کاش ہم پڑھ لیتے

وہ طالب علم جو پڑھائی کو ادھورا چھوڑدیتے ہیں زمانے بھر کی پریشانیاں ان کا مقدر بن جاتی ہیں
متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے حامد اور اسلم دونوں ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے۔۔ حامد اسکول کے ہونہار طالب علموں میں شمار کیآ جاتا تھا۔۔ کیونکہ اسکول میں پڑھنے کے بعد بھی وہ گھر پر کافی وقت پڑھائی کو دیتا تھا۔۔ اسی وجہ سے وہ ہمیشہ اسکول میں پوزیشن حاصل کرنے والے طالب علموں میں سرفہرست ہوتا تھا۔۔ اتنی محنت کرنے پر اساتزہ بھی اس کی حوصلہ افزائی کرتے نظر آتے۔۔ اس کے برعکس اسلم کا ذیادہ تر وقت دوستوں کے ساتھ غل غپاڑے میں گزرتا۔۔ پڑھائی کو ہمیشہ ٴغیرسنجیدہ لینا اس کی عادت بن گئی تھی۔۔ امتحانوں کے دنوں میں نقل کے زریعے کامیابی حاصل کرنا اس کی فطرت میں شامل ہوگیا تھا۔۔ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا اور دونوں اسکول سے کالج میں پہنچ گئے۔۔ کالج اور پھر میڈیکل کالج اور پھر ادھر سے فارغ ہونے کے بعد حامد ڈاکٹر بن گیا۔ آج وہ ڈاکٹر حامد کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔۔ شہر کے معروف ہسپتال میں مریض اس سے اپنا علاج کروانے آتے ۔۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کی ساری نعمتیں اللہ تعالئ نے اسے عطاء کردیں۔۔ شادی بھی اس کی اچھے گھرانے میں ہوئی بچے بھی شہر کے اعلی اسکولوں میں تعلیم حاصل کررھے تھے۔۔ زندگی بڑے سکون سے گزر رھی تھی۔۔ اب ڈاکٹر حامد کا نام ملک کے بڑے ڈاکٹروں میں لیا جانے لگا۔۔

دوسری طرف اسلم نے کالج میں بھی پڑھائی کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور انٹر کے بعد ہی پڑھائی کو ادھورا چھوڑ دیا۔۔ دوستوں کے ساتھ تفریح کرنا راتوں کو جاگ کر وقت ضائع کرنا اس کی عادت بن گئی تھی۔۔ آخر کب تک وہ ذمہ داریوں سے بھاگتا جب ذمہ داریوں کا بوجھ پڑا تو ایک انشورنس کمپنی میں ملازمت اختیار کرلی۔۔ معمولی تنخواء اور دن بھرشہر کی سڑکوں پر گھومنا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔۔ گھبراء کر اس نے ملازمت چھوڑ دی اور سیلزمین کی حیثیت سے دکان پر کام کرنے لگا اسی دوران اس کی شادی بھی ہوگئی اب تو وہ اور بھی ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دب گیا۔۔ اب تو اس کی زندگی میں نہ وہ دوست تھے اور نہ تفریح، تھی تو صرف سخت محنت اور اس کے بدلے میں معمولی تنخواء، بچے بھی شہر کے معمولی اسکول میں تعلیم حاصل کررہے تھے۔۔ وقت نے اسے وقت سے بہت پہلے بوڑھا کردیا تھا۔۔ صرف تعلیم کو نظرانداز کرکے اس نے اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی زندگی سے سکون کو دور کردیا تھا۔۔

ہماری درسگاہوں سے دو ہی قسم کے راستے باہر نکلتے ہیں ایک وہ راستہ ہے جب طالب علم اپنی تعلیم مکمل کرلے اور دوسرا جب طالب علم تعلیم کو ادھورا چھوڑ دے۔ اب یہ نوجوانوں پر منحصر ہے کہ وہ حامد کی طرح ایک کامیاب زندگی گزارنا چاہتے ہیں یا اسلم کی زندگی کو ترجیح دیتے ہیں۔۔

وہ طالب علم جو پڑھائی کو ادھورا چھوڑ کر زمانے کی پریشانیوں کا مقابلہ کرتے کرتےتھک جاتے ہیں کیا کبھی انھیں اپنی غلطی کا احساس بھی ہوتا ہے۔ یہ جاننے کے لیے میں بہت سے ایسے لوگوں سے ملا جو پڑھائی چھوڑ کر سخت محنت کر کے زندگی گزار رھے ہیں ان سب کا ایک ہی جواب تھا۔ – کاش ہم پڑھ لیتے- تو ایک اچھی زندگی گزار رھے ہوتے۔۔۔۔۔
 
Ghufran ul Haque
About the Author: Ghufran ul Haque Read More Articles by Ghufran ul Haque: 9 Articles with 10224 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.