آزادی ہند اور شیخ الھند مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال ؒ نے بجافرمایا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
کچھ لوگ اپنی سوچ و فکر ،کردار وافکار ،سیرت ونظریات کی بنا پر عطیہ خداوندی ہوتے ہیں،وہ اپنی ذات میں انجمن ہوتے ہیں،ہفت اقلیم میں ان کا ڈنکا بجتا ہے ، خالق و مخلوق دونوں کے نزدیک ان کی قدر و منزلت ہوتی ہے ۔ حضرت شیخ الھند مولانا محمود حسن بھی انہیں عظیم لوگو ں میں سے ایک ہیں۔ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب دیوبندیؒ ۱۲۶۸ھ مطابق ۱۸۵۱ء کو بریلی میں پیدا ہوئے-

آپ کاسلسلۂ نسب امیر المؤمنین حضرت عثمان غنی ؓ سے جا ملتا ہے۔ آپ نے تعلیم کا آغاز چھ سال کی عمر میں کیا، قرآن مجید کا کچھ حصہ اور فارسی کی ابتدائی کتابیں حضرت مولانا عبداللطیف سے پڑھیں ۔ حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ نے دیوبند میں۱۵؍ محرم ۱۲۸۳ھ کو دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی، اس مدرسہ کا آغاز دیوبند کی مشہور مسجد چھتہ سے ہوااورآپ اس مدرسہ کے پہلے طالب علم تھے، ۱۲۸۶ھ میں کتب صحاح ستہ کی تکمیل کی اور فارغ التحصیل ہوئے۔آپ کو حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ ، حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ کے علاوہ قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور حضرت مولانا شاہ عبدالغنی دہلویؒ سے اجازت حدیث حاصل تھی۔آپ کے ممتاز تلامذہ میں حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ ، حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ ، حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ ، حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ ، حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ ، حضرت مولانا اصغر حسین دیوبندیؒ ، حضرت مولانا عبیداللہ سندھیؒ اور حضرت مولانا اعزاز علی دیوبندیؒ جیسے مشاہیر علم و فضل شامل ہیں۔

فارغ التحصیل ہونے سے پہلے ہی ۱۲۸۸ھ میں دارالعلوم دیوبند کا معاون مدرس بنا دیا گیا تھا، ۱۹ ذوالقعدہ ۱۲۹۰ھ میں آپؒ کے سر پر دستار فضیلت باندھی گئی ،اس وقت آپ کے سپرد ابتدائی تعلیم پڑھانے کا کام کیا گیا تھا، رفتہ رفتہ آپ کی علمی استعداد اور ذہانت کے جوہر ظاہر ہونے لگے،۱۲۹۳ھ میں آپ نے ترمذی شریف، مشکوٰۃ شریف اور ہدایہ وغیرہ کی تدریس کا موقع ملا،۱۲۹۵ھ میں مسلم شریف اور بخاری شریف پڑھانے کا شرف حاصل ہوا ، آپ کا حلقۂ درس نہایت مہذب اور شائستہ ہوتا تھا، دوسرے مدارس کے فارغ تحصیل اور ذہین و فطینطلبہ آپ کی خدمت میں حاضر رہتے اور آپ کا حلقہ درس دیکھ کر سلف صالحین و اکابر محدثین کے حلقہ تدریس کی یاد تازہ ہو جاتی تھی، حضرت شیخ الھند ؒ نے چالیس سال تک مسلسل دارالعلوم دیوبند میں درس حدیث دیا۔

حضرت شیخ الہندمحمود حسن ؒ نے اپنے لائق اور مجاہد صفت تلامذہ کے تعاون سے مسلم معاشرے میں آزادی اور حریت کے جذبے کو بیدار کیا ،اورامت کی عظیم شخصیات کے دل و دماغ میں بھی جہاد کی روح پھونک دی،جنہوں نےآزادی ہندوستان کے لیے قائدانہ کردار ادا کیا، حضرت شیخ الھند ؒ کے بلواسطہ اور بلاواسطہ فیض یافتہ گان میں مولانا عبدالباری لکھنویؒ ، حکیم محمد اجمل خانؒ ، ڈاکٹر مختار احمد انصاریؒ ، مولانا ابو الکلام آزادؒ ، مولانا محمد علی جوہرؒ ، مولانا شوکت علیؒ ، نواب وقار الملکؒ ، خان عبدالغفار خانؒ ، مولانا ظفر علی خانؒ اورمولانا فاخرالہ آبادیؒ وغیرہ ہم، ان کے علاوہ کافی تعداد میں غیر مسلم بھی آپ کی تحریک سے وابستہ تھے، جیسے جلاوطن آزاد ہند حکومت کے صدر راجہ مہندر پرتاب اور آزادی ہند کے رہنما گاندھی جی اور ان کے بہت سے ساتھی حضرت شیخ الہند کے تربیت یافتہ تھے۔

حضرت شیخ الہندؒ نے اپنےرفقاء کے ساتھ انقلاب کی ہمہ گیر اسکیم تیار کی تھی جس کے لئے انہوں نے ۱۸۷۹ء سے سرگرم کوشش شروع کر دیں تھیں، نتہائی خفیہ اور بڑی خاموشی کے ساتھ یہ تحاریک شروع کیں ،آپ نے مولانا عبید اللہ سندھی ؒ کی قیادت میں ایک وفد افغانستان روانہ کیا جہاں جا کر ایک جلاوطن آزاد ہند حکومت قائم کریں گے، جس کے لئے افراد و اسباب اور وسائل و حالات حضرت شیخ الہندؒ خود تیار کر اچکے تھے، امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ ہم یہ سمجھ کر افغانستان گئے تھے کہ ہمیں برسوں اپنے مشن کیلئے ماحول بنانا پڑے گا لیکن حضرت شیخ الہند ؒ کی تقریباً چالیس سالہ کوششوں کا ثمرہ ہمارے سامنے تھا جو خود اپنے کچھ معتمد رفقاء کو لے کر حجاز مقدس روانہ ہو گئے تھے، جہاں خلافت عثمانیہ ترکی کے اہم ذمہ داران سے ملاقات کرکے ان کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کرنا تھا کہ وہ ہندوستان پر حملہ کر دیں اور دوسری طرف سے افغانستان میں جو ہماری جلاوطن حکومت ہے وہ بھی افغانستان اور سرحد کے لوگوں کو لے کر ہندوستان پر حملہ کرے اور افغانستان کے راستہ سے بیرونی مدد اور سامان رسد بھی ترکی فوجوں کو پہنچائے اور اندرون ملک بھی بہت توسیع پیمانے پر اور بہت منظم نظام تیار تھا جو حملہ ہونے کی صورت میں انگریزی حکومت سے بغاوت اور اس کی فوجوں سے مزاحمت کرے اور حملہ آور فوجوں کی رسد، کمک، افراد اور ہر طرح سے معاونت کرے، اس طرح ہندوستان سے انگریزوں کو مار بھگایا جائے، حجاز مقدس میں ترکی کے تمام اہم ذمہ داروں سے حضرت شیخ الہند کی بات مکمل ہو گئی اور ان کے مجوزہ پلان پر عمل در آمد کیلئے خلافت عثمانیہ ترکی بالکل آمادہ ہو گئی، حضرت شیخ الہند نے ہندوستان اور افغانستان میں متعین اپنے انقلابیوں کے نام، بغاوت کی پوری اسکیم اور اس کے احکامات نیز خلافت عثمانیہ کے سب سے اہم ذمہ دار اور حجاز مقدس کے گورنر غالب پاشا کے وہ وثیقے جس میں انہوں نے حضرت شیخ الہند کی تائید و حمایت اور انہیں ہر طرح کے تعاون اور امداد دینے کیلئے خلافت عثمانیہ کے تمام ملازمین متعلقین اور ذمہ داروں کے نام اردو، عربی اور ترکی تینوں زبانوں میں لکھ کر دیا تھا۔

ان تمام خطوط کو اپنے ایک معتمد شاگرد حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوریؒ کے ساتھ لکڑی کے ایک بکس کے دو تختوں کے بیچ میں رکھ کر اس طرح کیلوں سے جام کر دیا تھا کہ اس کا کسی کو احساس بھی نہ ہو، جن خطوط کو مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے ریشمی رومالوں پر نقل کر کے افغانستان، یاغستان، آزاد قبائل اور ہندوستان کے ان تمام علاقوں میں جہاں جہاں اس تحریک کے رہنما متعین تھے، ان کے پاس بھجوا دیئے تھے تاکہ ہر انقلابی اپنے تحریک کے احکامات اور مسائل سے باخبر رہے اور خود حضرت شیخ الہندؒ نے ترکی جانے کا پروگرام بنایا تھا، جہاں سے انہیں پوری بغاوت کی قیادت کرنا تھی، ابھی جہاز کی روانگی میں ایک دو دن کی تاخیرتھی، اس درمیان شریف مکہ نے انگریزوں سے مل کر خلافت عثمانیہ سے بغاوت کر دی اور حضرت شیخ الہند کو ان کے چار رفقاء کے ساتھ گرفتار کر کے انگریزوں کے حوالے کر دیا، انگریزوں نے اپنی فوجی عدالت میں آپ پر مقدمہ چلایا اور پوری کوشش کی کہ شیخ الھند اور آپ کے رفقاءکو بغاوت کا مجرم ثابت کر کے پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا جائے مگر مشیت الہٰی کوراہ عزیمت وحریت کے ان مسافروں کا امتحان ابھی اور بھی مطلوب تھا، حضرت شیخ الہند کی تحریک اس قدر خفیہ رہی کہ انگریزوں کو کوئی ثبوت فراہم نہیں ہو سکا، اس لئے ان لوگوں کو جزیرہ مالٹا میں قید کر دیا گیا۔

کالا پانی کی اذیت ناک قید میں آپ کی صحت بگڑتی گئی، تین سال اور سات ماہ کی اذیت ناک قید کے بعد20رمضان المبارک 1920ءکونحیف و کمزور جسم کا مالک بوڑھا مجاہد،آزادی ہند کا عظیم راہنما ،مجاہدوں اور عازیوں کے سرخیل شیخ الھند محمود حسن ؒ اپنے رفقاء کے ساتھ رہائی پانے کے بعد بمبئی پہنچا ، جہاں ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں نے اپنے اس عظیم قائد کا استقبال کیا اور شیخ الہند زندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے فضاء آسمانی گونج اٹھی۔خلافت کمیٹی بمبئی کے قائدین نے ایک شاندار استقبالیہ تقریب کا انعقاد کیا، مسلمانوں کے اس اہم نمائندہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ’’استخلاص وطن کی جنگ اب تک مسلمان تنہا لڑ رہے تھے، تقریباً سوا سو برس سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ہندوستانی مسلمانوں خصوصاً علماء حق نے بیش بہا قربانیاں پیش کیں، تشدد، خونریزی اور بغاوت کے راستے اختیار کئے دیگر ممالک سے تعاون لے کر ہندوستان سے انگریزوں کو مار بھگانے کی اسکیمیں تیار کیں مگر افسوس کہ ہماری ہر کوشش ناکام رہی، اس لئے بہت غور و فکر کے بعد اب میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اب آزادی وطن کی جنگ میں اپنے برادران وطن کو بھی شریک کیا جائے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ تمام مذاہب کا یکساں احترام کیا جائے، کسی کے مذہبی امور میں ہرگز مداخلت نہ کی جائے اور تشدد کی راہ چھوڑ کر عدم تشدد کا راستہ اپنایا جائے، فرنگی سے عدم تعاون اور ترک موالات کو بنیاد بنا کر آزادی کی جنگ شروع کی جائے، اب کامیابی کی یہی ایک صورت نظر آتی ہے"۔
Molana Tanveer Ahmad Awan
About the Author: Molana Tanveer Ahmad Awan Read More Articles by Molana Tanveer Ahmad Awan: 212 Articles with 249948 views writter in national news pepers ,teacher,wellfare and social worker... View More