ترک گناہ

ترک گیاہ انسانی زندگی کا سب سے قیمتی زیوراورسب سے زیادہ گراں قدر متاع ہے۔ اگر انسان بڑاہی دولت مند اور حیثیت ووقار کا مالک ہے لیکن وہ “لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ” کا اقرار نہیں کرتا تو جس طرح اس کی دولت مندی اس کی حیثیت، اس کا وقار، اس کا جاہ وجلال اور اس کی شان وشوکت کسی کام کی نہیں بالکل اسی طرح اگر کوئی “لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ” کا اقرار کرتا ہے لیکن اس کے دل میں ترک گناہ کی جوت اور خوشبو نہیں، اس کے اندر تقویٰ کی روشنی نہیں جگمگاتی اور اس کے من میں خداترسی کا جذبہ نہیں تو وہ بھی اللہ پاک کی بار گاہ میں قابل احترام نہیں، حقیقت تویہ ہے کہ جس مسلمان کے اندر تقویٰ اور پرہیزگاری (یعنی ترک گناہ ،ترک معاصی )کی خوبی نہیں پائی جاتی، وہ صرف نام کا مسلمان ہے، کام کا نہیں ۔

برادران اسلام!ایسا کیوں؟ ایسا اس لىے کہ اگر مسلمان ایک جسم ہے تو تقویٰ(ترک گناہ) اس کی روح ہے اور یہ ظاہر ہے کہ جس جسم کے اندر روح نہیں وہ جسم کسی کام کا نہیں۔ اس طرح اگر کہاجائے کہ مسلمان تقویٰ کے بغیر لاشۂ بےجان ہے تو اس میں ذرابھی مبالغہ آرائی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر جان کائنات و جہان کائنات صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے بھی انبیاء ورسل آئے، جتنے بھی مجددین ومصلحین آئے، سب نے تمام انسانوں کو ترک گناہ سے اپنی زندگی کا گوشہ گوشہ منور کرنے کا حکم دیا۔ قرآن پاک میں رب کائنات نے بے شمار جگہوں پر اس کی تاکید کی ہےاوراحادیث نبویہ میں بھی ترک گناہ کرنے کی ہدایت جا بجادی گئی ہے۔

دوستواور بزرگو! جس طرح سمندر پانی کے بغیر سمندر نہیں رہ سکتا، بیابان میں تبدیل ہوجاتا ہے، اسی طرح جس دل میں تقوی کا گلشن نہ سجاہو، وہ دل ویران ہو جاتا ہے، اور وہ شیطان کی آماجگاہ اور برائیوں کا مسکن بن جاتا ہے۔

لہذاآئیے، ہم قرآن وحدیث اورآثار صحابہ کی روشنی میں دیکھیں کہ یہ ترک معاصی ،ترک گناہ ٰہے کیا چيز اور اس کے فضائل کیا ہیں؟

سامعین کرام ! ترک کے لغوی معنی بچنے،چھوڑناہے۔ دینی اصطلاح کی روسے گناہ ومعصیت کے تمام کاموں سے احتراز وپرہیز کرنے کا نام ہے ۔

معاصی اور گناہ سے اجتناب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
( يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ) [البقرة: 189]
“لوگ آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آپ کہہ دیج کہ یہ لوگوں (کی عبادت) کے وقتوں اور حج کے موسم کے لے ہے،(احرام کی حالت میں) اور گھروں کے پیچھے سے تمہارا آنا کچھ نیکی نہیں، بلکہ نیکی والا وہ ہے جو گناہ سے ہو۔ اور گھروں میں تو دروازوں سے آیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔”

رب کریم کا ارشاد ہے:
( ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ ) [الحج: 32]
"یہ سن لیا اب اور سنو! اللہ کی نشانیوں کی جو عزت و حرمت کرے تو یہ اس کے دل میں ترک گناہ کی وجہ سے ہے۔"

بزرگان دین وملت! ان آیات قرآنیہ پر ذرا غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ دراصل انسان اس لیے مسلمان بنتا ہے تاکہ وہ گناہ چوڑ دے کیوں کہ جو معاصی سے، گناہوں سے اور گناہ کے کاموں سے اجتناب نہیں کرتا وہ اللہ کے وعدۂ جنت کا مستحق نہیں بن پاتا، جو اپنے اعمال میں اخلاص نیت کو بروئے کار نہیں لاتا اور جس کا دل خوف خداوندی اور خشیت الہٰی سے لرزاں اورترساں نہیں رہتا، وہ ہمیشہ شیطان کے نرغے میں رہتا ہے ۔ گویا ترک گناہ ہی سے ہی انسان کامل مسلمان بنتا ہے ورنہ دائرۂ دین وشریعت سے اس کے خارج ہو جانے کا خدشہ ہمہ وقت لگا ہی رہتا ہے۔

دوستان گرامی!ایک آدمی صحابی رسول حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھتا ہے:اے صحابی رسول!ذرا مجھے بتا دیجئے کہ یہ تقویٰ کیا ہے ؟ یعنی گناہ سے بچنا کیسے ہے تو
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس سے پوچھتے ہیں :کیا تم کبھی ایسی راہ سے گذرے ہو جس کے دونوں طرف کانٹےدار جھاڑیاں ہوں۔
وہ آدمی کہتا ہے : ہاں اے صحابی رسول ! ایسا اتفاق تو بارہا ہوا ہے ۔ پھر تم کیسے اس راہ سے گذرے ؟ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سوال کرتے ہیں۔ وہ آدمی کہتا ہے : اپنا دامن سمیٹتے، اپنے آپ کو کانٹوں کی چبھن سے بچتے بچاتے بےحد ہشیاری سے قدم بڑھاتے ہوئے ، ڈرتے ڈرتے گذر جاتا ہوں۔
صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:یہی تو تقویٰ یعنی گناہ سے بچنے کا مفہوم ہے ہے۔ (الدرالمنثور:1/61)

عزیزان ملت بیضاء!معلوم یہ ہوا کہ یہ دنیا برائیوں سے بھری پڑی ہے، ہر جگہ حرام اور شیطانی کاموں کے اڈے کھلے ہو ئے ہیں ، ہر موڑ پر شیطان اپنی چال کے پتے لیے بیٹھا ہے، ہر قدم پر شیطان کے کارندے اور دین وایمان کے راہزن گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ ایسے میں اگر آپ نے ان شیطانی ہتھکنڈوں سے خود کو محفوظ رکھ لیا، معاصی سے اجتناب کیا اور جہاں تک بن پڑا اطاعت خدا اوراطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنے آپ کو مشغول رکھتے ہوئے اپنی حیات مستعار گذارلی تو یقینا یہی حیات تقویٰ شعاری کہلائےگی۔

اللہ تعالیٰ کا فر مان باری ہے:
( إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ ) [المائدة: 27]
“اللہ تعالیٰ گناہوں سے بچنے والوں کا ہی عمل قبول کرتا ہے۔”

ارشاد ہے:
( إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ) [الحجرات: 13]
“اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزت وه ہے جو سب سے زیاده ڈرنے والا ہے۔”

ربِّ کائنات کا وعدہ ہے:
( وَيُنَجِّي اللَّهُ الَّذِينَ اتَّقَوْا بِمَفَازَتِهِمْ لَا يَمَسُّهُمُ السُّوءُ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ) [الزمر: 61]
“اور جن لوگوں نے پرہیزگاری کی انہیں اللہ تعالیٰ ان کی کامیابی کے ساتھ بچا لے گا، انہیں کوئی دکھ چھو بھی نہ سکے گا اور نہ وه کسی طرح غمگین ہوں گے۔”

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
( تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي نُورِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِيًّا ) [مريم: 63]
“یہ ہے وہ جنت جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے انہیں بناتے ہیں جوگناہوں سے بچتے ہوں۔”

دوستو!آج ہر طرف انارکی، پھیلی ہوئی ہے، ہر طرف دہشت وخوف کا ماحول ہے، غبن اور کرپشن عالمی منظر نامہ بن چکا ہے۔ برائیاں فروغ پارہی ہیں اور ان کی سرپرستی حکومتیں کررہی ہے۔ پوری دنیا ابلیسی نظام حیات کے تار عنکبوت میں پھنستی جارہی ہے۔ بحر وبر اور آسمان وزمین فساد وبگاڑ کے شکنجے میں ہیں۔ لاکھ لاکھ تدبیریں ہورہی ہیں ان سب برائیوں کو دور کرنے کی۔ ہزاروں علاج سوچے جارہے ہیں اس بیماری کے لیے۔ لیکن دنیا والو! سن لو اور یاد رکھو کہ جب تک تمام لوگوں کے اندر ترک گناہ کی عادت نہیں جگائی جائےگی یہ کرپشن ختم نہیں ہو گی۔ جب تک خداترسی کا فروغ واشاعت نہیں ہوگا، تب تک تمہاری کوئی تدبیر کام نہیں آئےگی۔ گھوٹالے ہوتے رہیں گے۔ حقوق تلف ہوتے رہیں گے۔غبن کا سامراج پھیلتا چلا جائےگا اور ایک دن ایسا آجائےگا جب تمہاری دنیا تباہ وبرباد ہو جائے گی اور تمہیں حسرت ویاس اور قنوطیت کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئےگا۔ لہذا آؤ، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ اپنے ہر کام میں خداترسی کا جلوہ دکھاؤ۔ تمہاری ہر بات بنےگی اور یہ دنیا تمہاری غلام ہوگی۔ اللہ کرے کہ ہمارے دلوں میں تقویٰ کی روشنی جگمگا اٹھے کہ یہی سب سے قیمتی اور بیش بہا متاع حیات ہے !!
کامل اللہ پاک کے بندے وہ ہیں کہ جب ان پر مصائب وآلام کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں تو وہ واویلا نہیں مچاتے، جزع فزع نہیں کرتے، اپنے رب اور اپنے دین وایمان کے بارے میں شک وشبہ میں نہیں پڑتے بلکہ چپ چاپ صبر کرتے ہیں، تمام آلام ومصائب کا سامنا خندہ پیشانی سے کرتے ہیں اور اپنے رب کے حضور رات کی تنہائی میں دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب!ہم پر رحم فرما، تو ہی ہمارا آقا ہے لہذا کا فروں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔

کاملین مؤمنین کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا
( وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ [آل عمران: 135]
" اور جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہو جا یا کوئی گناہ کر بیٹھیں تو فورا اللہ کا ذکر اور اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے ۔"
برادران ملت اسلامیہ! یہ صفات اور خوبیاں اللہ کے جن بندوں کے اندر ہوں گی، ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بہت سی بشا رتیں نازل فرمائی ہیں ۔ ان کو اللہ تعالی ٰاپنی نصرت وتائید ، عزت وجلال اور علم وحکمت سے نوازتا ہے ۔ گناہوں کو مٹاتا اور اجر عظیم کا مستحق قرار دیتا ہے ۔ مغفرت جو انسان کی آخری منزل ہے، حاصل ہوتی ہے۔ دین اور دنیا کے تمام معا ملات آسان ہو جاتے ہیں غم وآلام سے چھٹکارا نصیب ہوتا ہے ۔ دنیا میں کشادہ زندگی اور آخرت میں عقوبت الہیہ سے نجات ملتی ہے۔ کمال عبودیت حاصل ہوتا ہے اور تقرب الہٰی کا حصول ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی کو تقویٰ اور خداترسی کی نذر کردیا، صحابہ کرام نے اسے اپنایا اور اسلاف کرام نے اسی کی پتوار اپنی زندگی کی ناؤ میں لگائی اور بحر زیست کو پارکیا ۔ آئیےچند احادیث کریمہ ملا حظہ فرمائیے جس سے یہ اندازہ ہو کہ ایک مومن کی زندگی میں ترک گناہ اور پر ہیز گاری کی کیا اہمیت ہے:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل سب سے زیادہ لوگوں کو جنت میں داخل کرائےگا۔ اس کےجواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:ترک گناہ اور حسن اخلاق۔ (ترمذی: 616)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“إن اللہ لا ینظر إلی صورکم وأموالکم ولکن ینظر إلی قلوبکم وأعمالکم” (مسلم: 2564)

“بےشک اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور مال ودولت کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تو تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔”

اے میرے ہم نواؤ؛ حسرت ویاس کے سواکچھ ہاتھ نہیں آئے گا، رب کی رضاء وخوشنودی ہم سے دور چلی جائے گی اور ہم ہلاک وبرباد ہوجائیں گے۔

دوستو! لیکن جب ہم آج کے مسلمانوں کے احوال دین کا جائزہ لیتے ہیں تو ترک گناہ اور خدا ترسی کی نشانی ہمیں دور دور تک نظر نہیں آتی۔ ہر طرف گناہوں کی ظلمت چھائی ہوئی ہے کوئی مسلمان اگر اعمال صالحہ انجام بھی دیتا ہے تو ان سے اس کا مقصد ریاء ونمود کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا، ہر انسان شہرت وناموری کا بھوکا نظر آتا ہے۔ حالانکہ اللہ پاک کو نہ کسی کے اعمال کے ضرورت ہے اور نہ اسے اس بات کی ضروت ہے کہ کوئی اس کی عبادت کرتا ہےیا نہیں کرتا،
آئیے اللہ پاک سے دعاء کریں کہ وہ ہمیں گناہ چھوڑنےاور پاکبازی کی زندگی گذارنے کی توفیق دے اور شیطان کا آلۂ کار بننے سے ہمیں بچائے ۔
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین۔
syed imaad ul deen
About the Author: syed imaad ul deen Read More Articles by syed imaad ul deen: 144 Articles with 319155 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.