آڈٹ پیرا

پیرے کئی طرح کے ہوتے ہیں اور ہر مضمون میں کئی پیرے ہوتے ہیں۔ کچھ بڑے کچھ چھوٹے۔ ادیب اور ادب سے شغف رکھنے والے لوگ کسی بھی مضمون کو سونگھ کر ہی بتا دیتے ہیں کہ اس کا کون سا پیرا خوش اسلوب ہے۔ کونسا بس روائتی سا ہے۔ کونسا سیاسی اور کونسا اخلاقی ہے۔ کونسا اچھا اور کونسا برا ہے۔ مگر یہ آڈٹ پیرا ایک وکھری ٹائپ کا پیرا ہوتا ہے۔گو شکل و صورت میں یہ عام پیرے کی طرح ہی ہوتا ہے مگر اس کی حر مت سے صحیح طور پر وہی سرکاری ملازم واقف ہوتے ہیں جن کی ترقی یا ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی مراعات کے راستے میں یہ پیرا پوری طرح ڈٹ کر کھڑا ہو جاتا ہے اور باوجود کوشش کے ہٹنے کا نام نہیں لیتا۔ اس پیرے کو کوئی ادیب نہیں لکھتا اور نہ ہی لکھ سکتا ہے۔اسے لکھنے کے لئے ایک خاص مخلوق ہوتی ہے جسے آڈیٹر کہتے ہیں۔ یہ لوگ ہر سال ہر سرکاری محکمے میں بلائے ناگہانی کی طرح آتے اوراگر آپ نے ان کے قیام کے دوران کچھ تجاہل عارفانہ سے کام لیا اور ان کی خدمت میں کچھ کسر رہ گئی تو یہ جاتے جاتے ایک عدد آڈٹ پیرا آپ کی نذر کر جائیں گے کہ عمر کا بقیہ حصہ اس سے کھیلتے آرام سے گزار لیں۔ ویسے یہ پیرا لکھنے والے بھی بعض اوقات ضدشامل ہوتی ہے اور کچھ اسے جان بوجھ کر دوسری قدروں کے حوالے سے لکھتے ہیں-

کالج کے زمانے میں مجھے یاد ہے میں طلبا کو مری کی سیر کو لے کر گیا۔ خرچ طلبا ہی نے کیا۔ پیسے انہی کے پاس تھے۔ میں فقط ہمراہ تھا۔نوجوان عمر کے اس حصے میں تھے کہ جب ریاکاری اور فریب ان کا خاصا نہیں ہوتا۔ بڑی ایمانداری سے تمام حساب انہوں نے مجھے لا دیا۔ میں نے حساب چیک کیا اور اکاؤنٹس ڈیپارٹمتٹ کو جمع کرا دیا۔ کچھ چھ سات ماہ کے بعد آڈیٹر آ گئے۔ پورے کالج پر ہیبت طاری تھی۔ پرنسپل ان دنوں بڑے نرم دل ہو گئے۔ آڈیٹر وائس پرنسپل کے کمرے پر قابض ہو گئے اور وائس پرنسپل بے گھر۔ کالج کے پندرہ استاد کہ جن کی خدمت گزاری شک اور شبے سے بالا تھی ،پرنسپل صاحب کے ساتھ ان کی خدمت پر معمور تھے۔ صبح شام بہترین کھانا وہ جس ہوٹل سے چاہتے منگوا لیا جاتا یا اگر وہ پسند کرتے تو کسی اچھے ہوٹل میں جا کر کھایا جاتا۔ موج لگی تھی۔ میرے خیال میں سرکار کا پیسہ ناجائز طور پر بے دریغ خرچ ہو رہا تھا اور میں نے اس کا اظہار بھی کیا۔ پرنسل نے ہنس کر کہا۔ تم اپنے ارشادات سنبھال کر رکھو اور یاد رکھو آڈیٹر کے قریب بھی نہیں جانا۔اگلے دن پرنسپل صاحب نے مجھے خود بلایا۔ ان کے سامنے میرا دیا ہوا بچوں کے ٹور کا حساب پڑا تھا۔ کہنے لگے آڈیٹر صاحب کہتے ہیں کہ جن ویگنوں میں بچوں نے سفر کیا ہے ان کے پیسے تو درج ہیں مگر رسیدیں نہیں۔میں نے کہا کہ بس اور ریل کی ٹکٹیں لف ہیں ۔ ویگن والے کچھ دیتے ہی نہیں کہاں سے لائیں۔ میں اٹھا کہ آڈیٹرسے خود بات کرتا ہوں ۔ پرنسل کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ گھبرا کر بولے تم جاؤ میں خود سب کر لوں گا۔ مجھے اس کے بعد کسی نے اس حساب کا نہیں پوچھا۔

کافی عرصہ پہلے میرے ہمسائے میں ایک جنگجو قسم کی بہت زبردست خاتون رہتی تھی ان کے میاں آڈیٹر تھے۔ مہینے کے بیس پچیس دن گھر سے باہر گزارتے تھے۔ ایک رات گھر آتے پھر تین چار دن غائب۔ پتہ چلتا آڈٹ پر گئے ہیں۔ مہینے کی پہلی تاریخوں میں جب وہ گھر ہوتے تو دفتر سے واپسی پر ان کی بیگم زبردستی ان سے ساری تنخواہ چھین لیتی۔ میں نے ایک دن مذاق میں کہا خالہ کچھ رقم تو ان کے لئے چھوڑ دیا کرو۔ ان کی بھی کچھ ضروریات ہیں۔ خالہ نے ہنس کر کہا ، کونسی ضرورت۔ جہاں جاتا ہے کھانا، چائے، سگریٹ سمیت ساری ضروریات وہ پوری کرتے ہیں جن کا آڈٹ ہوتا ہے۔ پیسے اس کے پاس اتنے ہوتے ہیں کہ عام طور پر اس کی غیر موجودگی میں اس کی چیزوں کی تلاشی لے کر نکال لیتی ہوں۔ اس نے کبھی پوچھا بھی نہیں۔ پوچھے گا کیسے آپ سے مار کھانی ہے۔ میری یہ بات سن کر خالہ کھلکھلا کر ہنس دی۔ کیا خوب فطرت کا نظام ہے۔ وہ شخص کہ جس کی آمد پر سرکار کا پورا محکمہ کانپ جاتا ہے گھر میں بیوی کے سامنے بھیگی بلی بنا ہوتا ہے۔

مجھے کئی سال سے اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفتر میں ایک ذاتی کام ہے۔ وہاں کام کروانے کے لئے پوری توانائی اور خاصہ فالتو وقت درکار ہوتا ہے۔میں سدا کا سست۔ دوستوں کی مہربانی سے ہو جائے گا اسی امید پر گزارا ہے۔ ہر دوسرے تیسرے مہینے ایک چکر لگا لیتا ہوں۔ عموماً اپنی سیٹ پر کوئی نہیں ہوتااور ہوتا ہے تو مسکرا کر ملتا ہے۔ چائے پلاتا ہے اور باہر کا راستہ اس یقین کے ساتھ دکھاتا ہے کہ ڈھونڈھ رہے ہیں بس پرانا رجسٹر ملنے کی دیر ہے کام ہو جائے گا۔ مجھے پتہ ہے پرانا رجسٹر نہیں ملنا مگر امید تو قائم رکھنی چائیے۔چند دن پہلے اسی امید کا سہارا مجھے AG Office لے گیا۔گیٹ کے قریب ہی شاہ صاحب سے ملاقات ہو گئی۔ شاہ صاحب بہت بھلے اور اس دفتر کے نامور آدمی ہیں۔ اپنی سیٹ پر کبھی نہیں ہوتے۔ خدمت خلق کے حوالے سفارش کرتے ہرجگہ نظر آتے ہیں۔ میرے بھی سفارشی ہیں۔ مجھے دیکھ کر بولے آ جاؤ۔ میرے ساتھ جو میرے دوست ہیں ان سے بھی ملاؤں اور کہیں بیٹھ کر چائے پیتے ہیں۔ مگر میرا کام؟ اسے بھی دیکھ لیتے ہیں۔ پھر خود ہی کہنے لگے۔ اس دفتر میں کام کرنے والے سبھی جنگل کے بادشاہ ہیں۔ مرضی سے کام کرتے ہیں کوئی انہیں پوچھ نہیں سکتا کوئی احتساب ممکن نہیں۔میں ہنسا،سارا ملک ہی چڑیا گھر ہے۔کیا کیا جائے کہ ہمارے سارے سیاسی لوگ بھی خود کو جنگل کا بادشاہ کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں ہمارے وزیراعظم اور ان کے سارے حواری شیرہیں۔ دوسری سیاسی جماعتوں کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے ۔تلاش کے باوجود انسان کہیں نہیں ملتا۔ ان شیروں نے ملک کو تباہ کر دیا ہے مگر کوئی انہیں پوچھ نہیں سکتا ۔ کوئی احتساب ممکن نہیں۔

چائے کی میز پر شاہ صاحب کے دوست سے ملاقات ہوئی۔ صادق آباد کے کسی دفتر سے ان کا تعلق تھا۔ پوچھا بھائی لاہور کیسے آئے۔ کہنے لگے ، میرے دفتر کے سینئر ترین افسر انتہائی ایماندار ہیں۔ آڈٹ کے دوران ایک آڈیٹر نے آڈٹ پیرا بنا دیا ہے جس کے مطابق کچھ رقم غلط خرچ کی گئی ہے ۔ اب دو ہی صورتیں ہیں یا تو غلط استعمال کی گئی رقم میرے سینئر افسر اپنی جیب سے خزانے میں جمع کرا دیں یا پھر آڈٹ کے سینئر لوگ میرے دفتر کا موقف تسلیم کر لیں۔ میں چار مہینے سے تقریباً ہر ہفتے صادق آباد سے لاہور آتا ہوں۔ کسی دن سیٹ پر کوئی نہیں ہوتا اور اگر کوئی سیٹ پر مل جائے تو ایک نیا اعتراض لگا دیتا ہے۔ میں اپنے دفتر سے ہر ہفتے تین دن غائب رہتا ہوں۔ ایک دن صادق آباد سے ؒاہور آتا ہوں۔ رات کسی ہوٹل میں کزارتا ہوں۔ دوسرے دن اس دفتر میں آڈٹ پیرے کے خاتمے کی ناکام کوشش کرتا ہوں او ر رات پھر کسی ہوٹل میں گزار کر تیسرے دن ناکام و نامراد واپس لوٹ جاتا ہوں۔

آپ کو تو آنے اور جانے کا خرچہ ملتا ہو گا۔ آپ کو کیا غم۔ ملتا ہے اور بہت خوب ملتا ہے۔ پچھلے چار پانچ ماہ کے دوران میں نے ٹی۔اے اور ڈی۔اے کی مد میں تقریباً چالیس ہزار سے زیادہ رقم وصول کی ہے۔ مگر مجھے اب شرم آنے لگی ہے ۔ ایک تو تین دن دفتر سے غیر حاضری۔ ضرورت کے مارے لوگ بہت خوار ہوتے ہیں۔میری خواہش تھی کہ یہ پیسے میں خود جمع کرا دوں مگر میرا ایماندار افسر اس کی اجازت نہیں دیتا۔ وہ کہتا ہے کہ آڈیٹرز نے یہ رقم جان بوجھ کر ڈالی ہے۔ اسلئے ہمیں ان کو منہ توڑ جواب دینا ہے۔ بالکل ٹھیک کہتا ہے۔ ایسے لوگوں کے سامنے تھوڑی سی لچک بھی بد دیانتی ہے شرم کیسی؟

چالیس ہزار سے زیادہ میں وصول کر چکا ہوں۔ خلق خدا میری دفترسے غیر موجودگی میں علیحدہ پریشان ہے اور مزے کی بات یہ کہ آڈٹ پیرے میں اعتراض شدہ رقم فقط ایک سو بیس (120) روپے ہے اور اس معمولی رقم کی وجہ سے میں ایمانداری اور بے حسی کے درمیان جھولے لے رہا ہوں ۔ وہ لوگ تو شرم سے شاید واقف نہیں مگر میں جو شرمندگی خود میں محسوس کر رہا ہوں آپ میرے اس احساس کو تو زندہ رہنے دیں۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 443026 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More