باادب با نصیب ،بے ادب بے نصیب

جو عالی ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جُھک کر ملتے ہیں صراحی سرنگوں ہو کرہی بھرا کرتی ہے پیمانہ
اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو استاد کی حیثیت ،اہمیت اور مقام مسلّم ہے،کیونکہ استاد ہی نو نہالان ِ قوم کی تعلیم و تربیت کا ضامن ہوتا ہے ،استاد ہی قوم کے نوجوان کو علوم و فنون سے آراستہ و پیراستہ کرکے اس قابل بناتا ہے کہ وہ ملک و قوم کی گرانبار ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو سکے ۔ استاد اگر صحیح معنوں میں استاد ہو تو وہ اپنے شاگردوں کی زندگیاں بدل سکتا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ آئندہ نسلوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی استاد کے ہاتھ میں ہے ،وہ زندگی کو جس رخ پر چاہے موڑ سکتا ہے ۔ استاد اگر اپنے علم کی منہ بولتی تصویر ہواوراخلاق و آداب کا نمونہ ہو تو اس کی ذات معاشرے میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے ۔استاد قوموں کی تقدیر بدل سکتا ہے اورصالح انقلاب برپا کر سکتا ہے ۔ تاریخ میں اچھے اساتذہ نے ہر دور میں یہ کام کیا ہے ۔ ان کے نقوش تاریخ کے صفحات ہی میں نہیں ،بلکہ عملی زندگی میں بھی نظر آتے ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ مشاہیر عالم کی تمام تر شہرت و عظمت ان کے عظیم اساتذہ کی کاوشوں کی مرہون منت ہے ۔ لہٰذا استاد کو اس کے شایانِ شان مقام ملنا چاہیے ۔

حدیث ِ قدسی ہے:
’’سفید بالوں والے (بوڑھے مسلمان )،عالم ،خافظ،عادل بادشاہ اور اُستادکی عزت کرنا،تعظیمِ خداوندی میں شامل ہے۔‘‘

اِسلامی نقطۂ نظر سے اُستادکی عزت کرناتعظیمِ خداوندی میں داخل ہے۔اُستاد وہ عظیم رہنما ہستی ہے جو انسان کو اچھائی اور برائی میں فرق کرنا سکھاتا ہے ،انسان کی تربیت کرتا ہے اور اُسے ایسی زندگی عطا کرتا ہے جو مرنے کے بعد بھی زندہ جاوید رہتی ہے۔اُستاد ہی انسان کے بکھرے ہوئے خیالات کو تخیل عطا کرتا ہے جو علامہ اقبال کی صورت میں انقلاب برپا کر دیتا ہے۔

بقول ِ اقبال ؒ:
شیخ مکتب ہے اک عمارت گر جس کی صفت ہے روح انسانی

سکندرِاعظم سے کسی نے پوچھا کہ آپ استاد کو اپنے باپ پر ترجیح کیوں دیتے ہیں تو سکندرِاعظم نے جواب دیا:’’اس لیے کہ میرا باپ تو مجھے آسمان سے زمین پر لایاجبکہ میرااُستاد مجھے زمین سے آسمان پر لے گیا،باپ سبب حیاتِ فانی اور اُستاد موجب حیاتِ جاودانی، باپ میرے جسم کی پرورش کرتا ہے جبکہ اُستاد میری جان کی‘‘۔ وقت بدلتا رہا ہے مگر اُستاد کا مقام اپنی جگہ قائم رہا ہے۔بدلتے ہوئے انسانی معاشرے میں کچھ ایسی بیہودہ برائیوں کو جنم دیاہے جو کہ معاشرے کی تبا ہی کا سبب بن رہی ہیں اِن برائیوں میں سے ایک اُستاد کا احترام نہ کرنا بھی ہے۔

بقولِ اقبالؒ:
رہ گئی رسمِ آذان ،روحِ بلالیؓ نہ رہی فلسفہ رہ گیا،تلقینِ غزالیؒ نہ رہی

ہمیں یہ ضرور سوچنا ہوگا کہ آج کے اس جدید دور میں جتنے بھی کامیاب،عظیم انسان ہیں چاہے اُن کے پیچھے کسی نہ کسی اُستاد کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے، چنانچہ اگر ہمیں بھی کامیابی حاصل کرنی ہے اور کسی اعلیٰ منزل کو پانا ہے تو ہمیں بھی اپنے اساتذہ کا تہہ دل سے احترام کرنا ہوگا ۔
گویا۔۔۔ باادب با نصیب ،بے ادب بے نصیب۔
Dr. Talib Ali Awan
About the Author: Dr. Talib Ali Awan Read More Articles by Dr. Talib Ali Awan: 50 Articles with 89731 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.