معاشرتی تفاوت اورعام انسان

 اس وقت ملک میں غریب اورامیرکاجو تفاوت پیداہوچکاہے، اسے دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت صرف رنج وغم ہی کے لیے پیداہوئی ہے۔ بجلی غائب ، پانی بند ، ٹرین لیٹ ، عدم تحفظ، جان محفوظ نہ مال ،عزت وعصمت مامون نہ دامن شرافت ،گھر میں سکون نہ باہر،انصاف عنقا،ہر چیز مہنگی ، میرٹ بدنام ،کرپشن عام ،سچائی ناقابل برداشت ،ضمیر کچلاہوا،ہاتھ بندھے ہوئے،غرض پریشانیاں ہی پریشانیاں ہیں۔

مگر اس صورتحال کاایک پہلو اوربھی ہے ۔بڑے بوڑھوں نے کہا ہے کہ جہاں پھول وہاں کانٹا۔بات توواقعی سچ ہے۔اگرزندگی میں خوشیاں ہی خوشیاں ہوں تو انسان ان سے بھی اکتا جائے……غم کا کچھ اپنا ہی مزہ ہے……اور اس مزے سے جتنا پاکستان کے غریب اورمتوسط طبقے کے لوگ آشنا ہیں شاید کوئی اور نہ ہو……سرمایہ دار اور جاگیردار ، مئے ارغوانی پی کر مست ہوتے ہیں اور عام شہری غم کے کڑوے گھونٹ پی کر مدہوش رہتا ہے……وہ سونے چاندی کے سکوں سے کھیلتے ہیں اور یہ دکھوں کے سنگ گراں سے۔ وہ روپوں ، پونڈوں اور ڈالروں سے تجوریاں بھرتے ہیں اور یہ صدموں، آنسوؤں اور آہوں کا اثاثہ اپنے سینے میں جمع کرتا رہتا ہے۔ وہ منرل واٹر سے نہاتے ہیں اور یہ جون جولائی کے پسینے سے۔ وہ عیش و عشرت کی زندگی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کے لیے دوڑ لگا رہے ہیں اورعام آدمی رنج والم کے نیزوں کو اپنے دل و جگر سے پار کرکے ہمت و برداشت اور ضبط و تحمل میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کررہے ہیں۔یہ اپنی اپنی زندگی ہے، اپنا اپنا نصیب ہے۔پھر ان تکالیف پر صبر کرنے کاجو اجر وثواب ہے وہ آخرت میں محفوظ ہورہاہے ۔اس لیے عام آدمی بہرحال ان لٹیرے سرمایہ داروں سے بہتر ہے۔اگریوں کہیں تو غلط نہ ہوگاکہ ان ظالموں کووہی رہن سہن راس آتا ہے اور عام آدمی کوشاید مسائل بھری زندگی کے سوا کچھ اور راس نہیں ۔اسی میں اﷲ کی حکمت ہے۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ ایک غم آشنا پاکستانی دیارغیر سدھارا۔ وہاں کرائے کے مکان میں ایک دو ماہ رہ کر اس کی طبیعت بگڑ گئی، پوچھا گیا کہ کیا ہوا؟ توکہنے لگا،سمجھ میں نہیں آتا ،میں زندہ کیسے رہوں گا؟ آج دوسرا مہینہ ہے یہاں بجلی نہیں گئی، گھر کا پانی بند نہیں ہوا، بجلی اور گیس کے دس دس پندرہ پندرہ ہزار والے بل نہیں آئے، ٹیلی فون لائن ڈیڈ نہیں ہوئی، گھر کے سامنے گلی میں اتنے دن میں کوئی گٹر نہیں ابلا، سڑکوں پر ٹریفک جام دیکھنے میں نہیں آیا، کوئی ہڑتال نہیں ہوئی، بسوں میں کھڑے کھڑے سفر کا مزہ نہیں ملا، ٹیکسی والے سے کرائے پر جھگڑا نہیں ہوا، اور تو اور ابھی تک مالک مکان صرف ایک بار کرائے کا مطالبہ لے کر آیا ہے……اس بجھی بجھی مری مری زندگی میں بھلا میں کیسے زندہ رہ سکتا ہوں۔

دنیاپاکستان کے غریب غرباء کو چاہے جو کچھ کہے، مگر اتنی بات تو یقینی ہے کہ یہ لوگ ہیں بڑے زندہ دل…… یہی اصل پاکستانی ہیں جو حلال کمائی پر قناعت کرتے ہیں۔یہی ذمہ دار شہری ہیں جن کی محنت کے بل بوتے پر ملک قائم ہے۔ لوٹ مار کا سرمایہ اکٹھا کرنے والوں کوہم کیسے پاکستانی مان سکتے ہیں……یہ لوگ جب اپنی تجوریاں بھر چکتے ہیں تو جلد ہی اپنے اصل وطن یعنی دیارِ مغرب کی طرف پرواز کرجاتے ہیں۔

بلاشبہ پاکستانی بڑے زندہ دل لوگ ہیں تب ہی مسائل کے اتنے طوفانوں میں زندہ ہیں، کسی اور ملک میں عوام کا اتنا استحصال ہوتا تو کب کا بھونچال آچکا ہوتا…… اس لیے پاکستانیوں کی ہمت و برداشت پر آفرین ہے، ان شاء اﷲ یہ صبر ضروررنگ لائے گا۔ بشرطیکہ ہم اﷲ کے دین سے وابستہ رہیں۔اس راہ کی تکالیف پر صبر کریں اورحق پر جمے رہیں۔ایک دن یہاں عدل و انصاف کابول بالاضرورہوگا،اسلام کی بہاریں عروج پر ہوں گی ان شاء اﷲ۔
پھر دلوں کو یاد آجائے گا پیغام سجود
پھر جبیں خاک ِحرم سے آشنا ہوجائے گی
 
Muhammad Faisal shahzad
About the Author: Muhammad Faisal shahzad Read More Articles by Muhammad Faisal shahzad: 115 Articles with 174097 views Editor of monthly jahan e sehat (a mag of ICSP), Coloumist of daily Express and daily islam.. View More