عبد الستار ایدھی ایک فکر وکردار کا نام ہے جسے اپنانے کی ضرورت ہے

انسانیت کی خدمت کے نام پہ بے شمار ادارے پاکستان میں اور پوری دنیا میں کام کر رہے ہیں، بے شمار شخصیات انسانوں کی خدمت کا کام کر رہی ہیں۔لیکن ان میں ایک نام، ایک کردار، ایک شخصیت جو سب سے منفرد، سب سے جدا اپنی پہچان رکھتی ہے اسے لوگ عبد الستار ایدھی کے نام سے جانتے ہیں۔ ایک انتہا درجے کی سادگی، ایک درویشی، ایک بے غرضی، ایک بے لوثی، غریب پروری، یہ وہ اوصاف تھے جو انہیں دوسروں سے ممتاز کرتے ہیں۔انہوں نے کم عمری سے انسانوں کی خدمت کا کام شروع کیا۔سرمایہ نہ تھا، نہ کوئی وسائل کی سبیل تھی، بیمار ماں کی خدمت کرتے کرتے دوسرے لوگوں کی خدمت کا جذبہ دل میں موجزن ہوا اور نکل پڑے انسانوں کی مدد کے لئے۔مقاصد واضح ہوں اور بلند تر ہوں تو کامیابی یقینی ہوتی ہے۔دنیا میں سب سے بڑا اور اعلیٰ مقصد انسانیت کی خدمت کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔اور پھر اس مقصد کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا جائے اور اپنی ذات سے بے پرواہ ہو کر فقط دوسروں کے غموں میں شریک ہوا جائے۔تو کامیابی ہم قدم ہی رہتی ہے۔کیوں کہ مظلوموں، پریشان حالوں کی دعائیں کبھی رائیگاں نہیں جاتیں۔انسانوں سے پیار کرنے والے پہ خالق کائنات کو بھی پیار آتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں انسانیت کی ایک تذلیل یہ بھی تھی وہ بچے جنہیں گناہ کی پیداوار سمجھ کر پھینک دیا جاتا تھا، ایدھی نے ان کے لئے جھولے لگائے، اگرچہ کہ اس عمل پہ ان کی کافی مخالفت کی گئی لیکن انہوں نے کسی کی پرواہ کئے بغیر ان بچوں کو اپنا نام دیا، انہیں نئی زندگی دی، ایک اچھا انسان بنانے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔اور اس طرح لاکھوں بچوں کو قتل ہونے سے بچایا۔

کہیں بھوکوں کو کھانا کھلا رہے ہیں، اور کہیں معذور افراد کی خدمت میں جتے ہوئے ہیں، تو کہیں گلی گلی جھولی پھیلائے لوگوں سے لوگوں کی مدد کی اپیل کرتے نظر آتے تھے۔کہتے تھے میں تو فقیر ہوں لوگ میری مدد کرتے ہیں۔ان کی اس فقیری اور درویشی میں بھی ایک طرح کی امیری پنہاں تھی۔ان کا دل انسانوں کے لئے و سعتوں سے لبریز تھا،ان کی اس امارت کا مقابلہ بڑے سے بڑا سرمایہ دار نہیں کر سکتا تھا۔انہوں نے فقیری اختیار کی، اپنی انا کو کبھی اپنے مشن کے راستے میں حائل نہیں ہونے دیا، کبھی لوگوں کے پیسے کو اپنی ذات پہ خرچ نہیں کیا، ایک دفعہ ان کے دفتر میں ان کا ملازم ایک مہمان کے کہنے پہ چائے کا ایک کپ بنا کر لایا، تو ایدھی نے اس کا برا منایا اور اسے تنبیہہ کی کہ چندے کا پیسہ ہم مہمانوں کی آؤ بھگت میں نہیں خرچ کر سکتے، انہوں نے کبھی بھی ادارے سے تنخواہ نہیں لی، ہمیشہ لوگوں کی امانت کی حفاظت کی اور اسے لوگوں پہ پوری دیانت داری سے خرچ کیا، دوسری طرف ہمارے حکمران جو قوم کے پیسے کو کس بے دردی ڈھٹائی سے لوٹ رہے ہیں، قومی امانت کو اپنے خاندانوں اور رشتہ داروں پہ لٹا رہے ہیں اور معاشرے میں لوگوں کو بنیادی ضروریات کے لئے ترسا رہیں ۔عبد الستار ایدھی نے معاشرے کے لئے اور ان کرپٹ حکمرانوں کے لئے یہ سبق چھوڑا کہ کس طرح اپنی ذاتی اغراض و ذاتی تعیشات کوبالائے طاق رکھ کر دیانت داری اور سچائی سے لوگوں کی امانتوں کی حفاظت کی جاتی ہے اور انہیں مستحقین تک پہنچایا جاتا ہے۔

عبد الستار ایدھی نے انتہائی سادگی سے چھوٹے سے کوارٹر میں اور دو جوڑے کپڑوں میں اپنی زندگی کے اس طویل سفر کا اختتام کیا، اپنی خوداداری پہ کبھی حرف نہ آنے دیا، کسی سرمایہ دار اور حکمران کی امداد قبول نہیں کی، عام لوگوں کو ہی اپنا حمایتی اور مددگار سمجھتے تھے، اور ان ہی سے چندے کی اپیل کرتے تھے، ان کی مدد اور کفالت کا سلسلہ بلا رنگ ونسل و مذہب، فرقہ سب کے لئے دراز تھا۔کوئی حادثہ ہو یا دہشت گردی، قدرتی آفات کے نتیجے میں تباہی ہو یا کسی اور وجہ سے انسان متاثر ہوں ایدھی کے رضاکار اور ایمبولینس ہمیشہ بروقت اور بلا کسی تفریق کے موجود ہوتی ہیں۔شرق و غرب میں کہیں سے کبھی کسی حادثے کی خبر آتی وہ وہ اپنی موجودگی کا احساس دلاتے۔

انہوں نے عملی طور پہ خواتین کو معاشرے میں اپنے پاؤں پہ کھڑا کر کے معاشرے کو ایک سماجی ترقی اور ارتقاء کا ایک ایسا عملی پیغام دیا۔ جسے نئی نسل کو سمجھنا چاہئے،انہوں نے خواتین کو اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونا سکھایا، سب سے پہلے انہوں نے بلقیس ایدھی کو ایک اعتماد دیا، انہیں آگے لے کر آئے، انہیں مینجمنٹ میں لائے اور یہی وجہ ہے کہ بلقیس ایدھی کے زیر انتظام کئی ادارے اس وقت کامیابی سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔انہوں نے اپنے اداروں میں بچیوں کو ایک کامیاب زندگی گزارنے کے حوالے سے تربیت فراہم کی اور کر رہے ہیں۔

عبد الستار ایدھی نے بلا تفریق مذہب و مسلک و فرقہ خدمت انسانیت کی بنیاد پہ تمام انسانوں سے محبت کا عملی پیغام دیا۔انہوں نے ہر بے کس، مجبور، لاچار اور ضرورت مند کی بلا امتیاز مدد کی۔انہوں نے ہمیشہ امن و آشتی کا پیغام دیا، اکثر اوقات فلاحی ریاست کی بات کرتے تھے، وہ چاہتے تھے کہ پاکستان میں ایک غریب پرو حکومت ہو تاکہ معاشرے سے یہ محرومیاں ختم ہوں ، لوگوں کو ان کے حقوق حاصل ہوں۔وہ اکثر اپنی نشستوں میں حکمرانوں اور ان سرمایہ داروں جاگیرداروں کو ہدف تنقید بناتے تھے جو معاشرے میں لوگوں کا استحصال کرتے ہیں اور انہیں بنیادی ضروریات سے محروم رکھتے ہیں۔

اپنی ساٹھ سالہ جدو جہد میں انہوں نے انسانوں کی خدمت کے ذریعے جو سکون اور خوشی سمیٹی اس کا اندازہ الفاظ سے نہیں لگایا جا سکتا۔وہ امر ہو گئے لوگوں کے جم غفیر نے انہیں خراج تحسین پیش کیا، ملک کے طول وعرض میں شہروں، دیہاتوں میں ان کے لئے دعائیں ہو رہی ہیں، ان سے بچھڑنے کا غم سب کی آنکھوں اور چہروں پہ نمایاں ہے۔آئیے ان کے نقش قدم پہ چلیں۔ ان کے اس کردار کو اپنائیں، ہر شہر اور علاقے میں خدمت خلق کا کام کریں، انسانیت کی خدمت کی فکر کو معاشرے میں پروان چڑھائیں،ذاتی و گروہی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اجتماعی مفادات کو اہمیت دیں۔

اور خاص طور پہ قومی خزانے کو لوٹنے والے اور عوام کو بنیادی ضروریات سے محروم کرنے وا لے چوروں کا بھی محاسبہ کیا جائے ، دوسروں کی مدد کے ساتھ ساتھ اس شعور کو بھی عام کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ایک طرف اس فرسودہ استحصالی نظام نے معاشرے میں غربت و افلاس اور محرومی پیدا کرنے کا میکنزم بنا رکھا ہے ایسی صورت میں اگر ہزاروں ایدھی بھی پیدا ہوں تو معاشرے سے محرومیوں کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔لہذا ضروری ہے کہ معاشرے کے ان ناسوروں کے خلاف بھی جدو جہد کی جائے۔
Dr. Tahira Kaukab
About the Author: Dr. Tahira Kaukab Read More Articles by Dr. Tahira Kaukab: 2 Articles with 1634 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.