وادیٔ کیلاش……پس منظر اور پیش منظر - چوتھی اور آخری قسط:

کیلاش قوم میں جب کوئی شخص مر جاتا ہے تو اس کی لاش کوتین دن تک گھر میں رکھا جاتا ہے ، غریب لوگ تو اسے جلدی دفن کردیتے ہیں جبکہ مال دار لوگ اس کی تدفین میں تاخیر کرتے ہیں ۔ ان کی تمام رسومات میں سب سے زیادہ دلچسپ اور عجیب رسم ان کے مردوں کی تجہیز و تکفین ہوتی ہے ۔ چنانچہ جب کوئی شخص مرجاتا ہے تو یہ لوگ اس کی لاش کے سامنے کھڑے ہوکر اس خیال سے بندوق سے فائر کرتے ہیں تاکہ کہیں لاش میں اس کی روح واپس ہی نہ لوٹ آئے ۔ اس کے بعد یہ لوگ مردے کو نئے کپڑے پہناتے ہیں اور اس کے سامنے ناچتے اور گاتے ہیں اور اس کی خوبیاں بیان کرتے ہیں ۔ اور جس گھر میں کوئی مر جائے اس گھر سے عورت ایک مہینہ تک باہر نہیں نکلتی ،اس دوران لوگ تعزیت کرنے کے لئے آتے اور جاتے ہیں ۔

زمانۂ قدیم میں یہ لوگ اپنے مردے کی لاش کو صندوق میں ڈال کر وہاں قبرستان میں پھینک آتے تھے ، جس کی وجہ سے پوری فضا بدبودار ہوجاتی تھی اور سانس لینا انسان کے لئے دوبھر ہوجاتا تھا اور ان صندوقوں کے سرہانوں پرمرنے والوں کے مجسمے ایستادہ ہوتے تھے ، اس لئے کہ کچھ سال پہلے تک یہاں مردوں کو دفن نہیں کیا جاتا تھا اور نہ ہی نذر آتش کیا جاتا تھا ، بلکہ جب کوئی شخص مرجاتا تو اس کی لاش ایک چار پائی پر ڈال کر قبرستان لے جاتے تھے ، جہاں پہلے سے ہی ایک صندوق تیار ہوتا تھا ، لاش کو اس صندوق میں رکھ کر اور چند ایک رسومات ادا کرلینے کے بعد اس کا ڈھکنا بند کردیتے تھے اور پھر اس صندوق کو وہیں رکھ کر اور چار پائی کو وہیں چھوڑ کر تمام لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس ہوجاتے تھے اور ایک سال بعد مجسمہ کرنے کی رسم ادا کی جاتی تھی ، البتہ اب وہاں باقاعدہ مردوں کو دفن کیا جاتا ہے تاہم باقی رسمیں وہی پرانی ہیں۔

مردوں کی تدفین کے سلسلے میں ان کی رسومات اور بھی ہیں جوکہ بہت ہی عجیب و غریب ہیں ، مثلاً جب کوئی شخص مرجاتا ہے تو اسے اچھی طرح نہلا دھلا کر نہایت عمدہ قسم کا ریشمی لباس پہنایا جاتا ہے ، سر پر ایک خاص قسم کی ٹوپی رکھی جاتی ہے جو کانوں تک اس کے سر کو ڈھانپ لیتی ہے ، اس کے بعد اس مردے کو چار پائی لٹایا جاتا ہے ، پھر اس کے تمام عزیز و اقارب اس کی لاش کے اردا گرد رقص کرتے ہیں ۔

یاد رہے کہ ’’رقص‘‘ ان کی زندگی کا ایک جزوِ لاینفک ہے ۔ خواہ خوشی کا موقع ہو یا غمی کا ، کوئی مذہبی رسم ہو یا سماجی تقریب ، کوئی آرہا ہو یا جارہا ہو ، رقص انہوں نے بہر صورت کرنا ہوتا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ اگر کوئی مرد مرجاتا ہے تو پھر یہ لوگ رقص کرتے ہیں تاہم اگر کوئی عورت مرجائے تو اس صورت میں رقص نہیں کرتے، اسی طرح اگر دس سال سے کم عمر کوئی لڑکا مرجائے تو بھی یہ لوگ رقص نہیں کرتے ، اور اگر کوئی بوڑھا شخص مرجائے تو اس کے مرنے پر یہ لوگ کسی بھی قسم کی کوئی گریہ وزاری نہیں کرتے بلکہ ُالٹا جی بھر کر خوشی مناتے ہیں ، رقص و سرود کی محفلیں گرماتے ہیں ، ہنستے اور گاتے ہیں اور ایسے لگ رہا ہوتا ہے جیسے شادی کی کوئی تقریب ہورہی ہو، اس لئے کہ ان کے عقیدہ کے مطابق اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ شخص اپنی ایک بھرپور اور خوش عیش قسم کی زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہورہا ہے ۔

ایک اور عجیب بات یہ بھی ہے کہ ان کے یہاں ایک طرف لاش کے اردا گرد رقص ہورہا ہوتا ہے تو دوسری طرف مردے کے لواحقین گریہ و زاری اور آہ و بکاء میں مشغول ہوتے ہیں ۔ اس کے کچھ ہی دیر بعد لاش کو ایک بڑے مکان میں منتقل کردیا جاتا ہے جو اسی مقصد کے لئے بنایا جاتا ہے ، اس مکان کے عین وسط میں ایک بڑا ساکمرہ ہوتا ہے جہاں یہ لاش رکھی جاتی ہے اور یہاں آکر جنازہ اٹھانے والے ایک بار پھر رقص کرتے ہیں اور یہ سلسلہ تقریباً پوری رات ہی جاری رہتا ہے ۔

کیلاش قوم کے یہاں موت کو ایک جشن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ تقریباً دس من کے قریب گندم کی روٹیاں پکتی ہیں ، بکرے ذبح کیے جاتے ہیں اور گرد و نواح کے لوگوں کو بلاکر انہیں یہ سب چیزیں کھلائی پلائی جاتی ہیں ۔

یہ لوگ جب مردے کے لئے رقص میں مشغول ہوتے ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ غمگین قسم کے گیت بھی گاتے ہیں ، جن میں مردے کی خوبیاں اور اس کی سخاوت و شجاعت اور اس کی اچھائیوں و بھلائیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے ۔ یہ جشن عام غریب لوگ ایک رات اور ایک دن تک برابر جاری رکھتے ہیں ، جب کہ صاحب حیثیت اور مال دار لوگ اسے تین دن اور تین رات تک برابر جاری رکھتے ہیں ۔

کیلاش قوم میں وراثت کی تقسیم اس طرح ہوتی ہے کہ بھیڑ اور بکریوں کے علاوہ تمام املاک لڑکیوں کی ہوتی ہیں ، لڑکوں کے حصہ میں صرف اور صرف جانور آتے ہیں ، اس کے علاوہ باقی چیزوں پر لڑکوں کا کوئی حق نہیں ہوتا۔

ان کے یہاں مذہبی پیشواؤں میں بھی وراثت چلتی ہے ۔ ان کا سب سے بڑا مذہبی پیشوا ’’تولک ‘‘کہلاتا ہے اور اس کے بعد اس سے کم درجہ والا ’’تبان‘‘ کہلاتا ہے ۔ جب ایک پیشوا فوت ہوجاتا ہے تو اس کی جگہ اس کے بیٹے کو قوم کا مذہبی پیشوا مقرر کردیا جاتاہے۔ ہاں ! اگر اس کا کوئی بیٹا نہ ہو تو اس صورت میں کوئی بھی دوسرا شخص اس کا گدی نشین مقرر کردیا جاتا ہے۔

کیلاش قوم میں چار قسم کے تہوار رائج اور مشہور ہیں: ایک تہوار مئی کے مہینہ میں منایا جاتا ہے ۔ اس وقت ہر طرف بہار ہی بہار ہوتی ہے ۔ اس تہوار کا نام ’’چلم جوشٹ‘‘ ہے ۔ اس روز یہ لوگ اس تہوار کے لئے کافی مقدار میں دودھ جمع کرتے ہیں اور اس سے پہلے کسی کو دودھ پینے کی قطعاً کوئی اجازت نہیں ہوتی ۔ اس تہوار میں یہ لوگ کئی دن تک گاتے اور رقص کرتے رہتے ہیں۔دوسرے تہوار کا نام ’’چترمس‘‘ ہے ۔ یہ تہوار نئے عیسویں سال کی خوشی میں منایا جاتا ہے ۔ اس تہوار میں ان کے مذہبی پیشوا نئے سال کے حالات و واقعات کی پیشن گوئی کرتے ہیں۔تیسرے تہوار کا نام ’’اوچل‘‘ ہے ۔ یہ تہوار موسم خزاں میں اس وقت منایا جاتا ہے ، جب گڈریئے جنگل کی چراگاہوں سے بکریوں کو لے کر واپس ہوتے ہیں ۔ اس تہوار کے موقع پر یہ لوگ شراب پیتے ہیں اور رقص کرتے ہیں ۔ اور اس تہوار سے پہلے وہ کسی کو انگور کھانے نہیں دیتے۔چوتھے تہوار کا نام ’’پول‘‘ ہے ۔ یہ تہوار اگست کے مہینہ میں منایا جاتا ہے۔

دوسرا تہوار یعنی ’’چترمس‘‘ بالکل ویسے ہی منایا جاتا ہے جیسے کرسچن لوگوں میں ’’کرسمس‘‘ کاتہوار، ہندوؤں میں ’’دیوالی‘‘ کا اور مسلمانوں میں ’’عید‘‘ کا تہوار منایا جاتا ہے ۔ اس تہوار کے دوران کیلاش قوم کے لوگ دیوانہ وار رقص کرتے ہیں اور ان کا یہ جشن متواتر تین دن تک منایا جاتا ہے ، اس تہوار میں یہ لوگ شراب نوشی کرتے ہیں ، نئے کپڑے پہنتے ہیں اور آگ کے ارداگرد رقص کرتے ہیں ۔ اس لئے کہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ آگ کے ارداگرد ناچنے اور رقص کرنے سے جسم کی تمام تر غلاظتیں دور ہوجاتی ہیں اور انسان مکمل طور پر پاک ہوجاتا ہے ۔ اس کے بعد رقص سے تھک ہار کر مرد ایک طرف اور عورتیں دوسری طرف ان کے بالمقابل قطار بناکر بیٹھ جاتی ہیں اور پھر شراب کا دور چلتا ہے ۔چنانچہ شراب نوشی کی اس محفل میں مرد اور عورتیں دونوں برابر کا حصہ لیتے ہیں ۔(ختم شد)
 
Mufti Muhammad Waqas Rafi
About the Author: Mufti Muhammad Waqas Rafi Read More Articles by Mufti Muhammad Waqas Rafi: 188 Articles with 254387 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.