چاند دیکھنا تھا، چاند چڑھانا نہیں تھا

کبھی کبھی میرا دل مفتی عبدالقوی کے پاؤں چھونے کو کرتاہے۔ علامہ اور مولوی ہونے کے باوجود ان کے اندر کا طارق ٹیڈی پوری توانائی سے زندہ ہے۔ پچھلے دنوں جب ان کا واٹس ایپ فتویٰ آیا کہ شادی ایک اور نکاح متعدد ہونے چاہئیں توبہت سے شوہروں کے دل کی کلی کھل گئی۔قوی صاحب کی یہ وڈیو میں نے بھی بصد اہتمام دیکھی ، ماشا اللہ فتوے کے مندرجات بیان کرتے ہوئے مفتی صاحب کے دل و دماغ میں جو تراوٹ رقصاں تھی وہ ان کے چہرے سے بھی عیاں ہورہی تھی۔تاہم ایسے فتوؤں کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ بیویاں فوراًہی انہیں مستردکرکے جوتی اتارلیتی ہیں۔میں ایک ایسے صاحب کوجانتاہوں جواپنی بیوی سے بہت تنگ ہیں،ایک دفعہ میں نے کہاکہ حضورآپ طلاق کیوں نہیں دے دیتے؟ آہ بھرکربولے جونکاح کوخاطرمیں نہیں لاتی وہ طلاق کوکہاں لفٹ کرائے گی۔

مفتی عبدالقوی مزاحیہ ٹاک شوزکی رونق توہیں ہی،انہیں سوشل میڈیاپربھی وائرل ہونے کاہنرآگیا ہے۔پچھلے دنوں فرمایاکہ مجھے خوبصورت ائیرہوسٹس پسند ہیں ۔ بندہ پوچھے،آپ کی پسند کے کیا کہنے،آپ توالماس بوبی پربھی مرمٹے تھے۔ حال ہی میں مفتی صاحب کی ایک تازہ تصویر فیس بک پہ وارد ہوئی ہے جس میں وہ قندیل بلوچ کے ساتھ کھڑے ہیں اورعالم یہ ہے کہ مفتی صاحب کی ٹوپی قندیل بلوچ نے پہن رکھی ہے۔مفتی صاحب نے اس تصویر کو حقیقی قراردیا ہے۔

قندیل بلوچ کااس تصویر کے بارے میں کہنا ہے کہ مولانا صاحب نے خواہش ظاہرکی تھی کہ وہ رمضان کے چاندسے پہلے انہیں دیکھنا چاہتے ہیں لہذامولانا کی خواہش پریہ ملاقات ہوئی جوبعد میں سیلفی میں بدل گئی۔گویابناعید کے ہی چاندکادیدارہوگیا۔خودمولانا صاحب کاکہنا ہے کہ قندیل بلوچ نے ازخودان سے ملنے کی خواہش کااظہارکیاتھااورجب آمناسامناہواتواحتراماًمیری ٹوپی لے لی۔ سبحان اللہ!عقیدت ہوتوایسی کہ مرشد کی ٹوپی اپنے سرپرلے لی۔میں نے پہلی دفعہ مولانا صاحب کوبغیرٹوپی کے دیکھااوربے اختیاریہ شعریادآگیاجوغالباًانور جمال کاہے!
اے قاسمِ اشیا تری تقسیم عجب ہے
دستارانہیں دی ہے کہ جوسرنہیں رکھتے

مولانا عبدالقوی کو وضاحت کرنی چاہیے کہ یہ ٹوپی انہوں نے کسی شاگرد کو بھی عنایت کی یااس کی سعادت صرف قندیل بلوچ کوہی حاصل ہوئی ہے؟ ویسے اب تک مولاناصاحب جتنی چولیں مارچکے ہیں اس کے بعد ان کے فتوؤں کی یہ حیثیت رہ گئی ہے کہ اب کوئی عجیب وغریب فتویٰ نظر سے گذرے توپہلاگمان یہی گذرتا ہے کہ براستہ مولاناعبدالقوی آیاہوگا۔مجھے مولویوں کے خوش مزاج اورحسن پرست ہونے پرکوئی اعتراض نہیں لیکن کیاوہ یہ حق عام انسان کو بھی دینے کوتیارہیں یااس مرتبے پرفائزرہنے کاحق صرف انہی کاہے؟ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک پیرصاحب کی مریدنی ایک طوائف بھی تھی۔ ایک دن پیر صاحب نے سوچا کہ مریدنی نے توہماری بہت زیارت کرلی،اب ہمیں بھی کچھ حقِ پیری اداکرناچاہیے،سوشام کے دھندلکے میں مریدنی کے حضورحاضری دی ۔ کچھ لمحات وہاں کشائش زمانہ سے غفلت میں گذارے،مریدنی کام کے معاملے میں پروفیشنل تھی،پیرصاحب واپس آنے لگے تو مریدنی نے جھجکتے ہوئے کہا پیرصاحب!.......پیسے؟
پیر صاحب کے چہرے پرایک دم سے جلال آگیا،تاہم فوراًخودپرقابوپایااوربڑے وقارسے فرمایاہم بھلا تم سے پیسے کیوں لینے لگے!

کیاوجہ ہے کہ ہمیں جوبھی مولانارُلارُلاکردنیا کے مال و متاع سے دوررہنے کی ہدایت کرتے ہیں وہ خودلینڈکروزرمیں بیٹھ کروعظ کرنے تشریف لاتے ہیں۔یہ ڈھیروں آنسوبہاکرہمیں بتاتے ہیں کہ ہم گنہگاراوریہ اللہ کی امان میں ہیں۔یہ کہاں سے ہرسال عمرہ کرلیتے ہیں؟ان کی آمدنی کے ذرائع کبھی کوئی نہیں بتاتا،ان کے چندے کسی کھاتے میں درج نہیں ہوتے۔ یہ لڑکیوں کے ساتھ گھل مل جاتے ہیں، خواجہ سراؤں سے شادی کی باتیں کرتے ہیں اوراپنی ٹوپیاں مستورات کے لیے وقف کیے رکھتے ہیں۔انہیں اس لیے بھی کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا کہ ان کے پاس فتوے کی تلوارہوتی ہے جس سے یہ کسی بھی دلیل کا گلہ کاٹ سکتے ہیں۔

جب یہ فتویٰ بیان کرتے وقت قرآن وسنت کے الفاظ استعمال کرتے ہیں تو میرے جیسے کئی کمزورلوگ سہم جاتے ہیں کیونکہ اس کے بعداعتراض کامطلب سیدھی گردن زدنی ہے۔ کتنے مزے میں ہوتے ہیں اس طرح کے مولانا.....ان کے پاس ہر قسم کی حرکت کالائسنس ہوتاہے، پرمٹ ہوتا ہے۔ یہ شراب کی بوتلوں کے ساتھ پکڑے بھی جائیں توکوئی ان کے خلاف ایکشن لینے کی جرأت نہیں کرتا، یہ نامحرم لڑکیوں کے پہلو میں کھڑے ہوکر تصاویر بھی بنوائیں تو بات ہنسی مذاق میں دب جاتی ہے۔یہ کسی خاتون سے ہاتھ بھی ملالیں توکوئی مائی کالعل شور نہیں مچاسکتا.......لیکن دن رات ان کاایک ہی واویلا ہوتاہے کہ ملک میں اسلامی نظام نافذ کیاجائے۔لوگ اپنی بچیوں کوتعلیم کی خاطر یونیورسٹیوں میں بھیجیں تو مولانا حضرات کی بھنویں تن جاتی ہیں کہ مخلوط تعلیم اوروہ بھی پاکستان میں... ..اللہ اللہ....پوری دنیا میں زلزلے زمینی تبدیلیوں کی وجہ سے آتے ہیں لیکن ایسے مولاناہمیں باورکراتے ہیں کہ خداصرف پاکستان کی غریب عوام پرنظریں رکھے ہوئے ہے۔

مولانا مفتی عبدالقوی صاحب سے میری گذارش ہے کہ ایک دفعہ انڈیا جاکرسنی لیون سے بھی بالمشافہ مل لیں،ہوسکتاہے وہ بھی آپ کی ٹوپی کی فین نکلے۔ مجھے یقین ہے کہ مفتی عبدالقوی کی قندیل بلوچ سے ملاقات محض ٹوپی تک محدود نہیں رہی ہوگی، گپ شپ بھی ہوئی ہوگی، قہقہے بھی لگے ہوں گے۔ ابھی تک پتا نہیں چل سکا کہ مولانا نے خود اپنی ٹوپی قندیل کو پہنائی یا قندیل نے خود ہی یہ جسارت کرلی۔ اگر یہ قندیل بلوچ کی جسارت ہے تو اسے داد دینی چاہیے جس نے اتنے آرام سے مولانا کاسرننگاکردیا۔ماروی سرمد کو مبارک کہ ان کا بدلہ قندیل بلوچ نے لے لیا ہے۔

یقیناقندیل بلوچ کے سرپرسجنے کے بعدمولانا کی ٹوپی مزیدمعتبرہوگئی ہوگی،وہ چاہیں تواسے نیلام کرکے اچھی خاصی رقم کماسکتے ہیں۔ قندیل بلوچ کے لیے ٹوپیوں کی کوئی کمی نہیں لیکن اس نے ثابت کردیا ہے کہ وہ جب چاہے کسی عالم دین اورمفتی کی ٹوپی پربھی ہاتھ ڈال سکتی ہے۔یاد رہے کہ انڈیا کے مقبول ٹی وی شو بگ باس کے نئے سیزن کے لیے قندیل بلوچ کاانتخاب ہوچکا ہے۔کیا ہی اچھاہوکہ قندیل بلوچ تھوڑی سی ضد کرکے اس شو کے لیے مولانا کو بھی راضی کرلے.....لیکن مجھے امید ہے کہ اگر قندیل نے ایسا کچھ کہا تو انکار ہی سننے کو ملے گا......انڈیا کی طرف سے!!!

سناہے کہ وزیرمذہبی امورواوقاف سرداریوسف صاحب نے مفتی عبدالقوی کو رویت ہلال کمیٹی سے فارغ کردیاہے شائداس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی تقرری چانددیکھنے کی تھی نہ کہ چن چڑھانے کی‘‘
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 350293 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.