غیرت کے نام پرقتل، اسلامی نظریاتی کونسل، بنیادی دینی مسائل سے عدم واقفیت۔

سینیٹر نسرین جلیل کی صدارت میں سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے غیرت کے نام پرخواتین کے قتل کے واقعات میں تشویش کااظہارکیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ غیرت کے نام پرقتل کے مقدمات میں معافی کاسلسلہ ختم کیاجائے۔تاکہ ملزمان کوسزایقینی بنائی جاسکے ۔ معاف کرنے یانہ کرنے کااختیار مقتول کے ورثاء کا ہے۔مقتول کے ورثاء اگرمعاف کردیں توسینیٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کواس پراعتراض نہیں ہوناچاہیے۔کمیٹی نے مطالبہ کیا کہ غیرت کے نام پرقتل جیسے مقدمات میں قصاص اوردیت کے اسلامی قانون کااطلاق نہ کیاجائے جب کہ غیرت کے نام پرقتل کے مقدمات میں ریاست کومدعی بنناچاہیے۔ اسلام میں یہ تخصیص نہیں کی گئی کہ قصاص اوردیت کااطلاق کہاں ہوگا اورکہاں نہ ہوگا۔اب اس کمیٹی کوبھی اس طرح کی سفارش نہیں کرنی چاہیے۔قتل کے مقدمات فوجداری مقدمات ہوتے ہیں اورفوجداری مقدمات کی مدعی ریاست ہی ہوتی ہے۔کمیٹی نے اسلامی نظریاتی کونسل کی متنازع سفارشات پربھی تشویش کااظہارکیااورکہاکہ عورتوں پرتشدد میں اضافے کی ذمہ داراسلامی نظریاتی کونسل خودبھی ہے۔سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے خواتین مخالف اقدامات اوران پرتشد د کوجائز قراردینے سے عورتوں پرتشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا۔انہوں نے کہا کہ کونسل کی سفارشات نے معاشرے میں خواتین کے خلاف منفی تاثرپیش کیااوران کے خلاف تشدد پراکسایاان سفارشات نے خواتین کوتحفظ فراہم کرنے کی بجائے ان کی مشکلات میں اضافہ کردیا۔خواتین پرتشدد کی ذمہ داراسلامی نظریاتی کونسل ہونہ ہو خواتین کے حقوق اورتحفظ کیلئے بنائے گئے پے درپے قوانین ضرورہیں۔خواتین پرتشدد کے خاتمہ اوران کے حقوق کیلئے جوقوانین بنائے گئے ہیں ان میں مردوں کوہی ذمہ دارٹھہرایاگیا ہے خواتین کواس سے بری الذمہ قراردے دیاگیا ہے۔ حالانکہ یہ قتل خواتین بھی کرچکی ہے۔ابھی گذشتہ دنوں ایک ماں نے پسندکی شادی کرنے پراپنی بیٹی کوزندہ جلادیا۔خواتین کے ہاتھوں مردوں کے قتل بھی ہوچکے ہیں۔اسلامی نظریاتی کونسل کی خواتین پرتشدد کے حوالے سے سفارشات تواب آئی ہیں اس سے پہلے خواتین پرہونے والے تشدد کی ذمہ داری بھی اسی پرعائدہوتی ہے یاکسی اورپر؟ اس طرح کے قوانین بناتے وقت اعتدال کاراستہ اختیارکرناچاہیے۔ایسے قوانین بھی بنائے جائیں جس سے خواتین کوبھی ایسے کاموں سے روکاجائے جس کی وجہ سے ان کاغیرت کے نام پرقتل ہوتا ہے۔سینیٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان جدیدزمانے کی قانون سازی سے لاعلم ہیں۔اسلامی نظریاتی کونسل کاقیام اس لیے عمل میں لایاگیا تھا کہ وہ پارلیمنٹ اورریاست کی طرف سے بنائے قوانین پررائے دے کہ مجوزہ قانون اسلام کے خلاف تونہیں۔تاکہ ملک میں ایسے قوانین نہ بن جائیں جو اسلامی تعلیمات کے منافی ہوں۔اسلامی نظریاتی کونسل نے کسی بھی قانون کے بارے میں سفارشات اسلامی تعلیمات کے مطابق دینی ہیں نہ کہ کسی کی خواہش کے مطابق۔پارلیمنٹ اورریاست کی طرف سے بنائے گئے قوانین تواسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالاجاسکتا ہے جبکہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کی گئی سفارشات کوپارلیمنٹ کے بنائے گئے قوانین میں نہیں ڈھالاجاسکتا۔کونسل کے ارکان جدیدزمانے کی قانون سازی سے لاعلم ہوتے توپارلیمنٹ کی طرف سے بنائے قوانین پرسفارشات نہ دیتے۔اسلامی تعلیمات اورقوانین آفاقی ہیں ۔ یہ ہردوراورہروقت کیلئے ہیں ان میں نہ توکوئی تبدیلی ہوسکتی ہے اورنہ کوئی ترمیم۔کمیٹی میں کہاگیا کہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں خواتین ارکان کے خلاف نازیباگفتگوبھی قابل مذمت ہے۔خواتین کے بارے میں نازیباباتیں کرنے والے ارکان پارلیمنٹ کے خلاف بھی کارروائی کی جانی چاہیے۔ بات تودرست ہے تاہم خواتین ارکان پارلیمنٹ کوبھی ایسا کام نہیں کرناچاہیے کہ ان کے خلاف نازیبا الفاظ کہے جائیں۔قومی اسمبلی میں اس طرح کاتازہ واقعہ جوہوا ہے اس کی ذمہ داری اس پربھی عائدہوتی ہے جس کے بارے میں اسمبلی میں نازیباالفاظ کہے گئے ہیں۔جب اسے باربارخاموش ہونے کوکہاجارہاتھا اس نے احتجاج ریکارڈ کراناتھا کرادیا اب خاموش ہوجاتی ۔جب اس نے کسی کی نہیں سنی تواسے وہ الفاظ سننے پڑے جونازیباہیں۔

سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات اوراس کے قیام کے بارے میں آئینی اورقانونی اعتراض اٹھائے ہیں۔اسلامی نظریاتی کونسل کی مدت چاہے ختم ہوچکی ہے اس کی ضرورت اب بھی ہے۔اس کاکام پارلیمنٹ کی طرف سے بنائے قوانین کے بارے میں سفارشات دینا ہے کہ مجوزہ یابنائے گئے قوانین اسلامی تعلیمات کے مطابق ہیںیانہیں۔سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی یاکوئی اوریہ سمجھتا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل درست کام نہیں کررہی ۔ تواس کے چیئرمین اورارکان کے تقرر کے طریقہ کارپرغورکیاجاسکتا ہے۔اس کے چیئرمین اورارکان کے معیارکوازسرنومرتب کیاجاسکتا ہے۔کونسل کے چیئرمین اورارکان کوتبدیل بھی کیاجاسکتا ہے۔ان کے تقررکے بارے میں پارلیمنٹ میں مناسب قانون سازی بھی کی جاسکتی ہے۔جیسا کہ پہلے لکھاجاچکا ہے کہ اسلامی تعلیمات آفاقی ہیں ۔ یہ ہردوراورہروقت کیلئے ہیں ان میں نہ توتبدیلی ہوسکتی ہے اورنہ ہی کوئی ترمیم۔ایسے معاملات جن کاحل قرآن وحدیث اورفقہ میں نہ ہوکوحل کرنے کیلئے اسلام نے قیاس اوراجتہادکی اجازت دی ہے۔یہ اجہتاداورقیاس کرنا زمانے میں موجودعلماء کرام کی ذمہ داری ہے۔کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی بعض سفارشات اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں توتمام مکاتب فکرکے جیّدعلماء کرام پرمشتمل ایک کمیٹی بناکریہ سفارشات اس کے سامنے رکھی جائیں علماء کی کمیٹی ہی فیصلہ کرے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات اسلامی تعلیمات کے مطابق ہیں یانہیں۔علماء کی کمیٹی کے فیصلہ کی روشنی میں آئندہ کالائحہ عمل مرتب کیاجائے۔جہاں تک غیرت کے نام پرقتل روکنے کاتعلق ہے یہ قتل اس طرح نہیں روکے جاسکتے جس طرح روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔غیرت کے نام پرقتل خواتین کے ساتھ ناجائز تعلقات، والدین کی مرضی کے بغیرپسندکی شادی کرنے کی وجہ سے زیادہ ہوتے ہیں۔غیرت کے نام پرقتل روکنے کیلئے ضروری ہے کہ زنا حرام روکنے کے اقدامات کیے جائیں۔جس تناسب سے یہ جرم کنٹرول ہوجائے گااسی تناسب سے غیرت کے نام پرقتل کے مقدمات میں بھی کمی آجائے گی۔ پسندکی شادی کے حوالے سے بھی قانون سازی ہونی چاہیے۔اولادکووالدین کی خواہشات کااحترام کرناچاہیے اوروالدین کوبھی چاہیے کہ وہ اولادکی پسندکاخیال کریں۔ شادی باہمی مشاورت سے ہونی چاہیے کسی کومرضی مسلط کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

کہاجاتا ہے کہ لوگوں کووضوکرنے کاطریقہ نہیں آتا ، نمازکیسے پڑھنی ہے بعض لوگ نہیں جانتے، مساجدکے امام اورعلماء کرام لوگوں کی راہنمائی نہیں کرتے ، لوگوں کے مساجدکے احترام کانہیں بتاتے، علماء کرام اورمساجدکے امام لوگوں کووضواورنمازکاطریقہ نہیں بتاتے،نمازپڑھاکرتنخواہ وصول کرنے کوترجیح دیتے ہیں ۔لوگوں کی نمازمیں عدم دلچسپی اوراہمیت نہ دینے کاذمہ داربھی علماء کرام اورآئمۃالمساجدکوسمجھاجاتا ہے۔ایسی باتیں کرنیوالے زمینی حقائق سے لاعلم ہیں یاجان بوجھ کرعلماء کرام اورآئمۃ المساجدکونشانہ بنایا جارہا ہے۔اس بات سے انکارنہیں کیاجاسکتا کہ لوگوں کویہ باتیں بتاناعلماء کرام اورمساجدکے امام کی ہی ذمہ داری ہے ۔ درحقیقت اس صورتحال کے ذمہ دارعوام خودبھی ہیں۔لوگوں کوکرکٹ میچوں کی پوری تفصیل یادہوتی ہے۔کون سے میچ میں کس کھلاڑی نے کتنے سکوربنائے تھے۔ کتنے کھلاڑیوں کوآؤٹ کیاتھا۔کون سے میچ کافائنل کس ٹیم نے جیتاتھا۔عوم کوفلموں کے نام اوران کے کرداربھی یادہوتے ہیں۔کیاکیاتفصیلات بتائی جائیں کہ عوام کوکیاکیایادہوتا ہے۔کون ساعالم دین اورامام مسجدیہ باتیں لوگوں کوبتاتا ہے۔مسئلہ یہ نہیں کہ علماء کرام یاآئمۃ المساجدلوگوں کودین کے بنیادی مسائل اور طریقے نہیں بتاتے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کی اس طرف دلچسپی ہی نہیں ہے۔بچوں کودنیاوی تعلیم دلانے کیلئے ہرماہ ہزاروں روپے خرچ کرلیے جاتے ہیں جبکہ قرآن پاک پڑھانے والے معلم کوپانچ سوروپے بھی مشکل سے دیتے ہیں۔ بلکہ مساجدمیں بچوں کودینی تعلیم فری بھی دی جائے توبہت کم لوگ بچوں کومساجدمیں بھیجنے کوترجیح دیتے ہیں۔اس طرح کے مسائل بچپن میں سکھائے جاتے ہیں اب مسئلہ یہ ہے اکثروالدین کی ترجیح دنیاوی تعلیم ہے دینی تعلیم نہیں۔بچوں کوقرآن پاک پڑھنے کاوقت بھی مشکل سے ملتا ہے ۔بچوں کوقرآن پاک پڑھانے کاوقت سکول اورٹیوشن کے وقت کے مطابق مقررکیاجاتا ہے ٹیوشن کاوقت قرآن پاک پڑھنے کے وقت کے مطابق طے نہیں کیاجاتا۔علماء کرام اورآئمۃ المساجدپریہ الزام غلط ہے کہ وہ لوگوں کی راہنمائی نہیں کرتے، وضو،نمازکاطریقہ نہیں بتاتے۔ عوام کودین کے بنیادی مسائل نہیں بتاتے۔علماء کرام اورمساجدکے امام یہ باتیں بتاتے ہیں اورضروربتاتے ہیں۔نمازپنجگانہ ہو، جمعۃ المبارک ہو، نمازجنازہ ہویاعیدین کی نمازہو، نمازی آخری وقت پرآتے ہیں بعض توپہلی رکعت میں بھی شامل نہیں ہوسکتے۔نمازاداکرکے جلدی سے چلے جاتے ہیں امام مسجدکے ساتھ دعابھی نہیں مانگتے۔یہ مسائل اورطریقے جمۃ المبارک کے خطاب اورقل خوانی کے اجتماعات میں بتائے جاتے ہیں ۔ جمعۃ المبارک کی نمازاداکرنے اس وقت لوگ مساجدمیں آتے ہیں جب خطبہ کی اذان دی جارہی ہوتی ہے۔ بعض توخطبہ میں بھی شامل نہیں ہوسکتے۔قل خوانی میں لوگ اس وقت آتے ہیں جب ختم شریف پڑھاجارہا ہوتا ہے ۔اب ان حالات میں کوئی دین کے بنیادی مسائل بتائے بھی توکس کوبتائے۔عوام کے پاس دنیاکے دیگرتمام کاموں کیلئے وقت بھی ہے اورسرمایہ بھی ۔ مگرافسوس کہ نمازپڑھنے اوردین سیکھنے کیلئے ان کے پاس وقت ہے اورنہ ہی سرمایہ۔دین مفت سکھایاجاتا ہے تب بھی بہت کم لوگ اس طرف توجہ دیتے ہیں۔اب تومساجدسے سپیکربھی اتاردیے گئے ہیں۔اب توصرف اذان اورنمازجمعہ کے عربی خطبہ کی ہی لاؤڈ سپیکرپراجازت ہے۔مسجدمیں نمازی آخری وقت پرآتے ہیں خطیب اورمقرر کی آوازمسجد سے باہرنہیں جاسکتی توکیاعلماء کرام، آئمۃ المساجدلوگوں کووضواورنمازکاطریقہ، دین کے بنیادی مسائل مساجدکی دیواروں کوبتائیں۔پہلے سکولوں میں یہ سب کچھ سکھایاجاتا تھا اب ان کی ترجیحات بھی تبدیل ہوگئی ہیں۔پاکستان کے اکثرشہروں میں دعوت اسلامی کاہفتہ واراجتماع ہوتا ہے ۔ اس میں وضو،نمازکاطریقہ، دین کے بنیادی مسائل ہی بتائے جاتے ہیں۔وضو، نماز، ارکان اسلام کی ادائیگی کاطریقہ اورمسائل پرمشتمل علماء کرام کی لکھی گئی کتابیں بھی مارکیٹ میں موجودہیں میگزین، رسالے اورناول توخریدکریاکرائے پرلے کرتوعوام پڑھتے ہیں دینی مسائل پرلکھی گئی کتابیں بھی خرید کرپڑھ لیں توعوام کوکس عالم دین یامسجدکے امام نے روکا ہے۔جس کووضواورنمازکاطریقہ نہیں آتا وہ اپنے قریبی عالم دین یاامام مسجدکے پاس چلاجائے تووہ ضروراس کی راہنمائی کریں گے۔سکولوں میں زیادہ نہیں توہفتہ میں دودن ایک پیریڈ دین کے بنیادی مسائل اورطریقے سیکھنے اورسکھانے کیلئے بھی ہوناچاہیے اور اس کاسالانہ امتحان بھی لیاجاناچاہیے۔یہ باتیں اورمسائل سیکھنے کے توبہت سے ذرائع ہیں اب اگرکسی کی دلچسپی ہی نہ ہوتوعلماء کرام اورآئمۃ المساجدکیاکرسکتے ہیں۔سکولوں میں جہاں کھیلوں کے مقابلے کرائے جاتے ہیں وہاں وضوکرنے اورنمازپڑھنے کے مقابلے بھی کرائے جائیں توبچوں میں دین سیکھنے کارجحان بڑھ جائے گا۔افسوس تویہ بھی ہے کہ عوام کونمازپڑھنے کاوقت مشکل سے ملتا ہے دین سیکھنے کاوقت کہاں سے ملے گا۔ہم اپنی ترجیحات میں دین کوشامل کرلیں تویہ شکایت نہیں رہے گی کہ لوگوں کووضواورنمازکاطریقہ نہیں آتا۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 301583 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.