ایک آئیڈیل منافق

ایک آئیڈیل منافق کیسا ہوتا ہے؟ بظاہر اس سوال کا جواب دینا کافی آسان لگتا ہے کیونکہ جس بہتات میں ہمارے معاشرے میں منافقین دستیاب ہیں اس سے ہمیں ایک آئیڈیل منافق کا نقشہ کھینچنے میں مشکل پیش نہیں آنی چاہئے لیکن مصیبت یہ ہے کہ میڈیا کے اس دور نے ہر خاص و عام کو اداکار بنا دیا ہے۔ عوام ہوں یا حکمران، ہر کوئی میڈیا پر آ کر اس بے باکی سے جھوٹ بولتا ہے کہ اچھے اچھے منافقوں کے ماتھے پر پسینہ آ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فی زمانہ نہ صرف منافقین کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے بلکہ آئے روز ان کی نت نئی قسمیں بھی دریافت ہو رہی ہیں تاہم فی الحال میرا ارادہ صرف آئیڈیل منافق کی مدح سرائی کا ہے۔ ممکن ہے آپ میں سے کچھ نیک احباب یہ کہہ کر میرے اس ارادے کے آگے پل باندھنے کی کوشش کریں کہ منافق، بھلے آئیڈیل ہی کیوں نہ ہو، تعریف کے لائق نہیں ہوتا… بجا ارشاد، لیکن آج کل کے دور میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے منافقت جو کلیدی کردار ادا کرتی ہے، اس سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ وہ زمانے گئے جب محض جھوٹ بول کر منافق بنا جا سکتا تھا، آج کل کے ہائی ٹیک دور میں منافقت بھی ”ڈیجیٹل“ ہوگئی ہے اور لوگ سائینٹفک بنیادوں پر منافقت سے کام لے کر کامیابی کی منازل طے کرتے ہیں۔ سو، خواتین و حضرات! اگر آپ منافقت پر یقین نہیں بھی رکھتے تو بھی ”ڈیجیٹل منافقت “ کے اس دور میں زندہ رہنے کے لئے آپ کو منافقت کے اسرار و رموز سے آگاہی ضروری ہے اور یہ کالم ایسے ہی بھلے لوگوں کی ہدایت کے لئے لکھا گیا ہے۔

ایک آئیڈیل منافق ایسا شخص ہوتا ہے جس کے بارے میں اگر پتہ بھی چل جائے کہ وہ منافق ہے تو بھی اس بات پر یقین کرنے کو دل نہ مانے۔ دوسرے لفظوں میں ایک آئیڈیل منافق اپنے بناوٹی دھیمے مزاج، ظاہری خوش اخلاقی، غیر ضروری سادگی اور طفلانہ عاجزی سے پہلے لوگوں کو اپنا گرویدہ بناتا ہے اور پھر ان کی جڑیں کاٹتا ہے۔ ایسا شخص جتنا زمین سے اوپر نظر آتا ہے، درحقیقت اتنا ہی زمین کے نیچے بھی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات اچھے خاصے سمجھدار لوگ بھی اس کی شخصیت سے دھوکہ کھا جاتے ہیں اور جب انہیں اس کی منافقت کا پتہ چلتا ہے تو انہیں یقین نہیں آتا۔ ان منافقین کی ایک نشانی یا کمزوری یہ بھی ہوتی ہے کہ یہ نالائق ہوتے ہیں اور اپنی اسی نالائقی کو چھپانے کی خاطر یہ منافقت کا سہارا لیتے ہیں، فی الحال یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ایک آئیڈیل منافق کامیابی کی سیڑھیاں کیسے پھلانگتا چلا جاتا ہے؟ اس سوال کا جواب کسی حد تک پیچیدہ ہے کیونکہ منافق شخص کسی set pattern یا مروجہ طریقے پر عمل کر کے کامیابی حاصل نہیں کرتا بلکہ وہ مختلف موقعوں پر جھوٹ، خوشامد اور دروغ گوئی جیسے مختلف ٹوٹکے استعمال کر کے اپنے مدمقابل کو نیچا دکھاتا ہے بشرطیکہ مدمقابل اس سے بڑا منافق نہ ہو۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک آئیڈیل منافق عام لوگوں میں کافی مقبول ہوتا ہے کیونکہ وہ جان بوجھ کر صرف ان نظریات کا پرچار کرتا ہے جن کو عوامی سطح پر پذیرائی حاصل ہوتی ہے اور پھر اس عوامی پذیرائی کی مدد سے وہ کامیابی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ تاہم واضح رہے کہ ایک حقیقی عوامی رہنما اور ایک منافق میں بنیادی فرق یہ ہوتا ہے کہ منافق جن باتوں کا پرچار کرتا ہے ان پر اس کا اپنا اعتقاد نہیں ہوتا۔

ایسے منافق سے بچنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اس کے سامنے منافقت کا لبادہ اوڑھ لیا جائے۔ ذرا تصور کیجئے ایک ایسے شخص کا جو آپ کو زہر لگتا ہے اور جس کی شکل سے ہی آپ کو نفرت ہے، اگر بوجوہ ایسے شخص کی خوشامد کی ضرورت پڑ جائے تو آپ کیا کریں گے؟ ایک آئیڈیل منافق کے لئے یہ بائیں ہاتھ کا کام ہوگا جبکہ ایک اناڑی منافق جو در حقیقت منافق نہیں لیکن وقتی ضرورت کے تحت منافقت کا لبادہ اوڑھے ہے، اس قدر بھونڈے انداز میں خوشامد کرے گا کہ الٹا لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ اسی طرح اگر کسی آئیڈیل منافق کو کہا جائے کہ اس نے ”سرمایہ دارانہ نظام میں مزدور کا استحصال “ کے عنوان پر ایک تقریر کرنی ہے تو بھلے وہ خود ہی سب سے بڑا استحصالی سرمایہ دار کیوں نہ ہو، وہ ایسی خوش کن تقریر کرے گا کہ اچھے خاصے سوشلسٹ بھی پناہ مانگیں گے۔ اس کے برعکس ایک جز وقتی منافق اس انداز میں تقریر کرے گا کہ لوگوں کو لگے گا جیسے یہ موضوع کی مخالفت میں تقریر کر رہا ہے۔ ایسے منافق اتنے ہی خطرناک ہوتے ہیں جتنے کہ سچ بولتے ہوئے بچے!

پچھلے دنوں ایک اناڑی منافق سے ملاقات ہوئی، موصوف کو اس نا چیز سے کوئی چھوٹا سا کام تھا۔ کسی نے اسے مشورہ دیا تھا کہ وہ میری خوشامد کرے تو اس کا کام ہو جائے گا۔ مشورہ برا نہیں تھا۔ چنانچہ مجھے دیکھتے ہی انہوں نے ”پیر صاحب“ کا ایک نعرہ بلند کیا اور قریب تھا کہ وہ میرے گھٹنوں کو چھوتے، میں نے انہیں اشارے سے منع کر دیا حالانکہ خدا جانتا ہے میں نے محض رسماً ہی منع کیا تھا لیکن وہ سچی مچی پیچھے ہٹ گئے۔ پھر انہوں نے ایک غیر ضروری معانقہ کیا اور کہنے لگے کہ ”آپ پہلے سے کافی زیادہ اسمارٹ ہو گئے ہیں!“ میں نے گھور کر انہیں دیکھا کیونکہ مجھے لگا کہ وہ میری تعریف نہیں بلکہ طنز کر رہے ہیں۔ وجہ یہ تھی کہ پچھلے دنوں میرا وزن کچھ بڑھ گیا تھا چنانچہ مجھے ان کی ”اسمارٹنس“ والی یہ بات زہر میں بجھے ہوئے نشتر کی طرح چبھی۔

خیر، اسی قسم کی مزید دو چار بے معنی باتیں اور اپنی تئیں میری خوشامد کرنے کے بعد انہوں نے اپنا مدعا بیان کیا اور کہنے لگے کہ یہ کام دنیا میں میرے علاوہ اور کوئی نہیں کر سکتا۔ کام کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے، میں نے بھی ان سے ایک منافقانہ قسم کا وعدہ کر لیا جس پر انہوں نے فوراً یقین کر لیا کیونکہ وہ ایک اناڑی منافق تھے۔ اگر ان کی جگہ کوئی سکہ بند قسم کا منافق ہوتا تو کبھی یقین نہ کرتا کیونکہ ایک منافق دوسرے منافق کی رمز کو اچھی طرح سمجھتا ہے۔

اچانک خیال آیا اگر کوئی منافق اقرار کر لے کہ وہ منافق ہے تو کیا اسے منافق سمجھا جائے گا۔ اس کے جواب میں پہلا ردعمل یہ ہوگا کہ اصل شخص جو درحقیقت منافق ہے اور اس کا اقرار کر رہا ہے تو اسے منافق ہی سمجھا جانا چاہئے۔ دوسری طرف یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ اگر کوئی منافق اس بات کا اقرار کر رہا ہے کہ وہ منافق ہے تو چونکہ وہ منافقت کا اقرار کر رہا ہے اس لئے اس کی اس بات کو بھی منافقت ہی سمجھا جانا چاہئے لہٰذا اس اقرار کے باوجود وہ شخص منافق نہ ہوا۔

خواتین و حضرات! اس معمے کی روشنی میں میری تمام آئیڈیل منافقین سے دست بدستہ گزارش ہے کہ وہ کھل کھلا کر اپنی منافقت کا اقرار کر لیں کیونکہ اوپر دی گئی دلیل کی بنیاد پر انہیں منافق نہیں سمجھا جائے گا۔ ویسے بھی ہمارا معاشرہ منافقین سے بے حد محبت کرتا ہے اور اس محبت کا ثبوت ہم ہر الیکشن میں اور ہر فوجی ٹیک اوور کے بعد، مٹھائیاں بانٹنے کی شکل میں ببانگ دہل دیتے ہیں!

(This article is permitted by the author to publish here)

Yasir Pirzada
About the Author: Yasir Pirzada Read More Articles by Yasir Pirzada: 30 Articles with 60633 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.