بعث بعد الموت

شکور صاحب ہمارے ایک نئے مہربان دوست ہیں،بہت خاموش اور کم آمیز شخصیت کے مالک ہیں،ایک دن کہنے لگے ،جناب ،جب بدن چورہ چورہ ہوجائے،باریک ذرات میں بدل جائے،بکھر بھی جائے،تو اسے دوبارہ کیسے مرکب ومرتب کرکے زندہ کیا جاسکتاہے!میں نے دل ہی دل میں کہا کہ شکور تو نا شکرا نکلا،پھر میں نے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوۃ کے سابق امیر مولانا عبد المجید لدھیانوی مرحوم کے ایک بیان سے چیدہ چیدہ اقتباسات کے ذریعے سمجھانے کی یوں کوشش کی: تمہاری ابتداء کہاں سے ہوئی؟ نطفے سے ہوئی اور حیض کے خون سے ہوئی اور یہ نطفہ تیار کہاں سے ہوا؟ غذا سے،اور حیض کا خون کس چیز سے بنا، غذا سے،اور غذا آپ نے کہاں سے حاصل کی؟ مٹی اور زمین سے، اب جو کچھ آپ کھاتے ہیں،گویا وہ سب مٹی ہیں، مثال کے طور پر آپ نے آج بکرے کا گوشت کھایا اور اس سے آپ کے وجود میں تھوڑا سا گوشت پیدا ہوگیا ،آپ کے ساتھ پیوند لگ گیا، تو بکرے نے کہاں کہاں سے چارہ کھایا تھا، کہاں کہاں سے پانی پیا تھا اور کہاں کہاں اس نے وقت گزارہ تھا، جہاں جہاں سے اس نے چارہ کھایا تھا،وہاں وہاں کے ذرات اس کے ذریعے سے آپ کے بدن میں آکے پیوست ہوگئے۔

گویاآپ کے کچھ ذرات کھیتوں میں بکھرے ہوئے تھے، کچھ ذرات درختوں کے پتوں میں تھے، کچھ ذرات غلے کی شکل میں تھے، بکرے نے غلہ کھایا‘ چارہ کھایا‘ درختوں کے پتے کھائے‘ وہ سارے اجزاء اکٹھے ہوئے، اس کے وجود میں آئے اور آپ نے اس کو کھایا ،تو جو حصہ آپ کے وجود کا تھا وہاں آگیا۔یہ ایک بوٹی جو آپ کھاتے ہیں، اس میں معلوم نہیں کتنے علاقوں کے بکھرے ہوئے ذرات اکٹھے ہوئے ہوتے ہیں ، آپ کے پیٹ میں آکے پڑ جاتے ہیں اور آپ کے بدن کے ساتھ پیوست ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح آپ نے دودھ پی لیا اور دودھ پینے سے آپ کے بدن میں کچھ اضافہ ہوا، بھینس نے جو دودھ بنایا ہے، اس کے لئے بھینس نے کہاں کہاں سے چارہ کھایا، کہاں سے پانی پیا، یہ سب مختلف علاقوں میں بکھرے ہوئے اجزاء تھے، جو بھینس کے ذریعے سے اکٹھے ہوکے ،دودھ بن کے آپ کے پاس آئے، آپ نے پیا، تو جو بکھرے ہو ئے ذرات تھے، وہ اس دودھ کے ذریعے آپ کے بدن کے ساتھ آکے پیوست ہوگئے، ورنہ جس وقت آپ پیدا ہوتے ہیں، تو بہت چھوٹے سے ہوتے ہیں (نو انچ)، اب یہ جو آپ کی تعمیر ہوتی جارہی ہے ،ساری غذا کے ذریعے سے ہوتی جارہی ہے اور غذا کہاں کہاں سے آتی ہے؟ کویت سے آتی ہے‘ افریقہ سے آتی ہے‘ امریکہ سے آتی ہے، یورپ سے آتی ہے‘ سعودیہ سے آتی ہے، افغانستان سے آتی ہے،ادویات کی شکل میں آتی ہے، فروٹ کی شکل میں آتی ہے، گوشت کی شکل میں آتی ہے، پانی کی شکل میں آتی ہے، دودھ کی شکل میں آتی ہے، آپ کے ذرات پوری کی پوری دنیا میں بکھرے پڑے ہیں ،جن کو اﷲ نے اکٹھاکرکے آپ کا وجود بنا دیا، ایک ہی جگہ سے مٹی لے کے آپ کا کالبوت بنا کے نہیں کھڑا کردیا گیا، کہ آپ کہیں یہ سمجھیں کہ ہمارے سارے ذرات یہیں پڑے ہوئے تھے۔

تو اگر آپ اوّلِ خلق کا مطالعہ کرلیں، تو آپ کو یہ سمجھنا آسان ہوجائے گا کہ پوری دنیا میں بکھرے ہوئے ذرات اکٹھے کرکے اﷲ انسان کو بناتا ہے اور اگر پہلے بکھرے ہوئے ذرات اکٹھے کرکے بنا سکتا ہے، تو مرنے کے بعد اگر اس کے ذرات بکھر جائیں، تو دوبارہ اکٹھے کیوں نہیں کرسکتا۔

قرآن ِکریم میں اﷲ تعالیٰ اول خلق کا جو حوالہ دے کر اِعادۂ خلق کی دلیل دیتے ہیں کہ اعادہ خلق آسان ہے اول خلق سے۔ تو اول خلق کو آپ اس تفصیل کے ساتھ سمجھئے کہ اول خلق کوئی ایسی نہیں کہ بیٹھے ہی بیٹھے ایک ہی جگہ سے آپ کو گھڑ کے بنادیا۔ اول خلق میں آپ کے ذرات زمین سے لے کے آسمان تک اور زمین کے ہر حصے میں آپ کے ذرات پھیلے ہوئے ہیں، جو مختلف ذریعوں سے آپ کے بدن میں داخل ہوتے ہیں، داخل ہونے کے بعد جُڑتے چلے جاتے ہیں اور جڑنے کے بعد آپ کا ایک وجود بن جاتاہے، جس وقت آپ مریں گے‘ مرنے کے بعد اگر یہ ذرات ہوا میں بھی اڑا دیے جائیں، تو کیا ہوگیا ،زیادہ سے زیادہ ایک علاقے میں بکھر جائیں گے، اگر آپ کو سمندر کے جانور کھا گئے، سمندر کے جانور بھی آخر مریں گے اور آپ کے ذرات کہیں نہ کہیں جائیں گے۔ لیکن رہیں گے تو زمین میں، (قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْاَرْضُ) زمین جو کچھ گھٹاتی ہے تمہیں کھا جاتی ہے وہ ہمیں سب کچھ پتہ ہے۔ تو اگر یہ سارے ذرات سمندروں میں بکھر جائیں۔ دریاؤں میں بکھر جائیں۔ جنگلات میں بکھر جائیں۔ تو اول خلق کو مطالعہ کرو، تمہیں سمجھ آجائے گا کہ پہلے بھی اﷲ نے بکھرے ہوئے اجزاء اکٹھے کرکے ہمیں بنایا تھا، اگر پھر ہمارے اجزاء بکھر گئے تو دوبارہ بنانا اﷲ کے لیے کیا مشکل ہے؟

تو دلیل کی بنیاد اس پر رکھی گئی اور سرور کائنات ﷺ نے سمجھانے کے لیے ہمیشہ یہی مثال دی، قرآن کریم میں بھی اسی مثال کو ذکر کیا گیا کہ تم دیکھوتو سہی زمین ویران پڑی ہے اور اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بارش آتی ہے( کَیْفَ یُحْیِیْ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا) پھر اس مردہ زمین کو اﷲ کس طرح سے زندہ کردیتا ہے،کہ یہ حرکت کرتی ہے، اس میں سے نباتات پھوٹتی ہیں، جس طرح سے اس مردہ زمین کو اﷲ آباد کرتا ہے،( کَذٰلِکَ نُحْیِ الْمَوْتٰی) ہم مردوں کو بھی اسی طرح سے زندہ کریں گے، یہ زمین سے نکلنے شروع ہوجائیں گے۔،جس طرح سے مٹی میں سے بارش کے ساتھ نباتات پیدا ہونے شروع ہوجاتی ہیں۔

بہر حال قرآن نے جہاں بھی ذکر کیا ہے ،تو اﷲ کی قدرت کو ذکر کیاکہ اﷲ پہاڑ بنانے پہ قادر ہے۔ اﷲ آسمان بنانے پر قادر ہے، تو جس نے اتنے بڑے بڑے وجود بنا دیے، تو کیا وہ تمہیں دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا، تو مشرکین کو یہ بات اسی انداز میں سمجھائی گئی کہ اﷲ تعالیٰ کی قدرت کو جانتے ہوئے تم یہ عقیدہ رکھو کہ جس نے پہلی دفعہ تمہیں پیدا کیا ہے، وہ تمہیں دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔

اس لیے اسلام کا یہ بعث بعد الموت کا عقیدہ اسی انداز کے ساتھ سمجھا جاسکتا ہے، اﷲ کی قدرت کے تناظر میں، اس لیے‘ موت اسلام میں فناء مطلق نہیں ہے کہ مرنے کے ساتھ انسان فناء ہوجائے اور کچھ باقی نہ رہے۔ بلکہ موت اﷲ تعالیٰ کی تقدیر کے تحت آتی ہے۔ خاص کیفیات کے تحت آتی ہے اور موت کے ساتھ انسان دوسرے عالم میں منتقل ہوجاتا ہے،جس کو ہم عالمِ برزخ کہتے ہیں اور عالمِ برزخ کی انتہاء کب ہوگی یہ اﷲ بہتر جانتا ہے۔

جس طرح سے پیٹ کی کمزور زندگی کے بعد اس دنیا کی زندگی آئی۔ پیٹ میں محدودمدت تک رہنا ہوتا ہے،تقریباً نو مہینے،لیکن اس مدت کا پتہ باہر والوں کو ہوتاہے ،اندر پیٹ والے کو نہیں ہوتا، اُس کے بعد اِس دنیا میں طویل مگر غیر معینہ مدت تک رہنا ہوتاہے۔باری تعالیٰ اور کچھ فرشتوں کو بھی شاید یہ مدت معلوم ہو،پر ہم دنیا والوں کو کوئی اتہ پتہ نہیں ہوتا،نیز یہاں کے بعد پھر ہمیں زمین کے پیٹ میں منتقل کیا جائے گا، پھر ہمیں زمین سے نکالا جائے گا، پھر طویل زندگی آئے گی، اسی تفصیل کے ساتھ ہم آخرت میں منتقل ہوں گے،یہ کیفیات برزخ کے احوال ہیں۔بہرکیف کسی کو اس مفصل گفتگو کے بعد بھی بعث بعد الموت اگر سمجھ نہ آوے،تو اسے فقط فہم وادراک کا قصور سمجھا جائے۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 814961 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More