’’امن اور ترقی۔ بذریعہ ادبِ اطفال‘‘

ادیب ہونا معمولی بات نہیں لیکن بچوں کا ادیب ہونا تو غیر معمولی بات ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ بچوں کے منتخب ادیبوں میں شامل ہو جانا تو بلا شبہ نظیر میرٹھی اور صوفی غلا م مصطفی تبسم کا مقام ہے ۔ بچوں کے لئے معیاری ادب تخلیق کرنا عبادت سے کم نہیں کیونکہ بچوں کے لکھاری جو کچھ لکھتے ہیں وہ بچوں پر اثر انداز ہوتا ہے ۔حکومت اور حکومتی سر پرستی میں چلنے والے سرکاری اداروں نے کبھی بھی بچوں کے ادب پر اتنی توجہ نہیں دی جتنی دینی چاہیئے تھی ۔
ادیب ہونا معمولی بات نہیں لیکن بچوں کا ادیب ہونا تو غیر معمولی بات ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ بچوں کے منتخب ادیبوں میں شامل ہو جانا تو بلا شبہ نظیر میرٹھی اور صوفی غلا م مصطفی تبسم کا مقام ہے ۔ بچوں کے لئے معیاری ادب تخلیق کرنا عبادت سے کم نہیں کیونکہ بچوں کے لکھاری جو کچھ لکھتے ہیں وہ بچوں پر اثر انداز ہوتا ہے ۔حکومت اور حکومتی سر پرستی میں چلنے والے سرکاری اداروں نے کبھی بھی بچوں کے ادب پر اتنی توجہ نہیں دی جتنی دینی چاہیئے تھی ۔گزشتہ دنوں اکادمی ادبیاتِ اطفال اور ماہنامہ پھول کے زیر اہتمام ایک روزہ شاندار قومی کانفرنس برائے ادب اطفال ’’امن اور ترقی ۔بذریعہ ادب اطفال‘‘ کے موضوع پر پرل کانٹی نینٹل ہوٹل لاہور میں منعقد ہوئی ۔بچوں کے ادب پر ہونے والی یہ واحد قومی کانفرنس تھی جس کو بین الاقوامی پذیرائی بھی حاصل ہوئی ۔اس کانفرنس میں ملک بھر سے بچوں کا دب تخلیق کرنے والے منتخب ادیبوں اور شاعروں کو مدعو کیا گیا ۔راقم الحروف کا تعلق بھی بچوں کے ادب سے رہا ہے اور ہے بھی اس لئے میں بھی ان منتخب خوش نصیبوں میں شامل تھاجن کو مدعو کیا گیا تھا اس لئے کانفرنس میں شرکت میرے لئے اعزاز کی بھی تھا۔ اس کانفرنس میں سلیقہ اور قرینہ تھا ۔ ہال میں داخل ہوتے ہی ایک طرف استقبالیہ کاؤنٹر پر رجسڑیشن کروانے کے بعد ذرا آگے بڑھا تو بچوں کے معروف ادیب کہانی کار جناب نذیر انبالوی صاحب نے کھلی بانہوں سے ’’جی آیاں نوں‘‘ کہا ۔ ہال میں کچھ مہمان آچکے تھے اور اپنی نشستوں پر براجمان تھے۔میں اپنی نشست کی طرف بڑھا تو عمران سہیل بوبی ہنستے مسکراتے ہوئے آن بغل گیر ہوئے۔ ہال میں نظر دوڑائی تو نوجوان کالم نگار، فیچر رائٹر ادیب اختر سردار چوہدری کسووال سے آئے ہوئے نظر آگئے ۔ ان سے ملنے ان کے پاس گیا تو انہوں نے اپنے ساتھ والی خالی نشست پر ساتھ ہی بٹھا لیا حال احوال بانٹا تھا کہ اسی اثناء میں جناب اشرف سہیل صاحب بھی پہنچ چکے تھے ان کو میں نے اپنے ساتھ والی خالی نشست پر بٹھایا ۔یہاں واضح رہے کہ اشرف سہیل صاحب اپنی ماں بولی پنجابی زبان میں بچوں کے ادب کی بہت عرصہ سے خدمت کر رہے ہیں ۔ہال میں مندوبین کی آمد جاری تھی کہ تقریب کے منتظمین کی طرف سے تما م آنے والوں کو ایک خوبصورت بیگ دیا گیا جس میں کچھ لوازمات تھے جو کہ دورانِ کانفرنس ہمارے کام آنے والے تھے ۔ مہمانوں کی آمد کاسلسلہ ابھی جاری تھا کہ اچانک ہم سب کی آنکھو ں کا تارا ایڈیٹرماہنامہ پھول و صدر پاکستان چلڈرن میگزین سو سائٹی محمد شعیب مرزا اپنی خوبصور ت مسکراہٹ لئے ہال میں داخل ہوئے اور پیار، خلوص، محبت سے ہر ایک سے فرداََ فرداََ ملے ۔ابھی شعیب مرزا صاحب سے مل کر فارغ ہوئے ہی تھے کہ ہال میں ایک اور خوبصورت شخصیت شاعر ادیب جناب وسیم عباس آتے ہوئے نظر آئے ۔ ان کو دیکھ کر اوران سے مل کر دل اچھل کود کرنے لگا ان کو وہاں پا کر بہت خوشی ہوئی ۔اس تقریب کے افتتاحی اجلاس کا باقاعدہ آغاز قاری احمد ہاشمی نے تلاوتِ قرآنِ حکیم سے کیا اوربارگاہِ رسالت میں ہدیہ نعت کی سعادت سرورحسین نقشبندی نے حاصل کی ۔اس پوری تقریب میں نظامت کے فرائض شرمین قمر نے نہایت ہی عمدگی سے ادا کئے ۔ مولانا طارق جاوید عارفی صاحب نے ’’ن والقلم و ما یسطرون‘‘ کے موضوع پر لیکچر دیا تو اس کے بعد اکادمی ادبیاتِ اطفال کے وائس چیئر مین حافظ مظفر محسن نے خطبہ استقبالیہ دیتے ہوئے کہا کہ کچھ اداروں کے تعاون سے ہم یہ کانفرنس کروانے میں کامیاب رہے ہم آئندہ بھی محدود وسائل کے باوجود ایسی کانفرنسیں منعقد کرتے رہیں گے۔تقریب میں بچوں کی نمائندگی کرتے ہوئے مہر ال قمر نے پرُ جوش تقریر کرتے ہوئے بچوں کے ادب کی ترقی اور معیار پر زور دیا ۔ محمد شعیب مرزا نے ’’خواب سے تعبیر تک‘‘ بیان کرتے ہوئے کہا بچوں کا چونکہ ووٹ نہیں ہوتا اس لئے وہ حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں ۔ بچوں کا ادب چونکہ حکومت اور ارباب اختیار کو طنزو تنقید کا نشانہ نہیں بناتا اس لئے یہ بے ضرر سا شعبہ حکومت یا سرکاری اداروں کی توجہ حاصل نہیں کرسکا حالانکہ بچوں کا ادب نئی نسل کی کردار سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح تمام شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں خدمات پر سول ایوارڈ دیئے جاتے ہیں اسی طرح بچوں کے ادب پر بھی ہر سال صدارتی تمغہ حسن کارکردگی دیا جائے۔ بچوں کے ادیب کو بھی ادین سمجھا جائے اور سرکاری ادبی اداروں میں دیگر ادیبوں کی طرح مراعات دی جائیں ۔ ادبی کانفرنسوں میں بچوں کے اب پر بھی سیشنز رکھے جائیں ۔اکادمی ادبیاتِ اطفال کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے انہوں ے کہا کہ بچوں کے ادب کے حوالے سے قومی کانفرنس کا انعقاد ایک خواب تھا جس کی تعبیر آج اب نظر آرہی ہے اس کانفرنس کے انعقاد میں ’’پھول‘‘ کا اشتراک ہمارے لئے اعزاز ہے۔کانفرنس کے تینوں سیشن بہت کامیاب رہے ۔معروف شاعر و ادیب و ڈرامہ نگار امجد اسلام امجد نے ’’ٹی وی ڈرامہ کیسے لکھا جائے؟ ‘‘ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اچھی کہانی لکھنے والے کے لئے اچھا ڈرامہ لکھنا مشکل نہیں ۔محترم حفیظ طاہر نے ’’بچوں کے لئے ٹی وی ڈرامے کی تکنیک ‘‘ پر مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا بچوں کے مزاج اور نفسیات کو پیشِ نظر رکھ کر جو ڈرامہ لکھا جائے گاوہ مقبول ہوگا۔ناول نگار محترمہ بشریٰ رحمٰن صاحبہ نے ’’ناول کیسے لکھا جائے؟‘‘ کے تحت مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں نئی نسل کو اچھا سبق دینا چاہئیے ۔بچوں کے لکھاری جو کچھ لکھتے ہیں وہ بچوں پر اثر انداز ہوتا ہے اس لئے بچوں کے ناول لکھنے والے تہذیبی اقدار کا خیال رکھیں ۔ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب نے ’’بچوں کی کہانیوں کے تراجم کے قواعدو ضوابط‘‘ کے حوالے سے مقالہ پڑھتے ہوئے کہا کہ بچوں کے ادب سے بے اعتنائی سنگین مسئلہ ہے ۔محترمہ ڈاکٹر مسرت کلانچوی نے ’’بچوں کے لئے اچھی کہانی لکھنے کی تکنیک ‘‘ پر مقالہ پیش کیا جس کا لب و لباب یہ تھا کہ اچھی کہانی لکھنے کے لئے وسیع مطالعہ کے ساتھ ساتھ کہانی کو کس عمر کے بچے کے لئے لکھنا ہے یہ باتیں ذہن میں رکھنابہت ضروری ہے۔
محترم ابصار عبد العلی نے ’’بچوں کے ادب میں نظموں کی اہمیت‘‘ بیان کرتے ہوئے کہا کہ بچے نظمیں شوق سے سنتے اور یاد کرتیہیں اس لئے بچوں کے ادب میں بچوں کی لئے لکھی گئی سبق آموز نظمیں بہت اہمیت کی حامل ہیں ۔ ڈاکٹر حمیدہ شاہین نے ’’بچوں کے ادب کے معاشرے پر اثرات ‘‘ کے حوالے سے مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا ادب سے بچے اور بچوں سے معاشرہ اثر قبول کرتا ہے۔ اخوت کے چیئر مین ڈاکٹر امجد ثاقب نے ’’کامیابی مگر کیسے؟‘‘ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے معاشرے میں بے شمار اچھائیاں ہیں ۔ میڈیا منفی پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے لیکن میڈیا کو چاہیئے کہ وہ نئی نسل کو معاشرے کے مثبت رخ بھی دکھائے۔ ’’کھول آنکھ زمین دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ‘‘ کے موضوع پر پروفیسر ہمایوں احسان نے ہمارے معاشرے میں موجود تلخ حقائق کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں کامیابی حاصل کرنے کے لئے حقیقت پسند بننا ہو گا۔

اس قومی کانفرنس میں جہاں اوپر بیان کردہ اپنے اپنے شعبہ میں مہارت رکھنے والوں نے اپنے تجربات بیان کئے جن سے شرکاء نے بہت کچھ سیکھا وہاں ایک عرصہ بعد بہت سے احباب کے ساتھ ساتھ نامور ادیبوں سے بھی ملاقات کا موقع ملا ۔ تمام شرکاء بہت انہماک سے ہر سیشن میں مقالات کو سن رہے تھے اور اہم پوائنٹس نوٹ بھی کر ہے تھے ۔درمایں میں چائے اور کھانے کے وقفوں کے دوران پرل کانٹی نینٹل کا شالیمار ہال گپ شپ اور قہقہوں سے گونجتا رہا۔ تمام دوست ایک دوسرے سے مل کر خوش ہو رہے تھے اور تصاویر کے ساتھ ساتھ سیلفیوں کا دور بھی چلتا رہا۔اس کانفرنس کو سوشل میڈیا پربھائی اعجاز احمد نے لائیو ٹیلی کاسٹ بھی کیا جس سے ملک کے طول و عرض میں موجوداحباب کی شرکت بھی ہو گئی ۔کانفرنس میں مدعو تمام مندوبین کو کانفرنس میں شرکت کرنے پر ’’سند شرکت ‘‘ خاص طور پر دی گئی تاکہ تمام شرکاء کے پاس اس بات کی سند رہے کہ وہ اس قومی کانفرنس میں شریک ہوئے اور بہت کچھ سیکھا ۔

بلاشبہ بچوں کے ادب کے حوالے سے یہ ایک یاد گار ادبی کانفرنس تھی جس کے انعقاد پر اکادمی ادبیاتِ اطفال خاص طور پر جناب محمد شعیب مرزا اور جناب حافظ مظفر محسن اور ان کی پوری ٹیم مبارک باد کے مستحق ہیں اور اِن کو مبارکباد نہ دینا میری اخلاقی کنجوسی ہو گی بھال میں کیوں بننے لگا کنجوس میری طرف سے کامیاب کانفرنس منعقد کرنے پر مبارکباد اَن دونوں احباب کو ساتھ میں اِن دونوں احباب جناب محمد شعیب مرزا اور جناب حافظ مظفر محسن شکریہ ادا کرتاہوں کہ انہوں نے مجھ فقیر کو اس شاندار محفل میں مدعو کیا ۔
Shehzad Aslam Raja
About the Author: Shehzad Aslam Raja Read More Articles by Shehzad Aslam Raja : 17 Articles with 16492 views I am Markazi General Secratary of AQWFP (AL-QALAM WRITERS FOURM PAKISTAN) and Former President of Bazm-e-Adab Govr Sadique Abbas Digree college Dera N.. View More