نگران برائے فرخت

ہمارے معاشرے کا اصل بگاڑ ہم خود ہیں۔ لیکن اپنی تسلی کیلئے ہماری نظریں حکمرانوں پر رہتی ہیں تنقید کرنے کیلئے تزلیل کرنے کیلئے جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ “جیسی قم ہوتی ہے اس پر ویسے حکمران مسلط کر دیے جاتے ہیں“ اس زمین پر ہر انسان کے ذمہ ایک کردار ہے جس کے ساتھ انصاف کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔ انہی کرداروں میں سے ایک کردار امتحانات میں نگران کا بھی ہوتا ہے جس کا احوال درج ذیل ہے۔
کچھ کاروبار ایسے ہوتے ہیں جو کہ کسی نہ کسی سیزن کے محتاج ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ پھل کا کاروبار کرتے ہیں تو مالٹا کا ایک اپنا سیزن ہوتا ہے اور آم کا ایک اپنا سیزن ہوتا ہے۔ گرم کپڑوں کا سیزن باریک کپڑوں کا سیزن۔اسی طرح تعلیمی اداروں میں بھی کمائی کے سیزن ہوتے ہیں۔ امتحانات سے پہلے سکول و کالجز کے بعد ٹیوشن کا سیزن۔۔۔ مختلف رائٹرز کے نوٹس کی خرید و فروخت کا سیزن وغیرہ وغیرہ۔۔ کل میرے علم میں ایک عجیب اضافہ ہوا ہے۔ باقی کاروباری معملات کے سیزن کے علاوہ جب امتحانات شروع ہوتے ہیں تو اس میں کمائی کے لیے معزز نگران حضرات کا بھی سیزن ہوتا ہے۔

میں آپ کے سامنے اپنے چھوٹے بھائی کی آب بیتی بیان کر دیتا ہوں جو کہ آج کل اسی صورت حال سے دو چار ہے۔ جس دن اس کا پیپر ہوتا ہے میں اسے سو روپے دے دیتا ہوں کہ امتحان کے بعد کوئی جوس وغیرہ پی لیا کرے۔ کل میں نے اس سے پوچھا کہ ہاں بھائی امتحانات کیسے ہو رہے ہیں؟ وہ بڑا مایوس ہو گیا میں وجہ دریافت کی کیا وجہ ہے؟ اس نے کہا بھائی کمرہ امتحان میں جتنے بھی میرے ساتھی ہیں سب تقریبا اچھے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ان کے پاس بہت سارے پیسے ہوتے ہیں انکی نگران سے بات چیت ہو جاتی میرے سامنے نگران ان سے پیسے لیتا ہے اور اس کے بعد وہ لڑکا جنگل کا بادشاہ ہوتا ہے جو مرضی کرے کوئی نہیں پوچھتا۔ پھر ہنستے ہوئے اس نے مجھے کہا کہ ایک دن نگران میرے پاس آیا تو میں نے اس سے کہا سر میں ادھر گرمی میں بیٹھا ہوں مہربانی کر کے مجھے آگے بیٹھا دیں اب پتہ نہیں کہ نگران صاحب نے میری اس گزارش کو نا جانے کیا سمجھا؟ اس نے ایک عجیب بات کی“تمہارے پاس کتنے پیسے ہیں؟“میں حیران ہوا خیر میں نے کہا کہ میرے پاس ڈیڑھ سو ہے وہ مسکرایا اور چلا گیا اور میں پورے امتحان میں پریشان رہا کیونکہ مجھے بعد کو یاد آیا کہ میری جیب میں ایک توسو چالیس روپے ہیں اور اب اگر اس نے مانگ لیے تو اور شرمندگی ہوگی۔

ملک میں دہشتگردی ہے، ملک میں نا انصافی ہے، ملک میں لوڈشیڈنگ ہے، ملک میں حکمران چور ہیں، ملک میں آفات ہیں، سکون نہیں ہے، اعلٰی عہدوں پر نا اہل لوگ بیٹھے ہیں، پڑھے لکھے لوگوں کے لیے نوکریاں نہیں ہیں بے روزگاری ہے حکمران اچھے نہیں، ہمسایہ اچھا نہیں مالک مکان اچھا نہیں، کرایہ دار اچھا نہیں، یہ نظام اچھا نہیں، یہ شہر اچھا نہیں، یہ لوگ اچھے نہیں، یہ ملک اچھا نہیں، یہاں سکون نہیں آرام نہیں، لوٹ مار ہے ، بے ایمانی ہے، ملاوٹ ہے، ذخیرہ اندوزی ہے، ادارے اچھے نہیں وغیرہ وغیرہ یہ گفتگو اکثر ہوتی ہے تعلیم کےزیور سے آراستہ نگرانوں کی ڈرائنگ رومز میں۔

ایسے حالات دیکھ کر یقین اور پختہ ہو جاتا ہے “جسی قوم ہوتی ہے اس پر ویسے حکمران مسلط کر دیے جاتے ہیں“۔ یہ سب کچھ بہتر ہو سکتا ہے سب کچھ بدل سکتا ہے تبدیلی آسکتی ہے یہ سب اس وقت ہوگا جب ہم تبدیل ہوں گے۔ نوجوان نسل ہر قوم و ملک کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں خدارا ان کی تربیت ایسی نہ کریں کہ جب یہ کسی اچھے عہدے پر پہنچے تو ملک کو کھوکلا کر دیں جس طرح کمرہ امتحان میں ایک نگران کا ریٹ لگا کر پورے تعلیمی نظام کو کھوکلا کر دیا تھا۔ فیصلہ آپ نے کرنا ہے ہو سکتا یہ طالب علم کل کو آپ کا آفیسر تعینات ہو جائےتو پھر سوچیں کہ آپ کو یہ رقم کتنے سود کے ساتھ واپس کرنی پڑے گی؟ اللہ سے ڈریں وہ سب دیکھ رہا ہے ۔ میں مخاتب صرف ان نگرانوں سے ہوں جن کا کردار درج بالا ہے۔
Saddam Taj
About the Author: Saddam Taj Read More Articles by Saddam Taj: 9 Articles with 7661 views I am nothing.... View More