کے درمیان حائل ہیں بصیرت قرانی سے کُھلنے لگتے ہیں۔ خان صاحب مولوی صاحب کی قناعت و استغنا بارے میں رقمطراز ہیں کہ وہ اپنی دکان سے صرف اتنا کما کر لاتے تھے جتنی ضروت ہوتی ۔ہاں اگر ضروتمندوں کی مدد کرنی ہوتی تو کچھ وقت اور لگا لیتے ۔ان میں ایک اوروصف یہ بھی تھا کہ دوستوں سے قرض لے کر بیواؤں،بے روزگاروں اور محتاجوں کی مدد کرتے اور قرض کی جو تاریخ مقرر کرتے اس تاریخ کو خواہ انہیں کسی اور سے قرض لینا پڑے، وعدہ کے مطابق یہ رقم واپس کردیتے۔
ایک اور صاحب کمال مولانا عبدالسلام نیازی دہلوی کے خا کے میں اُ ن کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ : "دنیا کا بنیادی علم کلام پاک میں ہے،اور ان کتابوں میں جو بعثت کے بعد تین صدی تک لکھی گئیں۔اور پھر سب شاعری اور ساحری ہے"۔ مولانا کے ایک نیازمند نے پوچھا :
" میں نے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒکے مواعظ حسنہ کا مطالعہ کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ دنیا سے دل نہ لگاؤ۔دنیا بڑی خراب ہے۔ایک طرف توآپ یہ کہتے ہیں کہ دنیا سے جی نہ لگاؤ اور دوسری طرف آپ ہمیں ترک دنیا پر مائل کرتے ہیں۔آخر یہ سب کیاہے؟ مسکراے اور فرمایا:
شیخ تم نے کبھی شطرنج کھیلی ہے،اور اگر نہیں کھیلی تو کھیلتے ہوئے تو ضرور دیکھی ہوگی۔شطرنج کھیلنے والے کا دل بساط شطرنج کے مُہروں کی چالوں میں لگا رہتا ہے۔ اس کو نہ کھانے کی فکر ہوتی ہے اور نہ گھر بار کا ہوش۔وہ سب کچھ دیکھتاہے اور سب کی سنتا ہے لیکن اس کا دل شطرنج کے مُہروں کی چالوں سے کسی طور علیحدہ نہیں ہوتا۔بس یہ ہی رجوع الی اﷲ ہے۔لو اﷲ سے لگائے رکھو اور دنیا میں ہنسی خوشی رہو۔بس یہ ہی اﷲ تعالیٰ اور اسلام تم سے چاہتا ہے۔ یہی تک دنیا اور توجہ الی اﷲ"۔
مولانا سیدابوالااعلٰی مودودی مولانا عبدالسلام کے ارشد تلامذہ میں سے ہیں اور جوش ملیح آبادی جیسے آزاد طبع نے مولانا عبدالسلام کے علم کا لوہا مانا ہے ویسے مولانا نے جوش صاحب کے دماغ کو شیطان کی کھڈی کہا ہے۔
نصراﷲ خان ان درویش صفت مذہبی شخصیات سے خود بھی متاثر ہیں اور وہ قارئین کو بھی اُن کے اوصاف سے با خبر کررہے ہیں تاکے ان کی خوبیاں دوسروں میں منتقل ہوسکیں۔
ان خوبیوں کا جادو دوسروں کی زندگیوں میں جگانے کی خواہش لئے وہ اپنی توجہ اوروں کی اور خوبیوں کی طرف پھیرتے ہیں۔ ڈاکٹر مولوی عبدالحق کے کارناموں میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ اردو کی بے غرض خدمت گردانتے ہیں۔کہتے ہیں:
ــ"بابائے اردو نے زبان کی ایسی خدمت کی ہے جس کی مثال کسی دوسری زبان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔وہ ادیب ہی نہیں تھے ادیب گر بھی تھے۔جوہر شناس تھے۔ جس کسی میں صلاحیت دیکھتے، اسے خوب پرکھتے، وہ جس کام کے لے موزوں ہوتا وہ اس سے وہی کام لیتے۔مولوی صاحب نے لسانیات، تحقیق و تنقید،تاریخ، زبان،اردو لُغت سازی اور ترجمے میں ایک دو نہیں، درجنوں شخصیتیں بنائیں۔مولوی صاحب کے سامنے ہمیشہ اردو زبان کی تعمیر اور فروغ کا ایک جامع منصوبہ رہا ہے اور وہ ایک ٹیم بنا کر اس منصوبے کو عملی جامہ پہناتے رہے"۔
بابائے اردو کی تحریک وفاقی اردو یو نیورسٹی کی شکل میں رنگ لائی اور سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اردو کو قومی زبان کی حثیت سے نافذ کردیا جائے۔
خان صاحب ذوقی شاہ صاحب جن کا نام سید محمد تھا اور ذوقی شاہ کے نام سے جانے پہجانے جاتے تھے ان کی صفات اور کد وکاوشوں کا ذکر کرتے ہوئے
ان کا مسلم لیگ اور تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے ضمن میں کہتے ہیں:
"قائد اعظم سے ان کے بڑے گہرے مراسم تھے۔قائد اعظم اکثر شاہ صاحب سے ملاقات کیا کرتے تھے۔آپ کی قائداعظم سے خط کتابت بھی رہی ہے۔اور میں نے یہ دیکھا کہ آپ قائدا عظم کو ، جب بھی کوئی سیاسی مسئلہ کھڑا ہوتا ، تار بھجواتے اور مشورہ دیتے۔جب بہار کے مسلمانوں پر مظالم توڑے گئے تو حضرت نے قائد اعظم کوبے شمار تار بھجوائے۔ اور جب بنگال میں فضل الحق مرحوم اور پنچاب میں یونینسٹ پارٹی نے قائداعظم کو پریشان کیا تو شاہ صاحب نے قائد اعظم کو اس مضمون کا تار بھیجا: "smash mischevious and forgive fools"
شاہ صاحب ادیب بھی تھے اور صحافی بھی تھے اور سیاست داں بھی خان صاحب اپنے کرداروں کے مطالعہ اور تعارف میں خوبی سے افراد کی معاشرتی ،سیاسی اور مذہبی ذمہ داریوں کی ادائیگی دکھا کر دوسروں کے لیے اسے مثال بناتے ہیں۔ ذوقی شاہ صاحب کے دو ایک اقوال بھی سنتے چلیں:
" انگریز کہتا ہے آنیسٹی از دی بیسٹ پالیسی۔یہ آنیسٹی کو بھی پالیسی کے طور پر اختیار کرتا ہے۔"
ایک صاحب سے پوچھا "ڈپلو میٹک تقریر کا مطلب سمجھتے ہو؟" فرمایا" یہ ا یسی تقریر ہوتی ہے جس میں اچھے اچھے الفاظ ہوں۔پھر فقرے چست ہوں کوئی کسی بات پر خفا نہ ہو، تقریر آن بان کی ہو مگر اس کے معنے کچھ نہ ہوں"
عبدالمجید سالک کا جو ایک بڑے صحا فی اور ادیب ہو گزرے ہیں۔ بڑے نسعلیق آدمی تھے ۔ ان کی درد مند اور ہمدردطبیعت کا احوال کچھ یوں ہے: ــ

" اپنے ملنے جُلنے والوں کی سارے دکھ درد سمیٹ لیتے۔ اگر کسی پر کوئی افتاد پڑتی تو وہ مقدور بھر اسکی مدد کرتے ۔بے روزگاروں کے لئے سفارش کرتے ۔پہلے تو سفارشی چٹھی لکھ دیتے اور اگر اس سے کام نہ بنتا تو خود چلے جاتے اور جس کی سفارش کرنی ہوتی تو اسے اپنا عزیز بتاتے۔خان صاحب کی نکتہ دانی مطلبی فرید آبادی، برادر سید ہاشمی فریدآبادی کے گیت کی تحسین یوں کرتی ہے:
" حال ہی میں ان سے(مطلبی فریدآبادی)لاہور میں ملاقات ہوئی۔انہوں نے مزدوروں کے لئے بہت سے گیت لکھے ۔ "ہیا ہیا"
ان کا ایک مقبول گیت ہے جو برصغیر کے ہر حصے میں گایا جاتا ہے۔اور کارخانوں میں مزدور اپنی تکان دور کرنے کے لئے گایا کرتے ہیں"
ؒخا ن صاحب دیدہ بینا کے ساتھ دلِ گداز بھی رکھتے ہیں لوگوں کے غم میں وہ بھی گُھلتے ہیں۔ سیماب اکبر آبادی کے آخری وقت کا وہ کس رقت سے بیان کرتے ہیں:
" جب یہ خبر کہ علامہ سیماب اکبرآبادی پر فالج کا حملہ ہوا ہے ۔ہم لوگوں تک پہنچی تو ہم سب ڈاکٹروں کی معیت میں سیماب صاحب کے مکان پر پہنچے۔سیماب صاحب ہوش میں تھے لیکن ان کی زبان پر فالج کا اثر تھا۔اور یہ گویا سیماب صاحب سے آخری ملاقات تھی۔انہوں نے ڈاکٹر یاور عباس سے کہا کہ میری عمر کا بڑا حصہ پیٹ پالنے کے کاموں کی نذر ہوگیا ۔ میں معیاری شاعری کرنا چاہتا تھا لیکن مجھے مزدوری سے فرصت نہ ملی اور مجھے اپنی زندگی میں اطمینان کی سانس لینا نصیب نہ ہوئی۔ ہاتھ تھک گیا اور دماغ مفلوج ہوگیا اور یہ کہتے کہتے ان کی آنکھیں بھیگ گئیں اور ان کی آواز بھراگئی۔اور ہم سب کی آنکھوں میں آنسُوں آگئے"۔ سیماب صاحب ریلوے کے محکمے میں ملازم تھے اور جب وہاں سے ریٹائر ہوئے تو پھر شاعری کو انہوں نے باقاعدہ ذریعہ معاش بنالیا اور معاوظہ لے کر غزلیں، نضمیں،سہرے لکھا کرتے۔
ُُمُلک میں شاعروں ، ادیبوں کا کچھ اچھا حال نہیں تھاان کی معاشی بد حالی کو دور کرنے کے لئے ریڈیو پاکستان کے ڈائیرکٹر جنرل ذولفقار علی بخاری نے خوش تدبیری سے کام لیا۔ وہ کس طرح ،اس کا حال خان صاحب یوں بیان کرتے ہیں: " بخاری مرحوم نے ہند وستان کے ان تمام ادیبوں اں ور شاعروں کو،جو خانماں بربادہو کریہاں آئے تھے اور نہایت کسمپرسی کی حالت میں تھے۔ کسی نہ کسی طور سے ریڈیو پاکستان میں کھپا لیا تھا۔روزانہ ایک شاعر سے اس کا کلام سنوایا جاتا۔پھر ہفتے میں ایک بڑے مشاعرے کا اہتمام کیا جاتا۔ان میں سے کچھ ادیب اور شاعر اسٹاف آرٹسٹ ہوگےُ اور کچھ ایسے تھے جنہیں مہینے بھر میں سو دوسو روپے مل جاتے۔ بخاری صاحب نے علامہ سیماب اکبر آبادی کے لئے ایک نیا پروگرام " مصدر نامہ" شروع کیا تھا ۔اس میں وہ مصدر اورمصدر کے مشتقات اور مضارع وغیرہ بتاتے ا ور اس کا معاوضہ پانچ سو روپے پاتے"۔ خان صاحب نے اس طرح ریڈیو کی تاریخ کا ایک سنہری باب بیان کردیا ہے۔ کیونکہ خان صاحب نے بحثیت صحافی ،ادیب ،دانشوراور تاریخ ساز شخصیات کی ہم جلیسی میں ایک بھر پور زندگی گزاری لہذا ن کے سامنے گزرنے والے واقعات ان کے یاد داشت کا حصہ ہیں اور وہ ان کو تاریخ کا قرض سمجھ کر اتارتے ہیں۔ اختر شیرانی کی شاعری کے باب میں وہ اس دور کی شاعری کا فکر انگیز منظر نامہ پیش کرتے ہیں۔"اس نے(اخترشیرانی نے)اردو شاعری میں بھی بغاوت کا نشان اٹھا یا۔پہلے غزل میں درباری رنگ تھا۔ یہ خلوت کی شاعری تھی۔اس میں بڑی احتیاط برتی جاتی تھی۔اس کے آداب تھے۔ پابندیاں تھی ۔ بڑے صبر آزما قاعدے تھے اور شاعری میں عورت کا نام لینا گناہ تھا ۔ آج ایسی شاعری کرنے کا کسی میں حوصلہ نہ تھا۔حسرت بھی کُھل کھیلنے کی جئرات نہ کرپائے۔اقبال کی قومی شاعری کا چرچا تھا۔ظفر علی خا ں کی سیاسی نظمیں ذہنوں پر مسلط تھیں ۔لیکن متوسط طبقے کے لوگوں کے دل بند تھے۔نئی نسل کمھُلا رہی تھی۔جوانی کی امنگوں کے اظہار کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔پھر بازاریادرباری شاعری کے درمیان کوئی چیز نہ تھی۔اختر نے بھر پور جوانی کی نشہ آور اور رنگ ترنگ کی شاعری کو رواج دیا۔ یہ پیاری کی شاعری تھی۔جوانی کی شاعری تھی۔اس سے بھاری بھرکم شاعری کا بوجھ ہلکا ہوا۔لوگوں نے نجات کا سانس لیا"۔ خان صاحب اختر شیرانی کو شاعروں کی نئی نسل کا پیش رو قرار دیتے ہیں اور ان کو جذباتی کہیے یا رومانی شاعری کا امام کہتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اختر کی شاعری میں فیض اور راشد کی مسیں بھگیں اور ان کی شاعری میں گہرائی اور گیرائی پیدا ہوئی،انہوں نے شاعری میں نئے تجربے کئے۔احسان دانش جس طرح فرش سے آسمانِ شاعری پر پہنچے اس کا آنکھوں دیکھا حال دیکھئے:
ــ"اسٹیج کے قریب زمین پر ایک شخص پھٹے حالوں بیٹھا تھا۔چہرے مہرے سے مزدور معلوم ہوتا تھااور وہ بار بار فرخ امرتسری سے کچھ کہنا چاہتا اور وہ اس کا کاندھا دبا کر ا سے بٹھا دیتے اور پھر دو چار شاعروں کے بعد یہ اعلان کیا گیا کہ احسان بن دانش جن کا نام ہماری فہرست میں نہیں ہے ،اپنا کلام سنانا چاہتے ہیں،لہذا وہ تشریف لائیں۔چناچہ وہ شخص جسے فرخ صاحب بار بار بیٹھا رہے تھے، اپنی نشست سے اٹھا اور اسٹیج پر آیا۔اسے دیکھ کر لوگوں کے لبوں پر مسکراہٹ آگئی اور جب اس نے اپنا کلام سنایا سماں بندھ گیا۔وہ داد ملی کہ شاید ہی اس سے پہلے کسی شاعر کو ملی ہو۔ ایک تو آواز کا جادو اور پھر دل سے نکلی ہوئی اور درد میں ڈوبی ہوئی بات۔اور جب مشاعرہ ختم ہوگیا تو سر عبد القادر اسے اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھا کر لے گئے۔اور پھر احسان کے کلام کی ایسی شہرت ہوگئی کہ مشاعرہ اور احسان لازم و ملزوم ہوگئے۔ہندوستان میں جس شہر میں آل انڈیا مشاعرہ ہوتا ،وہاں احسان دانش ضرور بلوائے جاتے ۔ گویا مشاعرہ ان کے بغیر نا مکمل سمجھا جاتا" حیاتِ احسان دانش کے اس تبصرے سے" آب حیات" والے مولانا محمد حسین آزاد یاد آتے ہیں۔ کردار نگاری کے بارے میں خان صاحب کا نقطہ نظر ہے:
" ڈرامہ ہو یا افسانہ ، کردار بنیادی چیز ہے۔اور جو شخص کردار نگاری کا کامل عکاس ہو،اس کے قلم کی جولانیوں سے ادب کا کوئی شعبہ بچ نہیں سکتا۔جس خار زار میں چاہتا ہے سدا بہار پھول کھلاتا ہے۔ وہ جس طرف رخ کرے گا موتی بکھیرتا جائے گا"سو خان صاحب کی قلم کاری یہی کمال دکھاتی ہے۔خواجہ حسن نظامی کو یوں نگا ہوں کے سامنے لاتے ہیں:
" سر پر کلاہ نما ٹوپی ، آنکھوں پر سنہرے فریم کی عنیک ،ہونٹوں پر پان کی دھڑی، کترواں لبیں، بھری داڑھی جسم پر جُبّہ ، شانوں پر زلفیں ، آنکھوں میں ذہانت کی چمک اور کشش،اور آواز میں کھنک، باتوں میں ڈرامایت"۔ مولانا ظفر علی خان کا تعارف یوں کراتے ہیں:؂
" اب آئیے مولانا سے ملِیے۔درمیانہ قد کسرتی بدن۔جسم کے اعتبار سے عام لیڈروں سے مختلف۔ان کا جسم چھریرا ، ورزش کرتے ہیں اور میلوں پیدل چلتے ہیں۔بانک بنوٹ سے واقف ، بڑے اچھے پیراک اور شہسوار،سر کے حواشی پر بال اور چندیا بالوں سے خالی۔ چندیا پرایک سیاہ رنگ کا مَسّا۔رنگ گندمی میرے ہوش سے پہلے سوٹ بھی پہنا کرتے تھے۔لیکن میں نے انہیں ہمیشہ علی گڑھ کٹ شیروانی میں دیکھا ۔ علی گڑھ پاجامہ بھی پہنتے تھے۔ سر پر رومی ٹوپی ۔ پاؤں میں پمپ۔ ہاتھ میں چھڑی۔ قہقہہ اس زور سے لگاتے کہ چھت اڑجاتی ۔ اچھا کھاتے لیکن کم خوراک تھے " ۔ تعارف اور سراپا نگاری کی ایک اور مثال:
"عبدالکریم ( شورش کاشمیری) لڑکپن میں دبلا پتلا تھا۔ گھر بار سے بے پروا رہتا۔گردن ایک طرف مڑُی رہتی اور زبان بار بار نکال کر اُسے ایک طرف موڑ لیتا ۔ پھر یہ سب عادتیں چھٹ گئیں۔ شورش کی تحریر و تقریر ہی میں چنگاریاں نہیں ہوتی تھیں ، وہ ویسے بھی بڑا جوشیلا تھا اور ذرا ذرا سی بات پر بھڑک اٹھتا۔اور لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جاتا۔بقول ماسڑ تارا سنگھ میری کرپان میں اتنی تیزی نہیں ہے۔ جتنی شورش کی زبان میں ہے۔ لڑکپن کا زمانہ ویسے بھی ہوش سے زیادہ جوش کا ہوتا ہے ۔ جیسے جیسے عمر گزرتی جاتی ہے، جوش میں کمی آجاتی ہے اور ہوش میں اضافہ ہوجاتا ہے لیکن شورش میں تو مرتے دم تک ویسا ہی جوش تھا جیسا اس میں لڑکپن میں تھا.".
صاحب کمال ادیب اور مشہور زمانہ ماہ نامہ" ساقی" کے قابل فخر مدیر شاہد احمد دہلوی کی خدمات اور خوبئیوں کو نمایاں کرتے ہیں :
"شاہد احمدایسے ایڈیٹر تھے جنہوں نے ادیبوں کی ایک نئی نسل کو اپنی صلا حیتوں کو بروئے کار لانے کے مواقع فراہم کئے،اور ان کی ذہنی تربیت بھی کی ۔ اور ان کی ایسی نگارشات کو جو دھماکہ خیز تھیں اور معا شرے کے ٹھیکے دارجن کی تحریروں پر ناک بھوں چڑھاتے تھے انہیں اپنے رسالے میں شائع کیا۔" دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب جس کے منتخبان روزگار کو میر لکھنؤ میں یاد کرتے رہے۔ اسی طرح شاہد احمد دہلوی کراچی میں دلّی کو نہ ُبھلا سکے۔ان کی اس خصوصیت کا خان صاحب احاطہ کرتے ہیں:
" شاہد کچھ ایسے " بائیس خواجہ کی چوکھٹ پر دھونی رمائے بیٹھے ہیں کہ اٹھنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ دیس نِکا لا ملا مگر "ہائے دلّی"کی یاد ان کے دل سے نہیں مٹتی"پھولوں والوں کی سیر" دلّی کے البیلے مشاہیرکے حالات" " دلّی کے گلی کوچوں کا آ نکھوں دیکھاحال" "کرخنداروں کی زبان، بیگماتی زبان" "ساون بھادوں" کے نقشے،شاہد صاحب کا قلم ، دلّی کے مقامی حالات کا ہو کر رہ گیا ہے ــ"۔
ملا رموزی، جن کی گلابی اردو کا ایک زمانے میں بڑا چرچا تھاکا اصل نام محمد صدیق تھا، بھوپال کے وحیدیہ اسکول کے ماسٹر تھے ۔ عربی فارسی کے عالم تھے ۔ بٹوارے سے پہلے ان کا مضمون ہر اخبار و رسالے کی زینت ہوتا ۔ملارموزی ان کا قلمی نام تھا۔وہ ندوہ کے فارغ التحصیل تھے۔ملا صاحب کے اسرار ورموز کھولتے ہوئے خان صاحب کہتے ہیں:
"ملا صاحب ویسے تو سارے ہندو ستان میں مشہور تھے لیکن بھوپال اگر اپنے تال(تالاب)کی وجہ سے مشہور تھا تو اسکی شہرت کا باعث ملا صاحب بھی تھے۔ کوئی رسالہ یا اخبار ایسا نہیں تھا جو مضمون کے لئے ملا صاحب سے تقاضا نہ کرتا ہو۔ اس زمانے میں اخبار اور رسالے معاوظہ نہیں دیا کرتے ۔ اخبار زمیندار تو ایسا اخبار تھا جس میں کسی کا مضمون یا نظم شائع ہونا ہی بڑی بات تھی لیکن ملا صاحب تو سب ہی سے معاوظہ وصول کرلیتے ۔ اس سلسلے میں وہ مروت سے کام نہیں لیتے تھے۔ ملا صاحب سے مولانا ظفر علی خان اور خواجہ حسن نطامی بھی اپنے خاص نمبروں کے لئے مضمون لکھنے کی فرمائش کرتے تو ملا صاحب ایک روپیہ فی صفحہ کے حساب سے اپنا مضمون بذریعہ وی پی پی بھجوا دیتے ۔ یعنی ملا صاحب بر صغیر کے ادیبوں میں پہلے کاروباری ادیب تھے۔" ملا صاحب کی مشہور گلابی اردو کیا تھی اس کے بارے میں ملا رموزی کے خاکہ میں کہا گیا ہے۔"ان کی گلابی اردو بہت مقبول ہوئی ۔اُس زمانے میں مولوی صاحبان جس زبان میں وعظ کیا کرتے تھے ، ملا صاحب کی گلابی اردو اُس زبان کا چربہ تھی:
اما بعد فرمایا گلیڈ اسٹون صاحب نے بیچ اپنی تقریر کے کہ سورج انگریزی اقتدار کا جو چمکتا تمام ملکوں میں ہمارے کے مزید آکے رہے گا دن قیامت کے نیزے سوا پر جیسا کہا ہے گرجا کے بڑے مولوی صاحب نے کہ کہا جاتا ہے ان کو پاپائے اعظم بھی۔
پس اس واسطے اے مسیح کی بھیڑوبشارت ہو تم کو واسطے سے ہمارے لندن ٹائمز کے کہ سایہ ہے جس پر ملکہ کا جو مادر مہربان ہے ہندوستان کے راجاؤں، مہا راجاؤں اور نوابوں کی بالتحقیق بعد از زوال کمپنی بہادر مرحومہ کے "
خان صاب کے قلم میں بلا کی روانی ہے۔ان کی نثر شستہ ورفتہ ہے ۔ بخاری صاحب کی آواز کے بارے میں ان کے تاثرات کو بجا طور پر نثر کا اعلیٰ نمونہ کہا جاسکتا ہے۔ وہ اپنے اس نثر پارے سے بخاری صاحب کی آواز کا جادو جگاتے ہوے ایک سحر طاری کردیتے ہیں:
" بخاری آواز کے صحرا کا دیوانہ تھا۔ اس کی آواز میں حسن تھا، رعنائی تھی۔ یہ آواز اس شخص کی زندگی کی روشنی بھی تھی جو چالیس برس تک برصغیر کے ریگ زاروں میں اور لالہ زاروں میں کبھی نغمے کے روپ میں کبھی سورج کی روشنی بھی تھی جو کبھی تمثیل کے رنگ میں کبھی مرثیہ کے گداز میں، کبھی دیوان خانوں میں اور کبھی سورج کی روشنی کی طرح بستیوں، ویرانوں ،جھگیوں اور ایوانوں میں ایک ساتھ پہنج کر زندگی سے ترسی ہوئی خدا کی مخلوق کے دلوں گرماتی اور برماتی رہی۔ بخاری جو پہلے آل انڈیا ریڈیو تھا ، تقسیم کے بعد ریڈیو پاکستان ہوگیا۔
اس کا قد و قامت دونوں ملکوں کے ٹرانسمیٹروں سے اونچا تھا۔ یہ ٹرانسمیٹر تو اس کے ہاتھ کی چھڑی اور اس کا ٹیکا تھے۔ بخاری ایک ہمیشہ زندہ رہنے والی آواز تھا جو برقی لہروں میں سدا گونجتی رہے گی " , ـ
نصراﷲ خان نے چونکہ چودہ برس کی عمر میں مولانا ظفر علی خان کے سامنے صحافت میں زانوئے تلمذ طے کیا تھا اور مرتے دم تک کوچہ صحافت سے وابستہ رہے لہذا برصغیر کی صحافت اور صحافیوں پر ان کی گہری نظر تھی۔صحافت اور صحافیوں پر ان کی رائے ،تجربہ اورتجزیہ بہت معلومات افزا اور کارآمدہے۔روزنامہ زمیندارجہاں سے وہ فیض یاب ہوئے اس کی اہمیت اور تاریخ کے بیان میں کہتے ہیں:
" روز نامہ زمیندار ایک تاریخ ساز ادارہ تھا۔ اس نے بڑے ادیبوں اور صحافیوں کو جنم دیا ۔اس کی کوکھ سے بے شمار روزنامے نکلے۔اور اس کے اوراق پر بر صغیر کے نامی گرامی ا دیبوں کے اور صحا فیوں کی جودت طبع کے ان مٹ نقوش ثبت ہیں۔ روز نامہ زمیندار کے ادارہ تحریر میں سلیم پانی پتی اور جالب دہلوی بھی تھے۔سالک و مہر،قاضی احسان اﷲ،علامہ رشدی،مرتضٰی احمد خان میکش،حاجی لق لق،حسین میر کاشمیری اسی ادارہ سے وابستہ رہے۔مولانا ظفر علی خان اپنے ساتھ چراغ حسن حسرت کو لے کر آئے۔پھر مولانا اظہر امرتسری نے اسی اخبار کے دفتر میں اپنا بستر جمایا۔ اور وہ یہاں سے مر کر نکلے" خان صاحب کہتے ہیں:
"میرا تعلق روزنامہ زمیندار سے زیادہ مولانا ظفر علی خان سے تھا۔ حضرت مولانامجھ پر بے پناہ شفقت فرماتے اور میں ان کے ساتھ سائے کی طرح رہتا۔ وہ جب امرتسر آتے میرے یہاں قیام فرماتے ۔ میں زمیندار میں ملازم نہیں تھا،زیر تربیت تھا ۔میرے مضامین زمیندار میں شائع ہوتے رہتے۔اور میں جب بھی مولانا کے سامنے آتا وہ مجھے دیکھ کر اذا جاء نصراﷲ کہتے"صحافت کے حوالے سے مولانا ظفر علی خان کی خدمات کے ذکر میں کہتے ہیں " حضرت مولانا ظفر علی خان نے برصغیر کے مسلمانوں میں اخبار بینی کا مذاق اور ادبی و سیاسی شعور پیدا کیا ۔اور اردو صحافت کومغرب کے ترقی یافتہ ملکوں کی صحا فت کا ہم پلہ بنا یا۔اور اسے انگریزی زبان کے الفاظ کے ایسے مترادفات عطا کیے جن سے اردو صحا فت کی ایک علیحدہ لغت مرتب ہو سکتی ہے۔ مولانا نے اردو صحافت کے مدرسہ انشا کی بنیاد رکھی"۔حمید نظامی کے خاکہ میں خان صاحب صحافت کے مشن،مقصداور عظمت سے متعلق بڑے قیمتی ا ور سوجھ بوجھ کے گُربتاتے ہیں۔ لکھتے ہیں: " حمید نظامی صحافیوں کی اس زنجیرکی ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓآخری کڑی تھے جس میں صحافی ،سیاست دان اور اپنی قوم کے راہ نما بھی ہوا کرتے تھے۔ حمید نظامی بڑکھرے ،سچے اور سلجھے ہوئے سیاست دان تھے۔ان کی سیاست ان کے ذاتی مفادات کی آمیزش سے پاک تھی۔وہ صحافی تھے تو اب وہ سانچے ہی ٹوٹ گئے ہیں جن میں حمید نظامی ایسے نڈر ،بے باک اور با اصول صحافی ڈھل کر نکلا کرتے تھے"۔ پہلے کے صحافی ایسے اصول پسند اور ایثار پیشہ ہوتے کہ اپنے اخبار کو قوم کی امانت سمجھتے اور یہ ہی وجہ ان کی مقبولیت کی بھی تھی۔اخباروں کی مقبولیت اور صاف اور دیانت دار لیڈر شپ کا رول کس طرح کی صحافت کو جنم دیتی ہے اس کو خان صاحب یوں نمایاں کرتے ہیں:" پہلے زمانے میں اخبار وں کی مقبولیت اور کامیابی کا راز اخبار کا مشنری کام ہوتا تھا۔قوم اور ُملک کی خدمت کا جذبہ ہوتا تھا۔اور ایک مقصد ان صحافیوں اور ان کے اخبارکے سامنے ہمیشہ رہتا اور اخبار کامالک اور ایڈیٹراور کارکن صحافیوں کی پوری ٹیم اس مقصد کو حاصل کرنے میں اپنی جان لڑا دیتی "۔اور آخر میں صحافت کے بارے میں آخری بات کہتے ہیں: "اخبارات یا میڈیا کاکام قومی تعمیر اور قوم کو ارفع واعلیٰ مقام پر پہنچانے کا مقصد اور مشن ہے
اور غلط راستوں پر چلنے والوں کو روکنا ٹوکنا اور ان کی غلطیوں کی نشان دہی کرنا ہے۔ایسا ہی میڈیا اور اخبار ریاست کے چوتھے ستون کی تعریف میں آتے ہیں۔
جب صحافت صنعت بن جاتی ہے تو اخبار مالک کی حثیت سیٹھ ساہوکار کی ہو جاتی ہے۔وہ اپنی قوم کے سطحی جذبات کو انگخیت کرتا ہے۔سستی شہرت اور عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کے لئے اس کے پیچھے چلتاہے۔ لیکن جو اخبار قوم کو دل میں یہ خیال لائے بغیر کہ اسکی مقبولیت میں کمی آتی ہے یا اضافہ ہوتا ہے، اس کی غلط روش پر للکارتا بھی ہے"نصراﷲ خان نے مجید لاہوری کو پاکستان کا پہلا عوامی کالم نویس کہا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں مجید لاہوری عوامی مزاح کا بادشاہ تھا۔ اس نے کچھ عوامی کردار ،رمضانی، مولوی گل شیر خان اور ٹائر جی ٹیوب جی متعارف کرائے تھے جو بہت مقبول ہوئے۔اس منفرد کالم نویس کے کالموں کا خمیر عوام کی دکھ درد ،غم و خوشی سے اٹھا تھا۔خان صاحب کاکہنا ہے:"مجیدلاہوری عوام کا آدمی تھا۔ وہ جیا بھی عوام میں اور مرا بھی عوام میں۔ وہ عوام کے لئے لکھتا تھا، عوام کے مسائل پر لکھتا تھا۔اور عوام کی زبان میں ہی لکھتا تھا۔اس کی تحریروں میں عوام کے دکھ درداور ان کی چھوٹی چھوٹی معصوم خوشیاں اور ان کے دلوں کی دھڑکنیں شامل ہوتیں"۔اور " اس کے کالم ایسے دلکش ہوتے کہ انہیں رمضانی بھی پڑھتا اور ٹائر ٹیوب جی بھی پڑھتا ۔ یہاں تک کہ وزیر اور سفیر سبھی پڑھتے اور کوئی بے مزا نہ ہوتا" ۔ مجیدکی شاعری کا رنگ بھی عوامی تھا۔اس کے بعد بہتوں نے مجیدی طرز میں زور مارا مگر نہ ہوا اس کا اندازنصیب ۔ نصراﷲ خان ایک اچھے ڈرامہ نگار بھی تھے ۔ ان کے کئی ریڈیو ڈرامے خا ص طور پر ڈرامہ " لائٹ ہاوس کے محا فظ" بہت مقبول ہوا۔ ان کے خاکوں کی کتاب " کیا قافلہ جاتا ہے" میں مشہور ڈرامہ نگار خواجہ معین الدین جن میں پاکستانیت کوٹ کوٹ کر بھری تھی اور جو اپنے ڈراموں میں پا کستان کے مسائل کو اُجاگرکیا کرتے تھے ۔ وہ طنز و مزاح کے حربے سے کام لے کر لوگوں کو سے تخلیقِ پاکستان کے مقاصد کو اپنی زندگی میں بروئے کار لانے کی متمنی تھے۔ اردو جو ملک کو وجود میں لانے کے ایجنڈے کا اہم حصہ تھی اس کا کیا حشر ہوا اس کو وہ اپنے ڈرامے " مرزا غالب بندر روڈ پر" دکھاتے ہیں جو عبرت انگیز ہے ۔ان مکالموں سے زبان کے غلط استعمال کا انداز کا پتا چلتا ہے کہ املا و انشا کو کس بے طرح برتا جا رہا ہے ۔ڈرامے کا منظر ملا حظہ ہو مرزا غالب ایک ہوٹل میں ایک نوٹس لگا دیکھتے ہیں جس کے ہجے اور عبارت آرائی روح فنا کر دینے والی ہے جو یہ ہے:"حکومت کا بات کرنا ۔ نسا کرنا۔اور سائری مارنا منا آہے"۔ایک اور منظر جس میں تاریخ سمٹ آئی ہے:حولدار ٹیپو سے کہتاہے:ـ" شرم نہیں آتی اپنے آپ کوٹیپو کہتے ہوئے؟" ٹیپو جوابا کہتا ہے:" اور شرم نہیں آتی تجھے ٹیپو کو اس پھٹے حال میں دیکھ کربھی کم بخت۔ جب میں میسور کا بادشاہ تھا اور انگریزوں کو ہندو ستان سے باہر نکالنا چاہتا تھا،اُس وقت بھی تو نے چند ٹکوں کے عوض، ایسا ہی لباس پہن کر میرے سینے پر گولی چلائی تھی۔ یہ دیکھو ۔ یہ ٹیپو کا سینہ ہے۔ یہ مسلمانوں کی تاریخ کا سینہ ہے۔آہ! اس سینے میں اپنے ہی بھائی کا خنجر چبھا ہوا ہے". خان صاحب خاکے میں خواجہ معین الدین کے ڈراموں کی افادیت کے بارے میں کہتے ہیں:" آج بھی ہمیں ان ڈراموں کی ضرورت ہے۔خواجہ معین الدین کے جملوں میں وہ نشتر ہے جو ہمارے جمود کو توڑ سکتا ہے اور جو خون ہماری بے عملی کی وجہ سے ہماری رگوں میں جم گیا ہے۔ یہ اس میں روانی پیدا کر سکتا ہے"۔سیاست دانوں میں چوہدری خلیق الزماں کو برصغیر کے سیاسی منظر نامہ کا ایسے ڈھب اور کینڈے کا سیاست داں کہا گیا ہے کہ اس جیسا کوئی اور سیاست داں نہیں گزرا۔اس خاکے میں خان صاحب" لیڈری" کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہیں:" سیاسی لیڈروں میں ایسے بھی لیڈر ہوتے ہیں جنہیں حالات لیڈر بنادیتے ہیں مثلا بعض لیڈرو ں کو لیڈری ورثے میں ملتی ہے۔بعض صنعت کار ،تجاّر اور زمیندار اپنے تجارتی مفادات کی خاطر لیڈری کرنے ن پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ وکیلوں کے لئے تو خیر سیاست مشغلہ بھی ہے اور کبھی کبھی یہ پیشہ بھی بن جاتا ہے۔گویا سیاست زیادہ تر ہمارے یہاں لیڈروں کی مجبوری رہی ہے لیکن تقسیم سے پہلے ایسے بھی لیڈر تھے جنہیں ہم پیدائشی لیڈر کہہ سکتے ہیں اور سیاست ان کی رگ رگ اور نس نس میں رچی ہوتی ہے۔چودھری صاحب کا شمار ایسے ہی لیڈروں میں ہوتا ہے ۔ سیاست میں ان کی قریب کی نظر بھی اچھی تھی اور دور کی بھیـ " چوہدری صاحب کی گہری اور دور بیں
نظر کی کرشمہ سازی جب دیکھنے میں آئی جب انہوں نے ایوب خان کو قائل کر کے اس سے سیاسی پارٹی بنوا ڈالی۔انہوں نے ایوب خان سے کہا:" آپ(ایوب خان )کوئی اپنی سیاسی پارٹی کیوں نہیں بنالیتے ۔ آخر آپ کب تک مارشل لا کو مسلط رکھیں گے۔ اور اس کے ذریعے ملک پر حکومت کریں گے؟ ایوب خان نے کہا کہ کیاآپ پارٹی بنانے میں میری مددکرینگے؟ میں نے کہا ہاں میں آپ کی پارٹی بنوادوں گا، چنانچہ میں نے کنوینشن مسلم لیگ کی داغ بیل ڈال دی اور ایوب خان کو اس کا چار آنے کا ممبر بنا دیا اور پھر میں نے ملک کے تمام سیاست دانوں سے یہ کہا کہ میں نے شیر کو پنچرے میں بند کردیا ہے۔اب اسے سدھانااور اس سے کام لینا تمہارا کام ہے۔لیکن مجھے افسوس ہے کہ ان لوگوں نے وقت کی نزاکت کا اندازہ نہیں کیااور اپنی پارٹیوں کی تنگنائے سے باہر نکلنے پر آمادہ نہ ہوے۔ ورنہ وہ ایسا وقت تھا کہ جمہوریت آہستہ آہستہ پوری طرح بحال ہوجاتی "۔خان صاحب کہتے ہیں کہ مسلم لیگ کی سیاست میں ان کا کام حریفوں کا زور توڑنا تھا۔ اس کام میں ان کا کوئی مد مقابل نہ انڈین نیشنل کانگریس میں کوئی تھا اورنہ مسلم لیگ میں۔ خان صاحب لکھتے ہیں: " ایک دن قائد اعظم نے چوہدری صاحب کو بلا کر کہا ۔ خلیق ۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ تم پاکستان کے سارے صوبوں کا دورہ کرکے مجھے یہ بتا ؤکہ ہمارے مسلم لیگی لیڈر کیا کررہے ہیں اور ان کی کارکردگی کیسی ہے؟تو چودھری صاحب نے کہا میں کچھ دنوں بعد اپنے دورے سے واپس آیا اور قائد اعظم کے ہاں پہنچا تو قائدا عظم نے پوچھا تم کہ تم نے اپنے دورہ کی رپورٹ لکھ لی ہے؟تو میں نے کہا کہ رپورٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اس سلسلے میں یہ کہوں گا کہ آپ نے کہاں گھوڑے بیچ کر گدھے خرید ے ہیں"۔ سیاست دان کے بعد آئیے اب ایک فنکار " استاد بندو خان ـ" کی سارنگی کی تانوں کے رس سے اپنے کانو ں کو شاد کام کرتے ہیں:" استاد بندو خان نے ساز کو آواز بنادیا۔ یوں آواز کا تعلق سُننے سے ہے لیکن بندو خان نے اسے دکھا بھی دیا ۔ بندو خان نے سارنگی کو سو رنگی بنایا ۔ بلکہ سارنگی کے ہر رنگ میں سو رنگ بھر دیے۔ اتنا بڑا کلا کار نہ پیدا ہوا ہے نہ امید ہے کہ آئندہ کبھی پیدا ہوگا۔ بندو خان اس جاتی دنیا کی آخری بہار تھے"۔ اس تعارف کے بعد ان کے فن کا یہ مظاہرہ دیکھئے۔" بندو خان کے بارے میں یہ قصہ بہت مشہور ہے کہ ریاست اندور میں مہاراجہ کے محل کے پیچھے ایک پنڈت کی دکان تھی ۔ اس دکان میں لال بیے اور پدیوں کے پنچرے لٹکے رہتے تھے، وہ ان پرندوں کا کارو بار کرتا تھا ۔ایک دن بندو خان سارنگی لیے ادھر سے گزر رہے تھے۔انہوں نے یہ پرندے دیکھے تو انہیں رحم آیا۔ خان صاحب نے پنڈت جی سے کہا ننھے منے پرندوں کا کیوں عذاب سمیٹتے ہو انہیں چھوڑ دو۔ پنڈت جی نے کہا پھر کھا کماؤں کیا۔بندو خان نے لالوں کا پنچرہ کھول دیا ۔ سارے لال اڑُ گئے۔پنڈت جی نے واویلا کیاتو بندو خان نے کہا" اچھا تمہاری مرضی اگر یہ ہی ہے تو ہم انہیں بلا دیتے ہیں۔"یہ کہہ کر انھوں نے سارنگی سے لالوں کی آواز نکالی تو سارے لال واپس پنچرے میں آگئے۔ایسے کئی قصّے بندو خان کے بارے میں مشہور ہیں ۔اور خیر یہ تو قصّہ نہیں ہے، واقعہ ہے کہ سردار پٹیل کا بلڈ پریشر جب بہت بڑھ جاتا تو وہ استاد بندو خان کو بلا کر سارنگی سنتے اور بلڈ پریشر کم ہو جاتا"
خان صاحب جس شخصیت بارے میں لکھتے وہ اس سے خوب واقف ہوتے ہیں اور جس مضمون کو چھیڑتے ہیں اس سے متعلق اس کی معلومات سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ موسیقی کے ذکر میں بندو خان کے حوالے سے وہ سارنگی بجانے کے فن سے یوں واقفیت بہم پہنجاتے ہیں :
" بندو خان سے پہلے سارنگی بجانے والے گلے کا پورا انگ سارنگی میں نہیں اتار سکتے تھے ۔سارنگی محض سنگت کا ایک ساز تھا۔بندو خان نے سارنگی کو آواز اور زبان عطا کی اور اس کو ایک انفرادی حثیت بخشی۔بندو خان نے گز سے سارنگی بجانے کا پورا اسٹائل بدل ڈالا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بندو خان نے سارنگی میں زبردست تبدیلی پیدا کی اور اب یہ نئی سارنگی بندو خان کی سو رنگی کہلانے لگی اور اسی نئی سارنگی سے انسان کے مزاج کا ہرموڈاور کیفت پیدا ہونے لگی"
خان صاحب کے خاکوں سے بعض تاریخی حقائق اور واقعات سامنے آتے ہیں شورش کاشمیری کے خاکہ میں آگاہ کرتے ہیں کہ جب وہ اور شورش بھگت سنگھ کے جنازے میں شرکت کے لئے اس دن لاہور پہنجے جس دن اسکو پھانسی د ی جانی تھی تو" ہم اور ہمارے جیسے بہت سے لوگ لاہور میں دوسرے لوگوں سے یہ پوچھتے پھرتے تھے کہ بھگت سنگھ کی ارتھی کہاں سے اٹھے گی۔لیکن شام کو ہمیں بتایا گیا کہ راوی کے کنارے کہیں دور فرنگی حکومت نے اس کی لاش کو جلا کر اس کی راکھ دریا میں بہا دی او ر زمین کا وہ حصہ کاٹ دیا گیا جہاں اسے جلایا گیا تھا۔ ہم روتے دھوتے اور انگریزوں کو کوستے کاٹتے اور گالیاں دیتے ہوئے اپنے گھر لوٹ آئے" پروفیسر عبدالعزیز میمن کے خاکے سے پتا چلتا ہے کہ 1938 ء میں دہلی میں بر صغیر کی مشہور اورنٹیل کانفرنس میں سید سلیمان ندوی اس لیے شریک نہیں ہوئے کہ انہیں معلوم ہوگیا تھا کہ ـ"میمن صاحب ان کے مقالے پر تنقید کریں گے۔ کیوں کہ سلیمان ندوی صاحب نے علامہ میمن کے خلاف ایک مضمون معارف میں شائع کردیا تھا۔" خان صاحب نے اپنی خاکہ نگاری میں خوبیوں کے ساتھ کمزوریوں اور خامیوں کا بھی ذکر کیا ہے مثلا اختر شیرانی کے خاکے میں ان کے یہ ریمارکس ملتے ہیں" ایک دفعہ میں اور بالا اختر کے یہاں گئے۔وہ ایک اونچی چار پائی پر بیٹھا تھا۔چار پائی کے نیچے سے دُھواں اٹھ رہا تھا۔ بالے نے پوچھا یہ دُھواں کیسا ہے؟ اختر نے آواز دی مولانا تشریف لے آئیے۔ یہ لوگ غیر نہیں ہیں،اپنے ہی ہیں۔دیکھا تو یہ مولانا چراغ حسن حسرت تھے جو چرس سے بھرا ہوا سگریٹ پی رہے تھے" اسی طرح ملا رموزی کے بیان میں ہے۔"ملا صاحب بلا کے حسن پرست تھے۔شہر کا کوئی حسین لڑکا نہ تھا جس سے ملا صاحب واقف نہ ہوں"پیرُ حسام الدین راشدی کے بارے میں مطلع کرتے ہیں
" شادیاں دونوں بھائیوں نے خوب کیں اس معاملے میں بڑے بھائی (پیر علی محمد راشدی)چھوٹے بھائی سے بہت آگے بڑھے ہوئے تھے"۔اسی طرح شاہد احمد دہلوی جن سے خان صاحب خاص تعلقِ خاطر رکھتے تھے ان کی اردو ادب اور پاکستان میں موجود حسین مناظر سے بے اعتنائی کو ہدف تنقید بناتے ہیں:" اور اردو ادب کی بد قسمتی ہے۔پاکستان کی بد قسمتی ہے۔نئی دیس کے بے شمار نظاریاان کی بوقلمونیوں کے لئے بکھرے پڑے ہیں۔اگر شاہد ایسے رنگین قلم چاہیں تو زبان کے لوچ اور رنگینی سے اس مُلک پر بہار بے خزاں مسلط کرسکتے ہیں۔شاہد کے ہم خیال اور ہم اسلُوب اگر چاہیں تو سندھ اور چناب کے پانی میں گنگا جمنی تہذیب کے دل آویز رنگ ملا کر اس ملک کے ادبی سرمایہ کو دل فریب بنا سکتے ہیں لیکن موسیقار ایسں احمد(موسیقی کے لئے اختیار کردہ نام)ادیب شاہد احمد پر مسلط ہوگیا"۔یہاں پتا چلتا ہے کہ دہلی میں اپنا جما جمایاکام چھوڑ کر آنے پر مدیر ساقی پر کیا گزری۔ سنئے خان صاحب کی زبانی :" اس میں(ادب سے لاتعلقی میں)شاہد احمد کا بھی کیا قصور؟بے چارہ موسیقی کا سہارا لے کر اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتا ہے۔راگ راگنیوں کی تانوں میں دل سے اٹھنے والی چیخوں کو چھپا کر فضامیں بکھیر دیتا ہے اور اک گونہ سکون پاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تلاش معاش میں سرگرداں اور غم روزگارکے ستائے ہوئے شاہد احمد کے پاس پھر لکھنے پڑھنے کی فرصت کہاں؟فکر معاش سے زندگی کا ایک لمحہ بھی خالی نہیں۔ شہرت سے پیٹ نہیں بھرتا۔ ادبی زمرے میں فرومائیگا ن ادب کی چھاونی چھا رہی ہے۔شاہد احمد اور اس جیسوں کا یہاں گزر کہا ں؟"ایسی ہی صاف گوئی چوہدری خلیق الزماں کے بارے میں اختیار کی گئی ہے کہتے ہیں "اﷲ بخشے بڑے جھگڑالوآدمی تھے "۔اور"چودہری صاحب کے
کے بارے میں کسی نے یہ صیح کہا ہے کہ وہ جتنے زمین کے اوپر تھے ۔ اتنے ہی زمین کے اندرتھے۔" اور حفیظ ہو شیا پوری کی شان میں پڑھا گیا قصیدہ بھی سن لیجیے:"حفیظ اپنے ماتحتوں کے عیب پکڑ تا۔تعریف کرنا تو وہ جا نتا ہی نہ تھا"۔اس کے برعکس ممتاز حسن جو ملک کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے ان کے حسن اخلاق کی تحسین میں کہتے ہیں:" ہم نے عہدے داری سے اکثر انفرادیت کو ختم ہوتے دیکھا۔لیکن ممتاز حسن اس کوچہ سے اپنا سب کچھ بچا کرنکلے"۔اور ان کے خاکے میں ان کی شخصیت کا یہ دلکش پہلوسامنے آتا ہے:" ممتاز حسن میں بلا کا عجز وانکسار تھا جب وہ فانس سکریٹری کے عہدہ جلیلہ پر فائز تھے اس وقت بھی وہ تھوڑی سی رعونت جو بڑے افسروں میں آجایا کرتی ہے، ان کی شخصیت میں نہیں آئی۔انہیں چپراسی سے پانی منگوانا ہوتا تو وہ اس سے یوں کہتے۔ بھائی اگر آپ کو زحمت نہ ہو تو تھوڑا سا پانی پلا دیجے۔ویسے آپ کے بچے تو اچھے ہیں۔ گھر میں تو خیریت ہے" چنانچہ خان صاحب نے دیکھا:" ممتاز صاحب وہ پہلے بڑے آدمی تھے کہ جن کے مرنے پر میں نے چپراسیوں اور بے شمار مردوں اور عورتوں کو بھی روتے دیکھاہے"۔خان صاحب جو بنیادی طور پر طنز ومزاح نگار ہیں ان کے خاکوں میں طنز تو ہے مگر وہ ڈنک مار کر کسی کو زخمی نہیں کرتے بلکہ کجی،کمزوری اور ناہمواری کی نشان دہی کرکے اصلاح کے لئے راہ ہموار کرتے ہیں۔ شاہد احمد دہلوی پر ان کی قلم دراز ی ا س حد تک ہے۔" لیکن شاہد صاحب نے ادب کو بہت نقصان پہنچا یا۔ بلا کی خست سے کام لیا۔انہوں نے اپنی تمام صلاحیتوں کو موسیقی کے وقف کر دیا۔اور ادب رونی صورت بنائے ان کے سامنے کھڑا زبان حال سے کہہ رہا ہے۔شاہد تم غاصب ہو۔ تم نے مجھ سے میرا حق چھین لیا"۔مولوی عبدالحق نے اردو کی جو خدمت کی ہے وہ اظہر من الشمس ہے اس کے عوض ان سے جو سلوک کیاگیااس پر خان صاحب کے طنزسے قاری عبرت پکڑتا ہے اور ایذا دہندوں کے خلاف نفرت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔وہ طنزیہ تحریر یہ ہے ۔" جب مولوی صاحب کے کُتب خانے میں قفل ڈال دیا گیا اور انہیں عضو معطل بنادیا گیا ، یعنی ان کے مکان کی بجلی منقطع کر دی گئی،ان کی گاڑی چھین لی گئی تو یہ زمانہ مولوی صاحب بڑا سخت گزرا ۔۔۔۔۔۔مولوی صاحب اپنی قوم کی بے حسی اور محسن کُشی کے بارے میں ایک انگریز کا قول دہرایا کرتے تھے جس نے اس قوم کی بڑی خدمت کی تھی ۔وہ قول یہ ہے:" ٹو سرو دس نیشن از اے کرائم اینڈ آئی ہو کمیٹڈ دیٹ کرائم" یعنی اس قوم کی خدمت کرناجرم ہے۔اور میں نے یہ جرم کیا ہے۔ مو لوی صا حب نے انہی دنوں سرسید احمد خان کے بارے میں یہ بتایا کہ اﷲ نے ان کی آبرو رکھ لی ۔۔۔ورنہ ان کی زندگی کے آخری ایام میں یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ انہیں کالج سے علیحدہ کر دیا جائے گا"۔
خان صاحب بات سے بات پیدا کرنے کا فن خوب جانتے ہیں۔ قاضی اختر میاں جونا گڑھی کے فلیٹ جو چھٹی منزل پر تھا اسکے تذکرہ میں کہتے ہیں:" ۔بولٹن مارکیٹ کے قریب ایک عمارت کی چھٹی منزل میں ایک فلیٹ کرائے پر لیا۔قاضی صاحب کی آدھی زندگی ، جسے وہ بچا کر پاکستان لائے تھے،اس فلیٹ پر چڑھنے اترنے میں ختم ہوگئی اور باقی آدھی نا مساعد حالات اور بے قدری کی نذر ہوگئی"۔اور ملا صاحب کے ان کی اپچ ان سے کہلواتی ہے:"ملا صاحب کا مکان قبرستان کے اتناقریب تھا کہ بس یہ سمجھیے کہ قبرستان میں ہی رہتے تھے۔ جب مرے تو اُسی قبرستان میں دفن ہوئے۔ گویا گھر کی بات گھر میں ہی رہی" مزاح کس طرح جنم لیتا ہے،اس کااظہار وہ مچھو خان ٹیڑھی کے خاکے میں کرتے ہیں:"مچھو خان ان لوگوں کو ہنساتے تھے جو ہنسی کے لئے ترسے ہوئے تھے۔ان کی ہنسی میں مچھو خان کے دل کے داغوں کی روشنی ہوتی ۔دوسروں کو ہنسانے کے لئے ہنسانے والے کو کتنا رونا پڑتا ہے، یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں"۔خان صاحب اپنی فکر و فن کا اظہاراپنے خاکوں کے کردارو ں کی زبانی کر دیتے ہیں اور خواجہ معین الدین کے ڈراموں کے بارے میں کہا ہے :" خواجہ معین الدین کے ڈرامے ہماری قومی زندگی کے عظیم ڈرامے کے عکاس ہیں۔۔۔۔۔ ۔خواجہ معین کے ڈرامے میں حالی کا مسدس بھی ہے اور اکبر کا طنزبھی" اور خان صاحب کا مقصد و منشا بھی اپنے خاکوں میں قو م کی صلاح و فلاح اور ملک کی بقا ہے۔خان صاحب درمیانے کے قد کے دودھیاچہرے بشرے کے سادہ دل ،انسانیت و محبتوں والے انسان تھے۔لوگوں سے تپاک سے ملتے ۔غرور وتکبر سے کوسوں دور۔بڑے بڑوں کی صحبت دیدہ تھے۔ملنسار اور ہر ایک کی مدد کو تیار رہتے۔ان کی والدہ نواب صاحب جاورہ کی بھانجی تھیں اور والد ماسٹر محمد عمر امرتسر کے ماہر تعلیم تھے۔خان صاحب بھی استاد رہے مگر اصل دلبستگی صحافت سے تھی جو انہوں اختیار کئے رکھی ۔ گجر دم اٹھ کر اخبارات کا مطالعہ کرتے اور روز کالم لکھتے۔ سفید کپڑے پہنتے جس پر مارکر کے کالے نشان پڑ جایا کرتے تھے۔گھڑی کے بغیر وقت کی پابندی سے کام انجام دیتے ،کالم لیٹ کر لکھتے۔
اور بغیر آئینے کے صاف ستھرا شیو بناتے۔شام کو سیر کرتے۔ان کا انتقال امریکہ میں ہوا ۔ خدا غریق رحمت کرے۔ بڑی خوبیوں کے انسان تھے۔اگرچہ خان صاحب اور ان کے خاکوں کے کردار تو سب تہہ خاک جا سوئے مگران کے لکھے ہوئے خاکے اور ان کے کردار جگمگ جگمگ کرتے رہیں گے۔

 
Mahmood Aziz
About the Author: Mahmood Aziz Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.