حکمرانوں کی نا اہلی اور پینے کا صاف پانی

ہمارے نا اہل حکمرانوں کو ابھی تک یہی معلوم نہ ہو سکا ہے کہ ہماری قوم کے معیارات، ترجیحات اور اجتماعی ضروریات کیا ہیں۔ہماری قوم کا یہ ایک ایسا دردناک المیہ ہے کہ جب ہم اپنے حکمرانوں کی ازہانی کیفیت کو دیکھتے ہیں تو ایسا محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے حکمران ہی ہماری تباہی کا سب سے بڑا سبب ہیں۔کیونکہ انہوں نے اپنی قوم کے معیار ات اور ترجیحات کا مطالعہ ہی نہیں کیا ۔ اگر ہم قوموں کی زوال پزیری کے بارے میں مطالعہ کریں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے کبھی یہ طے ہی نہیں کیا کہ قوم کی تعمیر اور ترقی میں وہ کون سی راہیں ہیں جنکے دروازے کھول کر ہم اپنی قوم کو انمیں داخل کر سکتے ہیں۔ ایسی قوموں کے حکمران جو عیاشیوں میں وقت گزارتے ہوں جو قوم کے درد کو محسوس نہ کرتے ہوں اور حرام کی دولت کی بھول بھلیوں میں کھو کر عوام کیلئے مشکلات کے پہاڑ کھڑے کر دیں ایسی قوموں کی تباہی یقینی ہو جایا کرتی ہے۔ جن قوموں کے اہداف عیاشی میں ڈوبے ہوئے حکمران طے کرتے ہیں وہ قومیں کبھی بھی اپنی ترجیحات اور معیارات کو حاصل نہیں کر سکتیں اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ ہم میں سے نہیں ہے۔ وہ تو صرف ہم پر حکومت کرتے ہیں انہیں ہماری ضروریات اور ترجیحات کے بارے میں کیا علم؟؟۔ ہماری حکومت کی ترجیحات انکے ذاتی مفادات اور منافع بخش وہ پراجیکٹ ہیں جن سے وہ اربواں روپیہ کما سکتے ہوں۔ انہیں کیا معلوم کہ قوموں کی ضروریات اور ترجیحات ایسے پراجیکٹ اور پروگرام ہوا کرتے ہیں جن سے قوم کی پیاس اور بھوک کو ختم کرکے انہیں طاقتور بنانا ہوتا ہے جبکہ ہماری قوم پیاس اور بھوک کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔ پاکستا ن میں جہاں پوری قوم کو دہشت گردی کا خوف اور سامنا ہے وہیں شاید ہم یہ بھول چکے ہیں کہ دہشت گردی سے بھی ایک انتہائی بھیانک جن جو ہماری دہلیز پر کھڑ اہے اور ہمیں خطرے کی گھنٹی بجا بجا کر یہ بتا رہا ہے کہ پانی۔۔۔ پانی۔۔۔۔ اور بس پانی۔۔۔ کہ پانی ہی زندگی ہے۔۔۔۔۔ مگر ہمارے حکمران جو منرل واٹر کے بڑے بڑے کنٹینر انتہائی مہنگے داموں منگوا کر پیتے ہیں انہیں پینسٹھ فیصد ان عام اور غریب لوگوں کے بارے میں نہ تو کوئی علم ہی ہے اور نہ ہی کوئی پرواہ کہ آنے والا وقت ہمارے لئے انتہائی کڑا اور مشکل ہے اور ہم پانی کی ایک ایک بوند کیلئے ترس رہے ہونگے۔ جہاں پانی پر عالمی جنگوں کی تیاری ہو رہی ہے وہیں ہمارے گھروں، بازاروں، گلیوں اور شاہراہوں پر عنقریب خانہ جنگی کی سی صورت حال پیدا ہونے والی ہے اور اب پانی کی یہ خون ریز خانہ جنگی ہمیں مذید تباہی کی طرف لے جائیگی جس پر قابوپانا ہمارے حکمرانوں کے بس کا روگ نہیں ہوگا۔ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 65 فیصد لوگ پینے کے صاف پانی کو ترستے ہیں اور وہ اپنی صاف پینے کے پانی کی ضروریات کو مختلف طریقوں سے پورا کرتے ہیں ۔ یو این کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان تیزی سے صاف پانی کی کمی کی جانب بڑھ رہا ہے جس سے ہماری قوم ناپائیداری کا شکار ہو کر خطرے کی جانب بڑھ رہی ہے۔ شہری اور دیہاتی آبادی کی زندگیاں غیر محفوظ ہو چکی ہیں جو مختلف بیماریوں کا شکا ہوکر موت کا شکار ہو رہے ہیں۔ پشاور میں پینے کا پانی انتہائی آلودگی کا شکا ر ہو کر ہر سال سینکڑوں لوگوں کی جانیں لے رہا ہے۔ کراچی میں ہر سال آلودہ پانی پینے سے تیس ہزار لوگ موت نے منہ میں جا رہے ہیں۔پنجاب کے مختلف علاقوں میں زمین سے نکلنے والے پانی میں آرسینک کی مقدار خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے جس سے لوگ بیمار ہور ہے ہیں ایک محتاط اندازے کے مطابق پنجاب میں ہرروز 650بچے قے اور اسہال کی بیماری میں مبتلا ہو کر مر رہے ہیں۔آنے والے پانچ سے سات سالوں میں پاکستان پانی کی کمیابی کا شدت سے شکار ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ مگر ہماری حکومت عوام کو مارنے کے درپے ہے اور تا حال اپنی عیاشیوں میں مصروف ہے اور عوام کے اس انتہائی سلگتے ہوئے مسلئے سے لاتعلق ہو کر اپنی رنگ رلیوں میں مصروف ہے اور اسطرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔ بلوچستان کے مخلف شہر اور صوبہ پختونستان کے بہت سے شہروں میں ہر سال پینے کے صاف پانی کی کمی کیوجہ سے لاکھوں افراد جن میں خاص طور پر بچے شامل ہیں مختلف بیماریوں جن میں ہیپا ٹائٹس، ٹی بی، پولیو، پیٹ کے امراض اور دوسرے متعدی امراض شامل ہیں میں مبتلا ہو کر مر رہے ہیں مگر ہماری حکومت کی ترجیحات میں پانی نہیں بلکہ ایسی اسکیمیں ہیں جنکا انسانی زندگی سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اگلے 6-7سالوں میں لوگ پینے کے پانی کیلئے ترس رہے ہونگے۔ صرف 1000کیوبک میٹر پانی ایک سال میں ایک شخص کو مہیا ہوتا ہے جو کہ اندازاً پاکستان کے وجود میں آنے کے وقت سے تا حال پانچ گنا کم ہے۔ آنے والے سالوں میں 2020ء تک پینے کے پانی میں مذید کمی واقع ہو جائیگی جو ہماری حکومت کے بس کا روگ نہیں ہوگا۔ پاکستانیوں کا پینے کے پانی کیلئے سب سے بڑا ذریعہ زیر زمین پانی ہے۔ پنجاب اور سندھ کے دیہاتی علاقوں میں نہریں، تالاب، کنویں اور نلکے جبکہ شہری علاقوں میں نلکوں اور پانی کے پمپوں سے زیر زمین پانی کو نکالا جاتا ہے۔ اسی طرح نہروں اور دریاؤں کے قریب الیکٹرک پمپ لگا کر زیر زمین پانی کو نکال کر محفوظ کر لیا جاتا ہے اور اسے پینے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمارے سرکاری ادارے بے حسی ، کرپشن ، بد کرداری اور بد دیانتی کا شکار ہیں اور ہمارے بلدیاتی اور ماحولیاتی ادارے جن پر اربوں روپے کے فنڈات سالانہ خرچ کئے جاتے ہیں وہ عضو معطل ہو کر رہ گئے ہیں اور فیکٹریوں، کارخانوں کا زہریلا پانی اور اسی طرح گٹرز کا انتہائی زہریلا اور بدبو دار پانی ڈائریکٹ نہروں میں پھینک رہے ہیں جن سے انسان اور جانور نہ صرف بیمار ہو رہے ہیں بلکہ تیزی سے اس زہریلے پانی کو پینے سے موت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ہماری پچپن فیصد آبادی پینے کے پانی کو ترس رہی ہے اور پورے پاکستا ن میں جہاں لینڈ مافیا وجود میں آ کر لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کر رہا ہے وہیں پورے پاکستان میں انتہائی سرعت سے واٹر مافیا بھی معرض وجود میں آچکا ہے جو ہتھیاروں سے لیس ہو کر لوگوں سے پینے کیاپانی چھین کر انہیں موت کی نیند سلانے پر تلا ہوا ہے۔یہ واٹر مافیا ہماری سرکاری مشینری کا وہ حصہ ہے جسکو سیاستدانوں اور واٹر مینیجمنٹ کی آشیر واد حاصل ہے اور یہ لوگ کروڑوں روپے کا سرکاری پانی ہر سال بیچ کر جہاں لوگوں کو موت کی نیند سلا رہے ہیں وہیں یہ لوگ کروڑ پتی بن چکے ہیں مگر حکومت ان پر ہاتھ ڈالنے سے کتراتی اور خوف کھاتی ہے کہ حکومت کا یہ پالتو مافیا بہت طاقتور ہے اور جب چاہے پانی کی ترسیل بند کر دے۔ہمارے یہاں ڈالی جانے والے پانی کے پائپ 40-50سال پہلے ڈالے گئے تھے جو زنگ آلود ہو کر جگہ جگہ سے لیک ہو کر زیر زمین پھٹ چکے ہیں اور انمیں گٹر کا پانی شامل ہو چکا ہے۔جہاں انکے پھٹنے سے پانی زہر آلود ہو چکا ہے وہیں ان پھٹے ہوئے پائپس سے لوگوں کی کروڑوں کی عمارتیں بھی یا تو پھٹ چکی ہیں یا پرمنہدم ہو چکی ہیں جو ایک بہت بڑا المیہ ہے۔

بے شک پانی انسانی زندگی کیلئے ایک بہت بڑی نعمت ہے جسکے بغیر انسان کا زندہ رہنا نا ممکنات میں سے ہے مگر ہماری موجودہ حکومت کی تمام تر صلاحیتیں ایسے کاموں پر صرف ہو رہی ہیں جنکا انسانی زندگی سے دور دور تک تعلق نہیں ہے۔ اگر حکومت نے پانی کے مسلئے کیطرف توجہ نہ دی تو ممکن ہے کہ آنے والے سالوں میں پینے کے پانی کو ترستی ہوئی عوام انکے ایوانوں کی اینٹ سے اینٹ بجا کر اسے ان سے چھیننے اور خون خرابے پر منتج ہو۔ ہماری حکومت کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے جتنی جلد ممکن ہو سکے تمام فضول پراجیکٹس کو پس پشت ڈال کر پینے کے صاف پانی کے پراجیکٹس پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے ۔ ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ عام عوام کو اس مصیبت سے نکال کر معصوم بچوں کو دست و اسہال میں مبتلا ہوکر مرنے اور بیمار ہونے سے بچانے میں اپنا اہم کردار ادا کرے ۔
Anis Bukhari
About the Author: Anis Bukhari Read More Articles by Anis Bukhari: 136 Articles with 139143 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.