پینے کے صاف پانی کابے رحم کاروبار۔۔۔۔؟

انسانی زندگی کادارومدار پینے کے صاف پانی ،سانس لینے کے لئے صاف ہوا اور ملاوٹ سے پاک غذا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں کوئی شے خالص میسر نہیں ،اکثر اوقات رپورٹس میں یہ انکشافات سامنے آتے ہیں کہ پشاور ،لاہور کوئٹہ ،کراچی اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں پینے کا جو پانی فراہم کیا جارہا ہے اس کا80فیصد حصہ مضر صحت اور یقینی طور پر ناقابل استعمال ہے ،یہاں تک کے بازاروں میں گراں قیمت بکنے والا اکثر منرل واٹر اور فلٹر واٹر بھی پینے کے قابل نہیں ،اس وجہ سے ملک کی نصف سے زاہد آبادی خصوصا بچے پیٹ سے متعلق بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں ایک انذازے کے مطابق پاکستان میں پانی کا 73فیصد حصہ زراعت کے لئے 21فیصد صنعت کے لئے جبکہ 6فیصد عوامی گھریلو استعمال کے لئے صرف ہوتا ہے ماہرین کاکہنا ہے کہ صنعتی کاروباری میدان میں بے دریغ استعمال کی وجہ سے پانی کی سطح کم ہوتی جارہی ہے آج کل پینے کے پانی کاحصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گیا ہے ،اب یہاں حکومتی اداروں کافرض بنتا ہے کہ اس سلسلے میں ضروری قانون سازی کرے اور زیر زمین میٹھے پانی کے صنعتی استعمال کو ریگولائز کیا جانا چائیے،پانی سے متعلق بڑھتی شکایات نے منرل واٹر کی فروخت میں اہم کردار ادا کیا لیکن یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ بوتلوں میں فروخت کیا جانے والا ہر پانی منرل واٹر نہیں ہوتا ،منرل واٹر وہ پانی ہوتا ہے جس کوصحت بخش بنانے کے لئے اس میں معدنی اجزاء ایک خاڈ تناسب سے شامل کئے جاتے ہیں ،لیکن پاکستان میں بوتل بند پانی تیار کرنے والی مقامی کمپنیاں منرل واٹر کاصرف نام ہی استعمال کرتی ہیں ،اس ضمن میں باقاعدہ تصدیق شدہ منرل واٹر کاکوئی نظام موجود نہیں ،ہمارے ہاں بوتل میں فروخت ہونے والے پانی کی مختلف اقسام ہیں ،ترقی یافتہ ممالک جہاں کوالٹی کنٹرول کاسخت قانون نافذ ہے جس سے انحراف کرناناممکن نہیں ،بوتل کے اندر موجود پانی میں وہی اجزاء ہوتے ہیں جو پانی میں موجود ہیں لیکن ہمارے ہاں صورتحال مختلف ہے دنیا بھر میں بوتلوں میں سربند پانی کی تیاری جدید ترین اور سہل ہے مختلف کثیر القومی اور مقامی کمپنیاں بوتلوں میں منرل واٹر کے نام سے پانی کی فروخت کے نفع بخش کاروبار کی دوڑ میں شامل ہیں لیکن کسی کو قواعد کی پروا نہیں ،ہمارے ہاں منرل واٹر کے کاروبار سے منسلک ادارے نہ تو رجسٹرڈ ہیں اور نہ ہی ان کمپنیوں کی طرف سے فروخت کیا جانے والا پانی باقاعدہ تصدیق شدہ سمجھا جا سکتا ہے ۔۔۔؟ پاکستان میں ڈیڑھ لیٹر پانی کی بوتل کی قیمت45سے 50روپے ہے تجریہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ منرل واٹر کی بوتل میں انیٹی مونی نامی مادہ پایا جاتا ہے تین ماہ تک اسٹور کی گئی بوتلوں میں یہ مادہ مقدار میں بڑھنا شروع ہو جاتا ہے جس ے قے ،سر درد،اور بعض اوقات موت کے خدشات بھی لاحق ہو سکتے ہیں ،اس وقت پاکستان میں تقریبا 230مقامی اور بین الاقوامی ادارے منرل واٹر کے کاروبار سے منسلک ہیں ،منرل واٹر کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس پانی کو بطور اسٹیٹس سمبل کے بھی استعمال کیا جانا ہے ،عالمی تناظر میں پانی کی تجارت پر ایک نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کاروبار اب ایک منافع بخش صنعت میں تبدیل ہوگئی ہے پانی کابحران انسان کا اپنا پیدا کردہ ہے اور پھر آلودہ پانی کے مسائل نی ہی بوتل کے کاروبار کو تقویت دی ہے اس وقت بوتلوں میں بند پانی کی عالمگیر صنعت کاحجم سوا ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر چکا ہے اس مقصد کے لئے یہ صنعتیں تین سو ارب لیٹر پانی استعمال کر رہی ہیں جو دنیا بھر کی ساڑھے تین فیصد سے زاہد آبادی کی یومیہ ضرورت پوری کر سکتی ہے ،بوتل بند پانی تیار کرنے پر معمولی لاگت آتی ہے جبکہ ان کپمنیوں کامنافع تیس سے ساٹھ فیصد کے قریب ہوتا ہے ،بیشتر ممالک میں ان اداروں کو اصل خام مال یعنی پانی کی بہت کم قیمت ادا کرنا پڑتی ہے جبکہ زیادہ تر کمپنیاں کاتعلق یورپ اور امریکا سے ہے جو خام پانی کے ذخائر تیسری دنیا کے ممالک سے نہایت کم قیمت پر خرید لیتے ہیں منرل واٹر کی صنعت جدید دور کی سب سے تیز رفتار ترقی کرنے والی صنعت کادرجہ حاصل ہو رہا ہے جن کے میعار پر حکومتوں کاحتمی کنٹرول موجود نہیں اور یہ صورتحال ترقی پذیر ممالک کے لئے مزید پریشان کن ہے ،جہاں انسان کی نظریں اس مشترکہ ورثے ’’ پانی‘‘ پر لگی ہیں ،دریا ،ڈیم جھیلیں ،چشمے اور ساحل ملٹی نیشنل اداروں کے سپرد کئے جانا ایک عام سی بات ہے جسے آبی وسائل کی نجکاری کانام دیا جاتا ہے ،درحقیقت دنیا بھر کے ملٹی نیشنل ادارے منرل واٹر کے کاروبار پر اپنی اجارہداری قائم رکھنا چاہتے ہیں ،آبی وسائل پر کاروباری اداروں کاغلبہ ہمارے دور کے اہم ترین واقعات میں سیہے ،آبی وسائل کی نجکاری کاایک ایسا خفیہ ایجنڈا طے کیا گیا ہے جسے ورلڈ واٹر اتھارٹی کنٹرول کرتی ہے ،لہذا آبی وسائل کی نجکاری کایہ مطلب بھی لیا جا سکتا ہے کہ عالمی مارکیٹوں چشموں کے ذریعے پانی کنٹرول کرتی ہے اور صرف طاقت ور ممالک آبی وسائل کومنافع کمانے کے لئے اپنے استعمال میں لائیں گے ،کراچی میں جہاں صاف پانی سب سے نایاب چیز ہے اور منرل واٹر کا سب سے زیادہ کاروبار بھی کراچی جیسے شہر میں عروج پر ہے جہاں ساف پانی تو دور کی بات ہے استعمال کرنے والا پانی میں بھی کئی مافیاء سرگرم ہیں اور ٹینکر پانی کے لئے منہ مانگے دام دینے پڑتے ہیں پنجاب کے بڑے شہروں لاہور ،فیصل آباد ،ملتان ،سیالکوٹ سمے شہر اقتدار اسلام آباد کے پی کے میں پشاور ،اور دیگر بڑے شہروں میں بھی صاف پانی کے مسائل موجود ہیں تو ان حالات میں بوتل بند پانی مافیاء کی چاندی ہو رہی ہے اور غیر میعاری اور ناقص پانی بوتلوں میں بند کر کے سر عام بیچا جا رہا ہے مگر حکومتی لیول پر چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام موجود نہیں ہے جو اس موت کے کاروبار کو روک سکے اور عوام کو صاف پانی کے نام پر دی جانے والی موت کا ازالہ کیا جا سکے ،حکومت کو چاہیے کہ وہ قانون سازی کرے اور اس مکروہ دھنرے میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچائے اور پانی جیسی نعمت کو عوام الناس تک پہنچانے کا بندوبست کیا جائے،پنجاب میں صاف پانی پروجیکٹ جاری ہے واٹر فلٹریشن پلانٹ نصب کئے جا رہے ہیں مگر ان واٹر فلٹریشن پلانٹ پر فلٹر تبسیل کئے کئی مہینے گزر جاتے ہیں مگر اربارب اختیار اس طرف توجہ نہیں دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Dr M Abdullah Tabasum
About the Author: Dr M Abdullah Tabasum Read More Articles by Dr M Abdullah Tabasum: 63 Articles with 43836 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.