عورتوں پر تشدد کا مسئلہ(شرعی نقطہ نظر)

موجودہ دور میں عورتوں پر تشدد کے مسئلے نے بہت سے ازہان کو الجھا رکھا ہے ہر کوئی اپنی من پسند بولتی بول رہا ہے۔ اس سلسلے میں شرعی نقطہ نظر پیش کرنے کی جستجو کر رہاں تاکہ کوئی سیکولر قسم کی شخصیات امت مسلمہ خاص کر پاکستانیوں کو مزید گمرزہ نہ کرے امید ہے یہ آرٹیکل بہت سی غلط فہمیوں کو دور کرنے میں مدد دے گا۔
 سال رواں 16-2015 کے دوران اور خصوصا اسلامی ملک پاکستان میں تحفظ حقوق نسواں بل کے معاملے میں چند بگڑے سیاستدانوں، جاہل حکمرانوں،میڈیا گروپ اور مغرب زدہ خواتین نے جو طوفان بدتمیزی برپا کر رکھا ہے، اس بارے میں شرعی نقطہ نظر بیان کرنا بہت ضروری ہے۔ شریعت اسلامی نے چودہ سو سال پہلے تحفظ حقوق نسواں سے متعلق ہر سوال،الجھن اور مسئلے کا حل بیان کردیا ہے۔ یہ مسئلہ آج اچانک پیدا نہیں ہوا۔ افسوس کی بات ہے کہ ہم اہل اسلام نے نہ قرآن کا تدبر حاصل کیا اور نہ فہم و فراست کے ساتھ مطالعہ کیا اور نہ ہی سنت رسول ﷺ سے رجوع کرنے کی زحمت گوارا کی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا چند گمراہ قسم کے لوگوں نے حقوق نسواں سے متعلق مغرب کو خوش کرنے کیلئے اپنی من مانی پسند کی تعبیریں تاویلیں شروع کردی ہیں جیسے کہ یہ حقوق نسواں کے سب سے بڑے چمپین ہیں ۔ اس طرح یہ فسادی طبقہ فساد فی الارض اور فساد فی الافکارکا سبب بنتے جارہے ہیں۔

علم حق کی بجائے ظنی مباحث سے خود کو ہمدرد نسواں ظاہر کرنے والا گمراہ طبقہ۔
رب العالمین اور نبی فخر الزماں ﷺ سے زیادہ بڑھ کر عورتوں کے حقوق کے محافظ بننے کی کوشش کر نے والوں کو اللہ تعالیٰ کے غیض و غضب سے ڈرنا چاہیے۔ ایسے گمراہ بھٹکے ٹامک ٹوئیاں کرنے والوں کے بارے میں قرآن مجید ان کے چہروں سے یوں پردہ اٹھاتا ہے۔سورہ الجاثیہ۔24-45 میں ایسے لوگوں کے متعلق کہا گیا۔وَمَا لَهُمْ بِذٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ ۚ اِنْ هُمْ اِلَّا يَظُنُّوْنَ 24؀ حقیقت یہ ہے کہ ان کے پاس علم نہیں ہے محض گمان(من پسند توضیحات) کی بنا پر یہ باتیں کرتے ہیں۔
حقوق تحفظ نسواں سے متعلق دین اسلام کا اعزاز
دنیا کے کسی مذہب،فلسفے،نظریے،افکار اورقانون و قاعدے میں دین اسلام سے بڑھ کر عورتوں کے حقوق سے متعلق متوازن نقطہ نظر کسی کا نہیں۔ ہندو مت،بدھت مت،رومی ویونانی تہذیب و تمدن ،دیگر ادیان عالم اور دور جاہلیت میں عورتوں کے ساتھ جو انسایت سوز،شرمناک سلوک ہوتا رہا ہو رہا ہے اسکا مطالعہ کرنا شاید یان لبرل مغرب زدہ طبقہ کو برا لگتا ہے یا پھر یہ بھول گئے ہیں۔ آج پھر حقوق نسواں سے متعلق افراط و تفریط سے کام لیا جارہا ہے۔
مولانا سید جلال الدین انصر کی کتاب ’’عورت اسلامی معاشرے میں ‘‘ سے کچھ اقتباس درج کرتے ہیں وہ لکھتے ہیں:
"اہلِ یونان اپنی معقولیت پسندی کے باوجود عورت کے بارے میں ایسے ایسے تصورات رکھتے تھے جن کو سن کر ہنسی آتی ہے لیکن ان سے اس بات کے سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ ان کی نگاہ میں عورت کی کیا قدر وقیمت تھی اور وہ اپنے درمیان اسے کیاحیثیت دیتے تھے۔ ان کا قول تھا آگ سے جل جانے اور سانپ کے ڈسنے کا علاج ممکن ہے لیکن عورت کے شر کا مداوا محال ہے ۔ پنڈور انامی ایک عورت کی بابت ان کا عام اعتقاد تھا کہ وہی تمام دنیاوی آفات ومصائب کی جڑ ہے ۔ ایک یونانی ادیب کہتاہے : دو مواقع پر عورت مرد کے لیے باعث مسرت ہوتی ہے ایک تو شادی کے دن دوسرا اس کے انتقال کے دن ۔‘‘
’’عورت کا مرتبہ رومی قانون نے عرصہ دراز تک نہایت پست رکھا۔ ۔ زمانہ مابعد یعنی دور تاریخی میں یہ حق باپ کی طرف سے شوہر کی طرف منتقل ہوگیا اور اب اس کے اختیارات یہاں تک وسیع ہوگئے ہیں کہ وہ چاہے تو بیوی کو قتل کرسکتا تھا۔20 5 ء تک طلاق کا کسی نے نام نہ سنا تھا۔‘‘

شاہ معین الدین ندوی عیسائیت میں عورت کی حالت پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
عورت سراپا فتنہ و شر سمجھی جاتی تھی، عابد و زاہد اُس کے سایے سے بھاگتے تھے، بڑے بڑے راہب اپنی ماں تک سے ملنا، اور اس کے چہرہ پر نظر ڈالنا معصیت سمجھتے تھے۔ رہبانیت کی تاریخ عورت سے نفرت کے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔۴۹؎
مقالات صارم میں لکھا ہے کہ کتاب مقدس عورت کو لعنتِ ابدی کا مستحق قرار دیتے ہیں۔۵۰؎
پولس رسول کے کُرنتھیوں کے نام پہلے خط سے پتہ چلتا ہے کہ عیسائیوں میں پاکیزہ رشتوں کی پہچان ختم ہو چکی تھی لوگ اپنی ماؤں تک سے تعلقات قائم کر لیتے تھے، اور بجائے اس حرام کاری پر ندامت کے آنسو بہائے جاتے وہ ایسے واقعات پر شیخیاں مارتے تھے۔
تم میں حرام کاری ہوتی ہے، بلکہ ایسی حرام کاری، جو غیر قوموں میںبھی نہیں ہوئی، چنانچہ تم میں ایک شخص اپنے باپ کی بیوی کو رکھتا ہے، اور تم افسوس تو کرتے نہیں تاکہ جس نے یہ کام کیا ہے وہ تم میں سے نکالا جائے، بلکہ شیخی مارتے ہو۔۵۱؎
ایک اور جگہ پر پولس مرد کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر تو غیر شادی شدہ رہے گا تو خدا کی یاد سے غافل نہ ہو گا لیکن اگر تو نے شادی کر لی تو بیوی تجھے ایسا کرنے سے غافل کر دے گی۔"
٭ کسی بھی مسئلے کا حل قرآن و سنت سے ہٹ کر تلاش کیا تو بھٹک جاؤ گے۔
رحمتہ اللعالمین نے اپنے آخری خطبے میں امت کو ایک کیمیا اصول ہدایت سمجھایا تھا کہ نظام حیات سے متعلق کسی بھی مسئلے کا حل قرآن و سنت سے ہٹ کر تلاش کیا تو بھٹک جاؤ گے،گمراہ ہو جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ کے غیض وغضب کا نشانہ بن جاؤ گے۔
ہمارے اسلامی ملک کی خواتین نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اپنے مالک حقیقی رب عظیم کی مرضی کے مطابق زندگی گزاریں گی یا اپنی من پسند خواہشات کے مطابق۔ رسول اللہ ﷺ نے معراج کے سفر میں دوزخ کے معائنے کے دوران گمراہ کن،بھٹکی ، نافرمان،جھگڑالو، بددیانت بدزبان اور فحش بکنے والی عورتوں کی کثیر تعداد دیکھی تھی۔
٭عورتوں پر تشدد کا مسئلہ
عورتوں پر تشدد کا مسئلہ آج کا پیدا کردہ نہیں یہ سلسلہ ہزاروں سال سے چلا آرہا ہے۔ اور تا قیامت چلتا رہے گا۔ اس تشدد کی وجہ بعض اوقات ظالم جاہل بے رحم و سفاک مرد ہوتے ہیں مگر عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ تشدد کی اصل وجہ عورت کا اپنا برا طرز عمل اور اسکا جاہلانہ رویہ ہوتا ہے۔ جب عورت اپنے سے زیادہ جسمانی طاقت رکھنے والے مرد کے ساتھ بد تمیزی،بد تہذیبی،بدکلامی او ر مقابلہ وللکارے کرے گی تو لامحالہ مرد عورت سے کمزور تو نہیں ہوتا وہ لازما اس پر ہاتھ اٹھائے گا۔ لوگ عموما تشدد کی اصل وجوہات جاننے کی کوشش نہیں کرتے وہ صرف بظاہر مظلوم کو دیکھتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ وہ ظالم مظلوم کا بھیس بدل کر مظلومیت کے روپ میں معاشرے کے سامنے آتی ہے توبے شمار ہمدردیاں سمیٹ لیتی ہے۔
دنیا کے ہر معاشرے میں دراصل تشدد کو برا سمجھا جاتا ہے اور یہ قابل نفرت عمل ہے۔ دنیا کا کوئی مذہب یا قانون اسکو اچھا نہیں کہے گا۔
دین اسلام حقیقت میں ہر قسم کے تشدد کے سخت خلاف ہے وہ صرف اس حد تک کسی قصور جرم پر مارنے کی اجازت دیتا ہے جس سے عورت کو زخم نہ آئے،ہڈی نہ ٹوٹے اور نہ معذور ہونے کا اندیشہ ہو۔
شریعت اسلامی میں درس و تدریس کے معاملے میں جس طرح استاد کو بگڑے،بد تمیز،بد اخلاق، نکمے، کام چور طالب علم کو سزا دینے کی اجازت ہے۔اس معاملے میں کوئی آواز نہیں اٹھاتا کہ استادوں کو کڑے پہنائے جائیں گے، بالکل اسی طرح گھروں میں بگڑی دماغ پھری عورت کو انکے وراثاء،ولی نگران والدین یا خاوند کوئی سزا دیتے ہیں،مار پیٹ کرتے ہیں قابل برداشت حد تک۔ تو گھروں کے جھگڑوں کو تھانوں،کچہریوں بازاروں،محلوں اور میڈیا پر اچھا لا جائے گا تو پھر ہر جگہ فساد فی لارض کی بھیانک شکلیں سامنے آئیں گی،پھر دنیا کا کوئی قانون گھر کا امن و سکون بحال نہیں کر سکے گا۔

اب ہم عورتوں پر تشدد نہیں سزا سے متعلق شرعی نقطہ نظر جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
٭ ازدواجی سکون برقرار رکھنے کے شرعی اصول۔
حکم الہی کے مطابق مرد کو حاکم مانا جائے ورنہ گھریلو زندگی اجیرن بن جائے گی۔
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ ۭ
النساء1/-34-4 مرد عورتوں کے جملہ معاملات کے ذمہ دار [٥٧] اور منتظم ہیں اس لیے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دے رکھی ہے۔ اور اس لیے بھی کہ وہ اپنے مال خرچ کرتے ہیں،
نیک سیرت بیویاں شوہروں کی فرمانبردار ہوتی ہیں۔
فَالصّٰلِحٰتُ۔ پس جو صالح عورتیں ہیں، النساء2/-34-4
قٰنِتٰتٌ ۔ وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں، النساء3/-34-4
حٰفِظٰتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ ۭ النساء4/-34-4
(شوہروں کے پیٹھ پیچھے) اللہ کی حفاظت (و نگرانی) میں (ازدواجی حقوق و مفاد کی) نگہداشت کرتی ہیں ۔
سرکش(بگڑی) عورتوں کو سمجھانے کا شرعی طریقہ
وَالّٰتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاهْجُرُوْھُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ ۚ النساء5/-34-4
اور جن بیویوں سے تمہیں سرکشی(بد دماغی بدکلامی) کا اندیشہ ہو انہیں سمجھاؤ (اگر نہ سمجھیں) تو خواب گاہوں میں ان سے الگ رہو (پھر بھی نہ سمجھیں تو) انہیں ضرب لگاؤ۔
وَالّٰتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ ۔ جن بیویوں سے تمہیں سرکشی(بدکلامی،جھگڑے اور اکڑ) کا ڈر رہتا ہے ،
1۔ فَعِظُوْھُنَّ۔ پہلے تو اسکو سمجھاؤ(کہ اپنے طرز کلام اور رویے کو درست کرے گھر کے ماحول کو خراب نہ کرے)
2۔ وَاهْجُرُوْھُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ۔ ( اگر نصیحت اثر نہ کرے) تو اسکو اپنے بستر سے علیحدہ کردو (کہ شاید سدھر جائے) ،
3۔ وَاضْرِبُوْھُنَّ جب دونوں حربے ناکام ہو کائیں تو پھر ( تشد نہیں جسمانی قابل برداشت) جسمانی سزا دو۔

عورتوں کے سدھرنے پر بار بار زیادتی کے بہانے تلاش نہ کرو۔
فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلًا ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيْرًا 34؀ النساء6/-34-4
پھر اگر وہ تمہاری بات قبول کرلیں تو خواہ مخواہ ان پر زیادتی کے بہانے تلاش نہ کرو ۔ یقینا اللہ بلند مرتبہ والا اور بڑی شان والا ہے۔

مفسر قرآن تیسیر القران عبد الرحم کیلانی صاحب عورتوں پر سختی کے بارے میں لکھتے ہیں۔
[٥٩] نشوز کا لغوی مع نیٰ بلندی یا ارتفاع، اٹھان اور ابھار کے ہیں۔ خصوصاً جب کسی چیز میں یہ اٹھان تحرک اور ہیجان کا نتیجہ ہو مثلاً عورت اپنے خاوند کو اپنا ہمسر یا اپنے سے کمتر سمجھتی ہو یا اس کی سربراہی کو اپنے لیے توہین سمجھ کر اسے تسلیم نہ کرتی ہو ۔ اس کی اطاعت کے بجائے اس سے کج بحثی کرتی ہو ۔ خندہ پیشانی سے پیش آنے کی بجائے بدخلقی سے پیش آتی ہو اور سرکشی پر اتر آتی ہو ۔ بات بات پر ضد اور ہٹ دھرمی دکھاتی ہو یا مرد پر ناجائز قسم کے اتہامات لگاتی ہو ۔ یہ باتیں نشوز کے معنیٰ میں داخل ہیں ۔ ایسی عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو تین قسم کے ترتیب وار اقدام کرنے کی اجازت دی ہے۔
1۔ پہلا قدم یہ ہے کہ اسے نرمی سے سمجھائے کہ اس کے اس رویہ کا کیا انجام ہو سکتا ہے۔ لہذا وہ کم از کم اپنی بہتری اور مفاد کی خاطر گھر کی فضا کو مکدر نہ بنائے۔
2۔ پھر اگر وہ خاوند کے سمجھانے بجھانے کا کچھ اثر قبول نہیں کرتی تو خاوند اس سے الگ کسی دوسرے کمرہ میں سونا شروع کر دے۔ اور اسے اپنے ساتھ نہ سلائے۔ اگر اس عورت میں کچھ بھی سمجھ بوجھ ہوگی اور اپنا برا بھلا سمجھنے سوچنے کی تمیز رکھتی ہوگی تو وہ اپنے خاوند کی اس ناراضی اور سرد جنگ کو برداشت نہیں کر سکے گی۔
3۔ اگر پھر بھی اسے ہوش نہیں آتا تو پھر تیسرے اور آخری حربہ کے طور پر مارنے کی بھی اجازت دی گئی ہے، مگر چند شرائط کے ساتھ جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث سے واضح ہے :

عورتوں کو تشدد کا نشانہ نہ بنایا جائے۔
١۔ آپ نے فرمایا 'خبردار! عورتوں کے متعلق نیک سلوک کی وصیت قبول کرو ۔ وہ تمہارے پاس صرف تمہارے لیے مخصوص ہیں ۔ اس کے سوا تم ان کے کچھ بھی مالک نہیں، بجز اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کریں اگر وہ ایسا کریں تو تم انہیں بستروں میں علیحدہ کر سکتے ہو اور اس طرح مار سکتے ہو کہ انہیں چوٹ نہ آئے' (ترمذی، ابو اب الرضاع، باب فی حق المرأۃ علی زوجھا)

٢۔ آپ نے فرمایا۔ 'بیوی کو مارو نہیں نہ اسے برا بھلا کہو اور نہ اسے چھوڑو مگر گھر میں' (یعنی گھر میں ہی اسے اپنے بستر سے علیحدہ سلاؤ۔ گھر سے نکالو نہیں ۔) ابو داؤد، کتاب النکاح، باب فی حق المرأۃ علی زوجھا)

٣۔ آپ نے فرمایا 'تم میں سے کوئی اپنی بیوی کو یوں نہ مارے جیسے اپنے غلام کو مارتے ہو، پھر دن کے آخر میں اس سے جماع بھی کرے۔' (بخاری، کتاب النکاح، باب مایکرہ من ضرب النساء ۔۔ مسلم کتاب الجنۃ۔ باب النار یدخلہ الجبارون)

اور ایک حدیث کے مطابق کسی کو بھی یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی ، یا ملازم یا بال بچوں کو منہ پر مارے۔
اور تیسری پابندی یہ ہے کہ ایسی مار نہ مارے جس سے اس کی بیوی کو کوئی زخم آ جائے یا اس کی کوئی ہڈی پسلی ٹوٹ جائے۔ ان حدود و قیود کے ساتھ خاوند کو ایسی اضطراری حالت میں بیوی کو مارنے کی اجازت دی گئی ہے۔
[٦٠] یعنی اگر وہ باز آ جاتی ہیں تو محض ان پر اپنا رعب داب قائم کرنے کے لیے پچھلی باتیں یاد کر کے ان سے انتقام نہ لو اور اس اجازت سے ناجائز فائدہ نہ اٹھاؤ اور اگر ایسا کرو گے تو اللہ جو بلند مرتبہ اور تم پر پوری قدرت رکھتا ہے تم سے تمہارے اس جرم کا بدلہ ضرور لے گا۔( حافظ عبد الرحمن کیلانی تفسیر تیسیر القرآن)

((عَنْ حَکِیْمِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ الْقُشَیْرِیِّ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ!مَاحَقُّ زَوْجَۃِ أَحَدِنَا عَلَیْہِ قَالَ أَنْ تُطْعِمَھَاإِذَا طَعِمْتَ وَتَکْسُوَھَا إِذَا اکْتَسَیْتَ وَلَا تَضْرِبِ الْوَجْہَ وَلَا تُقَبِّحْ وَلَا تَھْجُرْ إِلَّا فِی الْبَیْتِ))
[رواہ أبو داوٗد : کتاب النکاح، باب فی حق المرأۃ علی زوجھا]
’’ حضرت حکیم بن معاویہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہامیں نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! ہم پر ہماری بیویوں کے کیا حقوق ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جب تو کھانا کھائے تو اسے بھی کھلائے جب تو کپڑے پہنے اسے بھی پہنائے منہ پر نہ مارے‘ نہ گالی دے اور اسے نہ چھوڑ مگر گھر میں۔‘‘
دور صحابہ میں عورتوں کو تھپڑ مارنے کے واقعات
فرمان رسول اللہ ﷺ کی رو سے مارپیٹ کے معاملے میں مرد پر کوئی قصاص نہیں(کوئی تعزیری سزا نہیں)
(۱) ابن ابی حاتم نے اشعت بن عبد المالک کے طریق سے حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ ایک عورت نبی ﷺ کے پاس آئی اور اپنے خاوند کے خلاف زیادتی کا بدلہ لینا چاہتی تھی کیونکہ اس نے اس کو تھپڑ مارا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے قصاص کا حکم فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ’’ الرجال قومون علی النساء ‘‘ (اس کے بعد ) بغیر قصاص کے اس کو لوٹا دیا گیا۔
(۲) عبد بن حمید وابن جریر نے قتادہ کے طریق سے حسن ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو تھپڑ مارا تو وہ نبی ﷺ کے پاس آئی اور آپ نے اس سے قصاص (یعنی بدلہ) لینے کا ارادہ فرمایا تو (یہ آیت ) نازل ہوئی ’’ الرجال قومون علی النساء ‘‘ آپ نے اس مرد کو بلایا اور اس پر یہ آیت تلاوت فرمائی۔ اور فرمایا میں نے ایک کام کا ارادہ کیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے علاوہ (دوسرے کام) کا ارادہ فرمایا۔
تاریخ طبری میں ہے کہ سپہ سالار حضرت سعد بن ابی وقاص (رضی اللہ عنہ) کسی جہادی معرکے میں اپنے جوہر دکھا رہے تھے،اسی اثنا میں ایک زوجہ جو پہلے شہید سپہ سالار حضرت مثنیٰ کے عقد میں تھیں بیوہ ہونے کے بعد انکے نکاح میں آئیں تھیں۔ انکو اپنے پہلے شوہر کی عسکری کارنامے یاد آئے اور عین میدان جنگ میں انکی نئی زوجہ نے کہا واہ کیا بات تھی حضرت مثنیٰ کی۔ حضرت سعد بن وقاص کو یہ بے موقع محل بات اس وقت بہت بری لگی اور انکو ایک چپاٹ رسید کردیا تھا۔

اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو گھریلو معامالات میں مرد سے قصاص(بدلہ لینے،سزا دینے) سے منع کردیا۔
(۳) الفریابی وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم وابن مردویہ نے جریر بن حازم کے طریق سے حسن رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے انصار میں سے اپنی عورت کو تھپڑ مارا تو وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر قصاص کا مطالبہ کر رہی تھی نبی اکرم ﷺ نے ان دونوں کے درمیان قصاص کا فیصلہ فرمایا تو (اس پر) یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ’’ولا تعجل بالقران من قبل ان یقضی الیک وحیہ وقل ‘‘ (طہ آیت ۱۱٤) تو رسول اللہ ﷺ خاموش ہوگئے اور پھر یہ آیت نازل ہوئی ’’ الرجال قومون علی النساء ‘‘ آخری آیت تک تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہم نے ایک کام کا ارادہ کیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے علاوہ (دوسرے کام) کا ارادہ فرمایا۔

(٤) ابن مردویہ نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ ایک انصاری ایک عورت کو لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اس عورت نے کہا یا رسول اللہ ﷺ اس کا خاوند فلاں بن فلاں انصاری ہے اس نے اسے مارا ہے اور اس کے چہرے پر نشان چھوڑے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس کو اس کا حق نہ تھا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ’’ الرجال قومون علی النساء بما فضل اللہ بعضہم علی بعض ‘‘ یعنی عورتوں کو ادب سکھانے میں ان کو اختیار ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا امین نے ایک کام کا ارادہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے ایک اور کام کا ارادہ فرمایا۔

(۵) ابن جریر نے ابن جریج رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو تھپڑا مارا نبی اکرم ﷺ نے قصاص کا ارادہ فرمایا ابھی یہ لوگ اسی حال میں تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی کہ مرد گھر کے نگران و حاکم ہیں (انکو سزا نہیں دی جائے گی۔)

عورت کی وہ خامیاں/خرابیاں جو مرد کو ہاتھ اٹھانے پر مجبور کرتی ہیں۔
1۔ مرد کی موجودگی میں اسکو طیش دلانا
2۔غیر موجودگی میں خیانت کا مرتکب ہونا
4۔ بداخلاقی اور زبان طرازی کرنا
5۔ ناشکراپن کو معمول بنا لینا۔
6۔ معمولی باتوں پربے صبری کا مظاہر کرنا
7۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر خاوند کی شکایتیں کرنا۔
8۔ خاوند کی بے عزتی اور زلیل کرنا۔
9۔ خاوند کے رشتے داروں کو زلیل کرنا۔
10۔ شک کی بنیاد پر الزام تراشی کو اپنا وطیرہ بنا لینا۔
11۔ بے حیائی و فحاشی کے کام کرنے لگ جانا۔
(۲۷) ابن ابی شیبہ نے عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت کیا کہ کیا میں تم کو تین کمر توڑ مصیبتوں کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ کہا گیا وہ کون سی ہیں؟ تو فرمایا ظالم بادشاہ جب اس کے ساتھ نیکی کی جائے تو شکر ادا نہ کرے اور جب اس کے ساتھ برائی کی جائے تو معاف نہ کرے اور برا پڑوسی جب نیکی کو دیکھے تو اس کو چھپا دے اور جب برائی کو دیکھے تو اس کو پھیلا دے اور بری عورت جب اس کے پاس تو حاضر ہو تو تجھ کو غصہ دلائے اور جب اس سے تو غائب ہو تو تیری خیانت کرے۔

(۲۵) ابن ابی شیبہ نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا کہ کوئی آدمی ایمان باللہ کے بعد اچھے اخلاق والی عورت سے بڑھ کر خیر پانے والا نہیں جو خاوند سے محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی ہو
اور کوئی آدمی اللہ تعالیٰ سے کفر کے بعد برے اخلاق والی عورت سے بڑھ کر کوئی برائی پانے والا نہیں جو بد اخلاق اور زبان کی تیز ہو۔

(۳۲) البزار والحاکم (نے اس کو صحیح کہا) اور ابن عمرو ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس عورت کی طرف نظر رحمت نہیں فرمائے گا جو اپنے شوہر کا شکر ادا نہ کرے۔ جبکہ وہ اپنے خاوند سے مستغنی بھی نہیں۔

جس عورت کا خاوند ناراض ہو تو عورت کی کوئی عبادت رب کے حضور قبول نہیں ہوتی۔
(٤۲) البیہقی نے شعب الایمان میں جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔ وہ عورت جس پر اس کا شوہر ناراض ہو ایسے میں کہ ان کی نماز قبول ہوتی ہے اور نہ ان کی نیکی اوپر چڑھتی ہے۔

(٤٤) البیہقی نے زید بن ثابت ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی بیٹی سے فرمایا بلاشبہ میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ عورت اپنے شوہر کی شکایت کرنے والی ہو۔

(٤۵) البیہقی نے حسن رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان ؓ کی بیوی سے فرمایا اے میری بیٹی! کسی عورت کے لئے یہ جائز نہیں کہ خاوند کے منہ پر اس کی مذمت،بے عزتی کرتی پھرے۔

(۵۰) ابن ابی شیبہ اور حاکم (نے اس کو صحیح کہا) اور بیہقی نے ام سلمہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو عورت اس حال میں رات گزارے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگی۔
تشدد کا مفہوم
مختلف احادیث مبارکہ کی روشنی میں عورتوں پر تشدد کا مفہوم یوں بنتا ہے۔
1۔ تشدد اسوقت کہلائے گا جب اسکو جانوروں کی طرح مارا پیٹا جائے۔
2۔ کسی ڈنڈے سے اس قدر مارا کہ اسکے جسم پر زخموں کے نشان پڑ جائیں یا واضح ظاہر ہوں۔
3۔ کسی سخت شے سے مارا جائے کہ اسکی ہڈیاں ٹوٹ جائیں۔
4۔ بری طرح مار کٹائی سے اسکو بے ہوشی کی سطح پر پہنچا دیا۔
5۔ کسی تیز و تند آلے سے اعضاء کاٹ دیئے جائیں۔
6۔ صحت مند عورت کو معذور بنا دیا جائے۔
7۔مار مار کر لہو لہان کردیا جائے۔
تشدد ظلم ہی ایک شاخ ہے۔یاد رہے کہ اگر بے قصور عورت پر تشدد تو دور کی بات ہے صرف مار پیٹ کو معمول بنایا تو یہ عمل ظلم کے زمرے میں آتا ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے ظالم و جاہل مردوں کو جو عورتوں کو بے گناہ،بغیر کسی جرم یا قصور کے مارتے ہیں دنیا و آخرت میں زلیل و رسواء کرے گا۔
کوئی سمجھ دار مسلمان بندہ خواہ مخواہ عورت صنف ناک کو کبھی بھی نہیں مارے گا،یہ عورت کا سرکش رویہ ہوتا ہے جو وہ مرد کو طیش دلاتی ہے اور پھر اس سے خیر کی توقع رکھے ایسا کہیں نہیں ہوتا۔ گھریلو مار کٹائی دراصل عورت کی بد زبانی ،بدلحاظی اور برے کاموں میں ملوث ہونے کی بناء پر ہوتی ہے۔ رویوں کو کسی دنیا کے قانون اور تعزیز کے زریعے درست نہیں کیا جاسکتا ۔تشدد پر صرف خوف الہی، واعظ و نصیحت اور اصلاح سے قابو پایا جاسکتا ہے۔ عورتوں کے معاملے میں مردوں کو سزا دینے کے قوانین فساد فی الارض کا باعث بنیں گے۔

اصلاح و تربیت و تعلیم کی غرض سے ہاتھ اٹھانا یا نرم قسم کی سوٹی کا استعمال تشدد نہیں کہلاتا۔
احادیث مبارکہ کی روشنی میں اخلاقیات سمجھانے،آداب بتانے،اصلاح کرنے اور مہذب بنانے کی غرض سے عورت پر ہاتھ اٹھانے کو تشدد نہیں کہا جائے گا۔
جیسا کہ بہت سے صحابہ کرام نے اپنی بیویوں کو اخلاقی و دینی تعلیم کی غرض سے مارا مگر انکو زخمی نہیں کیا۔
آپ ﷺ نے اسی طرح کی تادیبی کاروائی کو روکنے کی غرض سے مردوں پر بھی وہی سزا کا اطلاق کرنا چاہا جو انہوں نے عورتوں کے ساتھ روا رکھا تھا تو اللہ تعالیٰ نے سورہ النساء میں الرجال قوامون علی النساء کا حکم نافذ کرکے مردوں سے بدلہ لینے یا قصاص لینے پر پابندی لگا دی اور تا قیامت اس فضول بحث کو جو آج کے دور میں مسلم معاشرے خاص کر پاکستان میں زور پکڑتی جارہی ہے ختم کردیا تھا۔ اس شرعی حکم سے گھریلو زندگی کو مزید خراب ہونے سے روک دیا۔
مگر ہائے افسوس اس مسئلے کو جس کا حل چودہ سو سال قبل قرآن پاک کے واضح احکامات،فرمان رسول ﷺ اور سیرت صحابہ سے پیش کردیا گیا تھا۔ یہ نام نہاد گمراہ لبرل طبقہ خالق کائنات رحمان و رحیم سے زیادہ عورتوں کے ہمدرد بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو عورت کے معاملے میں مرد کو کسی قسم کی سزا،بدلے اور قصاص سے روکا تو دور حاضر کے گمراہ مسلمانوں کے سیاسی و مذہبی رہنما کون ہوتے ہیں جو مردوں کو پابند سلاسل اور ان پر تعیزیری قوانین بنائیں۔ لگتا ہے انکا واسطہ کسی سر پھری، گستاخ، بد کلام،بدلحاظ ،منہ پھٹ اور بد تمیز عورت سے نہیں پڑا۔
اب ملک پاکستان میں اس معاملے پر طوفان بدتمیزی کھڑا کرنا فساد فی الارض کے زمرے میں آتا ہے اور جو اسطرح کا فساد کریں گے اللہ تعالیٰ کا قہر ان پر نازل ہوگا۔

عورت کی سزا کا شرعی طریقہ کار
قرآن مجید میں سور النساء آیت نمبر۔ 34 میں میں بگڑی عورتوں کو سدھارنے کی غرض سے تین طریقے بتائے گئے ہیں۔
وَالّٰتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ ۔ جن بیویوں سے تمہیں سرکشی(بدکلامی،جھگڑے اور اکڑ) کا ڈر رہتا ہے ،

پہلا طریقہ۔ فَعِظُوْھُنَّ۔ پہلے تو اسکو سمجھاؤ(کہ اپنے طرز کلام اور رویے کو درست کرے گھر کے ماحول کو خراب نہ کرے)
دوسرا طریقہ۔ وَاهْجُرُوْھُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ۔ ( اگر نصیحت اثر نہ کرے) تو اسکو اپنے بستر سے علیحدہ کردو (کہ شاید سدھر جائے)
تیسرا طریقہ۔ وَاضْرِبُوْھُنَّ جب دونوں حربے ناکام ہو کائیں تو پھر ( تشد نہیں جسمانی قابل برداشت) جسمانی سزا دو۔
(۸٦) ابن ابی شیبہ نے امام حسن رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ ’’واضربوہن ‘‘سے مراد ہے ایسا مارو کہ اس پر مارنے کے نشانات ظاہر نہ ہو۔
کس شے سے مارے
(۸۹) ابن جریر نے عطا رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ ضرب غیر مبرح سے کیا مراد ہے؟۔ تو انہوں نے فرمایا مسواک اور اس جیسی چیزوں کے ساتھ مارو۔

(۱۱) سدی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ’’ الرجال قومون علی النساء ‘‘ کہ وہ عورتوں کے ہاتھ پکڑتے ہیں اور ان کو ادب سکھاتے ہیں۔

نیکی کے کام میں نافرمانی کرے تو مارنے کی اجازت ہے
(۸۷) ابن جریر نے عکرمہ ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ان کو مارو اگر وہ تمہاری نافرمانی کریں نیکی کے معاملات میں، مگر ایسا(تشدد کی طرح نہ مارو کہ جسم پر مارنے کے نشانات ظاہر ہوں۔

(۸۸) ابن جریر نے حجاج رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عورتوں کو الگ کر دو لیٹنے کی جگہوں میں اور ان کو مارو اگر وہ تمہاری نافرمانی کریں نیک کام میں اور ان کو ایسا مارو کہ مارنے کے نشانات ظاہر نہ ہوں۔
چوتھا طریقہ۔ ناراضگی
بیویوں کے رویے سے تنگ آکر آپ ﷺ کا ان کے قریب نہ جانا۔
ابن سلام، فزاری، حمید طویل، انس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کے پاس ایک مہینہ تک نہ جانے کی قسم کھا لی اور آپ ﷺ کے پاؤں میں موچ آ گئی تھی اس لئے آپ ﷺ اپنے ایک بالا خانے میں بیٹھ گئے، حضرت عمر حاضر ہوئے اور پوچھا کیا آپ ﷺ نے اپنی بیویوں کا طلاق دے دی؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں لیکن میں نے ان سے ایک مہینہ کے لئے ایلا کیا ہے، چنانچہ انتیس دن رکے رہے پھر اترے اور اپنی عورتوں کے پاس گئے۔
(حوالہ۔ صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 2369 حدیث مرفوع مکررات 14 متفق علیہ 6)

جب یہ تینوں حربے ناکام ہو جائیں تو شریعت نے مرد کو تشدد کا راستہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں دی بلکہ اسکو باعزت طریقے سے طلاق دے ڈالے۔
پانچواں طریقہ۔ طلاق کی دھمکی عورتوں کو سدھارنے کا شرعی طریقہ ہے۔
(آیت قرآنی کاترجمہ)" اگر پیغمبر تم عورتوں کو طلاق دے دو تو ان کا پروردگار بہت جلد تمہارے بدلے ان کو اچھی بیویاں دے دے گا جواسلام والیاں ایمان والیاں، فرمانبرداری کرنے والیاں، تو به کرنے والیاں، عبادت کرنے والیاں روزه رکھنے والیاں ہوں گی کچھ بیوه اور کچھ کنواری۔ عمرو بن ہشیم، حمید، حضرت انس ؓ سے روایت کرتے ہیں حضرت عمر ؓ نے بیان کیا کہ نبی ﷺ کی بیویاں آنحضرت ﷺ کو غیرت دلانے کے لئے جمع ہوئیں تو میں نے ان بیویوں سے کہا کہ اگر آنحضرت ﷺ تمہیں طلاق دے دیں تو بہت ممکن ہے کہ ان کا رب تمہارے بدلے تم سے اچھی بیویاں ان کو دے دے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
(حوالہ۔ صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 2128 حدیث مرفوع مکررات 3 متفق علیہ 2)
ھٹا شرعی طریقہ۔ لعان
غیرت کے نام پر قتل کرنے یاعورت کو تشدد سے نشانہ بنانے کی بجائے لعان کے زریعے مرد اور عورت میں علیحدگی کر ادی جائے۔
1۔تہمت اور لعان کے بعد عورت کو طلاق دینا ہی بہتر ہے۔
2۔ محض زنا کا الزام لگا کر بذات خود،برادری کے اکسانے،پنچایت یا جرگے کے کہنے پر عورت کو تشدد کے زریعے قتل کرنے کی ممانعت۔
3۔ زنا ثابت ہے تو مرد ہو یا عورت دونوں کو حدود کی عائد کردہ سزا بھگتنا پڑے گی۔
4۔ صرف عدالتیں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ تہمت یا زنا کے جرم میں سزائیں دیں۔
اسحاق، محمد بن یوسف، اوزاعی، زہری، حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کہ عویمر بن حارث عاصم بن عدی کے پاس آیا جو کہ بنی عجلان کا سردار تھا اور کہنے لگا کہ بھلا یہ تو بتاؤ کہ ایک شخص کسی دوسرے آدمی کو اپنی بیوی سے زنا کرتے ہوئے دیکھے اگر اسے قتل کرتا ہے تو تم اسے قصاص میں قتل کردو گے تو پھر کیا کرے؟
یہ بات تم آنحضرت ﷺ سے دریافت کرو عاصم آنحضرت ﷺ کے پاس آئے اور دریافت کیا تو آنحضرت ﷺ نے ایسے مسائل دریافت کرنے کو ناپسند فرمایا عاصم نے جا کر عویمر سے بیان کردیا مگر عویمر نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں ہرگز باز نہیں آسکتا جب تک کہ اس مسئلہ کو آنحضرت ﷺ سے پوچھ نہ لوں پھر وہ نبی ﷺ کے پاس آیا اور آپ ﷺ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! اگر ایک شخص اپنی بیوی سے دوسرے آدمی کو زنا کرتے دیکھے تو کیا کرے اگر وہ اسے قتل کرتا ہے تو تم اسے قصاص میں قتل کردو گے آخر کیا کرے؟
آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ نے تمہارے اور تمہاری بیویوں کے حق میں قرآن کی آیت نازل فرمائی ہے اور لعان کا حکم دیا ہے تو عویمر نے آنحضرت ﷺ کے حکم سے بیوی سے لعان کرلیا پھر آپ سے عرض کیا یا رسول اللہ! اگر اب میں اسے اپنے پاس رکھتا ہوں تو گویا اس پر ظلم کرتا ہوں اس لئے اسے طلاق دے دی اس کے بعد مرد اور عورت میں یہی طریقہ جاری ہوگیا۔
(حوالہ صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 1250 حدیث مرفوع مکررات 31 متفق علیہ 13۔صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1944 حدیث مرفوع مکررات 7 متفق علیہ 4 )
(حوالہ۔ مسند احمد:جلد دوم:حدیث نمبر 284 حدیث مرفوع مکررات 12 متفق علیہ 3 )
لعان کا طریقہ
ہلال کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! ﷺ واللہ میں اس پر الزام لگانے میں سچا ہوں، جبکہ ان کی بیوی نے تکذیب کی، نبی ﷺ نے فرمایا ان دونوں کے درمیان لعان کرا دو (جس کا طریقہ یہ ہے کہ) ہلال سے کہا گیا ہے کہ آپ گواہی دیجئے، انہوں نے چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ گواہی دی کہ وہ اپنے دعوی میں سچے ہیں، جب پانچیں مرتبہ کہنے کی باری آئی تو ان سے کہا گیا کہ ہلال اللہ سے ڈرو، دنیا کی سزا آخرت کی سزا سے ہلکی ہے اور یہ پانچویں مرتبہ کی قسم تم پر سزا کو ثابت کر سکتی ہے، انہوں نے کہا اللہ نے جس طرح مجھے کوڑے نہیں پڑھنے دیئے، وہ مجھے سزا بھی نہیں دے گا اور انہوں نے پانچویں مرتبہ یہ قسم کھا لی کہ اگر وہ جھوٹے ہوں تو ان پر اللہ کی لعنت ہو۔ پھر ان کی بیوی سے اسی طرح چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر اس بات پر گواہی دینے کے لئے کہا گیا کہ ان کا شوہر اپنے الزام میں جھوٹا ہے، جب پانچویں قسم کی باری آئی تو اس سے کہا گیا کہ اللہ سے ڈر، دنیا کی سزا آخرت کے عذاب کے مقابلے میں بہت ہلکی ہے اور یہ پانچویں مرتبہ کی قسم تجھ پر سزا بھی ثابت کر سکتی ہے، یہ سن کر وہ ایک لمحے کے لئے ہچکچائی، پھر کہنے لگی، واللہ میں اپنی قوم کو رسوا نہیں کروں گی اور پانچویں مرتبہ یہ قسم کھا لی کہ اگر اس کا شوہر سچا ہو تو بیوی پر اللہ کاغضب نازل ہو، اس کے بعد نبی ﷺ نے ان دونوں کے درمیان تفریق کرا دی۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب یہ آیت قرآنی نازل ہوئی کہ" جو لوگ پاکدامن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں اور پراس پر چار گواہ پیش نہ کر سکیں تو انہیں اسی کوڑے مارو اور ان کی گواہی کبھی قبول نہ کرو،"
حضرت سعد رضی اللہ عنہ کہنے لگے یا رسول اللہ! ﷺ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ یہ حکم برحق ہے اور اللہ ہی کی طرف سے آیا ہے، لیکن مجھے اس بات پر تعجب ہو رہا ہے کہ اگر میں کسی کمینی عورت کو اس حال میں دیکھوں کہ اسے کسی آدمی نے اپنی رانوں کے درمیان دبوچ رکھا ہو اور میں اس پر غصہ میں بھی نہ آؤں اور اسے چھیڑوں بھی نہیں ، پہلے جا کر چارگواہ لے کر آؤں ، بخدا! میں تو جب تک گواہ لے کر آؤں گا اس وقت تک وہ اپنا کام پورا کر چکا ہوگا ۔ ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ تھوڑی دیر بعد ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ آگئے، یہ ہلال ان تین میں سے ایک ہیں جو غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے اور بعد میں ان کی توبہ قبول ہوگئی تھی اور یہ عشاء کے وقت اپنی زمین سے واپس آئے، تو اپنی بیوی کے پاس ایک اجنبی آدمی کو دیکھا، انہوں نے انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے ان کی باتیں سنیں لیکن تحمل کا مظاہر کیا ، صبح ہوئی تو نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ! ﷺ میں رات کو اپنی بیوی کے پاس آیا تو اس کے پاس ایک اجنبی آدمی کو پایا، میں نے انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا۔ نبی ﷺ پر یہ بات بڑی شاق گذری اور اس پر آپ ﷺ نے ناگواری کا اظہار فرمایا انصار بھی اکٹھے اور کہنے لگے کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے جو کہا تھا، ہم اسی میں مبتلا ہو گئے، اب نبی ﷺ ہلال بن امیہ کو سزا دیں گے اور مسلمانوں میں ان کی گواہی کو ناقابل اعتبار قرار دے دیں گے، لیکن ہلال کہنے لگے کہ بخدا! مجھے امید ہے کہ اللہ میرے لئے اس سے نکلنے کا کوئی راستہ ضرور بنائے گا، پھر ہلال کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! مجھے محسوس ہو رہاہے کہ میں نے جو مسئلہ آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے، وہ آپ پر شاق گذرا ہے، اللہ جانتا ہے کہ میں اپنی بات میں سچا ہوں ۔
نبی ﷺ بھی ان پر سزا جاری کرنے کا حکم دینے والے ہی تھے کہ نبی ﷺ پر وحی کا نزول شروع ہوگیا اور جب نبی ﷺ پر وحی نازل ہو رہی ہوتی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی ﷺ کے روئے انور کا رنگ متغیر ہونے سے اسے پہچان لیتے تھے اور اپنے آپ کو روک لیتے تھے، تا آنکہ آپ ﷺ کو وحی سے فراغت ہوجاتی، چنانچہ اس موقع پر یہ آیت لعان نازل ہوئی کہ جو لوگ اپنی بیویوں پر بدکاری کا الزام لگائیں اور ان کے پاس سوائے ان کی اپنی ذات کے کوئی اور گواہ نہ ہو تو ۔ جب نبی ﷺ پر سے نزول وحی کی کیفیت ختم ہوئی تو فرمایا ہلال! تمہیں خوشخبری ہو کہ اللہ نے تمہارے لئے کشادگی اور نکلنے کا راستہ پیدا فرما دیا، انہوں نے عرض کیا کہ مجھے اپنے پروردگار سے یہی امید تھی، نبی ﷺ نے فرمایا اس کی بیوی کو بلاؤ، چنانچہ لوگ اسے بلا لائے، جب وہ آگئی تو نبی ﷺ نے ان دونوں کے سامنے مذکورہ آیات کی تلاوت فرمائی اور انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ آخرت کا عذاب دنیا کی سزا سے زیادہ سخت ہے۔

٭ تم میں سے وہ مردبہتر نہیں جو عورتوں پر تشدد کرتا پھرے۔
(۹٤) عمرو بن احوص ؓ نے بیان فرمایا کہ وہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حاضر تھے آپ نے اللہ کی حمد وثنا بیان کی اور اللہ کا ذکر اور وعظ ونصیحت کرنے کے بعد فرمایا یہ کون سا دن سب سے زیادہ حرمت والا ہے؟ کون سادن سب سے زیادہ حرمت والا ہے ؟ کون سا دن سب سے زیادہ حرمت والا ہے ؟ لوگوں نے کہا حج اکبر کا دن ہے یا رسول اللہ
آپ ﷺ نے فرمایا تمہارے خون اور تمہاری مال اور تمہاری عزتیں تم پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح یہ دن یہ شہر اور یہ مہینہ حرمت والا ہے۔
1۔ خبردار ہر زیادتی کرنے والا اپنی ذات پر ہی زیادتی کرتا ہے ،
2۔خبردار کوئی والد اپنی اولا د پر زیادتی نہ کرے۔ اور نہ اولاد اپنے والد پر زیادتی کرے ،
3۔ خبردار تمہارا حق تمہاری عورتوں پر ہے اور تمہاری عورتوں کا حق تم پر ہے۔ پس تمہارا حق تمہاری عورتوں پر یہ ہے کہ وہ تمہارے گھروں/بستروں پر ان کو نہ آنے دیں جن کو تم ناپسند کرتے ہو اور ان کا حق تم پر یہ ہے کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ یعنی ان کو اچھا لباس اور اچھا کھانا دو۔
عورت کے ساتھ دانشمندی سے گزارہ کرنا پڑتا ہے۔
عمرو ناقد، ابن ابی عمر، سفیان، ابی زناد، اعرج، حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عورت کو پسلی کی ہڈی سے پیدا کیا گیا ہے اور تجھ سے کبھی سیدھی نہیں چل سکتی پس اگر تو اس سے نفع اٹھانا چاہتا ہے تو اٹھا لے اور اس کا ٹیڑھا پن اپنی جگہ قائم رہے گا اور اگر تو نے اسے سیدھا کرنا چاہا تو تو اسے توڑ دے گا اور اس کا توڑنا اسے طلاق دینا ہے۔ حوالہ۔ صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 1151 حدیث مرفوع مکررات 16 متفق علیہ 4)
حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ وَابْنُ أَبِي عُمَرَ وَاللَّفْظُ لِابْنِ أَبِي عُمَرَ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْمَرْأَةَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ لَنْ تَسْتَقِيمَ لَکَ عَلَی طَرِيقَةٍ فَإِنْ اسْتَمْتَعْتَ بِهَا اسْتَمْتَعْتَ بِهَا وَبِهَا عِوَجٌ وَإِنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهَا کَسَرْتَهَا وَکَسْرُهَا طَلَاقُهَا
Abu Huraira (Allah be pleased with him) reported: Woman has been created from a rib and will in no way be straightened for you; so if you wish to benefit by her, benefit by her while crookedness remains in her. And if you attempt to straighten her, you will break her, and breaking her is divorcing her.
حوالہ۔ صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 1151 حدیث مرفوع مکررات 16 متفق علیہ 4)

1۔عورتوں کو خواہ مخواہ مار پیٹ سے روکا گیا۔

(۹۰) عبد الرزاق وابن سعد وابن المنذر والحاکم والبیہقی نے ایاس بن عبد اللہ بن ابی ذئاب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کی باندیوں کو نہ مارو۔

حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ (اس بات نے ) عورتوں کو اپنے شوہروں کی نافرمانی پر جری کر دیا اس کو مارنے میں رخصت دے دی گئی تو رسول اللہ ﷺ کے گھر والوں کے پاس بہت عورتوں نے چکر لگایا اور اپنے شوہروں کی شکایت کر رہی تھیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ لوگ تم میں سے بہتر نہیں ہیں۔

(۹۱) ابن سعد والبیہقی نے ام کلثوم بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ مردوں کو عورتوں کے مارنے سے روک دیا گیا پھر مردوں نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی پھر ان کے اور ان کے مارنے کے درمیان راستہ چھوڑ دیا (یعنی مارنے کی اجازت دے دی گئی ) پھر آپ نے فرمایا ان میں سے بہترین لوگ کبھی عورت کو نہیں ماریں گے۔

(۹۲) ابن ابی شیبہ، احمد، بخاری، مسلم، ترمذی، اور نسائی نے عبد اللہ بن زمعہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم میں سے کوئی اپنی بیوی کو مارتا ہے جیسے غلام کو مارا جاتا ہے پھر دن کے آخر میں اس سے جماع بھی کرتا ہے؟

(۹۳) عبد الرزاق نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی اس بات سے نہیں شرماتا کہ وہ اپنی بیوی کو غلام کی طرح مارتا ہے دن میں اول حصہ میں اور پھر آخری حصہ میں اس سے جماع کرتا ہے۔

(۷۵) البیہقی نے لقیط بن صبرہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ !میری ایک بیوی ہے اس کی زبان میں کچھ ہے یعنی بدزبانی آپ نے فرمایا اس کو طلاق دے دو میں نے عرض کیا اس میں میرا ایک بیٹا ہے اور اس کے ساتھ کافی عرصہ مصاحبت بھی رہی آپ نے فرمایا اس کو نصیحت کر اگر اس میں خیر ہوئی تو وہ قبول کرے گی۔ اور اپنی عورت کو ہرگز نہ مارو جیسے تیرا مارنا لونڈی کو (یعنی لونڈی کی طرح اس کو سخت نہ مارو )۔

امام زہری کا فتویٰ
عورت کی جان لینے پر مرد کو قصاص دینا پڑے گا۔

(۷) ابن جریر وابن المنذر نے زہری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ عورت اپنے خاوند سے قصاص نہیں لے سکتی مگر اپنی جان کا قصاص لے سکتی ہے۔

(۹۵) البیہقی نے عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کسی آدمی سے اس کی بیوی کے مار پیٹ کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔

عورت کی قلبی حالت پر کسی قسم کا تشدد تو دور کی بات ہے مار پیٹ کی بھی اجازت نہیں۔
(۹٦) عبد بن حمید نے قتادہ رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا لفظ آیت ’’فلا تبغوا علیہن سبیلا ‘‘ سے مراد ہے کہ تو عورت کو اس وجہ سے ملامت نہ کر کہ وہ تجھ کو پسند نہیں کرتی کیونکہ بغض کو میں نے اس کے دل میں کر دیا ہے۔
(۹۷) عبد الرزاق وابن جریر نے سفیان رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ’’فان اطعنکم ‘‘ سے مراد ہے کہ اگر وہ بستر پر آجائے اس حال میں کہ وہ اس سے بغض رکھتی ہے ’’فلا تبغوا علیہن سبیلا ‘‘ تو اس پر کوئی راہ تلاش نہ کرو اور اسے اس بات کا مکلف نہ بناؤ کہ وہ خوف سے محبت کرے اس لئے کہ اس کا دل اس کے ہاتھ میں نہیں ہے۔

خاوند کی جنسی خواہش کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والی بیویوں کو سخت وعیدیں سنائی گئی ہیں۔
(۹۸) ابن ابی شیبہ وبخاری ومسلم نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب کوئی آدمی اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ انکار کر دے اور شوہر نے غصہ کی حالت میں رات گزاری تو فرشتے صبح تک اس پر لعنت کرتے ہیں۔

(۹۹) ابن ابی شیبہ اور ترمذی (نے اس کو حسن کہا ) والنسائی والبیہقی نے طلق بن علی ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب کوئی آدمی اپنی بیوی کو اپنی حاجت کے لئے بلائے تو اس کو چاہئے کہ اس کی حاجت پوری کرے اگرچہ وہ تنور پر (بیٹھی ) ہو۔

٭ تشدد کی ایک ہم وجہ عورت کا غیر محرموں سے تعلقات قائم رکھنا ہے۔
غیر محرموں سے عورتوں کے تعلقات/ دوستیاں یاریاں اکثر گھریلو زندگی کا سکون برباد کرنے سبب بنتا ہے ا س سلسلے میں شریعت نے کچھ احتیاطی تدابیر بتائی ہیں۔

شریعت نے عورت کو محرم کے ساتھ معمولات زندگی سر انجام دینے کی اجازات دی ہے غیر محرم کے ساتھ نہیں۔

1۔ دین اسلام نے مرد پر نان و نفقہ کی ذمہ داری اورمعاشی بوجھ ڈال کر عورت کے اوپر سے معاشی پریشانیوں کا بوجھ ہلکا کیا جبکہ اسکے برعکس مغرب سیکولر طبقے نے صنف نازک پر گھریلو ذمہ داریوں کے علاوہ معاشی بوجھ ڈال کر ظلم عظیم کیا۔ آج حالت یہ ہے گھریلو زندگی کا سکون برباد ،گھر چلانے کے معاملے میں ملازم پیشہ عورتوں کی زندگی غیر ملازم پیشہ گھریلو خواتین سے زیادہ رسواکن بن گئی ہے۔
2۔ ویسے تو شریعت اسلامی نے عورتوں کو حق وراثت، حق تعلیم،حق نکاح، حق خلع،حق پسند و ناپسند اور بوقت ضرورت دشمن اسلام سے معرکہ آرا ئی کے وقت نرسنگ کی اجازت دی ہے اسکے علاوہ نہیں۔ عام حالات میں عورتیں عورتوں کی نرسنگ کریں اور مرد مرد کی نرسنگ، اس سے معاشرہ کئی قسم کی اخلاقی بیماریوں سے بچ جاتا ہے۔
3۔ خاتون محرم رشتوں کے ساتھ معمولات زندگی بروئے کار لاسکتی ہے غیر محرم کے ساتھ نہیں۔ اسکوکسی قسم کے میل ملاپ،سیر وتفریح اور گپ شپ کی شریعت نے اجازت نہیں دی ۔
1۔ آپ ﷺنے عورت کو محرم کے بغیر تنہا یا غیر محرم کے ساتھ سفر کرنے سے سختی کے ساتھ منع فرما دیا۔
بخاری و مسلم میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضور نے خطبہ میں فرمایا : یخلون رجل بامرأۃ الا و معھا ذو محرم، ولا تسافر المرأۃ لا مع ذی محرم ، ’ کوئی مرد کسی عورت سے خلوت میں نہ ملے جب تک کہ اس کے ساتھ اس کا کوئی محرم نہ ہو،
2۔ اور کوئی عورت سفر نہ کرے جب تک کہ اس کا کوئی محرم اس کے ساتھ نہ ہو "
۔ ایک شخص نے اٹھ کر عرض کیا میری بیوی حج کو جا رہی ہے اور میرا نام فلاں مہم پر جانے والوں میں لکھا جا چکا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : فانطلق فحج مع امرأتک، " اچھا تو تم اپنی بیوی کے ساتھ حج کو چلے جاؤ " ۔
اس مضمون کی متعدد احادیث ابن عمر، ابو سعید خدری اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے معتبر کتب حدیث میں مروی ہیں جن میں صرف مدت سفر یا مسافت سفر کے اعتبار سے اختلاف بیان ہے ، مگر اس امر میں اتفاق ہے کہ کسی مومن عورت کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کو مانتا ہو، محرم کے بغیر سفر کرنا حلال نہیں ہے۔ ا
مسجد نبوی میں حضور ﷺ نے عورتوں کے داخل ہونے کے لیے ایک الگ دروازہ مخصوص کر دیا تھا، اور حضرت عمر اپنے دور حکومت میں مردوں کو اس دروازے سے آنے جانے کی سخت ممانعت فرماتے تھے (ابو داؤد، باب اعتزال النساء فی المساجد اور باب ماجاء فی خروج النساء الی المساجد)۔


مومن مرد سے کوئی غیر شرعی حرکت سرزد ہو جائے تو اللہ قہار اسکی فوری گرفت فرماتا ہے۔
۱۔ ابن مردویہ نے علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں مدینہ کے راستوں میں سے ایک راستہ میں گزرا اس نے ایک عورت کی طرف دیکھا اور اس عورت نے اس کی طرف دیکھا۔ شیطان نے دونوں میں وسوسہ یعنی برے خیالات ڈال دئیے ۔ ان میں سے ایک نے دوسرے کی طرف اس لیے دیکھا کیونکہ وہ اسے چاھ لگا ہے اسی اثناء میں کہ وہ آدمی دیوار کی جانب چل رہا تھا اور اس کی طرف دیکھ رہاتھا اچانک وہ دیوار میں جا لگا اور اس کی ناک ٹوٹ گئی اس نے کہا اللہ کی قسم میں خون صاف نہی کروں گا یہاں تک کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آؤں گا اور ان کو اپنا معاملہ بتاؤں گا وہ آپ کی خدمت میں آیا اور ان کو اپنا ساراو اقعہ بتایا نبی ﷺ نے فرمایا یہ تیرے گناہ کی سزا ہے ۔ تو اللہ تعالیٰ نے اتارا آیت قل للمومنین یغضوا من ابصارہم ۔ الایۃ۔

٭ مال ہتھیانے کی غرض سے عورت پر بہتان تہمت جیسی برائی کا ارتکاب نہ کرو
وَاِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ ۙ وَّاٰتَيْتُمْ اِحْدٰىھُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَـيْـــًٔـا ۭ اَتَاْخُذُوْنَهٗ بُھْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِيْنًا 20؀ النساء-20-4 اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لانا چاہو اور تم نے اسے خواہ ڈھیر سا مال دیا ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو ۔ کیا تم اس پر بہتان رکھ کر اور صریح گناہ کے مرتکب ہو کر اس سے مال لینا چاہتے ہو؟
وَكَيْفَ تَاْخُذُوْنَهٗ وَقَدْ اَفْضٰى بَعْضُكُمْ اِلٰى بَعْضٍ وَّاَخَذْنَ مِنْكُمْ مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا 21؀ النساء-21-4 اور تم اسے کیسے واپس لے سکتے ہو جب کہ تم ایک دوسرے کے ساتھ صحبت کر چکے ہو اور وہ تم سے (نکاح کے وقت مہر و نفقہ کا) پکا قول لے چکی ہیں؟

آخر میں مسلمان طبقے سے گزارش ہے کہ عورتوں کے حقوق کا تعین قرآنی احکامات اور سنت رسول اللہ ﷺ کے زریعے چودہ سوسال قبل کردیئے گئے ہیں اب کسی شخص،حاکم، جج،سیاستدان،صحافی،دانشور،مفکر و فلاسفر،قانون ساز اداروں کو قطعی طور پر یہ حق حاصل نہیں کہ وہ امریکہ،یورپ اور سیکولر طبقے کی خوشنودی کی خاطر مردوں کی تذلیل اور عورتوں کے گھر اجاڑنے کے مشورے دیں ، قانون بنائیں اور سزائیں دیں۔ شریعت نے گھریو جھگڑوں پر کوئی سزا نہیں رکھی یہ مرحلہ اس وقت آتا ہے جب شرعی حدود کی پامالی کی جانے لگے۔
اگر ہم شریعت اسلامی پر خواہ وہ مرد ہو یا عورت تہہ دل سے عمل کریں تو معاشرے میں تشدد کے واقعات کبھی رونما نہ ہوں۔ نسواں کے حقوق کا تحفظ کرنے کا اختیار اللہ اور اسکے رسول کے پاس ہے کسی سیاستدان، حکمران، مقننہ و انتظامیہ کے اداروں کے پاس نہیں۔ یہ حقوق قران و سنت کے مطابق متعین کردیئے گئے ہیں۔ صرف خلوص دل سے اس پر عمل کرنا باقی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان قوموں کو تباہ وبرباد کر دیتا ہے جو اسکی شریعت کا تمسخر اڑائیں اور کیڑے نکالیں۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و سنت کے مطابق نظام حیات چلانے کی توفیق عطا فرمائے اور فضول بحث و مباحثے سے بچائے، آمین
ایم ایس شاد
About the Author: ایم ایس شاد Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.