ٹماٹر

ٹماٹر کی مقبولیت کی کوئی ایک وجہ نہیں،یہ خوبیوں کا منبہ ہے، سب سے پہلی اور اہم خوبی تو اس کی رنگت ہے، دور سے ہی یہ نظروں کو بھاتااوراپنی طرف متوجہ کرلیتا ہے، ایسا شوخ رنگ پایا ہے کہ بس دیکھتے ہی رہ جائیں، اگر یہ صحت مند اور صاف ستھرا ہو تو سونے پہ سہاگہ۔ یہ تو دکان دار کا کمال ہے کہ وہ کس طرح گاہک کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ ٹماٹر ایک خوبصورت معاون سبزی ہے، اس کی خوبیوں کی بنا پر یار لوگ اسے کچا ہی کھا جاتے ہیں، بس کچھ نمک پاشی کرنا پڑتی ہے۔ ٹماٹر کو سالن کے لئے بھی لازم و ملزوم کر لیا گیا ہے، جس سالن میں ٹماٹر نہیں ہوگا، وہ ذائقہ کی دولت سے محروم ہی رہے گا۔ ٹماٹرکی رنگت تو محاورے کی صورت اختیار کر چکی ہے، سرخ وسپید رنگت والے کو ٹماٹر سے ہی تشبیہ دی جاتی ہے، یہ الگ کہانی ہے کہ ایسی رنگت ٹماٹر کھانے سے آتی ہے یا اس کے لئے کوئی اور خوراکیں بھی درکار ہوتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے، مگر یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ٹماٹر کھا کر ٹماٹر کا رنگ چڑھتا ہے۔ بات صرف رنگت پر ہی ختم نہیں ہوتی،ٹماٹر کی گول مٹول (جُھریوں اور داغوں سے پاک) شکل بھی مشابہت کے لئے استعمال کی جاتی ہے، ظاہر ہے جس کا رنگ ٹماٹر جیسا ہوگا تو چہرے کی تازگی اور صحت بھی ٹماٹر جیسی ہی ہوگی۔

ٹماٹر کو حضرت انسان نے ( خاص طور پر کھانا پکانے کی اس ترقی کی دوڑ نے )بہت زیادہ اہمیت دے دی ہے۔ ٹماٹر کو صرف کاٹ کر اور اس کے اوپر نمک چھڑک کر کھانے کی بات ہی نہیں، اس کو کُوٹ پیس کراس کے چھوٹے بڑے پیکٹ بنائے جاتے ہیں، معاملہ ’ساشے‘ سے شروع ہوتاہے اور کئی لیٹر تک جاتا ہے، ہر کوئی اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق خریدتا اور استعمال کرتا ہے۔ کھانے والی خشک چیزوں کا ذائقہ بڑھانے اور ان کی خشکی میں کمی کا ذریعہ بھی ہوتا ہے۔ فاسٹ فوڈ کے اس دور میں اب بہت سارے ساشے ساتھ ملتے ہیں۔ ٹماٹر کی خوبصورتی کا اس کی صحت کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے، جب یہ کچھ پرانا ہو جاتا ہے تو اس پر جھریوں کا راج ہوتا ہے، وہ پِلپلا بھی ہو جاتا ہے، دلچسپ بات ہے کہ ایسے میں بھی اس کی مانگ کم نہیں ہوتی، اس صورت میں اسے مقامی ہوٹل کی انتظامیہ خرید لیتی ہے، سالن میں ڈالنے کاکام تو ہوتا ہی ہے، اس کی مقامی سطح پر ہی کیچپ بھی بنائی جاتی ہے، جو ساشے یا کسی پیکنگ کی صورت میں نہیں، بلکہ کسی بوتل یا پلیٹ میں ڈال کر پیش کردی جاتی ہے، ہم لوگ بحیثیت قوم چونکہ کھانے پینے کے بے حد شوقین واقعہ ہوئے ہیں، اس لئے یہ غور کم ہی کرتے ہیں کہ کھا کیا رہے ہیں؟ اسی کشمکش میں بہت کچھ کھا جاتے ہیں۔

ٹماٹر صرف کھانے کے کام ہی نہیں آتا، اس سے ایک اور اہم کام بھی لیا جاتا ہے، وہ ناپسندیدہ لوگوں کو مارنے کے کام آتا ہے۔ اگرچہ یہ بھی کہا جاتا ہے اس کارِ خیر کے لئے گلے سڑے ٹماٹر ہی استعمال میں لائے جاتے ہیں، مگر اس بات کا زیادہ امکان نہیں ہوتا، کیونکہ جس قدر ان کا استعمال ہوتا ہے، اتنی تعداد میں گلے سڑے اور خراب ٹماٹر کس نے محفوظ کر رکھے ہوں گے؟ ان ٹماٹروں کا استعمال اس وقت ہوتا ہے، جب کسی مخالف سیاستدان کا جلسہ ناکام کرنا ہو، کسی کی تقریب کی ایسی تیسی پھیرنی ہو، کسی کے استقبال کے پروگرام کو تہہ وبالا کرنا ہو، توا یسے میں یہی ٹماٹر کام آتے ہیں۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ایسی کاروائی زیادہ تر اپنے ہی لوگوں کے درمیان کی جاتی ہے، جہاں دو دھڑوں کی بات ہو، کسی مخالف پارٹی کے ساتھ ایسا کرتے ہوئے ٹماٹر کے بدلے میں ڈنڈے بھی کھانے پڑ سکتے ہیں۔ حالیہ رمضان المبارک سے پہلے ٹماٹر کا اس قدر بڑا ریلا آگیا تھا، کہ دکانوں اور ریڑھیوں پر ان کو سنبھالنا مشکل ہو گیا تھا، اس صورت میں یہ پندرہ سے بیس روپے کلو فروخت ہو رہا تھا، مگر رمضان المبارک کے مہینے کا اس پر اتنا اثر ہوا کہ یہ یکایک ڈیڑھ دو سو روپے کلو تک چلا گیا۔ حکومت اور اس کی پوری مشینری کے چھاپے ناکام ہوگئے، انہوں نے بہت کوشش کی مگر (ٹماٹر سمیت بہت سی اشیا کی) قیمتیں ہاتھوں سے نکل گئیں۔ عید پر عوام اس ڈش سے محروم رہ گئے، تاہم ’ٹماٹر رنگ ‘ لوگوں کے لئے یہ قیمت بھی زیادہ نہیں، اتنے مہنگے ٹماٹر کھانے والے ٹماٹر کی طرح نہ ہونگے تو کیا بے حال عوام کو یہ رنگ چڑھے گا؟

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428347 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.