فرانسیسی دہشت گردایمائل ہنری کی جیوری کے سامنے تقریر

دہشت گردی اس صدی کا سب سے بڑا المیہ ہے۔جس سے پوری دنیا نبٹنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ یوں تو دہشت گردی کی بہت سی وجوہات ہیں مگر معاشرے میں ہونے والی دہشت گردی کی دو بڑی وجوہات جن میں معاشرتی اور سیاسی نا انصافی سر فہرست ہیں ان سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ جن معاشروں میں قانون کی عملداری ایک عام آدمی کی پہنچ سے دور ہواور نا انصافی عروج پرہو ایسے معاشروں میں حساس لوگ ریاستی اداروں کو پامال کرتے ہوئے اپنے حقوق بزور طاقت حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہو جاتے ہیں ۔ یہ یقین کہ تشدد یا پھر اسکی دھمکی پر اثر ہوتی ہے اور بدلے میں حقوق کو حاصل کیا جاسکتا ہے یا پھر یوں کہہ لیجئے کہ تشدد کو اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے جائز قرار دینا اور اسکے نتیجے میں بے گناہوں کے خون کو متشددانہ رویوں سے جواز فراہم کرنا دنیا کا کوئی قانون ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتا ۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ بہت سے دہشت گرد وں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ انہوں نے تشدد کی راہ کو انتہائی فکر اور سوچ بچار کے بعد اختیار کیا کیونکہ اپنے جائز حقوق حاصل کرنے کیلئے انہیں اسکے علاوہ اور کوئی دوسرا راستہ نہیں سجھائی دیتا تھا اور دہشت گردی کے راستے کو اپنانے کی یہ تشریح اتنی آسان نہیں کہ اسے ہضم کیا جا سکتا ہو۔ آئیے ہم فرانس کے ایک ایسے نو جوان کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں کہ اسنے حالات سے تنگ آکر دہشت گردی کا راستہ کیوں چنا اور جس راستے کا چناؤ اسنے کیا وہ کسی طور بھی ایک قابل قبول راستہ ہو سکتا ہے۔اسکامنتخب کیا ا ہوا راستہ دہشت گردی کا راستہ تھا جو کسی طور بھی قابل معافی نہیں تھا ۔ دہشت گردی کسی بھی شکل میں ہو اسے اسکے انجام تک پہنچایا جانا ہی اصل میں دہشت گردی کے خاتمے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

اسکا نام ایمائل ہنری تھا وہ فرانس کے شہر پیرس میں 21مئی 1872ء کو پیدا ہوا وہ انتہائی حساس تھا فرانس کی رعایا پر حکومت کے ڈھائے جانے والے روز روز کے مظالم ، بھوک ننگ ، نا انصافی، قانون کا محکوم طبقات کیساتھ کھلواڑ، حکومت کے ظلم و تشدد اور جبر کے خلاف آواز بلند کرنے کی پاداش میں بے رحمانا اور انسانیت سوز سلوک اور بے دردی سے دی جانے والی سزاؤں نے اسکے دل میں فرانس کی حکومت کیلئے نفرت کی چنگاریاں بھر دیں اور وہ نراج کی طرف مائل ہو کر نفرت کی اس آگ میں سلگ سلگ کر دہشت گردی کی طرف مائل ہوگیا۔ اسنے 12مئی 1894ء میں فرانس کے ایک ہوٹل میں بم پھاڑ دیا جسکے نتیجے میں بیس لوگ زخمی اور ایک شخص کی موت واقع ہوگئی ۔ اسے گرفتار کرکے دہشت گردی کی اس کارروائی میں 21مئی 1894ء کو پھانسی دے دی گئی۔ اسنے اپنا سر قلم ہونے سے پہلے فرانس کی جیوری کے سامنے نڈر اور بے باک تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’’ میں نے حال ہی میں نراجیت میں قدم رکھا تھا۔ اتنا لمبا عرصہ نہیں ہوا یہ کوئی 1891ء کی ہی بات ہے کہ میں نے ایک انقلابی تحریک کو جوائن کیا۔ میں ماضی میں ان حلقوں میں رہتا تھا جواسٹیبلشمنٹ کی اخلاقیات سے جڑا ہوا تھا۔ میں قوانین کا احترام کرتا تھایہانتک کہ میں قوم، خاندان، اختیار اور املاک کے اصولوں کا پابند تھا۔ لیکن وہ جو موجودہ نسل کو تعلیم دے رہے ہیں وہ اکثرایک بات کو بھلا دیتے ہیں کہ زندگی جدو جہد کا نام ہے، اس میں ہر طرف جبر و استبدادہے، نا انصافیاں ہیں اور حقوق زنی کا دور دورہ ہے، ہر طرف عام لوگوں کی زندگی کو اجیرن کرکے رکھدیا گیا ہے اور ہر طرف بے حسی ہے اور لوگوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں ۔ حکمرانوں کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے اور انہیں رعایا کا کوئی خیال نہیں ہے اور یہی وہ حالات تھے جنہوں نے مجھے اس نہج پر لا کھڑا کیا اور میں آج حقیقت کے قریب تر ہوں اور ہر ایک یہ بات بخوبی جانتا ہے۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ زندگی بہت آسان ہے اور یہ انسان کو روشن دماغی بخشتی ہے۔ تجربہ کار اور گھاگ لوگوں نے مجھے دکھایا کہ صرف نادر شاہی حکم چلانے والے اور بیوروکریٹس ہی اس ملک میں اچھے اچھے عہدوں پر فائز ہو کر غریب عوام کی چھوٹی چھوٹی امنگوں کو کچل کر انکی آہوں اور سسکیوں پر اپنے محل تعمیر کرنے میں سب سے آگے ہیں۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ ہمارے معاشرے کے اداروں کی بنیاد برابری کی سطح اور انصاف پر رکھی گئی ہے اور میں نے اپنے چاروں طرف نظر دوڑا کر دیکھا مجھے نہ ہی کہیں انصاف دکھائی دیا اور نہ ہی برابری کی سطح پر انسانوں سے سلوک کا کوئی اچھا نمونہ نظر آیا۔ ہر طرف امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا تھا۔ یہ سب جھوٹ اور مکرو فریب پر مبنی معاشرہ ہے جس میں جس کی لاٹھی اسکی بھینس کے مصداق سب کچھ ہو رہا ہے۔ مجھے یہ بات سمجھنے میں کچھ دیر نہیں لگی کہ یہ ہمارے حکمرانوں کے الفاظ کا گورکھ دھندا ہے اور اسکے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ عزت، شہرت، فرائض، حقوق، قربانی اور خدمت کے لبادے میں ملبوس یہ شرمناک، جھوٹے حکمران خود کو کھوکھلے الفاظ کی ملمع کاریوں میں لپیٹ کر عوام کے سامنے سرخ رو ہونے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں۔ فیکٹریوں اور صنعتوں کے مالک مزدوروں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر انکی ساری محنت پر ڈاکہ ڈال کر ا نہیں انکی بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم کئے ہوئے ہیں۔ وزیر و مشیر جنکے لمبے لمبے ہاتھ ہر وقت رشوت خوری اور لوٹ مارکیلئے کھلے رہتے ہیں انہوں نے عوام کی خدمت کا وعدہ کیا تھا مگر وہ اسکے بر عکس نکلے۔ ہمارے یہاں کے افسر اپنی نئی بندوق کی کارگردگی کو ایک سات سال کے بچے پر فائر کرکے جانچتے ہیں اور پارلیمینٹیرین انہیں اس بات پر مبارکباداور شاباش دیتے ہیں اور واہ واہ کرتے ہیں۔ میں نے جو کچھ اپنی ان آنکھوں سے ہوتے ہوئے دیکھا وہ ظلم و تشدد اور بربریت کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھاان حالات نے میری آنکھیں کھول دیں اور میں مایوس ہو گیا کہ اس معاشرے کی جھوٹی اشرافیہ کس طرح بے کس اور بے بس لوگوں کی حقوق زنی میں مصروف ہے۔ مجھے اپنی ہی آواز کی گونج بار بار سنائی دیتی تھی کہ معاشرے میں ہونے والی اس بے حس حکومت کی لوگوں کیساتھ کی جانے والی نا انصافیوں نے مجھے اس نہج پا لا کھڑا کیا کہ میں آج اپنے ہی معاشرے میں ایک دہشت گرد کے طور پر جانا جا رہا ہوں حالانکہ میرا اس میں کوئی قصور نہیں ہے مجھے یہ سب کچھ ان بے رحم آقاؤں کا ہی دیا ہوا ہے جس نے مجھے انکی دشمنی پر مجبور کرکے مجھے ایک مجرم بنا دیا۔ میں معاشرے کا پڑھا لکھا اور حساس شہری تھا۔ وقتی طور پر سوشل ازم کیطرف رجحان میں میں نے پارٹی سے دور رہ کر اپنا وقت ضائع نہیں کیا، میں آزادی سے والہانہ لگاؤ رکھتا تھا ، میرا انسانوں سے برتاؤ اور انہیں دعوت دینا بہت عظیم تھا۔ میں نے کبھی بھی اپنے ذاتی مفاد ات کو ملک اور قوم کے مفادات پر ترجیح نہیں دی ۔ مجھے معلوم ہے کہ سوشل ازم ایک جست میں کسی بھی جاری نظام کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ اسکے کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں اور معاشرے کو تبدیل کرنے کیلئے وقت درکار ہوتا ہے اور کچھ اصولوں پر کاربند ہوکر ہی اپنی منزل کو حاصل کیا جاتا ہے۔ وہ بے رحم جنگ جس کا اعلان ہم نے بورژاؤں کے خلاف کیا ہوا ہے ہم ان پر ہرگز رحم نہیں کھائینگے۔ ہم موت کو گلے لگا تے ہوئے انکا مقابلہ کرینگے اور مجھے تمہارے اس فیصلے کا انتظار رہیگا۔ میں ان لوگوں کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے حکومت کی پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے انکے خلاف محاذ قائم کیا۔ میں جانتا ہوں کہ حق کہ راستے میں کٹنے والا میرا سر آخری سر نہیں ہوگاتم را ہ حق پر چلنے والوں کا نہ جانے کتنا خون اور بہاؤ گے اور نہ جانے کتنے اور سر کاٹو گے۔ شکاگو میں موت کے پھندے پر لٹکائے جانے والے بے گناہ محنت کش ، جرمنی میں معصوم لوگوں کے سروں کا قلم کیا جانا ، گیس چیمبرز میں مارے جانے والے بے گناہ لوگ، بارسلونا میں بے رحمی سے کاٹے جانے والے بے گناہوں کے سر، اور پیرس میں قلم کئے جانے والے لوگوں کے سر ، یہ ایک ایسی لا زوال داستان ہے جو نا ختم ہونے والی داستان ہے ۔ سن لو ! کہ تم اس نادر شاہی حکومت کیخلاف ہمار ی اس دشمنی کو کبھی بھی ختم نہ کر سکو گے کیونکہ اسکی جڑیں ا ب بہت گہری ہو چکی ہیں۔ اس گلے سڑے اور بدبو دارمعاشرے کے پروردہ ایک روز ضرور منہ کے بل گریں گے اور ہم اس فسطائی نظام سے ایک رو ز ضرور چھٹکارہ حاصل کر لینگے۔ یہ تشدد کی وہ لہر ہے جس نے تمہاری چیرہ دستیوں کی کوکھ سے جنم لیا ہے اور اب یہ جوابی رد عمل تمہیں خس و خاشاک کی طرح بہا کر لیجائیگا۔ یہ تمہارے جبر ، نا انصافی، غیر مساویانہ رویوں اور تمہارے مظالم کیخلاف ایک ایسی لہر ہے جسے مغلوب کرنا تمہارے بس کا روگ نہیں ہوگااور ہم تمہیں یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ اب تمہارے مظالم کے رد عمل میں ہم تمہیں شکست دے کر رہینگے۔ اور اب ہم تمہیں شکست سے ہمکنار کرکے رہینگے موت ہر طرف تمہارے تعاقب میں ہے تمہارے ظلم کی داستان اب تمہاری موت پر منتج ہوگی‘‘ ۔ یہ تھی وہ جذباتی تقریر جو ایمائل ہنری نے اپنی موت سے پہلے جیوری کے سامنے کی ۔ پوری دنیا اس بات پر متفق ہے کہ دہشت گردی کسی بھی صورت میں کہیں بھی قابل قبول نہیں۔ دنیا کا کو ئی نظام اپنے حقوق کے حصول کیلئے متشددانہ کاروائیوں کی راہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتا اسطرح معاشرے تباہ و برباد ہو جایا کرتے ہیں۔
Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 139142 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.