خطہ پیر پنچال میں سیاحت کے وسیع ترامکانات ....

سرحدی اضلاع پونچھ وراجوری موجود تاریخی مقامات اور قابل دید جگہوں کو سیاحتی نقشہ پر لانے کے لئے حکومتی سطح پر سرد مہری سے کام لیاجارہاہے۔
خطہ پیر پنچال میں سیاحت کے وسیع ترامکانات ....
تاریخی مقامات اور قدرتی حسن سے مالامال قابل دید جگہیںحکومتی توجہ کی منتظر!
صرف شعبہ سیاحت کو فروغ دینے سے پونچھ راجوری اضلاع کے عوام کی تقدیر بدل سکتی ہے

سرحدی اضلاع پونچھ وراجوری موجود تاریخی مقامات اور قابل دید جگہوں کو سیاحتی نقشہ پر لانے کے لئے حکومتی سطح پر سرد مہری سے کام لیاجارہاہے۔ ضلع پونچھ میں تحصیل حویلی ، منڈی ، مینڈھر، بالاکوٹ، منکوٹ اور سرنکوٹ جبکہ ضلع راجوری ضلع میں منجاکوٹ، نوشہرہ، قلعہ درہال ، بیری پتن، سُندربنی، خواص، کالا کوٹ ، تریاٹھ ، سیوٹ،کوٹرنکہ ، درہال ، راجوری اور تھنہ تحصیلوں میں سینکڑوں ایسی تاریخی، قدرتی حسن سے مالا مال اور مذہبی مقامات ہیں جنہیں اگر سیاحتی نقشہ پر لایاجائے تو یہاں کی تقدیر ہی بدل جائے۔خطہ پیر پنچال میں موتی محل، بلدیو قلعہ ، باغ ڈیوڈی ، ہاتھی گیٹ ، فوارہ گارڈن ، قلعہ منگل دیوی ، قلعہ درہال، قلعہ ڈنی دھار ، قلعہ دانتی کالاکوٹ ، قلعہ عظیم گڑھ نملاں منجاکوٹ ، قلعہ بہروٹ وغیرہ ۔ ذرائع کے مطابق یہ تاریخی مقامات یہاں کی تہذیب و تمدن ، میراث ورفن تعمیر کے بہترین نمونے ہیں لیکن حکومتی عدم توجہ کی وجہ سے کسمپرسی کی حالت میں پڑے ہیں ۔اگر چہ پونچھ اور راجوری ڈولپمنٹ اتھارٹیاں قائم کی گئی ہیں لیکن فنڈز محدود ہونے کی وجہ سے ان مقامات کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی جارہی۔قدرت نے خطہ پیر پنچال کو قُدرتی پانی کے ذخائر والے سات بڑے سروں نوازہ ہے ۔ جو میدانی جگہوں پر نہیں بلکہ اُونچے اُونچے پہاڑوں پر اتنے وسیع پھیلاو اور گہرائی والے ہیں کہ اِنسانی عقل و شعور ، فہم و ادراک اِنکے وجود میں آنے پر سوچنے اور سمجھنے سے قاصر ہے ، ان میں نندن سر ، سُکھ سر ، ڈچھنی ، بک سر ، گم سر ، سمارٹ سر اور کہٹوری سر خصوصی طور قابل ذکر ہیں ۔سرنکوٹ میں نوری چھمب، رنجاٹی، جموں شہید، شاہستار،بہرام گلہ، ہاڑی بڈھا اور دیرہ کی گلی انتہائی خوبصورت مقامات ہیں جہاں اگر بنیادی ڈھانچہ کوترقی دی جائے تاکہ پوری دنیا کے سیاح یہاں متوجہ ہوسکتے ہیں۔اس حوالہ سے نامور ادیب، مفکر، دانشورعبدالسلام بہارکہتے ہیں ” بدنصیبی سمجھئے ، یہ سر محکمہ سیاحت اور محکمہ معلوماتِ عامہ کی نظروں سے ابھی تک اُوجھل ہی ہیں ۔ اگر یہ سر سیر و سیاحت کے نقشے پر لا کر اِنکی مُناسب دیکھ ریکھ کی جاے ¿ تو یہ نہ صرف ریاست جموں وکشمیر بلکہ ہندوستان اور بیرونِ ہندوستان کے سیاحوں کےلئے باعث کشش ہو گا ۔ اِنکے علاوہ پیر گلی کے متصل اُونچے اُونچے پہاڑوں اور نشیبی جگہوں پر بھی بہت سے چھوٹے بڑے سر موجود ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ حکومت اور آثارِ قدیمہ کو چاہیے کہ اِن تاریخی مُقامات کی تجدیدِ نو کر کے اِنکی دیکھ ریکھ ، حفاظت اور عظمتِ گزشتہ بحال کر کے اِس خِطہ کی اِس میراث کو محفوظ کیا جائے ۔پہاڑی ادبی، تجزیہ نگار اور دانشور نثار راہی نے خطہ پیر پنچال میں تاریخی اور قدرتی حسن سے مالامال مقامات کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ ”وادی کشمیر میدانی علاقہ ہے جہاں چندسومیٹر کے آگے کچھ دکھائی نہیں دیتا، اس کے برعکس خطہ پیر پنچال پہاڑی علاقہ ہے جس کی پہاڑی پر کھڑے ہوکر دور دور تک دیکھاجاسکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر راجوری پونچھ میں موجود تمام خوبصورت مقامات کو صرف سیاحتی نقشہ پرلایاجائے اور وہاں بنیادی ڈھانچہ قائم کیاجائے تو یہاں ترقی ہی ترقی ہوگی، روزگار کے وسیع ترامکانات پیدا ہونگے۔ انہوں نے بتایاکہ پیر گیلوا پیر پنچال کی سب سے اونچی چوٹی ہے جہاں سے دور دور دیکھنے کا نظارہ کو الفاظ میں بیان نہیں کیاجاسکتا۔ درہال سے پیچھے واقعہ ٹٹے مار پہاڑی، بدھل میںنیلا تھب، شاہدارہ شریف سے اوپر کی پہاڑی، پلوڑی گجراںوہ بہترین بلندمقامات ہیں جہاں سے قدرت کا بہترین نظارہ دیکھاجاسکتا ہے۔ نثار راہی نے مزید کہاکہ اگر خطہ پیر پنچال کے سبھی سیاسی رہنما صرف یہاںسیاحت کے موجود تمام امکانات کو فروغ دینے کے لئے یکجا ہوکر کوششیں کریں تو یہاں اتنا روزگار پیدا ہوگا کہ سرکاری ملازمتوں کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔
Altaf Hussain Janjua
About the Author: Altaf Hussain Janjua Read More Articles by Altaf Hussain Janjua: 35 Articles with 52944 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.