پاکستان میں وفیات نگاری کا امام۔ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ

وفیات نگاری دراصل تاریخ نگاری،سوانح نگاری اور تذکرہ نگاری کی ایک شاخ ہے اور وفیات نگاری کی ابتدا کا سہرامسلمانوں کے سر ہے ۔ اس موضوع پرعربی زبان میں ابوالحسن علی بن ابو بکر علی الھروی کی ’’الاشارات الی معرفتہ المزارات‘‘ نامی کتاب کواوّلیت حاصل ہے جو ۱۲۱۴؁ء میں شائع ہوئی ۔ بعد ازاں شمس الدین ابو العباس احمد بن ابراہیم بن ابی بکربن خلکان کی سات جلدوں پر مشتمل کتاب ’’وفیات الاعیان وانباء الزمان ‘‘۱۲۸۲؁ء میں شائع ہوئی جسے بہت شہرت حاصل ہوئی۔۱۳۵۷؁ء میں ذہبی کی کتاب ’’تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر والا علام ‘‘اور اس کے بعدعلامہ ابن کثیر کی کتاب ’’البدایہ والنہایہ ‘‘ اس موضوع پرلکھی جانے والی کتب میں شامل ہیں۔ابن کثیر کی یہ کتاب اگرچہ تاریخ عالم کے واقعات پر سنین وار لکھی گئی ہے لیکن اس کتاب میں سال بہ سال وفات پانے والے مشاہیر کا ذکر بھی ملتاہے۔ انگریزی زبان وادب میں فروبشر (Frobisher)نے ۲۱۶ صفحات پر مشتمل ایک کتاب ’’ Frobisher,s New Select Collectoion of Epitaphs ‘‘ کے نام سے ۱۷۹۰؁ء میں لندن سے شائع کی ۔انگریزی زبان میں وفیات نگاری وکتبہ سازی پر اس کتاب کو اوّلیت حاصل ہے۔ وفیات نگاری متوفی کی صحیح تاریخِ وفات اور اس کی سیرت وخدمات پر ایک مختصر مگر جامع نوٹ ہوتا ہے۔اس صنف میں تنقید و تنقیح سے حتی المقدور گریز کیا جاتا ہے تاہم یہ حتمی اصول نہیں اور مرنے والے کی کمزوریوں کومہذب انداز میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ عربی ، فارسی ، ترکی اور انگریزی زبانوں میں وفیات نگاری کی تاریخ بہت پرانی ہے تاہم اردو میں یہ صنف نو وارد ہے۔اردو میں وفیات نگاری کی ابتداء انیسویں صدی میں ہوئی۔۱۸۴۷؁ء میں سرسیّد احمد خان نے ’’آثار الصنادید‘‘تصنیف کی جسے ہم اردو میں وفیات نگاری کا نقطہ آغاز کہہ سکتے ہیں۔۶۱۴صفحات پر مشتمل اس کتاب کی ابتداء تقریظوں سے ہوتی ہے۔پہلے باب میں شہر سے باہرکی عمارات کا ذکر ہے۔دوسرے باب میں قلعہ معلی ،تیسرے میں شاہ جہاں آباداور چوتھاباب دلّی اوراہلِ دلّی کے بارے میں ہے۔ ’’آثار الصنادید‘‘ کے بعد ، مولوی بشیر الدین احمد کی ’’ واقعات ِ دارالحکومت دہلی ‘‘ اور مولوی نور احمد چشتی کی ’’تحقیقاتِ چشتی‘‘ جیسی کتب نے وفیات نگاری کے سلسلے کو آگے بڑھایا ۔مولوی نوراحمد چشتی نے ’’تحقیقاتِ چشتی‘‘۱۸۶۴؁ء میں سات سال کی شبانہ روز محنت کے بعد شائع کی۔۸۷۲ صفحات پر مشتمل اس کتاب میں لاہور اور گردونواح کی عمارات کا احوال مذکور ہے۔مولوی نوراحمد چشتی نے یہ کتاب لاہورکے اسسٹنٹ کمشنر مسٹر ولیم کولڈ اسٹریم کی فرمائش پر تحریر کی تھی لیکن اس کتاب کے شائع ہونے سے قبل مولوی صاحب ہیضے کی وباء میں رحلت فرما گئے۔۱۸۷۰؁ء میں مفتی غلام سرور نے ’’مخزن ِ حکمت ‘‘ لکھی جس میں ۷۴ نامور لوگوں کی زندگی کے حالات قلم بند کئے تاہم یہ کتاب مکمل طور پر وفیات نگاری کی صنف کے تقاضے پورے نہیں کرتی۔

بیسویں صدی میں اردو زبان میں وفیات نگاری کے کام کا آغاز حکیم حبیب الرحمان کی تصنیف ’’ آسودگانِ ڈھاکہ‘‘ سے ہوتا ہے ۔یہ کتاب ۱۹۴۶؁ء میں شائع ہوئی جس میں ڈھاکہ اور اس کے گرد و نواح میں مسلمان مدفونین کا احوال درج ہے ۔قیامِ پاکستان سے قبل وفیات نگاری کو فروغ دینے میں سید سلیمان ندوی (یادِ رفتگاں)سید صباح الدین عبدالرحمن (بزم ِ رفتگاں)اورعبدالماجد دریا آبادی (وفیات ِ ماجدی ) نے نمایاں کردار ادا کیا ۔ ماہر القادری اور ستار طاہر بھی اس سفر میں پیش پیش رہے۔ہندوستان میں بھی وفیات نگاری پر خاصہ کام ہوا۔بشارت علی خان فروغ نے ’’وفیات مشاہیر اردو‘‘ڈاکٹر سید شاید اقبال نے ’’وفیات مشاہیر بہار‘‘ڈاکٹر ابو النصرمحمد خالدی نے ’’وفیات اعیان الہند‘‘(۱۹۸۵؁ء)اور مالک رام نے’’ تذکرۂ معاصرین‘‘ اور ’’تذکرۂ ماہ وسال ‘‘(۱۹۹۱؁ء)لکھ کراس کام میں اپنا حصہ ڈالا۔قیام پاکستا ن کے بعد کئی دہائیوں تک وفیات نگاری پر کوئی قابلِ ذکر کام نہ ہوا۔ ۱۹۷۰؁ء میں مولوی محمد شفیع کے مقالات کو ان کے بیٹے احمد ربانی نے مرتب کر کے ’’صنادید سندھ‘‘ کے نام سے شائع کروایا۔ اس کے بعد اگلی دو دہائیوں میں پھر کوئی قابل ذکر کتاب خالصتاً وفیات نگاری کے حوالے سے سامنے نہ آسکی۔بیسویں صدی کی آخری دہائی اردو میں وفیات نگاری کے حوالے سے بہت اہم ہے ۔ ۱۹۹۰؁ء میں وفیات نگاری پر پروفیسر محمد اسلم کی کتب کو بیسویں صدی کی آخری دہائی میں شائع ہونے والی کتب میں اوّلیت حاصل ہے تاہم ڈاکٹرمحمد منیر احمد سلیچ کوپاکستان میں وفیات نگاری کے امام کا درجہ حاصل ہے۔ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ کا تحقیقی کام نہایت مستند ، مفصّل اور پائے کا ہے ۔ اقبال اور گجرات،خفتگانِ خاکِ گجرات(۱۹۹۶؁ء)،وفیات نامورانِ پاکستان (۲۰۰۶؁ء)،وفیاتِ اہلِ قلم پاکستان(۲۰۰۸؁ء)تنہائیاں بولتی ہیں(۲۰۱۲؁ء)اور وفیات نعت گویان پاکستان جیسی کتب پہلے ہی ان کے کریڈٹ پر ہیں اور اب انہوں نے مختلف شہروں کے مشاہیر کے اعدادوشمار پر مبنی کتب شائع کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ اس سلسلے کا آغاز انہوں نے کراچی سے کیا ہے۔حال ہی میں ڈاکٹر صاحب کی کتاب ’’وفیات مشاہیر کراچی‘‘شائع ہوکر منظر عام پر آئی ہے جس میں۲۵۰۰،ایسے افراد شامل ہیں جو ۱۵،اگست۱۹۴۷؁ء سے ۳۱دسمبر ۲۰۱۵؁ء کے درمیانی عرصے میں فوت ہوئے اور ان کا تعلق کراچی سے تھا۔ہرشخصیت کے کوائف درج کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ اس کی وجۂ شہرت(شاعر ادیب،کھلاڑی،سیاستدان)، پورا نام ،والد کا نام ،تاریخ ولادت اور باالخصوص تاریخ وفات ضرور درج کی جائے۔مشاہیراہل قلم کی کتب کی تفصیل بھی کتاب میں موجود ہے ۔ مشاہیرکے کارناموں کا تذکرہ اور ان کو ملکی وغیر ملکی سطح پر ملنے والے اعزازات کی تفصیل بھی اس کتاب میں اہتمام کے ساتھ درج ہے۔کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں رفتگان کراچی پر اس سے قبل لکھی گئی کتابوں پر مؤلف کی طرف سے ایک مختصر جائزہ بھی شامل کیا گیا ہے۔اس جائزے میں مؤلف نے ان کتب میں درج غلط یا نامکمل تواریخ وفیات کی صفحہ نمبر کے ساتھ نشاندہی کی ہے۔’’وفیات مشاہیر کراچی‘‘ ۳۲۵صفحات پر مشتمل ہے اور اسے’’ قرطاس‘‘ کراچی نے شائع کیا ہے۔کتاب کا انتساب کراچی کے ممتاز شاعر،ادیب اور محقق جناب عقیل عباس جعفری کے نام ہے۔ تحقیق کے بنیادی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب کے شروع میں اشاریہ مرتب کیا گیا ہے اور آخر میں کتابیات میں ان تمام کتب،اخبارات اوررسائل کا نام درج ہے جن سے دوران تحقیق مدد لی گئی ۔ڈاکٹر صاحب نے کچھ ویب سائٹس سے بھی استفادہ کیا لیکن کتابیات میں ان کا اندراج نہیں۔کتاب کے شروع میں پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل اور ڈاکٹر رؤف پاریکھ کی آرا ء شامل ہیں جو ڈاکٹرمحمدمنیر احمد سلیچ کے کام کے مستند ہونے کی دلیل ہیں اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔تحقیق ایک مشکل اور تھکا دینے والا کام ہے مگر ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ دشت تحقیق کا وہ مسافر ہے جس نے اس صحراکو نہایت کامیابی سے عبور کیاہے۔ڈاکٹر صاحب بنیادی طور پر ذہنی مریضوں کے معالج ہیں۔میڈیکل کالج میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں،ہسپتال میں بھی وقت صرف کرتے ہیں اور شام کو اپنا کلینک بھی چلاتے ہیں۔اپنے خاندان اور دوستوں کے لئے بھی ہمہ دم حاضر رہتے ہیں اور سماجی رابطے بھی بحال رکھے ہوئے ہیں۔اس عدیم الفرصتی کے باوجود تحقیق کا کام بھی جاری رکھے ہوئے ہیں اور تحقیق بھی مستند۔ڈاکٹر صاحب نے اردو اور پنجابی ہر دو زبانوں میں ایم بھی کر رکھا ہے۔میں ایک عرصے سے ڈاکٹر صاحب کے کام کو دیکھ رہاہوں۔آپ کی تواریخ وفیات کو کوئی چیلنج نہیں کرسکتا۔ہرچھوٹے بڑے شہر میں وفات پانے والے مشاہیرکے اعداد وشمار آپ کے پاس ملیں گے۔اکثر وفیات نگار ،شخصیات کے مدافن کا تذکرہ نہیں کرتے مگر ڈاکٹر صاحب کے ہاں اس بات کا خاص اہتمام ہے کہ کون سی شخصیت شہر کے کس قبرستان میں دفن ہوئی۔تحقیق میں حوالہ نہایت ضروری سمجھا جاتا ہے ۔ڈاکٹر صاحب کبھی حوالے کے بغیر بات نہیں کرتے اور ہرشخصیت کے احوال و آثار کے بعد اصل ماخذ درج کرتے ہیں۔مستند تواریخ وفیات تک رسائی ایک نہایت مشکل مرحلہ ہے ۔اخبارات ورسائل میں شائع ہونے والی خبروں میں اکثر تاریخیں صحیح درج نہیں ہوتیں۔الواح قبور پر لکھی ہوئی تواریخ مستند جانی جاتی ہیں مگربعض اوقات الواح قبور پر درج تواریخ بھی غلط ہوتی ہیں۔ مگر ڈاکٹر صاحب نے نہایت محنت اور جانفشانی سے تمام بنیادی اور ثانوی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے درست تواریخ وفیات درج کی ہیں جو انہی کا خاصہ ہے۔مشاہیر کراچی کے بعد اب اگلے مرحلے میں ڈاکٹر صاحب مشاہیر لاہور پر کام کا ارادہ رکھتے ہیں۔ہم ان کی کامیابی و کامرانی کے لئے دعاگو ہیں۔
Khalid Mustafa
About the Author: Khalid Mustafa Read More Articles by Khalid Mustafa: 22 Articles with 51179 views Actual Name. Khalid Mehmood
Literary Name. Khalid Mustafa
Qualification. MA Urdu , MSc Mass Comm
Publications. شعری مجموعہ : خواب لہلہانے لگے
تحق
.. View More